اعوذباللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بات ہو رہی تھی کہ معاشرے کی اصلاح کیسے ممکن ہے کرپشن کا خاتمہ کیسے ممکن
ہے میں نے کہا کرپشن کا خاتمہ کرنے کے لیے سکولوں کا نظام تبدیل کرنا ہوگا
مکمل طور پر تعلیمی نظام کو تبدیل کرنا ہوگا بلکہ میں تو کہتا ہوں سکولوں
پر پابندی عائد کی جانی چاہیے سارے کے سارے سکول بند کر دیے جانے چاہئیں
اور تعلیم کے لیے نماز کی پابندی ہی کافی ہے کہ ہر سکول کالج اور یونیورسٹی
میں پانچ پیریڈ ہی ہوتے ہیں اور نماز بھی پانچ پیریڈز کی شکل میں موجود ہے
اور جتنا وقت سکول کالج وغیرہ کے پیریڈز کا ہوتا ہے اتنا ہی وقت نماز میں
لگتا ہے لیکن نماز پڑھنے کا فائدہ کسی بھی سکول یا کالج یا یونیورسٹی کا
پیریڈ اٹینڈ کرنے سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ نماز پڑھنا عبادت ہے اور سب سے
بڑھ کر نماز پڑھنا اللہ کا حکم ہے اور جب کوئی بھی بچہ نماز پڑھتا ہے وہ
اللہ کے حکم کو پورا کرتا ہے اور جو نماز باقاعدگی سے پڑھتا ہے اور والدین
کے حقوق رشتے داروں کے حقوق اور ہمسایوں کے حقوق پورے کرتا ہے قرآن پاک کی
تلاوت کرتا ہے اور قران وحدیث سیکھتا ہے اور دوسرا کوئی ہنر سیکھتا ہے یا
جہاد کی تربیّت حاصل کرتا ہے اس کے پاس ان سب باتوں پر عمل کرنے کے لیے
جتنا وقت لگتا ہے ان چیزوں پر عمل کرنا کافی ہے اور فالتو باتوں کے لیے
طالب علم کے پاس چوبیس گھنٹوں میں کوئی فارغ وقت نہیں ملتا -
میں دوسرے طریقے سے بات کو بیان کرنا چاہوں گا کہ جو بھی پانچ وقت نماز
پڑھتا ہے قرآن و حدیث کے متعلق تعلیم حاصل کرتا ہے تلاوت قرآن کرتا ہے فنون
حرب وضرب سیکھتا ہے یعنی جنگی مشقیں کرتا ہے جہادی کھیل کھیلتا ہے اور
والدین کے رشتہ داروں کے ہمسایوں کے حقوق ادا کرتا ہے اس کے لیے 24 گھنٹوں
میں کوئی فالتو وقت نہیں بچتا ہے کہ غیر قانونی یا غیر اخلاقی کام کرے یا
کوئی فضول کام کرنے کے لیے وقت ہی نہیں بچتا ہے اس طرح اصلاح ہی اصلاح ہوگی
اور کرپشن کی عادت ہی نہیں پڑے گی باقی رہ گیا پڑھنا لکھنا تو یہ اپنے بچوں
کو ضرور سکھانا چاہیے کوئی تحریر لکھنا یا کتاب لکھنا یہ ایک اچھا کاروبار
ہے This is Nice Job آرٹیکل لکھنا کتاب لکھنا حساب کتاب لکھنا تقریر یا
مناظرہ کا فن سیکھنا [ یہاں وکالت کو ایک طرف رکھیں کیوں کہ یہ جھوٹ کا
پلندہ ہوتا ہے ] ایسا علم حاصل کرنا کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہا
جائے کیوں کہ یہ افضل ترین جہاد ہے اس میں یہ کہنا ہوتا ہے کہ بادشاہ سلامت
جان کی امان پاوں تو عرض کروں کہ یہ جو فیصلہ آپ نے کیا ہے یہ ظلم ہے اللہ
سے ڈریں اور عدل وانساف سے کام لیں ایسی صورت میں بادشاہ سلامت کلمہ حق
کہنے والے کو سنگین سے سنگین سزا بھی دے سکتا ہے قید کر سکتا قتل کر سکتا
ہے ہاتھ پاوں تڑوا یا کٹوا سکتا ہے یا جلاوطن در بدر بھی کر سکتا ہے اسی
