صوبہ ہزارہ تاریخ کے آئینے میں

تحر یر ۔۔۔ سید کمال حسین شاہ
ہزارہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک ڈویژن ہے ۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے اضلاع ہریپور، ایبٹ آباد مانسہرہ،تورغر، بٹگرام، لوئرکوہستان اوراپرکوہستان ہزارہ میں آتے ہیں۔ ہزارہ ڈویژن کے بڑے شہر ایبٹ آباد، مانسہرہ اور ہری پور ہیں۔ ہندکو، کوہستانی اور پشتو یہاں کی بڑی زبانیں ہیں ہزارہ ڈویژن پاکستان کا وہ واحد ڈویژن ہے ۔ جو کسی مخصوص جگہ کا نام نہیں ، ہزارہ ڈویژن صوبہ سرحد کا مشہور و معروف ڈویژن ہے ۔قیام پاکستان کے موقع پر مختلف علاقوں میں استصوابِ رائے کروایا گیا۔ اس وقت بھی خدائی خدمتگار تحریک کی سخت مخالفت کے باوجود ہزارہ کے لوگوں نے سو فیصد ووٹ دے کر صوبہ سرحد کو پاکستان میں شامل کرایا۔ہزارہ میں الگ صوبے کا مطالبہ سب سے پہلے 1958 میں اس وقت سامنے آیا جب مفتی محمد ادریس اور عبدالخالق نامی دو مشہور وکلائنے ایک تنظیم بنائی تاہم اس وقت وہ کوہستان پر مشتمل ایک صوبہ کی بات کرتے تھے ۔ صوبہ کوہستان کے لیے جو آواز اٹھائی گئی اس کے حدود ہزارہ ڈویژن سے باہر بھی تھے ۔ ان کا یہ مطالبہ تھا کہ مری کے پہاڑ بھی ہزارہ کا حصہ ہونا چاہیے کیونکہ ہزارہ اور مری کے پہاڑی سلسلے آپس میں ملتے ہیں اور فطری طورپر یہ ایک دوسرے کا حصہ ہے صوبہ ہزارہ کی تحریک 1987 سے آصف ملک ایڈووکیٹ مرحوم چلا رہے تھے ۔ کئی مرتبہ قید بند کی تکالیف اٹھائیں، مگر کامیاب نہ ہوسکے اور اﷲ کو پیارے ہو گئے ۔ یہ سارے سیاست دان جو آج صوبہ ہزارہ کی تحریک کی قیادت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں، یہیں رہتے رہے ہیں اور آصف ملک مرحوم سے واقف تھے ۔ مگر ماضی میں شائد اس تحریک میں اتنی کشش نہ تھی جتنی آج ہے ۔ لہٰذا مرحوم کو خود ہی جدو جہد کرنا پڑی۔ہزارہ قومی محاذ پہلی مرتبہ پورے ہزارہ ڈویژن میں عوام کی توجہ کا مرکز اس وقت بنی جب 1997 میں پہلی بار صوبہ پختوان خواہ کی قرارداد سرحد اسمبلی سے پاس ہوئی ۔ اس کے خلاف تنظیم نے بھرپور ردعمل کا اظہار کیا اور ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر سارے ڈویژن کو سیل کردیا اور تقریباً اڑتالیس گھنٹوں تک شاہراہ ریشم بند رہی ۔ پختون خواہ کی قرارداد اس وقت کے وزیر سرحد سردار مہتاب احمد خان عباسی کے دور میں پاس ہوئی تھی جس کا تعلق بھی اسی ہزارہ ڈویژن ہی سے ہیں۔ صوبہ ”سرحد“ کا نام تبدیل کرا کے اسے صوبہ ”خیبر پختونخواہ“ کا نام دیا ہے اس صوبے کے اندر آ جانے والے ”ہزارہ“ قبائل نے صوبہ سرحد کے نام کی اس تبدیلی کو تسلیم نہیں کیا ہے اور بزرگ سیاستدان سردار حیدر زمان کی سرکردگی میں ”خیبر پختونخواہ“ کے اندر آباد ”ہزارہ“ قبائل کے اطمینان لئے ”ہزارہ“ کے نام سے ایک الگ صوبہ بنا دینے کا مطالبہ کر دیا ہے اپریل2010ء میں جب قومی اسمبلی میں اٹھارویں ترمیم میں صوبہ سرحد کا نام تبدیل کیا گیا تو سوئے شیروں نے انگڑائی لی اور ایسی زبردست تحریک چلائی جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس تحریک کے دوران 7لوگ شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے ۔ تمام قومی اور علاقائی جماعتیں ہزارہ کی سطح پر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوئیں……حال ہی میں وفاقی حکومت نے فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں شامل کرنے یا الگ صوبہ بنانے کے لئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی قیادت میں فاٹا ریفارمز کمیٹی تشکیل دی ہے ۔ اس سے ہزارہ کے عوام میں شدید تحفظات پیدا ہوئے ہیں۔ ہزارہ کے عوام میں پہلے ہی سے محرومیاں موجو د ہیں۔
مئی2013ء کے الیکشن سے قبل موجودہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سمیت تمام قومی رہنماؤں نے اپنے جلسوں میں ہزارہ صوبہ کی بھر پور حمایت کی تھی مگر حکومت ملنے کے بعد سب کو اپنے وعدے بھول گئے ۔ سردار محمد یوسف جو کہ آل پارٹیز صوبہ ہزارہ تحریک کے چیئرمین تھے ، وفاقی وزیر بن گئے ۔ سردار یوسف کی سر براہی میں 2013 کے بعد ہزارہ بھر کے منتخب نمائندوں کے 4 بھرپور اجلاس منعقد ہوئے ہیں۔ جن میں ہزارہ کے تمام ایم این ایز اور سینیٹرز شریک ہوہے ۔ مارچ 2015 میں صوبہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں صوبہ ہزارہ کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کی گئی۔جب فاٹا ریفارمز کمیٹی بنی تو اس کے فوراً بعد ایبٹ آباد میں صوبہ ہزارہ تحریک کا اجلاس منعقد ہوا ۔ جس میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی، صوبائی وزراء، ایم این ایز ، ایم پی ایز، سینیٹرز اور ضلعی و تحصیل ناظمین نے شرکت کی جس میں ہزارہ کی کمیٹی کو ہزارہ کے عوام کی قومی سطح پر نمائندگی کا اختیار دیا گیا جبکہ یہ مطالبات بھی کئے گئے کہ وفاقی حکومت فاٹا کو صوبے میں نہ شامل کرے بلکہ فاٹا کے عوام کو آئینی حقوق دیئے جائیں لیکن ہزارہ کو صوبہ بنایا جائے کیونکہ ہزارہ صوبہ کا مطالبہ لسانی، نسلی یو فروعی بنیادوں پر نہیں بلکہ خالصتاً انتظامی بنیادوں پر ہے اور صوبے سے متعلق کوئی بھی نیا فیصلہ کرنے سے قبل مردم شماری کروائی جائے ……

