من کی اُجڑی بستی

 انسان کی جبلت میں قدرت نے کچھ ایسی خصوصیات رکھ چھوڑی ہیں کہ اُسے لا مکاں کا سفر بھاتا تو ہے لیکن اِس سفر پہ چلنے کے لیے اُس کا من ساتھ نہیں دیتا۔ من کے اُجرنے کی وجہ بہت سے ایسی بیماریاں ہیں جوظاہری طور پر تو چھوٹی چھوٹی خواہشات سے جنم لیتی ہیں لیکن یہ خواہشات من کے اندر ایسے مچلتی ہیں کہ کہ اُسکا اثر پھر تن پہ بھی دیکھائی دیتا ہے۔اِس لیے زندگی زندگی کو سوہان روح بنانے میں یہ ہی اچھوتی خواہشیں اثدھا بن جاتی ہیں جہاں پھر نیکی کا ٹھرنا ممکن نہیں رہتا۔ زمانے کے انداز خود پر ھاوی کر لینے سے معاملات بگڑتے ہیں سنبھلتے نہیں۔ لالچ ایک ایسا سراب ہے کہ انسان کو اپنی طرف اِس طرح کھینچتا ہے کہ انسان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔لالچ کا سلسلہ یوں ہی رُکتا نہیں بلکہ لالچ نئے لالچ کو جنم دیتا ہے۔یہ لالچ ایسے کنویں کی حثیت اختیار کر جاتا ہے کہ اِس گڑھے سے باہرنکلنا مشکل ہو جاتا ہے بلکہ اِس سے قطع تعلق ہونا انسان کے لیے اتنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اِنسان انسانیت کے دائرئے سے بھی نکل جاتا ہے۔ یہ ہی لالچ پھر المیوں کو جنم دیتا ہے۔ایک کے بعد ایک المیہ۔زندگی کا مقصد صرف ہوس بن کر رہ جاتا ہے۔یہ ہی ہوس چھوتی بیماری کی طرح دیگر ہم عصروں کو بھی اپنا شکار کر لیتی ہے بالکل اِسی طرح جیسے راہزن راہبر بن جائے۔انسان ہونے کے مقام سے لالچ انسان کو ہٹا دیتا ہے۔ درندگی کا حامل بنا دیتا ہے ۔ محبت خلوص کے راستے کو ویران کر دیتا ہے۔وفا نام کی کوئی شے بھی لالچ کے قریب نہیں پھٹکتی۔انسانی وقار کو نہ صرف شدید دھچکا لگتا ہے بلکہ ہمیشہ کے لیے زمین بوس ہوجاتا ہے۔صوفی چونکہ اپنے خالق کی طرف امید لگائے ہوتا ہے اور اُسے یہ ادارک ہو جاتا ہے۔ کہ لالچ تو خود کو مردہ کرنے کے نام ہے چونکہ لالچ دنیاوی و عارضی شے ہے اِس لیے اُس شے کے اندر دیرپائی بھی نہیں ہوتی۔جب محرک یہ ہو کہ گوہر نایاب کو پانا ہے تو پھر ُاُس کی تلاش کے لیے صاحب نظر ہی تحریک پیدا کرتا ہے اور صاحب نظرکی تمام تر تحریک کا ماخذعمل کی طرف سفر ہوتا ہے دعویٰ عشق اور پھر بعد ازاں عشق کی لاج رکھناہی عشق ہے۔اِس لیے صوفی کے اندر طمع نام کی کوئی شے نہیں ہوتی۔اِس کا مطلب یہ نہیں کہ صوفی کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی بلکہ بات یہ ہے کہ صوفی نے اپنی ضروریات کو محدود کر لیا ہوتا ہے۔ اِس کو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ تصنہ بناوٹ سے منزل نہیں پائی جاسکتی تفکرات انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لیتے ہیں۔ اِسی وجہ سے نادانستگی میں انسان سے ظلم روا ہوجاتا ہے ۔ انسان کا مقصد ہر گز نہیں ہوتا کہ وہ کسی کو گزند پہنچائے لیکن کیونکہ کہ تفکرات نے اُس کی سوچ کو جامد کیا ہوتا ہے اِس لیے اُس سے ہر وہ عمل ہو جاتا ہے جو اُسکی جبلت کے خلاف ہوتا ہے۔