ہر سال جب بھی ماہ مئی آتا ہے تو اس کا آغاز عالمی سطح پر
یوم مزدور سے ہوتا ہے ، اسی ماہ کی 12تاریخ کو 2007کے بعد سے ہر سال بھرپور
انداز میں منالیا جاتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین مجمع جمع کرتے ہیں
پرجوش انداز میں تقاریر کرتے ہیں ، 12اورمئی 2007کے دن رونم ہونے والے
واقعات پر تقاریر کرتے ہیں ۔نعرے لگتے اور لگواتے ہیں جمع ہونے والے عوام
کو بتاتے ہیں کہ 12مئی 2007کو شہر قائد میں کیا ہوا تھا کیسے ہوا تھا ،اس
دن شہر قائد میں گولی چلانے والے کون لوگ تھے ؟آگ لگانے والے کون تھے ؟
گاڑیوں کو جلانے کے ساتھ قومی املاک کو نقصان پہنچانے والے کون تھے ؟
درجنوں شہریوں کو کیونکر مارڈالا گیا ؟ ذرائع ابلاغ پر بھی کیوں اور کیسے
حملے کئے گئے؟ خون میں لت پت لاشیں کس انداز میں ہسپتال پہنچائی گئیںاور
حتی کہ ہسپتالوں میں بھی کس طرح کا ظلم ہوا ؟
اس دن یہ سب سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی کراچی آمد پر ہوا کچھ جماعتیں
جو ان کا استقبال کرنا چاہتی تھی وہ ائرپورٹ پر اپنے کارکنان کے ہمراہ
استقبال کرنے گئیں لیکن وہ جماعتیں جو یہ سب نہیں چاہتی تھیں انہوں ان
جماعتوں کو ان کے کارکنان کو زبردستی روکنے کی کوشش کی اس دوران یہ سب کچھ
ہوا جسے یاد آج بھی کیا جاتا ہے ۔ بہت سوں کے گھر جل گئے ، بہت سوں کی
زندگیاں اجیرن ہوگئیں ،کئی کے چراغ گل ہوگئے او ر اس سے بھی بڑھ کر بہت کچھ
ہوا۔ شہر قائد کی پولیس اس روز بھی سب دیکھتی رہی اور اپنا روایتی کردار
ادا کرتی رہی۔ جسٹس افتخار چوہدری صاحب ائر پورٹ سے باہر آنے کا انتظار
کرتے رہے اور شہر میں خون کے اس کھیل سے باخبر ہوتے رہے ۔ بلاآخر انہوں نے
ائر پورٹ سے ہی واپس جانے کا فیصلہ کیا اور وہاں چلے گئے جہاں سے آئے
تھے۔وہ تو آئے اور چلے بھی گئے لیکن شہر میں جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار کون
تھا ، کون ہے ؟ تاریخ کا طالبعلم یہ سوال اٹھاتا رہے گا۔نت نئے جواب کے
ساتھ اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے گی اور نجانے وہ انصاف کے فیصلے کرنے
والے کیلئے بہنے والے اس خون کا کس انداز میں سمجھے گا ۔ سیاسی جماعتوں نے
اس کو اپنی تاریخ کا حصہ بنایا اور یہ باب سبھی جماعتوں کیلئے اک خاص باب
کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
موجودہ دور میں دیکھا جائے تو وہ سابق چیف جسٹس آج اپنی اک سیاسی جماعت
بنائے بیٹھے ہیں اور اپنی خدمات اسی طرح سے وطن کیلئے سرانجام دے رہیں اور
وہ سیاسی جماعت کا رہنما جسے الطاف حسین کہا جاتا ہے آج اس کی حالت پوری
عوام کے سامنے ہے۔ اس کی وہ جماعت جو اس کے اشاروں پر چلا کرتی تھی آج اسی
کے کئی ٹکرے ہوچکے ہیں ۔پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی ، جماعت اسلامی ،
تحریک انصاف و دیگر سبھی جماعتوں کا حال بھی اک نئی تاریخ رقم کرنے کیلئے
اپنا کردار ادا کررہی ہیں ۔اس وقت کے حکمران پرویز مشرف جو کہ اپنی اک نئی
سیاسی جماعت بھی بنا چکے ہیں لیکن ان کی کیفیت بھی عوام کے سامنے عیاں ہے۔
12مئی کے روز جو بھی ظلم ہوا اس میں وہ پرویز مشرف برابر کا شریک ہے ،
دیکھئے کہ اس کی جماعت کا اور خود اس کا کیا حال ہے اور اس کا ہر طرح سے
ساتھ دینے والے دوسرے نام نہاد رہنما کا کیا حال ہے ۔دونوں اپنے ملک سے دور
اپنے کارناموں کے صلے پارے ہیں ۔ اس روز جس نے بھی ظلم و زیادتی کی اس کو
اس سزا ہوگی یہاں نہ سخی اس روزہی سخی جب اس کائنات کا خالق اور مالک حساب
لے رہا ہوگا۔وہی سب سے بڑا انصاف دینے والا ہے ۔اس روز کے قاتلوں کا آج تلک
کوئی نام و نشان سامنے نہیں آیا نہ ہی مقتولین کے خاندانوں کی باز پرسی کی
گئی ، سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاست اس دن کو بنیاد بنا کر جس انداز میں کی
اس کی بھی خبر اس ذات عظیم کو ہے اور وہ دن دور نہیں جب وہ انصاف فرمائے
گا۔
ملک کی جو صورتحال اس وقت ہے ماضی میں شاید کبھی نہیں رہی دنیا بھر کے
ممالک کی نظریں اس وقت پاکستان پر مرکوز ہیں ۔پاکستان کے دشمن ممالک وطن
عزیز میں کسی بھی نوعیت کی تعمیر نہیں دیکھنا چاہتے ترقی نہیں چاہتے انہیں
اگر فکر ہے تو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی ہے ۔ بھارت کشمیر میں ظلم ڈھائے
جارہا ہے اس کے ساتھ وہ افغانستان کے ذریعے بھی اپنی سازشیں بڑھا رہا ہے
تاہم پا ک فوج کے ساتھ عوام ہے اور ان شاءاللہ بھارت تو کیا کسی بھی سازش
کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ملک کے حکمرانوں کو ان حالات کا احساس
ہونا چاہئے وزیر اعظم کے جو بھی اختلافات دیگر سیاسی رہنماﺅں سے ہیں انہیں
ایک جانب رکھ کر ملک کی خدمت کو احسن انداز میں کرنا چاہئے ۔ اس کے ساتھ
12مئی کو ہی نہیں ہر دن اور رات کو ہر لمحے کو سیاسی ، مذہبی جماعتوں کو
پاکستان کیلئے احسن انداز میں گذارنے کا جنون ہونا چاہئے یہ ایک مئی کا دن
ہی نہیں آئندہ کیلئے ایسے کسی بھی دن کی آمد کو روکنے کیلئے منظم منصوبہ
بندی اور اس پر عمل کرنا چاہئے ، جو ہوگیا وہ ہوگیا اب ہونا یہ چاہئے کہ
غلطیوںکا احساس ہونا چاہئے اور آئندہ اس طرح کی غلطیوںسے بچنے کیلئے کاوشیں
ہونی چاہئے ۔جانے والے تو چلے گئے تاہم ان کے پیچھے رہہ جانے والے ابھی
موجود ہیںاس لئے ان کا خیال رکھا جانا چاہئے انہیں اس ملک کی تعمیر و ترقی
میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار کیا جانا چاہئے ۔ |