اس وقت ہزارہ ڈویثرن کی طرف سے سب سے زیادہ ریونیوجا تا ہے ۔تربیلا ڈیم سے کھربوں کی آمدن ہو رہی ہے جبکہ خان پور ، کھواڑ، الائی، داسو اور سکھی کناری ڈیم زیر تعمیر ہیں۔ پا ک چائنا کاریڈور بھی اسی علاقے سے ہو کر گزرے گا۔ ہزارہ کے جنگلات سے حکومت کو 20ارب سے 25ارب روپے کی آمدن ہو سکتی ہے جبکہ سیروسیاحت کے حوالے سے بھی یہ علاقہ پوری دنیا میں مشہور ہے لیکن انفراسٹرکچر کی حالت قابل رحم ہے ۔ ناکافی سہولتوں کے باوجود پوری دنیا سے سیاحوں کی آمد سے اربوں کی آمدن ہوتی ہے ۔ صوبے کے تین انڈسٹریل زونز میں سے اس وقت سب سے زیادہ فعال ہزارہ بیلٹ کا انڈسٹریل زون ہے ۔ یہاں پر دنیا کی بہترین چائے اور اعلیٰ درجے کا تمباکو پیدا ہوتا ہے ۔ ان ساری چیزوں کو اگر مربوط کیا جائے تو ہزارہ ہی وہ صوبہ ہو گا جہاں سے مرکز کو تقویت ملے گی……

