قتل کی اقسام

گفتار کے غازی معاشرے کو دکھ بھرے سلام کے بعد، صداۓ بیداری کی ایک پر امید کوشش لئے، حاضر خدمت ہوں۔ وہ امید جو مجھے اقبال کے اس مصرعے نے دی، "ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی"، اسی امید کا دیا لئے، اس زرخیز مٹی کے لئے الفاظوں کی شکل میں تھوڑی سی نمی لے کر آج میں نے بھی اس ہدایت کو دہرانے کی کوشش کی ہے جو ہمارے دین نے ہمیں دی کہ "ایک انسان کا قتل گویا پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے"۔ ہم میں سے بیشتر لوگ قتل کی شاید ایک ہی قسم سے متعارف ہیں اور وہ یہ کہ بس کسی کا خون بہا کر اس کی جان لے لینا ہی قتل ہے۔ مگر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے ارد گرد کئ دوسری قسم کے قتل بھی جاری ہیں، جیسے جذبات کا قتل یاپھر کسی مجبور یا بےکس کو جیتے جی مار ڈالنا۔ وڈیروں اور جاگیرداروں نے مزارع اور غریب ہاریوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ شاید آپ کو کبھی ان کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا ہو مگر میں کچھ اذیت انگیز مناظر کا چشم دید گواہ ہوں۔ ان میں سے ایک مختصر سا واقعہ ایک غریب کسان کی معصوم سی نیٹی کا ہے جس نے اپنے باپ سے اسکول داخل ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ جب گاؤں کے وڈیرے تک یہ بات پہنچی تو وہ اتنا برہم ہوا کہ نہ صرف غریب کسان بلکہ اس کے پورے کنبے کو خون کے آنسو رونا پڑے۔ کیا یہ خون نہیں کہلاۓ گا؟ کیا ہم اسے اس معصوم بیٹی کے روشن مستقبل کی موت اور اس لاچار و بے بس باپ کے ارمانوں کا قتل نہیں کہیں گے؟ جی ہاں، نہ صرف یہ کہ یہ سو فیصد قتل ہے بلکہ قتل سے بھی کہیں بڑھ کر ہے اور جسے ہم زیادتی کہہ کر غافل ہیں۔ ہمارے ہاں روز بروز بڑھتی ہوئ طبقاتی اور معاشی تقسیم جو کہ ریاستی بدعنوانیوں کا نتیجہ ہے، ایسے قاتلوں کی پیداوار میں اضافہ کا باعث ہے۔ یہ تو تھا وڈیرانہ اور جاگیردارانہ نظام میں جکڑے ایک غریب کسان خاندان کا ایک دردناک واقعہ۔ اب شہر کی طرف آجائیں تو یہاں بھی ایسی وارداتوں کی کمی نہیں ہے۔ شہری آبادی کے بظاہر پڑھے لکھے مگر عملی طور پر جاہل امراء کے گھروں میں وہ ملازمین جو بے چارے کسی نہ کسی مجبوری کی بناء پر، اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی غرض سے شب و روز اپنی عمریں اور اپنی جوانیاں ان بڑے بنگلوں میں رہنے والوں کی خدمت میں گزار دیتے ہیں۔ ان میں اکثر مالک اپنے نوکروں سے جو سلوک روا رکھتے ہیں وہ فرعونیت سے کم نہیں ہوتا۔ ملازمین کے جذبات کا قتل ان کے لئے کسی کھیل تماشے سے کم نہیں ہوتا۔ یہ ہمارے ارد گرد ہونے والے وہ ظلم وستم ہیں جنھیں عام طور پر معمولی زیادتیاں سمجھا جاتا ہے، جب کہ یہ کسی بھی بے رحمانہ قتل سے کم نہیں۔ حقوق اللہ کی اہمیت اپنی جگہ، مگر حقوق العباد ایک ایسا حساس اور قابل فہم معاملہ ہے جس کی اہمیت اللہ کے نزدیک بھی بہت زیادہ ہے۔ ہم اخلاقی طور پر روز بروز ایسی بد اخلاقیوں کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں کہ بعض اوقات ہم خود بھی نہیں جانتے کہ ہم وہ اخلاقی قتل کر رہے جو قانون کی کتاب میں تو کوئ جرم نہیں مگر انسانیت کی کتاب میں اس کا درجہ قتل کا ہے۔ دنیا میں تو اس کی کوئ عدالت نہیں مگر ان مجبور اور بے سہاروں کے لئے میرے اور آپ کے منصف اعلیٰ رب کے ہاں بہت بڑی انصاف کی عدالت ہے۔

جب ہم طاقت کے زعم میں دانستہ کسی کے ارمانوں کا خون کرتے ہیں، تب ہم اپنی طرف سے اسے سبق سکھا رہے ہوتے ہیں مگر حقیقتاً سبق اسے نہیں، ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہم سب کو اس قسم کے قتل سے جلد از جلد آشنا ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں نسل انسانی کی بقاء اور ترقی کے لئے اس اخلاقی قتل سے اجتناب کرنا ہوگا ورنہ ہم کڑے امتحان کے لئے تیار رہیں کیوں کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔

آئیے آج سے ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ اپنے سمیت، ہم سب کو یہ تبلیغ کریں گے اخلاقی قتل کو خون بہانے والے قتل سے بھی گھناؤنا جرم شمار کیا جاۓ اور احساسات کے قتل کو سمجھنے کی کوشش کی جاۓ۔

Asif Rana
About the Author: Asif Rana Read More Articles by Asif Rana: 2 Articles with 2495 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.