لیے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل ترین جہاد ہے یہ میری تحریر
کلمہ حق ہے ان سب سزاوں میں سے مجھے مل بھی سکتی ہے چنانچہ میں اللہ کی
پناہ میں آتا ہوں -
بات ہو رہی تھی کہ پڑھنا لکھنا فن تقریر سیکھنا فن مناظرہ سیکھنا حساب کتاب
کرنے کی صلاحیّت حاصل کرنا کتاب یا آرٹیکل لکھنے کی مہارت حاصل کرنا اور
جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی طاقت حاصل کرنا یہ سب تعلیم میں شامل
ہے لیکن یہ سب چیزیں سیکھنے کے لیے سکول کالج اور یونیورسٹیاں بنانا فرض
نہیں ہے اور لازمی نہیں ہے یہ کام دکانوں کارخانوں فیکٹریوں منڈیوں اور
بازاروں میں بھی ہوسکتا ہے یہ کام کھیتوں اور باغوں میں اور گائے بھینسوں
کو چارہ ڈالتے ہوئے بھی ہو سکتا ہے الغرض یہ کام یعنی لکھنا پڑھنا حساب
کتاب کرنا اور کوئی بھہ ہنر سیکھنا کام کرتے ہوئے بھی ممکن ہے اس کے لیے یہ
طریقہ تو بالکل ہی نامناسب ہے کہ سارے کام چھوڑ چھاڑ کر بندہ صرف سکول
ٹیچروں کا غلام بن کر ہی رہ جائے اور اپنے آقاوں کی فارمیلٹیاں ہی پوری
کرتا پھرے کہ یونیفارم سیم سیم ہونی چاہیے شوز اور بیجز سیم سیم ہونے
چاہئیں اور باقاعدہ کلاسز لگنی چاہئیں اور عمارت اور کمرے اور اے سی ماحول
فالتو میں ہی ہونا چاہیے یہ سب اسراف ہے مال اور وقت کا ضیاع ہے اور سب سے
بڑھ کر یہ کہ یہ کافروں کا پروٹوکول ہے جو وہ حاصل کرتے ہیں اور پیسہ
مسلمانوں کا خرچ ہوتا ہے بوجھ سرکاری خزانے پر پڑتا ہے اور ان سب اداروں سے
اسلام کو کوئی فائدہ تو درکنار الٹا نقصان ہورہا ہے یعنی اس نظام تعلیم میں
کافروں کے تو وارے نیارے ہیں اور کمائی ہی کمائی ہے اور پروٹوکول کا
پروٹوکول ہے اور پندرہ پندرہ بیس بیس سال مفت میں ہی مسلمانوں کے بچّوں کو
کافروں کا غلام بن کر رہنا پڑتا جو ایک عرصہ ہے انگریزوں کے قانون میں عمر
قید اتنا عرصہ ہی ہوتی ہے یعنی عمر قید جتنا عرصہ مسلمان بچوّں کو کافروں
کا غلام بن کر رہنا پڑتا ہے اس نظام تعلیم میں مسلمان بھی کافروں کے ہاتھوں
کھلونا بن کر اگر کافر نہیں بن رہے ہیں تو مسلمان بھی نہیں کہلوا سکتے -
خاص طور پر اہل پاکستان مسلمانوں کو میں ایک بہت بڑا ٹاسک دے رہا ہوں اس
موضوع پر سب محب وطن پاکستانیوں کو اور غیور مسلمانوں کو اپنا کردار ادا
کرنا چاہیے خواہ وہ پولیس میں ہیں یا فوج میں وہ ڈاکٹر ہوں یا وکیل وہ کسان
ہوں یا صنعت کار وہ تاجر ہوں یا ایمان دار سیاست دان وہ صحافی ہوں یا عام
شہری سب کو اس موضوع پراپنے اپنے مخلصانہ خیالات کا اظہار کرنا چاہیے بیٹھک
میں یا چوپال میں کانفرنس میں یا جلسہ میں کسی ہوٹل یا چائے خانہ میں اس
موضوع کو زیر بحث لانا ہوگا اس لیے کہ مسلمانوں کو سوچ بچار کرنا چاہیے اور
سوچ بچار کر کے سکولوں کے نظام پر پابندی لگانی چاہیے لیکن میری تحریر پہلے
کی طرح مسلمانوں سے پہلے کافروں کے ہاتھ لگ جائے گی کیوں کہ پہلے بھی کئی
