جامعات میں دیرپا اور پائیدار امن کیسے ممکن ہے ؟

اعلی تعلیم کسی بھی ملک کی تعمیرو ترقی اور اقتصادی و سماجی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ،پاکستان میں اس وقت 183سرکاری جامعات ہیں جن کے 109سے زائد سب کیمپسسز میں 12 لاکھ کے لگ بھگ طلباء کی تعداد زیر تعلیم ہے ، سرکاری جامعات میں پڑھنے والے طلباء کی بڑی تعداد کا تعلق متو سط طبقے سے ہے ، جامعات میں زیر تعلیم طلباء کسی بھی معاشرے میں باشعور طبقے کے طور پر ذہن میں آتے ہیں اور معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں ،اگر یہی طلباء تعلیمی اور مثبت تعمیری سر گرمیوں کے ذریعے معاشرے پر اثر انداز ہونگے تو معاشرہ سماجی ، اقتصادی اور معاشرتی امن و توازن برقرار رکھ سکے گا لیکن اگر طلباء منفی طور معاشرے پر اثر انداز ہونگے تو یقینا معاشرے میں بے یقینی اور انارکی کی فضا رہے گی ، ملک کی جامعات میں گزشتہ عرصہ سے رونما ہونے والے واقعات نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ اس عدم برداشت ، تشد د اور شدت پسندی کے ماحو ل سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور جامعات میں امن کا مسکن بن سکیں ، ایک طرف جامعات جو خود سراپا امن و آشتی اور علم و امن کی مراکز تھیں جہاں سے روشنی اور اجالے کی کونپلیں جنم لیتی تھی آج خود مسیحا کی تلاش میں ہیں جو جامعات کا امن لوٹا سکے ، حضرت اقبال ؒ کے شاہین اپنے اصل پیغام کو بھول امن سلامتی اور بھائی چارے کو بھول کر ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں ، ہمارے زوال کی اصل وجہ بھی یہ ہے کہ ہم نے فاران کی چوٹیوں سے عام ہونیوالے انسانیت کے پیغام کو پس پشت ڈال دیا اور فرقہ واریت ، انتہا پسندی اور گروہی ، فروہی اور لسانی جھگڑوں میں بٹ گئے ،آج وہ وقت بھی آن پہنچا ہے کہ تعلیمی درسگاہوں سے نکلنے والے طلباء انتہا پسندی اور شدت پسندی کی طرف مائل ہیں ، عبد لولی خان یونیورسٹی مردان میں ہونیوالے واقعے نے ہر ذی شعور کو دہلا کے رکھ دیا کہ کسطرح ہم برداشت اور تحمل کی آخری حدوں تک پہنچ چکے ہیں بغیر کوئی تحقیق کے مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا قتل عام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ نبی رحمت ﷺ نے اپنے اوپر کوڑا پھینکنے والے بڑھیا کو بھی اذیت نہیں پہنچائی ، انتہا پسندی نے ہما ری جا معات کی بنیا دوں کو کھو کھلا کردیا ہے ا ، افسو سناک امریہ ہے کہ ان انتہا پسند سوچ کے حامل افراد کی دسترس اب صرف گلی کوچوں تک محد ود نہیں رہی بلکہ یہ لوگ اب اب معاشرے کے پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ لوگوں تک با آسانی رسائی حاصل کرتے ہیں ، انکا نشانہ نوجوا ن نسل اور بالخصوس جامعات میں زیر تعلیم طلباو طالبات ہیں ، میڈ یکل یونیورسٹی حید رآباد کی طالبہ نورین لغاری کا واقعہ اٹھا لیں نورین لغاری کا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا جبکہ وہ خود ایک ہو نہار طالبہ تھی لیکن کیسے اسکا برین واش کیا اور اسے مسیح برادری کے تہوار ایسٹر پر تخریب کاری کیلئے آمادہ کیا ، بس یہی نہیں سانحہ صفورا گوٹھ اور سبین محمود قتل کیس کا مرکزی کردا ر بھی پاکستان کے ایک بڑے تعلیمی ادارے کا طالبعلم تھا ، ان تما م واقعات میں تعلیم یافتہ طلباو طالبات کا ملوث ہونا اس بات کو واضح ثبوت ہے کہ اب معاشرے کا باشعور طبقہ بھی انتہا پسندی ، تخریب کاری اور شدت پسندی کی جانب مائل ہو رہاہے جہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی سوچ کو ختم کرنے کیلئے تعلیم بہترین ہتھیار تھی وہیں انتہا پسندوں نے بھی اس کی ترویج کیلئے جامعات اور پڑھے لکھے طبقے کا رخ کیایہی انتہا پسندی جب تمام حدیں عبور کرتی ہے تو ایک