تحریر:فضہ عادل،ہری پور
حقوقِ نسواں سے مراد عورتوں کے حقوق اور قانونی استحقاق ہیں۔جن کامطالبہ
دنیا کے بہت سے ممالک میں خواتین اور لڑکیاں کرتی ہیں۔ لیکن آیا ان مطالبات
کو پورا کیا جاتا ہے یا نہیں۔۔۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دنیا کے بہت سے
ممالک میں ان قوانین کو سماجی اور قانونی حیثیت حاصل ہے مگر بہت سے ممالک
میں حصب یا نظرانداز کیا جاتا ہے اور ان بہت سے ممالک میں ایک ہمارا ملک
پاکستان بھی ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : اے اﷲ ! میں دو صغیفوں کے حقوق کبھی
معاف نہیں کر وں گا۔ ایک یتیم کا اور دوسرا عورت کا ۔۔دنیا کی کسی مزہبی
کتاب میں عورت کے نام سے کوئی چیپٹر نہیں مگر قرآن کریم وہ واحد کتاب ہے جس
میں عورت کے نام سے ایک مکمل سور (انسا) موجود ہے۔ مگر اس کے باوجود وطن
عزیز کے بہت سے بلکہ 100 میں سے %60لوگوں میں عورت کو لے کے فرسودہ سوچ
پائی جاتی ہے۔ جو شحص اپنی اہلیہ کے لئے گاڑی کا دروازہ کھولے تو وہ بے
غیرت سمجھا جاتا ہے۔ جو شحص اپنی اہلیہ کے بیٹھنے کے لئے کرسی رکھ دے وہ
کمزور شخصیت کا مالک ہے جو اپنی اہلیہ کی سہولت کی خاطر کبھی بچے سنبھال لے
تو وہ بیوی کا غلام سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کے اسے زن مرید جیسے القاب سے
نوازہ جاتا ہے۔ غرض یہ کہ جو بھی شحص عورت کے کسی کام میں ہاتھ بٹانے دے تو
وہ -------- اور -------- تصور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ہمارے آقا ﷺ ازواجِ
مطہرات کیکام کاج میں ہمیشہ ہاتھ بٹاتے تھے۔ خطہ کے اپنے کپڑوں میں خود
پیوند لگاتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے عرصہ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی ہے۔ مصر
' یونان ''چین ' ہند غرض یہ کہ ہر قوم ہر حطے میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں
عورت پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔ لوگ اپنی عیش و عشرت کی غرض سے
خریدوفروخت کرتے اس کے ساتھ حیوانیت سے بھی بدتر سلوک کرتے۔ عورت کے وجود
کو موجبِ عار سمجھتے ہیں۔ عورت آزادانہ طریقے سے کوئی کام نہیں کرسکتی ۔
پہلے باپ پھر شوہر اور پھر بیٹے کے رحم و کرم کی محتاج ہو کر رہ جاتی ہے۔اس
کی اپنی کوئی مرضی نہیں۔ یہاں تک کہ اسے فریاد کرنے کا حق بھی حاصل نہیں۔
انسان کی ترقی کا دارومدار علم پر ہیمگر اﷲ نے صرف مرد ہی نہیں عورت پربھی
علم لازم و ملزم قرار دیا ہے۔مگر پاکستان کے بہت سے علاقوں میں عورت کی
تعلیم کو غلط نظریے سے دیکھا جاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی عمر میں لڑکیوں کی
شادیاں کردی جاتی ہیں۔ان پہ انکی ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈال کر گدھے گھوڑوں
جیسے کام لیئے جاتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے : جس شحص نے 3 لڑکیوں کی
پرورش کی انکی تعلیم و تربیت کی ان کے ساتھ حسن سلوک رواں رکھا تو اس کے
لیئے جنت کی بشارت ہے۔ اسلام مرد و عورت دونوں کو مخاطب کرتا ہیاس نے دونوں
کو عبادت اور علم و شریعت کا پابند بنایا ہے ۔لپکن ہمارے معاشرے میں مرد کی
تعلیم پر ذیادہ زور دیا جاتا ہے بہ نسبت عورت کے۔حضور اکرمﷺ نے اہل ایمان
کی جنت ماں کے قدموں تلے قرار دے کر عورت کو معاشرے کا سب سے زیادہ مکرم و
محترم مقام عطا کردیا۔ مگر ہمارے معاشرہ میں اسی عورت کو گندی اور غلیظ
نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مرد حضرات جب اپنے زاتی لڑائی جھگڑوں میں ایک دوسرے
کو گالی دینے پر اترتے ہیں تو سب سے پہلے اسی ماں کی گالی دیتے ہیں۔۔قرآن و
حدیث سے مطابقت رکھتے ہوئے حقوق نسواں کو بااختیار رکھنے کیلئے ہر ایسی
کوشش کرنی چاہئے جو قانون کے سامنے عورت کیمقام کو واضح کرے۔۔ جو لوگ عورت
کی عزت نہیں کرتیانہیں گندی نگاہ سے دیکھتے ہیں یا عورت کوانکے مکمل حقوق
دینے سے انکار کرتے ہیں سے میں پوچھتی ہوں کیا یہ ذرا نہیں سوچتے کہ قرآن
اور رسول کیا کہتے ہیں۔ انہیں ذرابرابر بھی احساس نیہں کہ انہیں خدا کے
سامنے جوابدہ بھی ہوناہے۔۔
اسلام امن و سلامتی کا گہوارہ ہے جس کی بنیاد انسانی مساوات پر مبنی ہے۔
اسلام کی آمد سے قبل عرب کی ہولناکیاں سب پر عیاں ہیمگر اسلام نے ان تمام
مظالم کا قلعہ کمند کردیا۔ مگر اس کے باوجود بھی کچھ جاہل اور فرسودہ لوگ
عورت کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔جبکہ انسانی نظامات کی بنیاد مساوات پر مبنی
ہے۔ اسکا مقصد پوری دنیا میں۔امن و سلامتی کی۔فضا قائم کرنا ہے۔ جس میں ہر
حق دار کو اسکا حق پورا پورا ملے اور کوئی کمزور و بے آسرا عورت۔پر ظلم نہ
کر سکے اسکی حق تلفی نہ کر سکے۔ تکہ اولاد آدم و حوا اس دنیا میں اپنی
زندگی سکون سے گزار سکیں۔
|