بار میں بڑی محنت سے لکھی ہوئی تحاریر کو کھو چکا ہوں اور میری تحریر ردّی
کی ٹوکری میں ڈال دی جائے گی اور میرا برین واش کرکے اس ٹاپک کو ٹھپ کر دیا
جائے گا کیوں کہ را کے ایجنٹ جو بنگلہ دیش سے دس گنا بڑا منصوبہ بنا چکے جس
پر عمل درآمد کرکے وہ پاکستان اور سعودیہ میں بنگلہ دیش اور پاکستان سے بڑی
ناراضگی ڈال کر مسلمانوں کے اتحاد کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہتے ہیں
تاکہ وہ ایشیائی سپر پاور بن جائیں جس منصوبے میں بڑے بڑے سیاست دان شامل
ہیں مولوی فضل الرحمٰن عمران خان اور آصف زرداری طاہرالقادری جیسے سیاست
دان سرفہرست ہیں جو غیر ملکی پیسوں کو بڑی تیزی سے حاصل کر رہے ہیں اور خاص
طور پر را ان افراد کے حواس پر چھائی ہے اور محب وطن سیاست دانوں کو بلیک
میل کیا جارہا ہے اور ان کو نااہل بنایا جارہا ہے حالانکہ اللہ نے تو
مسلمان حکمرانوں سے وفاداری کا حکم دیا ہے لیکن نوٹوں کا بہت پردا ہے جو ان
کی آنکھوں پر پڑا ہوا ہے-
کیوں کہ کافروں کا شکنجہ نظام تعلیم کے ذریعے مضبوط سے مضبوط تر ہو چکا ہے
کہ وہ اب مسجدوں کو تالے لگوا کر بے آباد کر دینا چاہتے ہیں اس کام میں وہ
یعنی را والے پرائویٹ سکولوں کے ذریعے بڑی آسانی سے اپنی غیر قانونی
سرگرمیاں پورے ملک میں پھیلا رہے ہیں ان سکولوں پر پابندیاں دہشت گرد
تنظیموں سے زیادہ اہم ہیں کیوں کہ دہشت گرد تنظیموں نے اپنے دفتر پرائویٹ
سکولوں کی شکل میں بنا لیے ہیں اور تیزی سے بنا رہے ہیں اور اپنے دہشت
گردانہ عزائم کو پہلے سے زیادہ آسانی اور تیزی سے پورے کر رہے ہیں اور
مدرسے تو اب اتنے پاپوکر رہے نہیں ہیں کیوں کہ لوگ مدرسوں سے مایوس ہوچکے
ہیں جو تھوڑے بہت مدرسوں میں بچّے پڑھتے ہیں وہ سیاست دانوں کے جیالوں کے
ہیں جو اپنے لیڈروں کو خوش کرنے لیے اپنے بچوّں کو مدرسوں میں بھیج دیتے
ہیں جن کی تعداد بھی ناہونے کے برابر ہے جس وجہ سے وہ امیر لوگوں کے فارم
ہاوس ہی بن چکے ہیں وہاں وہ اپنے اثر و رسوخ سے کلعدم تنظیموں کے بھی
پروگرام کراتے رہتے ہیں ان سب سرگرمیوں کو بند کیا جانا چاہیے یہ خطرناک
ہیں ان جگہوں پر اسلامی حکومت کے خلاف گیم پلان بنائے جاتے ہیں تاکہ حکومت
استعفٰی دے اور ہم برسر اقتدار آکر ملک کے خزانوں کو لوٹ کر اپنے اکاونٹس
میں جمع کرا سکیں اور جب ملک پر کافروں کا قبضہ ہو گا تو ہم بیرون ملک
فرارہو جائیں گے اور وہاں موجود اپنے محلات میں عیش وعشرت کی زندگی گزاریں
گے اور وہاں جو ان کے اکاونٹس کھلے ہوئے ہیں ان سے اپنے کاروبار چلائیں گے
ملک جائے جہاں مرضی اگر ہندوستان کی حکومت آ جائے گی پاکستان میں تو انھوں
نے ہندوستان میں اپنی پہلے سے گیدرنگ بنا رکھی ہے پھر ان کے اور بھی کام
آسان ہو جائے گا کہ وہ سٹیٹس والا ملک ہے کہ اعلیٰ ذات کے لوگوں میں شامل
ہو جائیں گے اور غریبوں پر مزے سے ظلم کریں گے وہاں تو تمام کبیرہ گناہوں