ہزارہ تحریک میں شامل تمام جماعتیں قومی سطح پر اپنا اپنا موقف رکھتی ہیں لیکن ہزارہ صوبہ کے معاملہ پر تمام رہنما اور جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔تحریک صوبہ ہزارہ جنرل سیکرٹری فدا حسین نے بابا جی قیادت ۷۱۰۲ مین دوبارہ جان ڈالی۔ جس مین بے شمار عدیل شیخ جسے بے لوث کارکن شامل ہیں …… صوبہ ہزارہ جنرل سیکرٹری فدا حسین نے بابا جی قیادت میں عمران خان کی ایبٹ آباد آمد کے موقع پر احتجاج کا اعلان کر دیا۔ تحریک صوبہ ہزارہ اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے فوارہ چوک میں دھرنا دے گی، تاجروں نے بھی تحریک صوبہ ہزارہ کی حمایت کرتے ہوئے شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے ۔ تحریک صوبہ ہزارہ نے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ تحریک صوبہ ہزارہ کے سربراہ بابا حیدر زمان اور پارٹی کے سیکرٹری جنرل سردار فدا حسین نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے 12 اپریل کو اپنے 8 مطالبات پیش کئے تھے ، جن میں سے ابھی تک کسی پر عملدرآمد نہیں ہوا، کل تک ہمارے ساتھ بیٹھ کر شہدائکی ایف آئی آر کا مطالبہ کرنے والے آج حکومتی ایوانوں میں جا کر شہداء کی ایف آئی آر کیوں بھول گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا 14 مئی کو ایبٹ آباد آمد کے موقع پر راستہ روکیں گے ، ہمارے مطالبات پورے کر دیئے گئے تو احتجاج ختم کر دیں گے ۔

۲۱ مئی صوبہ ہزارہ جنرل سیکرٹری فدا حسین کے صوبائی حکومت سے مذکرات احتجاجی مظاہرے کی کال واپس لے کر اپنا احتجاج مؤخر کردیا ہے ۔معاہدے پر صوبائی حکومت کی جانب سے اسپیکر اسد قیصر اور تحریک ہزارہ کی جانب سے سردار فدا حسین نے دستخط کیے جبکہ اس موقع پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر مشتاق احمد غنی ،عبد الحق ،ایم پی اے زرگل خان بھی موجود تھے ۔صوبا ئی حکومت نے سانحہ 12 اپریل میں شہید ہونے والے افراد کے ورثا کو 50 لاکھ روپے اور زخمیوں کو پانچ ،پانچ لاکھ روپے دینے اور سانحے کے دوران معذور ہونے والے افراد کو سرکاری ملازمتیں دینے کے ساتھ ساتھ صوبہ ہزارہ کے قیام کے لیے پارٹی کی کور کمیٹی میں نئی قرارداد لانے کا بھی فیصلہ کیا گیا جبکہ حویلیاں سے تھاکوٹ تک ریلوے لائن ،سکی کناری ڈیم کے متاثرین کو بھاشا دیامر ڈیم کی طرح معاوضہ ادا کرنے ،سیاحت کے فروغ کے لیے سی پیک سے فنڈ ز دینے کی صوبائی اسمبلی سے قراردادیں منظور کراکے وفاق کو بھیجنے اور ان منصوبوں کو سی پیک میں شامل کروانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ۔ایبٹ آباد شہر خوبصورت بنانے کے لیے سی پیک سے فنڈز مختص کرانے کے ساتھ ساتھ ہزارہ کے حقوق کے لیے صوبائی اسمبلی کی سطح پر جدو جہد کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔اس موقع پر اسپیکر کے پی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ ہم اس معاہدے کی مکمل پاسداری کریں گے ۔ ہزارہ کے عوام کے حقوق اور صوبہ ہزارہ کے قیام کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دیں گے ۔اس موقع تحریک ہزارہ کے سیکرٹری جنرل سردار فدا حسین نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت،اسپیکر کے پی اسد قیصر ،وزیر اعلیٰ کے مشیر مشتاق احمد غنی اور ایم پی اے زرگل خان کے شکرگزار ہیں جنہوں نے ہمارے مطالبات کی منظوری کے لیے ہمارے ساتھ تعاون کیا ۔انہو ں نے مزید کہا کہ سانحہ 12 اپریل کی جوڈیشل انکوائری کو چیلنج کریں گے کیونکہ اس انکوائری میں کسی کو بھی ملزم نہیں ٹھہرایا گیا، اس لیے آج تک ایف آئی آر درج کروانے میں بھی مشکلات درپیش ہوئیں۔ اس موقع پر مذاکرات میں تحریک ہزارہ کے رہنما سلطان العارفین ،تاجر رہنما سردار شاہنواز ،پی ٹی آئی کے ڈویژنل سیکرٹری آصف زبیر و دیگر بھی موجود تھے ۔دریں اثنا مشتاق احمد غنی نے کہا کہ ہم مذکرات میں شامل ہونے والے تمام افراد کے شکرگزار ہیں ۔انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ تحریک انصاف حکومت کی جانب سے ہزارہ میں میگاپراجیکٹس کے آغاز کی بدولت علاقے میں خوشحالی آئے گی۔

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525199 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.