سب سے بڑی جمہوریت، برداشت اور عدم تشدد کا پرچارک
کرنے والے مہاتما گاندھی کے نام لیواپاک انڈیا ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف
کنٹرول پر بار بار جارحانہ کارروائیاں کر کے دو ایٹمی قوت کے حامل ممالک
میں جنگ کروانے کی کوششوں میں مصروفِ عمل دکھائی دے رہے ہیں۔بھارتی فوج کی
یہ ’’شرارتیں‘‘ کسی بھی وقت خوفناک ایٹمی جنگ کے آغاز کا موجب بن سکتی ہیں۔
صورتحال کی سنگینی میں شدت کی وجہ یہ ہے کہ بھارتی وزارتِ دفاع نے17ٹن وزنی
اور 2ہزار کلومیٹر رینج کے حامل جوہری صلاحیت رکھنے والے اگنی 2بیلسٹک
میزائل سمیت 300کلومیٹر رینج کے حامل براہموس سپر سانک کروز میزائل بڑی
تعداد میں پاک انڈیا سرحد پر ڈیپلائے رجمنٹوں کے حوالے کرکے ان کو آپریشنل
بھی کر دیا ہے ۔یہ الارمنگ صورتحال حکومت ِ پاکستان ، حزب اختلاف کی تمام
جماعتوں ، پاک فوج اور پوری قوم کے لئے لمحۂ فکریہ ہے ۔
دوسری جانب ایرانی چیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد حسین باقری نے 9مئی کو کھل
کر پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ اگر پاکستان میں موجود دہشت
گردوں کے ٹھکانوں کو ختم نہ کیا گیا تو ایرانی فوج از خود پاکستان میں گھس
کر کارروائی کرے گی ۔‘‘یہ اندازِ تخاطب صاف چغلی کھا رہا ہے کہ ایرانی سپہ
سالارِ اعلیٰ بھارت کا پڑھایا سبق دہرا رہے ہیں۔ایران کے سابق صدر محمود
احمدی نژاد کے دور میں پاک ایران تعلقات مثالی رہے ہیں لیکن موجودہ ایرانی
حکومت کا لہجہ اور طرز عمل پاکستان کے ساتھ اکثر اوقات انتہائی تلخ نظر آتا
ہے جو پُر امن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت کسی بھی طرح مناسب نہیں ۔
ایرانی آرمی چیف کا حالیہ غیر ذمہ دارانہ بیان اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال گرفتار بھارتی دہشت گرد کلبھوشن ایران سے غیر قانونی
طور پر پاکستان میں داخل ہوا تھا ۔ ایران میں مقیم اس بھارتی جاسوس کا مشن
سی پیک منصوبہ اور گوادر پورٹ منصوبہ کو ثبوتاژ کرنا تھا جبکہ کلبھوشن
پاکستان میں ہونے والی متعدد تخریب کاری کی وارداتوں کا ماسٹر مائینڈ بھی
تھا۔اس لحاظ سے تو احتجاج کرنے کا حق پاکستان کا بنتا ہے کہ ایران اپنے ہاں
کلبھوشن جیسے پاکستان دشمن ’را‘ ایجنٹوں کو ویزا اور قیام کی سہولیات کیوں
فراہم کرتا ہے؟
تیسری جانب افغان فوج گزشتہ چند ہفتوں کے دوران مسلسل پاک افغان سرحد کے
مختلف مقامات پر جارحانہ بلکہ تخریبی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، جن میں
دونوں طرف سے 80کے قریب افراد جاں بحق جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہو چکے
ہیں۔اس گھمبیر صورتحال کے تناظر میں افغان حکومت کا لب و لہجہ بھی اس بات
کی غمازی کر رہا ہے کہ وہ بھارت کی’’حکم‘‘ پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کی
بہتری نہیں چاہتے ہیں۔بھارت ، ایران اور افغانستان کا ایک وقت میں پاکستان
کی سرحدوں پر جارحیت کرنا اور تینوں ممالک کے لب و لہجے کی درشتگی واضح کر
رہی ہے کہ اس کے پیچھے بہت بڑی سازش اور تینوں ممالک کی مشترکہ منصوبہ بندی
