اس میں کوئی شک نہیں کہ مردان کی سرزمین پختون روایات کی
امین ہے یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے طول وعرض سے تعلق رکھنے والے پختون
مردان کو’’ درون مردان‘‘ یعنی بھاری یاوزنی مردان کہہ کرپکارتے ہیں درون
مردان وزن کے لحاظ سے نہیں بلکہ اسے عزت ،احترام اورمحبت سے یہ لقب ملاہے
مردان کی سرزمین تاریخی ،ثقافتی اورتمدنی لحاظ سے اپنی نمایاں شناخت رکھتی
ہے مردان آبادی اورتجارتی لحاظ سے صوبے کادوسرابڑاشہرہے ،اسکے طول وعرض میں
بدھ مت کے کھنڈرات پھیلے ہوئے ہیں،تاریخ کے بہت سے رازمردان کے کشادہ سینے
میں مدفون ہیں، اسے دی لینڈ آف گندھارایعنی بدھ مت کی سرزمین بھی کہاجاتاہے
،تخت بھائی اورشہبازگڑھی کے آثارِ قدیمہ اسکے حسن میں اضافے کاباعث
ہیں،مردان میں پہاڑی سلسلوں کے ساتھ ساتھ میدانی علاقے بھی موجودہیں،صوبے
کاسب سے بہترین نہری نظام مردان کی پہچان ہے، زراعت ،صنعت وحرفت بھی مثالی
ہے، صوبے کادوسرابڑاتجارتی مرکزہے، صوبے کی دوسری بڑی سبزی منڈی یہاں
موجودہے، چیمبرآف کامرس اورصنعت کے حوالے سے بھی مردان کی نمایاں اہمیت ہے
،پنجاب رجمنٹ سینٹرکی صورت میں بہت بڑی فوجی چھاؤنی یہاں موجودہے،اس مردم
خیزخطے نے لاتعدادشاعروں ،صحافیوں ،کھلاڑیوں ،فنکاروں،اساتذہ، اعلیٰ سرکاری
افسران، حکمران ،سیاسی میدان کے شہ سواراورزندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق
رکھنے والے ان گنت لوگوں کو جنم دیا ،ایشیاکاسب سے بڑاشوگرمل مردان میں ہے،
تعلیمی لحاظ سے بھی مردان کسی سے کم نہیں یہاں سکولوں ،کالجوں
اوریونیورسٹیوں کاجال بچھاہواہے سڑکوں کاانفراسٹرکچربہترین ہے مردان سے
تعلق رکھنے والے دووزرائے اعلیٰ فضل حق اور امیرحیدرہوتی نے مردان کی ترقی
پر خصوصی توجہ دی جس سے یہ شہر بعض معاملات میں پشاورپرسبقت لے جاتاہے
مگربدقسمتی سے اس شہرکودہشت گردوں نے بھی حصہ بقدرجثہ دیایہاں کے
سیاستدانوں پرکامیاب اورناکام حملے ہوئے ، بازار،سرکاری دفاتر،ڈسٹرکٹ
کورٹس،پولیس سٹیشنز،مساجد ،سبزی منڈی ،بیکریاں ،مارکیٹیں اوراڈے بے گناہوں
کے خون سے رنگین کردئے گئے گزشتہ ماہ عبدلولی خان یونیورسٹی میں صوابی سے
تعلق رکھنے والے طالبعلم مشال خان کوتوہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم نے
ناصرف قتل کیابلکہ لاش کی بے حرمتی بھی کی گئی ،کچہری پرحملے میں متعددبے
گناہ اپنے خون میں نہائے جس کے بعدیہاں کی انتظامیہ نے ریڈ الرٹ کے تحت
شہرکی سیکیورٹی مزیدسخت کردی بے انتہاترقی کرنے کے باوجودمردان کے شہری
علاقے ،بازاراورسرکاری دفاترکیلئے کوئی منصوبہ بندی نظرنہیں آرہی جیسے ہی
آپ نوشہرہ کی جانب سے باچاخان چوک میں قدم رکھتے ہیں شہری علاقہ شروع
ہوجاتاہے دائیں جانب بلال مسجدکے ساتھ ہی عبدالولی خان یونیورسٹی کے
دفاتر،تاریخی گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ،ڈسٹرکٹ ہسپتال روڈ،لائبریری ہال
،پی ٹی سی ایل کے دفاتر،تھانہ سٹی جبکہ سڑک کی بائیں جانب کمشنراورڈی آئی
جی سمیت انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کی رہائش گاہیں ،خزانہ کے دفاتر،ڈسٹرکٹ
کورٹس ،انسداددہشت گردی کی عدالت،پراناجیل ،ضلعی پوسٹ آفس اور اس سے آگے
فوجی چھاؤنی ،موبائل کمپنیوں کے دفاتراورتقریباًتمام بینک ہیں یہ تمام قابل
ذکرمقامات اس راستے میں واقع ہیں جس سے گزرکرہی لوگ مردان کے بڑے بازاروں
