ماہِ شعبان کی پندرہویں رات کو شبِ برأت کہا جاتا ہے شب
کے معنی ہیں رات اور برأت کے معنی بری ہونے اور قطع تعلق کرنے کے ہیں۔
چونکہ اس رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ
کی رحمت سے بے شمار مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لیے اس رات کو شبِ
برأت کہتے ہیں۔ اس رات کو لیلۃ المبارکہ یعنی برکتوں والی رات، لیلۃ الصک
یعنی تقسیم امور کی رات اور لیلۃالرحمۃ یعنی رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہا
جاتا ہے۔جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن یسار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے
ہیں:’’لیلۃ القدر کے بعد شعبان کی پندرھویں شب سے افضل کوئی رات نہیں‘‘۔ (لطائف
المعارف ص؍ ۱۴۵)جس طرح مسلمانوں کے لیے زمین میں دو عیدیں ہیں۔اسی طرح
فرشتوں کے آسمان میں دو عیدیں ہیں ،ایک شبِ برأت اور دوسری شبِ قدر ۔
فرشتوں کی عیدیں رات کو اس لیے ہیں کہ وہ رات کو سوتے نہیں جب کہ آدمی رات
کو سوتے ہیں اس لیے ان کی عیدیں دن کو ہیں۔ (غنیۃ الطالبین ص ؍۴۹۹)اسی شب
میں تمام امورکائنات ،عروج وزوال،ادبار واقبال،فتح وشکست،فراخی وتنگی،موت
وحیات اور کارخانۂ قدرت کے دوسرے شعبہ جات کی فہرست مرتب کی جاتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’قسم ہے اس روشن کتاب کی بے شک ہم نے اسے برکت والی
رات میں اتارا، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر
حکمت والا کام‘‘۔ (الدخان ۲تا ۴،کنزالایمان) اس رات سے مراد شبِ قدر ہے یا
شبِ برأت (خزائن العرفان) ان آیات کی تفسیر میں حضرتِ عکرمہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ اور بعض دیگر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ’’لیلۃمبارکۃ‘‘سے پندرہ شعبان
کی رات مراد ہے۔ اس رات میں زندہ رہنے والے ، فوت ہونے والے اور حج کرنے
والے سب کے ناموں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور جس کی تعمیل میں ذرا بھی
کمی بیشی نہیں ہوتی۔ اس روایت کو ابن جریر، ابن منذر اور ابنِ ابی حاتم نے
بھی لکھا ہے۔ اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ فہرست کی تیاری کا کام
لیلۃالقدر میں مکمل ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کی ابتداء پندرہویں شعبان کی شب سے
ہوتی ہے۔ (ماثبت من السنہ ص؍۱۹۴)علامہ قرطبی مالکی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے
ہیں: ایک قول یہ ہے کہ ان امور کے لوحِ محفوظ سے نقل کرنے کا آغاز شبِ برأت
سے ہوتا ہے اور اختتام لیلۃ القدر میں ہوتا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ج
۱۶ ص۱۲۸)یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امور تو پہلے ہی سے لوح محفوظ
میں تحریر ہیں پھر اس شب میں ان کے لکھے جانے کا کیا مطلب ہے؟ جواب یہ ہے
کہ یہ امور بلاشبہ لوح محفوظ میں تحریر ہیں لیکن اس شب میں مذکورہ امور کی
فہرست لوح محفوظ سے نقل کرکے ان فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے جن کے ذمہ یہ
امور ہیں۔چونکہ یہ رات گذشتہ سال کے تمام اعمال بارگاہِ الہٰی میں پیش ہونے
اور آئندہ سال ملنے والی زندگی اور رزق وغیرہ کے حساب کتاب کی رات ہے اس
لیے اس رات میں عبادت الہٰی میں مشغول رہنا رب کریم کی رحمتوں کے مستحق
ہونے کا باعث ہے اور سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی یہی تعلیم ہے۔
شبِ برأت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں اﷲ تعالیٰ اپنے فضل و کرم
سے بے شمار لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے ۔آقا و مولیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا بیشک اﷲ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمانِ دنیا پر (اپنی شان
کے مطابق) جلوہ گرہوتاہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ
لوگوں کی مغفرت فرماتاہے۔ (ترمذی جلد ۱ص۱۵۶، ابن ماجہ ص۱۰۰، مشکوٰۃ جلد ۱ص
۲۷۷)۔اس مقدس شب میں رب قدیر ہرکسی کی مغفرت فرمادیتا ہے سوائے
کافر،مرتد،والدین کانافرمان،کاہن،نجومی،جادوگر،فال نکالنے
والے،قاتل،جلّاد،رشتہ کاٹنے والے ، کینہ ور،عادی سود خور،زناکے عادی،ناجائز
محصول وصول کرنے والے،عادی شرابی،باجہ بجانے والے،گویّااور متکبر شخص کی۔یہ
وہ لوگ ہیں کہ اپنے اپنے گناہوں سے توبہ کیے بغیر ان کی مغفرت نہیں ہوتی۔
پس ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے گناہوں سے جلد از جلد سچی توبہ کرلیں
تاکہ یہ بھی شب برأت کی رحمتوں اور بخشش و مغفرت کے حقدار ہوجائیں۔
شبِ برأت فرشتوں کو بعض امور دئیے جانے اور مسلمانوں کی مغفرت کی رات ہے اس
کی ایک او ر خصوصیت یہ ہے کہ یہ رب کریم کی رحمتوں کے نزول کی اور دعاؤں کے
قبول ہونے کی رات ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ غیب بتانے
والے آقا و مولیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جب شعبان کی پندرھویں شب
ہو تورات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی
اﷲ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پر نازل ہوجاتی ہے اور اﷲ تعالیٰ ارشاد
فرماتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں، ہے کوئی
رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں ،ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت
سے نجات دوں ، یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔ (ابنِ ماجہ ص۱۰۰، مشکوٰۃ
ج ۱ ص ۲۷۸)اس حدیث پاک میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت و رحمت کی ندا کا ذکر
ہے اگرچہ یہ ندا ہر رات میں ہوتی ہے لیکن شبِ برأت میں خاص بات یہ ہے کہ اس
میں یہ ندا غروب آفتاب ہی سے شروع ہوجاتی ہے ،گویا صالحین اور شب بیدار
مومنوں کے لیے تو ہر رات شبِ برأت ہے مگر یہ رات خطاکاروں کے لیے رحمت و
عطا اور بخشش و مغفرت کی رات ہے اس لیے ہمیں چاہئے کہ اس رات میں اپنے
گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائیں اور ربِ کریم سے دنیا و آخرت کی بھلائی
مانگیں۔ اس شب رحمتِ خداوندی ہر پیاسے کو سیراب کردینا چاہتی ہے اور ہر
منگتے کی جھولی گوہرِ مراد سے بھر دینے پر مائل ہوتی ہے۔ بقول اقبال، رحمت
الہٰی یہ ندا کرتی ہے
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں راہ دکھلائیں کسے راہرو منزل ہی
نہیں
٭٭٭ |