پر عمل کرنا پاکستان سے زیادہ آسان ہے بلکہ وہاں تو قانوںی سر پرستی حاصل
ہے شرک بدعت لوٹ مار زنا کاری سود خوری شراب خوری جوا ڈانسرز کا ڈانس اس
طرح کے سب کبیرہ گناہوں کا ارتقاب کرنے میں وہاں تو دلہن ایک رات کی والا
ماحول ہے کہ پیسے دو اور خوبصورت سے خوبصورت عورتوں کے ساتھ عیش وعشرت کرو
اور بہت سارے سیاست دان تو اس لیے دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں کہ وہاں انھوں
نے بڑے بڑے نفسوں والوں سے اپنی لوط کا ٹھرک پورا کرنا ہوتا ہے یعنی اپنی
دبر میں مباشرت کرانی ہوتی ہے اللہ کی پناہ ایسے بے غیرت اپنے ساتھ فعل قوم
لوط کرانے والوں سے کیوں کہ وہاں تو اس کام کو ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے کہ
آدمی کا غرور ختم ہوتا ہے معاذ اللہ العیاذ اباللہ -
کافروں کا شکنجہ نظام تعلیم پر خوب سے خوب مضبوط ہو چکا ہے تعلیم کی اہمیت
بہت ہے لیکن ساتھ ساتھ پریکٹیکل بھی ہونا چاہیے اور بچّوں کی محنت کا ان کو
معاوضہ بھی ملنا چایے جس بچّے نے انجینئرنگ سیکھنی ہے اس ورکشاپ میں کام
کرنا چاہیے اور جو بھی کام کرے گا اس کا معاوضہ ملنا چاہیے اگر ہیلپر کا
کام کرے اور صاف صفای کا کام کرے تو اس کے پیسے اس کو ملنے چاہئیں کسی
کارخانے یا فیکٹری میں کام کرنے کی صورت میں اس کو اس کا معاوضہ ملنا چاہیے
حتّی کہ کسی گھر میں جھاڑو لگائے کپڑے دھوئے برتن دھوئے یا پانی لاکر پلائے
یا کھانا سرو کرے ان سب کاموں کا اس کو معاوضہ ملے جو وہ اپنے گھر والوں کو
جاکر دے تو اس طرح سے بچّے حلال طریقے سے سلیقہ مند بھی بنیں گے اور ان کو
تعلیم دلانا بھی اس کے کفیلوں کی ذمّہ داری ہونی چاہئیے اس طرح سے فضول
خرچیوں کا خاتمہ ہوگا اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا اور ملک کا سکہ قیمتی
بنے گا اور پندرہ بیس سال کی غلامی سے بھی نجات ملے گی اور پڑھنا لکھنا بھی
ساتھ ساتھ ہوتا رہے گا یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ذیادہ ہی کام لیا جائے اور
بچّے کی تعلیم وتربّیت اور نشوو نما کا لحاظ ہی نا رکھا جائے کیوں کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے غلام زید بن حارثہ کو اتنا پیار دیا کہ
انھوں نے اپنے سگے ماں باپ کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اس طرح سے بچّے کو
نمازبھی پڑھائی جانی چاہئیں کیوں کہ انسان جن لوگوں کا کفیل ہوتا ہے ان کو
نماز پڑھانا اور دین پر چلانا اور اسلامی قوانین کی تعلیم اور پاسداری
کرانا اس کا فرض ہے لیکن موجودہ سکولوں میں نا تو بچّوں کو کوئی معاوضہ دیا
جاتا کہ انکم کی بجائے خرچہ کراتے ہیں سکولوں والے دوسرا اسلامی قوانین کے
بارے میں کوئی تعلیم بھی نہیں دی جاتی اور عمل درآمد کرانا تو دور کی بات
ہے اور نماز خود نہیں پڑھتے تو بچّوں کو اور شاگردوں کو کیا پڑھائیں گے اور
