اس کا گھر میرے گھر کے سامنے
تھا۔وہ اکثر شام کو میرے پاس آجایا کرتی تھی۔ اداس سی آنکھیں اور چہرے پر
شگفتگی کے رنگ لیئے وہ مجھے بہت خاص لگتی تھی۔ نہ جانے اس میں ایسی کونسی
خاص بات تھی جس کی وجہ سے مجھے اس پر بہت پیار آتا اور یہی محبت تھی جس
نےھم دونوں کو دوستی کے مقدس رشتے میں باندھ رکھا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا
گیا ھماری دوستی اور بھی گہری ہوتی گئی۔
وہ جب بھی آتی سر علی کا ذکر ہی کرتی رہتی۔ ‘‘ سچ بتاؤں سر علی اتنے اچھے
ھیں ،اتننے اچھے ہیں کہ بس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، ، ۔ ۔ ۔
آنکھیں میچ کر بولتی تو مجھے پیار آجاتا۔ اور مجھے پتا بھی نہ چلا کہ کب اس
نے سر علی سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔ پہلے پہل تو استاد شاگرد کا مقدس
رشتہ برقرار رہا مگر رفتہ رفتہ اس کی جگہ دوستی نے لے لی۔ میں نے اسے بہت
سمجھایا لیکن بےسود۔ سر علی بھی کوئی بھولے بھالے لڑکے تو تھے نہیں پینتیس
سال کے مرد ایک بیوی اور چار بچوں کا ساتھ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجے بہت افسوس ہوا ۔۔،،۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ سے اسکی ہدایت کے لیے دعا
مانگتی رہی۔ ۔ ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو بھی شائد اسکی آزمائش مقصود تھی۔ ۔ ۔
۔ پڑھائی سے اسکی توجہ ہٹ گئی اور دوستی پیار میں ڈھل کر ملاقاتوں میں
تبدیل ہو گئی۔ وہ اونچے اونچے خواب اور سپنے دیکھا کرتی تھی، اس بات سے قطع
نظر کہ اسکے ساتھ کیا ہونے والا ھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں ناراضگی کا اظہار کرتی تو بے بسی کے لہجے میں کہتی!
‘‘ اب پیچھے ہٹنا میرے بس کی بات نہیں‘‘
اسکی صحت بھی خراب رہنے لگی تو میں نے بہت سوچ بچار کے بعد اس سے کہا کہ وہ
سر علی سے شادی کی بات کرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہوا جسکا مجھے اندازہ تھا۔
انہوں نے صاف صاف انکار کر دیا بلکہ اسکی اچھی خاصی بے عزتی بھی کی، اس وجہ
سے وہ بہت دلبرداشتہ بھی ہوئ اور اسی صدمے میں اس نے خودکشی کی ناکام کوشش
بھی کر ڈالی۔ میں نے سر علی سے خود بات کی اور کہا کہ وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
‘‘ لائکہ سے بات کرنا چھوڑ دیں لیکن انکا جواب میری توقع کے برخلاف تھا جسے
سن کر میں بہت حیرت زدہ ہوئی انہوں نے کہا: ‘‘میں تو بات نہیں کرتا وہ تو
خود مجھ سے بات کرتی ھے میں تو صرف وقت گزاری کرتا ہوں، وہ تو خود سنجیدہ
ہو جاتی ھے۔ ۔ ۔ ۔ جب اس پر سر علی کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی تو وہ خود
رفتہ رفتہ سنبھل گئی۔ ۔ ۔ ۔
کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ جس قوم کے راہبر ہی ایسے ہوں جن کو ذاتی وفا دوسروں
کی زندگی سے زیادہ عزیر ہو وہ قوم کیا خاک ترقی کرے گی۔ ۔ ۔ ان کو اپنی
جوان بیٹیاں بھی نظر نہیں آتیں خداراہ۔ ۔ ۔ اپنی بیٹیوں کو ایسے راہزنوں سے
بچائیں۔ مخلوط تعلیمی اداروں اور مرد اساتذہ سے پڑھنا جوان بچیوں کیلیے اور
نا سمجھ بچیوں کے لیے بے حد خطرناک ھے۔ آخر پر یہی کہوں گی کہ
ابھی تم طفل مکتب ہو سنبھالو اپنے دامن کو
یہ طوطے کچی فصلوں کو بڑا نقصان پہنچاتے ھیں |