اِن تفکرات کی وجہ سے خالق کو فراموش کرکے انسان دُنیاوی خدا بنا لیتا ہے۔ صرف ایک خالق کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے اُسے بہت سوں کو سجدہ کرنا پڑتا ہے۔ اگرایک خالق کے حوالے سارئے دکھ درد کردیے جائیں تو بس پھر خالق جانے اور خالق کا کام۔خواہ مخواہ چند اونس کے حامل دماغ پر اتنا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے کہ انسان کا سانس تک رُکنے کو ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ چند روزہ زندگی کی معمولی اور جلد ختم ہونے والی خواہشوں کی بجائے انسان صرف اپنے خالق کو ہی کارساز مانے اور سارئے دکھ اپنی جھولی سے نکال کر خالق کے حوالے کردئے تو وہ دماغ جو چند مسائل کی وجہ سے پھٹا جارہا ہوتا ہے وہ دماغ اور دل پوری کائنات کو اپنے اندر سمو لیتے ہے۔ بس ایک کام کرنا ہے کہ خالق سے رشتہ کمزور نہ ہو پائے۔ خالق تو مخلوق کے انتظار میں ہوتا ہے کہ مخلوق کب مجھے پکارتی رب پاک امید کا نام ہے۔رب پاک محبت سے بھر پور ہستی ہے۔رب پاک سے جب ہم امید باندھ لیتے ہیں۔تو پھرہم خود کو اپنے دُکھوں اور غموں سمیت اپنے رب کی بارگاہ میں اپنے رب کے حوالے کر دیتے ہیں مسافر کبھی پلیٹ فارم پہ مستقل قیام کا خواہاں نہیں ہوتا ۔نہ ہی وہ پلیٹ فارم پہ خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔ اُسے کوئی اگر کہے بھی کہ اِسی جگہ رُک جاؤ تو تب بھی وہ کسی کی نہیں مانتا بلکہ اُلٹا ایسا کہنے والے کو پاگل گردانتا ہے کہ یہ جگہ ایسی ہے کہ یہاں مستقل قیام کیا جائے یہ دُنیا تو پلیٹ فارم سے بھی عارضی ہے اِس کے لیے خود کو، دوسروں کو تکلیف میں ڈالنا ایسے ہی ہے کہ آبیل مجھے مارفراق وصال اُسکا ساتھ ہونا بھی دل کو خوف میں رکھتا ہے بلکہ شاید اب کہ یہ وصال کی آخری گھڑیاں تو نہیں ہجر کی ناتمام مسافتیں جب اپنا دامن پھیلادیتی ہیں تو تب وصال کی دُعا کے ساتھ ساتھ ہجر کا دُکھ سایہ بن کر ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ لیکن روح کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ہجر طمانیت دینی لگتی ہے۔ کیونکہ ہجر کے بعد تو کسی اور ہجر کے درپیش ہونے کا دکھ تو نہیں۔ من کے اندر سکون حاصل تب ہی ہوتا ہے جب مخلوق مخلوق کا خیال رکھتی ہے ۔ کسی کو دُکھ دئے کر کسی کے مال پر قبضہ کر کے کسی سے رنجش کرکے من کی بستی کو آبد کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جب خود سے دوسروں کو اُجڑنے کا عمل ہو رہا ہے تو رد عمل بھی اُجڑنے کا ہی ہوتا ہے۔ تخریب سے مزید تخریب پیدا ہوتی ہے۔لیکن اِس تخریب کو تعمیر کے دائرئے میں لانے کے لیے خالق بندے کو راستہ دیکھاتا ہے لیکن بندے کی عقل و دانش اُسے کسی اور سفر کا راہی بنائے رکھتی ہے۔یہ عشق کے راستے ہیں یہاں عقل کا کیا کام ۔

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 383308 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More