میں پہنچتے ہیں بینک روڈ اور پاکستان چوک سے آگے بڑی بڑی مارکیٹیں
اورکاروباری مراکزہیں جہاں ناصرف پورے صوبے کے تاجروں کی آمدورفت جاری رہتی
ہے بلکہ شمالی علاقوں کیلئے ضروریات زندگی کے اشیاکی ترسیل بھی یہاں سے
ہوتی ہے دن کے کسی مصروف وقت میں آپ بازارِ شہیدان اورخواجہ گنج کی جانب
جائیں توآپکو یہاں گلگت ،چترال ، ملاکنڈ،سوات ،دیراوربونیرجیسے
دوردرازاضلاع کے تاجرملیں گے جوسامان تجارت کیلئے مردان کارخ کرتے ہیں بینک
روڈپر کپڑے کی تین بڑی مارکیٹیں موجودہیں جہاں سے پورے صوبے کیلئے کپڑے کی
ترسیل ہوتی ہے الغرض صبح کے سات بجے سے لیکررات دس گیارہ بجے تک مردان کے
مذکورہ علاقے کسی میلے کامنظرپیش کررہے ہوتے ہیں اسی علاقے میں ڈسٹرکٹ
کورٹس،تھانہ سٹی اورایکسائیزکا دفتردہشت گردحملوں کانشانہ بن چکے ہیں جس کی
وجہ سے کالج چوک سے ڈسٹرکٹ کورٹس تک کے ایریامیں ریڈالرٹ کی سی صورتحال
ہوتی ہے کالج چوک سے ضلعی کچہری تک دورویہ سڑک بند کرکے ون وے بنائی گئی ہے
تاکہ اعلیٰ افسران کی رہائش گاہیں ،سرکاری دفاتراورتھانہ سٹی کودہشت گرد
حملے سے محفوظ رکھاجاسکے مگرانتہائی افسوس کے ساتھ کہناپڑرہاہے کہ
خیبرپختونخواکی ’’مثالی ‘‘ کہلائی جانیوالی پولیس اس سخت سیکیورٹی سے اب تک
کسی دہشت گردحملے کوتونہ روک سکی بلکہ گزشتہ چھ برسوں کے دوران ڈیڑھ
کلومیٹرپرمحیط اس حساس علاقے میں ڈی آئی جی آفس پردوحملوں میں راہگیروں
سمیت بیس سے زائدافراد،ضلع کچہری پرحملے میں وکیلوں سمیت پندرہ افراد،تھانہ
سٹی پرحملے میں آٹھ افراد،ایکسائیزآفس پرناکام حملے میں دوافرادجبکہ چھاؤنی
حدودمیں واقع بیکری پرحملے میں بیس افراددہشت گردی کانشانہ بنے جن میں
مثالی پولیس کسی حملے کوروکنے میں کامیاب نہ ہوسکی ہاں البتہ گزشتہ
دومہینوں کے دوران دوبے گناہ افرادکوگولی مارکرضرورہلاک کیاگیا اس سلسلے
میں رشکئی شیرین کوٹ سے تعلق رکھنے والے افغان مہاجر اولس خان کواس وقت
گولی ماری گئی جب وہ بینک روڈ کے شاہین مارکیٹ سے کپڑالینے جارہاتھامذکورہ
شخص رشکئی ،مردان ،شیرین کوٹ اوررسالپورکے دیہاتوں میں عرصہ درازسے سائیکل
پرکپڑابیچنے کاکام کرتاتھا کپڑالینے کیلئے اسے مردان جاناپڑتاتھاخالی سڑک
دیکھ کراس نے سائیکل ون وے پرڈال دی جس پر پولیس نے اسے گولی ماردی آج
بروزمنگل نواحی علاقے جمال گڑھی سے تعلق رکھنے والے بلال خان نامی ذہنی
مریض کوعلاج کیلئے لایاجارہاتھاکہ وہ موٹرسائیکل سے اترکرمرگی دورے کے
زیراثردوڑپڑااورپولیس نے اسے خودکش حملہ آورسمجھ کر گولی ماردی غریب گھرانے
سے تعلق رکھنے والے اس بے گناہ ذہنی مریض کی خون میں لت پت لاش دیکھنے سے
ہرآنکھ اشکبارہوئی مقتول کے بارے میں معلوم ہواہے کہ وہ حافظ قرآن تھے
اورانہیں مرگی کامرض لاحق تھا بزعم خودصوبے کی تاریخ کی سب سے بہترین
صوبائی حکومت کے پاس اگردعوؤں سے فرصت ہوتوخدارااپنی مثالی پولیس کی تربیت
پرتوجہ دیجئے تاکہ بے گناہوں کوگولیاں مارنے کایہ نارواسلسلہ رک سکے
انتظامی طورپرحکومت اعلیٰ سرکاری افسران کی رہائشگاہیں ،دفاتراورڈسٹرکٹ
کورٹس گنجان آبادشہری علاقوں اورکاروباری مراکزسے دورمنتقل کردے تاکہ
رکاوٹوں اورتلاشیوں کی وجہ سے شہریوں کے معمولاتِ زندگی مزیدمتاثرنہ ہوں
یہاں دہشت گردی سے مرنیوالوں کی تعدادکیاکم ہے کہ اب پولیس کے ہاتھوں غلط
فہمی میں بھی لوگ مارے جارہے ہیں مردان میں ایک اورقتل عمدپولیس کی تربیت و
اہلیت پرسوالیہ نشان ہے ۔ |