’’میں ڈوب رہا ہوں‘‘۔ یہ آواذ ہے میرے پیارے ملک پاکستان
کی جس کا ایک مخصوص طبقہ اس کو تباہ کرنے میں خاص کردار ادا کر رہا ہے۔
کہیں کرپشن کی کالی گھٹاؤں سے ملک میں اندھیرا چھایا ہے تو کہیں غربت کی
چادر دور دور تک پھیلی ہے۔ یہاں ہم آنکھ بند کرتے ہیں تو ظلم کی آواذ ہمارے
سارے خواب چھین لیتی ہے جب ہم سانس لیتے ہیں تو لاکھوں کروڑوں گناہوں کا
زہر ہماری سانس میں گھل جاتا ہے اور ہمیں اندر تک زہریلا کر دیتا ہے۔ ہمارے
اِرد گردـــــ ــ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ اور’’تم کچھ نہیں کر سکتے‘‘ جیسے
فقرات کی ایک ایسی دیوار ہے جو روزانہ کیٔ لوگوں کی اُمیدوں پر پانی پھیر
دیتی ہے اور پھر ہم وہیں پہ آ کے کھڑے ہو جاتے ہیں جہاں سے ہم نے شروع کیا
ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کی بنیادیں کبھی بھی اِتنی کمزور تو نا تھیں کہ کوئی
ہمیں آسانی سے خوفزدہ کر سکتا ہم نے خود کو اِتنا کمزور بنا لیا ہے کہ ایک
دوسرے کے خوف سے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ہیں۔ آج اگر ہم بات کرتے ہیں کچھ
بچانے کی تواپنی کرسی،اپنی پارٹی یا پھر اپنے کاروبار کو بچانے کی ہم میں
سے کوئی بھی شخص ا پنے ملک کو بچانے کی بات نہیں کرتا۔ سب کہتے ہیں کہ میں
جیتوں گا، میں جیتوں گا ،کوئی یہ نہیں کہتا کہ پاکستان جیتے گا۔ہم اپنی انا
کی دوڑ میں کہیں نہ کہیں ہم اپنے ملک کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔ دھماکا
ہوتا ہے تو پاکستان جلتا ہے اُس کی مذمت میں احتجاج کرنے والے پھر سے
پاکستان کو جلا دیتے ہیں۔ میرا ملک اپنوں میں چھُپے غیروں کے ہاتھوں سے
مسلسل برباد ہو رہا ہے اور کہہ رہا ہے مجھے بچاؤ مگر ہم اپنی بے معنی بھیڑ
میں اِس طرح سے گُم ہیں کہ ہمیں کچھ سُنائی نہیں دے رہا۔
یوں اِس طرح نہ ستاؤ مجھ کو
میں بجھ رہا ہوں بچاؤ مجھ کو
کرپشن نے میرے ملک کی حالت بجھتے ہوے دیے جیسی کر دی ہے اور روز بروز بڑھتی
جا رہی ہے درجہ چہارم سے لے کر بڑے سے بڑے آفیسر کو اپنی جیب گرم کرنے کی
فکر لگی رہتی ہے ۔جب غریب مزدور وں کی خون پسینے کی کمائی کرپشن میں لُٹتی
ہے اور حرام خوور درندے محل نما گھر بنا کر اُن میں راج کرتے ہیں تو میرا
ملک آہیں بھرتا ہے۔ علامہ اقبال نے ایسے پاکستان کا خواب تو نہیں دیکھا
تھاجو انسانیت کے زاویے کی کچھ اور ہی عکاسی کرتا ہو قائداعظم نے ایسے
پاکستان کے لئے تو لڑائی نہیں لڑی تھی جہاں لوگ غربت کی چکی میں پسیں جہاں
انسان انسانیت کو کھا جائیں جہاں ظلم کے خلاف لکھنے والا ہر ہاتھ کاٹ دیا
جائے جہاں سچ کا ساتھ دینے والی زبان کو ہمیشہ کے لئے چُپ کروا دیا جائے
جہاں غریب کی بیٹی کی عزت کا کوئی محافظ نہ ہو جہاں کوئی بادشاہ بن کر حکم
چلائے اور غریب عوام بے بس غلاموں کی طرح سر جھکائے جہاں ہر پیسے والے شخص
کے معاملات کو دبا دیا جائے اور ہر غریب انسان کو ناانصافی کی سولی پر چڑھا
دیا جائے۔ ناانصافی میرے ملک میں ایک ایسا ناصور بن چکی ہے جو اندر ہی اندر
میرے ملک کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ جب ہر غریب اور بے سہارا
شخص کو یہ احساس دلا دیا جائے گا کہ انصاف صرف حکمرانوں اور وڈیروں کے لئے
ہے اور غریب شخص کا مقدر صرف آگ کی بھٹی میں جھلسنا ہی ہے تو غریب انسان
کہاں تک خود کو مضبوط بنائے گا کہاں تک اپنے بچوں کے مسقبل کو تاریک ہوتا
دیکھے گا ۔ جب لوگوں کو انصاف نہیں ملے گا تو وہ بدلہ لیں گے اِس دھرتی کو
لہولہان کریں گے خون خرابہ سرِعام ہو جائے گا اور ایک دفعہ پھر میرا ملک
خون کی ہولی میں رنگ جائے گا اور تباہی ایک دفعہ پھر میرے ملک کا مقدر بن
جائے گی اور میرا ملک ایک دفعہ پھر کہے گا ’’میں ڈوب رہا ہوں‘‘ مگر ہم اپنی
ہی دُھن میں مگھن کہیں اِس سارے تماشے کہ دیکھ رہے ہونگے |