محترم قارئین السلامُ علیکم
کہتے ہیں کہ پہلے جب لوگ جھوٹ بولا کرتے تھے تو اُنکے منہ سے ایسی بدبو
پیدا ہُوا کرتی کہ سامنے والے کو فوراً علم ہوجاتا کہ گفتگو کرنے والا جھوٹ
بول رہا ہے جسکی وجہ سے جھوٹا شرمندہ ہو جایا کرتا۔ لیکن آج کل ہمارے
معاشرے میں جھوٹ اتنے تواتر سے بولا جاتا ہے کہ وہی سچ محسوس ہونے لگا ہے
جبکہ شرمندہ ہونے کی روایت بھی دَم توڑ چُکی ہے اور بالفرض کوئی آج ہمارے
اِس معاشرے میں اللہ کریم کی توفیق سے سچ کہنا شروع کردے تو لوگوں کو لگتا
ہے کہ شائد سامنے والا جھوٹ کہہ رہا ہے۔
جس طرح عرف عام میں مولوی کی دوڑ مسجد تک مشہور ہے بالکل اُسی طرح مجھے جب
کوئی مسئلہ درپیش آتا ہے یا کوئی ایسی بات جسکا روایتی جواب دِل کو مطمئین
نہ کرپائے تُو میں کسی دُرویش کی کُٹیا پر جا کھڑا ہوتا ہوں اور جب تک جواب
نہیں پا لوں دہلیز نہیں چھوڑتا، جب میں نے ایک درویش سے یہی سوال کیا کہ
بابا کل تک تو لوگ جھوٹے شخص کا پتہ اُسکے مُنہ کی بدبو سے لگا لیا کرتے
تھے اب بدبو کیوں نہیں آتی؟
تب اُنہوں نے جو بات مجھے بتائی اُس نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا وہ
درویش کہنے لگے کون کہتا ہے کہ آج جھوٹ بولنے والے کے مُنہ سے بدبو نہیں
آتی بدبو تو آج بھی جھوٹے کے مُنہ سے آتی ہے اور ایسی آتی ہے کہ رحمت کے
فرشتے بھی اُس سے فاصلے پر چلے جاتے ہیں رہی بات یہ کہ ہمیں بَدبُو کیوں
نہیں آتی تُو بیٹا اِس کا جواب بڑا آسان ہے جس طرح بھینسوں کے طبیلے میں
رہنے والے گوالے کو گُوبر کی بَدبُو محسوس نہیں ہوتی کہ اُسکی ناک اُس
ماحول میں رَچ بس جاتی ہے پس اُسی طرح ہماری دُنیا میں بھی جھوٹ اِس کثرت
سے بولا جاتا ہے کہ ہماری ناک بھی اِس گندی بَدبُو سے اَٹّ (بھر) چُکی ہے۔
لِہٰذا ہمیں اس بدبو بھرے ماحول میں علم ہی نہیں ہوپاتا کہ کِس کِس کے مُنہ
سے جھوٹ بولنے کے سبب بَدبو پیدا ہو رہی ہے آج بھی کسی ایسے مقام پر جہاں
سچ کثرت سے بولا جاتا ہو، جھوٹے کے مُنہ کی بَدبو سے اندازہ لگایا جاسکتا
ہے کہ وہ جھوٹ بُول رہا ہے۔
قارئین کرام کوئی بھی مذہب وُ دِین ہو جھوٹ کو پسند نہیں کرتا بلکہ اُس کی
مذمت ہی کرتا نظر آئے گا سوائے حالتِ اضطرار کے اسلام میں بھی اِس کی قطعاً
گُنجائش نہیں لیکن ہم لوگوں نے جھوٹ کو ایسا اُوڑھنا بِچھونا بنا لیا ہے کہ
چاہے ضرورت ہو یا نہ ہو جھوٹ بُولے بِنا نہیں رِہ پاتے جسکے سبب ایک دوسرے
پر اعتماد کا فقدان بھی پیدا ہوگیا ہے۔
حالانکہ مؤمِن کی یہ شان نہیں کہ ہر سُنی سُنائی بات کو بِلا تحقیق آگے
بڑھا دے یا کسی بات میں مزہ پیدا کرنے کیلئے اس میں اپنی جانب سے ایسا
اِضافہ کردے کہ جس کے سبب اُس بات کا اصل سیاق و سباق ہی تبدیل ہو کر رہ
جائے چُنانچہ مدنی آقا علیہ الصلواۃُ والسلام کے فرمان ِ عالیشان کا مفہوم
ہے، کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے اِتنا ہی کافی ہے کہ ہر سُنی سُنائی بات کو
بِنا تصدیق کے آگے پیش کردے۔
(جاری ہے)
|