خو فناک دہشت گردی جنم لیتی ہے ،جامعات میں بڑھتی ہوئی اس تعلیم یافتہ انتہا پسندی کو روکنے کیلئے سنجیدگی سے خاطر خواہ اقدا مات اٹھانے ہونگے ، جامعات میں ہر سطح پر تحمل اور برداشت کو فروغ دینے کیلئے نصاب میں اخلاقی اور مثبت سماجی اور معاشرتی اقدار کوحصہ بنا کر طلبہ و طالبات کے مابین ایک بھر پور مباحثے اور مکالمے کے کلچر کو فروغ دیا جانا چاہئے ، خطبہ حجتہ الوداع امن کا بہترین چارٹر ہے جسے نصاب کا حصہ بنا کر سلا متی کا پیغام عام کیا جاسکتا ہے ، صو فیاء دین کی بھائی چارے اور امن آشتی کی تعلیمات عام کرکے گھٹن زدہ ماحول سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے، اس سلسلے میں یونیورسٹیز میں موجو د اساتذہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ طلباء کی اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دیں ،ڈگری کے حصول کی ہو س نے ڈگری یافتہ تو سینکڑوں پیدا کئے مگر تعلیم یافتہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ، خوش آئند بات ہے کہ پنجاب ہائیر ایجو کیشن کمیشن نے حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے امن کی جانب مثبت اقدام اٹھایا اور عدم برداشت اور شدت پسندی کی روک تھام کیلئے اپنے زیر رہنمائی جامعات میں امن برداشت کے کلچر کو فروغ دینے کیلئے ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا جو جامعات کی سطح پر نوجوان نسل میں بھائی چارے ، تحمل برداشت اور طلباء کو مثبت تعلیمی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے ذریعے امن کی جانب راغب کرے گا ، جس سے طلباء کی تعمیری صلا حیتوں کا اجاگر کرنے اور انہیں معاشرے کا کار آمد شہری بنا نے میں مدد ملے گی ، اس ورکنگ گروپ کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں ایک ادبی میلہ کا بھی انعقاد کیا گیا بہا والدین زکریا یونیورسٹی کے اس ادبی میلہ میں کتب بینی کے فروغ کیلئے کتابوں کی نمائش ، ملتان کی ثقافت اور تاریخی دستکاری کے سٹالز ، امن مذاکروں اور مباحثوں کا بھی اہتمام کیا گیا ، دو روز جار ی رہنے والے اس ادبی میلہ میں طلباء طالبات کی گہری دلچسپی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اگر ہم کوشش کریں تو اسطرح کے ادبی میلہ ثقافت کی ترویج اور خوشیاں بکھیرنے کے ساتھ ساتھ جامعات میں امن کی فضا کو قائم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں ، کامیاب ادبی میلہ کے بعد ورکنگ گروپ نے حالیہ ہفتے لاہور میں پنجاب بھر کے وائس چانسلر ز اور ڈایئر یکٹر سٹو ڈنٹس افیئر ز کے مابین دو روزہ تعلیمی کانفرنس کا بھی انعقاد کیا جس کا مقصد بھی جامعات بھی امن اور کیلئے کسی نتیجہ تک پہنچنا تھا چناچہ دو روزہ جاری رہنے والی اس کانفرنس کے اختتامی سیشن میں تمام شرکاء جامعات میں قیام امن کیلئے اپنی تجاویز پیش کیں جن میں سوک ایجوکیشن اور سماجی علوم کی ترویج ، طلبہ میں ہم نصابی سرگرمیوں کا فروغ ، امن رواداری کے حوالے جامعات کی سطح پر لازمی کورس اور نصاب میں ضروری تبد یلیاں ، طلباء میں مباحثے اور مکالمے کے کلچر کو فروغ دینے کیلئے طلباء سو سائیٹیز کا قیام سر فہرست ہیں ، ان تمام سفارشات پر عملد رآمد سے کسی حد تک جامعات میں شدت پسندی اور انتہا پسندی پر قابو پاکر طلباء کو پر امن فضا فراہم کی جاسکتی ہے لیکن یہ صرف ورکنگ گروپ ہی نہیں ہر باشعور فرد کی ذمہ داری ہے کہ اس مشترکہ مقصد کے حصو ل کیلئے اپنی اپنی سطح پر کردار ادا کرے یقینا اس کے بعد معاشرہ ایک بار پھر امن برداشت او ر بھائی چارے کا مسکن ہوگا اور اسکی بہا ر سے کل عالم مہکے گا۔

Muhamamd Murtaza Noor
About the Author: Muhamamd Murtaza Noor Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.