حقوق اللہ حقوق العباد اور رشتے داروں کے حقوق ہمسایوں کے حقوق مہمانوں سے
حسن سلوک اور کبیرہ گناہوں سے کیسے بچنا ہے اعلیٰ اخلاق اور کردار کا مالک
کیسے بننا ہے ان سب باتوں کی تعلیم برائے نام ہوتی ہے اور پڑھنے لکھنے کی
حد تک ہے عملی طور پر کوئی پریکٹس نہیں کرائی جاتی البتّہ ان کافروں کا
کلچر سکھایا جاتا ہے جو اس کام کے سیاست دانوں کو پیسے دیتے ہیں کہ جہاد کا
لٹریچر کتابوں سے غائب کرنا ہے اس کام کے اتنے پیسے ملیں گے اسلام کی تعلیم
کا چیپٹر غائب کرنا ہے اس کا م کے اتنے پیسے ملیں گے ہمارا کلچر ایسے طالب
علموں میں انڈیلنا ہے اس کام کے اتنے پیسے ملیں گے تو ہمارے سکولوں سے جو
فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور جس شعبہ میں بھی جاتے ہیں کرپشن سے ہی جاتے ہیں
اور کرپشن سے ہی اپنے پیسے پوری کرتے ہیں تو یوں ملک میں 90 پر سینٹ کرپشن
ہو رہی ہے -
جہاں تک تعلق ہے چائلڈ لیبر کا تو دنیا میں چائلڈ لیبر منع ہے لیکن اسلامی
معاشرے میں یہ غلط اور حرام نہیں ہے کہ بچّے مل کر باغوں میں کھیتوں میں
فیکٹریوں میں کارخانوں اور ملّوں میں کام کریں کہ ساتھ ساتھ پڑھائی کاکام
بھی ہوتا رہے اور بچّوں کو ان کی تنخواہ بھی ملے یہ ایسے ہی ہے جیسے چائلڈ
اداکار ہیں وہ بھی تو کام کرتے ہیں اور پیسے کماتے ہیں حالانکہ اسلام میں
اداکاری کی کمائی جائز اور درست نہیں ہے جیسے سیکولرازم میں چائلڈ لیبر
درست نہیں ہے کیوں کہ اداکاری کی کمائی حرام ہے لیکن بچّے اچھے طریقے سے
کام کریں کہ ان پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جانا چاہیے کیوں کہ اسلام طاقت سے
بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا یعنی بچّوں کے ایک جائز کام پر پابندی لگانا ظلم ہے
کہ بچّے صرف پڑھائی کے نام پر کافرانہ نظام کی غلامی کریں گے یہ ظلم ہے مگر
جس کام کے بارے میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ بچّوں کو زبردستی کرانا ہے یعنی
نماز پڑھانا اسلامی قوانین کا علم سکھانا اور اس پر عمل درآمد کرانا یہ سب
زبر دستی کرانے کا حکم ہے لیکن یہ کام سیکولرازم کی نظر میں ظلم ہے کہ
بچّوں کو زبردستی نماز پڑھانی اور دوسرے اسلامی قوانین پر عمل درآمد کرانا
ظلم اور نا انصافی ہے یہ سراسر اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ ہے
کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ بچّوں کو سکول میں پڑھانا لازمی ہے ورنہ بڑے ہوکر اس
کی ہر طرح کی صلاحیّتیں بے معنی اور ناقابل قبول ہوں گی ان کو کسی سرکاری
یا غیر سرکاری ادارے میں ملازمت نہیں ملے گی -
کیا یہ ظلم ہے کہ بچّے کام کرکے تنخواہ حاصل کریں اور آزادانہ زندگی گزاریں
اور جہادی کھیل کھیلیں اور اپنی جسمانی فٹنس سنواریں ہرگز نہیں بلکہ بچّوں
کواسلامی طریقے سے کام کاج کر کے کمائی اور ترقّی کرنے کا حق حاصل ہے اور