کار فرما ہے ۔یقینااس سازش کی ماسٹر مائینڈ بھارت سرکار اوران کی خفیہ
ایجنسی ’را‘ ہیں۔کلبھوشن کو موت کی سزا سنائے جانے، مقبوضہ کشمیر کے عوام
کاکشمیر پر بھارتی قبضہ کے خلاف بڑھتا ہوا غم و غصہ ،وادی ٔ کشمیر میں جوش
پکڑتی تحریکِ آزادی اور تحریک طالبان پاکستان کے منحرف رہنما احسان اﷲ
احسان کے بھارت کی پاکستان میں مداخلت والے اقبالی بیان کی کڑیاں ملائی
جائیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ بھارت اس سازش کے
ذریعے ایک تو دنیا کی توجہ اپنے سیاہ کرتوتوں سے ہٹانے کے لئے پاکستان کے
خلاف نہ صرف پراپیگنڈہ مہم تیز سے تیز کر رہا ہے بلکہ قرائن واضح طور پر
شاہد ہیں کہ افغانستان اور ایران کے حالیہ پاکستان مخالف بیانات اور
پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدامات کے پس پشت بھی بھارت اور ’را‘ ہی رو بہ
عمل ہیں۔ پاکستان کودہشت گردوں کے سہولت کار کے طور پر بدنام کرنا اورتین
اطراف سے سرحدوں پر جارحیت کر کے دباؤ میں لانا اس سازش کا ایک ہدف اور حصہ
ہے جبکہ دوسرا ہدف پاکستان کے روشن مستقبل کو تاریک کرنا ہے جو سی پیک اور
گوادر پورٹ جیسے اہم ترین منصوبوں کی تکمیل سے مشروط ہو چکا ہے ۔بلا شبہ سی
پیک اور گوادر پورٹ پر تیزی سے جاری کام اور ان میگا منصوبوں کا کریڈٹ وزیر
اعظم میاں نواز شریف کی موجودہ حکومت اور پاک فوج کو جاتا ہے۔ سول ملٹری
قیادت کا ان عظیم منصوبوں کے حوالے سے ایک پیج پر ہونا دو طرفہ قیادت کی
بالغ نظری اور دور اندیشی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان کے مشترکہ دشمن کی
پوری کوشش رہی ہے کہ وہ ملک کے اندر انتشار پھیلا کر اور سول ملٹری قیادت
کے درمیان بد اعتمادی اور ٹکراؤ پیدا کر کے عوام کے اکثریتی ووٹوں سے منتخب
حکومت کو گرا دیں جس کے بعد سی پیک اور گوادر جیسے میگا پراجیکٹسخود بخود
ثبوتاژ ہو جائیں گے۔ لیکن سول ملٹری قیادت نے اس سازش کو نہ صرف بھانپ لیا
بلکہ دشمن کی تمام تر مکارانہ چالوں کے باوجود آج بھی یہ بالادست ادارے ایک
پیج پر دکھائی دے رہے ہیں۔ بھارتی حکومت، بھارتی تھنک ٹینکس، وہاں کے معاشی
ماہرین اور RAW کی پوری توجہ گوادر پورٹ اور سی پیک منصوبوں کو ملیا میٹ
کرنے پر اس لئے ہے کہ وہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دو منصوبے مکمل ہوگئے
تو پاکستان ترقی یافتہ ، خوشحال اور معاشی طورپر خودکفیل ممالک کی صف میں
شامل ہو جائے گا۔ ان کو بخوبی علم ہے کہ یہ دو منصوبے پاکستان سے بے
روزگاری اور غربت ختم کرنے میں بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ان کے پیٹ میں
مروڑ اس لئے بھی اٹھ رہے ہیں کہ ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد پاکستان اور
چین کے درمیان قائم ماؤنٹ ایورسٹ سے بلند ، بحر اوقیا نوس سے گہری اور شہد
سے زیادہ میٹھی دوستی اور تعلقات میں نہ صرف مزید پختگی آئے گی بلکہ یہ
دونوں ممالک ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہو جائیں گے۔ یہی
وجہ ہے کہ بھارت سرکار اپنے حواری ممالک کے ساتھ ملکر پاکستان کی سا لمیت
اور استحکام کے علاوہ ان اہم ترین منصوبوں کے خلاف بھی ہر اوچھا اور گھٹیا
حربہ استعمال کرتی دکھائی دے رہی ہے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ بھارت تو دشمن ملک
ہے، اس کا کام ہی پاکستان کے خلاف سازشیں کرنا اور ان سازشوں کو عملی جامہ
پہنانا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں2013ء کے عام انتخابات
کے نتیجے میں پانچ سال کے لئے برسر اقتدار آنے والی حکومت کو گرا کر
پاکستان کو غیر مستحکم کیوں کرنا چاہتی ہیں؟ کیا اسمبلی میں دو تہائی
اکثریت سے منتخب شدہ وزیر اعظم پاکستان، میاں نواز شریف کی حکومت کو غیر
مستحکم کرنے، حکومت اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے،عوام میں منتخب
حکومت کے خلاف بے جا طور پر بد اعتمادی پھیلانے اور عالمی سطح پر پاکستان
کے امیج کو نقصان پہنچانے کی افسوسناک کوششیں کر کے حزب اختلاف کی جماعتیں
پاکستان دشمن قوتوں کا کام آسان نہیں کر رہیں؟پھر سوال تو یہ بھی پیدا ہو
تا ہے کہ جس طرح سرحدوں پر روزانہ کی بنیاد پر’’ چھیڑچھاڑ ‘‘کا عمل جاری
ہے،اگر بات اس سے بڑھ گئی اور خدا نخواستہ بھارت ،پاکستان پر کُھل کر حملہ
کر دیتا ہے تو پاکستان کی دفاعی پوزیشن کیا ہوگی؟ سیانے کہہ گئے ہیں کہ
باہر کے دشمن سے اندر کا دشمن زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ہوتا ہے۔ تو کیا
تب بھی حزب اختلاف ملک و قوم کی سلامتی کو پس پشت ڈال کر ذاتیات، ضد اور ہٹ
دھرمی کی روش اپناتے ہوئے گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے و الا کردار ہی نبھائے
گی؟
ڈان لیکس کے معاملے کو جس طرح حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے سول ملٹری
تعلقات خراب کرنے کے لئے اچھالا گیااس سے تو حزبِ اختلاف کا بہت تاریک چہرہ
سامنے آیا ہے۔ کیاسرحدوں پر درپیش ان خطرناک حالات میں بھی حزبِ اختلاف کی
جماعتیں ’قومی سلامتی ‘کو اہمیت دینے کی روا دار نہیں ؟اس طرز عمل پر بجا
طور پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ڈان لیکس ایشو کو خوش اسلوبی سے حل کرنے پر
وزیر اعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ خراجِ تحسین
کے مستحق ہیں کہ انھوں نے درحقیقت ’را‘ کی ایک سازش کو ناکام بنا دیا
ہے۔جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ جب 2014ء
میں عمران خان اور طاہر القادری چین کے صدر کا دورہ ٔ پاکستان ملتوی کروانے
کے لئے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دئیے بیٹھے تھے تو اس وقت موجودہ آرمی
چیف دھرنا سیاست کے مخالف اور جمہوریت کو تقویت پہنچانے والوں میں سب سے
نمایاں تھے۔ان کی موجودگی میں کسی ’’ ایڈونچر‘‘ کی توقع رکھنا ، حزب اختلاف
کی جماعتوں کی خام خیالی ہے۔ بھارتی سازشوں اور سرحدوں کی تشویشناک صورتحال
سے بے خبر یا بے نیاز اپوزیشن جماعتوں کے رہنماء ڈان لیکس معاملہ کے خوش
اسلوبی کے ساتھ ختم ہونے پر افسر دہ و رنجیدہ ہیں۔ ان کے لیے شہناز انور
خان کا یہ تازہ قطعہ پیش خدمت ہے:
اے اھلِ سیاست پریشان مت ہوں
سول ،ملٹری ایک ہی پیج پر ہیں
جہاں رنجشیں وارہ کھاتی نہیں ہیں
یہ دونوں ہی آج ایسی اسٹیج پر ہیں!!
٭٭٭٭ |