اللہ کے حکم کے مطابق اسلامی اور جہادی کھیل کھیل کر اپنی جسمانی فٹنس کو
سنوارنا اور اللہ کو راضی کرنا ان کا حق ہے ان کو زبر دستی ان کاموں سے منع
کرنا ان پر ظلم ہوگا اور جہادی اور اسلامی کھیل کھیلنے سے ان کی سند اور
صلاحیّتوں کو قابل قبول کیا جانا چاہیے
خاص طور پر پاکستانیوں کو اس نظام تعلیم کو دنیا میں متعارف کرانا چاہیے اس
طرح سے کہ لوگ اسلام کی طرف کھچے چلے آئیں اور ہمارے ملک سے بے روزگاری کا
خاتمہ ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فوج میں زیادہ سے زیادہ بھرتی ہو اور
بچّوں کو مٰعوذ اور معاذ کی طرح اسلامی فوج میں شامل کیا جانا جاہیے تاکہ
وہ وردی حاصل کر کے ساتھ ساتھ جہادی کھیل کھیلیں اور کام بھی کریں اور
تعلیم بھی حاصل کریں ہاں اگر مسئلہ محاذ پر لے جانے کا ہوتو پھر ان کا
امتحان لے لیں اور محاذ جنگ پر لے جائیں لیکن یہ تو نہیں کہ عوام یہ سوچیں
کہ ہم اپنے بچّوں کو فوج میں بھرتی کرائیں گے تو جاتے ہی اس کو جنگ میں
بھیج دیا جائے گا اور وہ شہید ہو جائے گا ایسا نہیں ہو گا بلکہ جب وہ
امتحان میں کامیاب ہو جائے گا تو اس کو محاذ پر جانے کی اجازت ملے گی اس
طرح سے اسلامی فوج میں کروڑوں کی تعداد ہو جائے گی اور دوسرے ملکوں سے لائے
ہوئے کروڑوں غلاموں کو بھی وہ اپنے بس میں کر سکیں گے اور چھوٹے موٹے کام
وہ غلام کریں گے اور ہمارے فوجی جوان ان کے کفیل بن کر جسمانی فٹنس اور
تعلیم کی طرف توجہ کر سکیں گے اور جو غلام یا لونڈی فوج کے امتحانات پاس
کرلیں گے میرٹ کے مطابق ترقّی بھی کرے گا اور آزادی بھی حاصل کرے گا اور
ایک آزاد اور خود مختار شہری کی حیثیّت سے سینئر سٹیزن کی طرح زندگی بھی
گزار سکے گا مگر ہمارے سیاست دان اس نطام تعلیم کو کبھی قبول نہیں کریں گے
اور دشمن ملک والے اپنے مذہب کے مطابق پالیسیاں بنا کر ان سے دین اور ملک
چھین لیں گے ہمارے سیاست دان بڑا تیر ماریں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم ایٹمی
پاور ہیں ہم یہ کر دیں گے ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھی ہیں قارئین کرام ایٹم
والی بات تو بہت دور ہے اس سے پہلے جو کرنے والے کام ہیں وہ نہیں کریں گے
تو ایٹم بم تو دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور دشمن ہم پر غالب آجائیں گے اور
پھر وہ یہ ایٹمی پاوریں بھی ہم سے چھین لیں گے اس لیے ایسا نظام تعلیم ملک
میں رائج کرنا ضروری ہے جس کے ذریعے ہندوستانی لوگ ہمارے ملک میں آئیں
اورایک بہترین مسلمان بن کر یہاں زندگی گزاریں اور ہمارے ساتھ مل کر
پاکستان اور عالم اسلام کا دفاع کریں اور ہم اس قابل ہو سکیں کہ سیکڑوں
محاذوں پر جنگ کر رہے ہوں اور ہر طرف سے جیت ہماری ہورہی ہو ایسا اسلامی
نظام تعلیم رائج کرنے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے ------------- جاری ہے |