اسلام ایک جامع اور ہمہ گیر مذہب
ہے، جس میں ہر شعبہ زندگی سے متعلق احکامات موجود ہیں۔ عقائد ہوں یا عبادات،
معاملات ہوں یا معاشرت اور اخلاقیات، غرض ہر شعبہ سے متعلق مسائل میں شریعت
مطہرہ اپنے متبعین کی خوب خوب راہنمائی کرتی ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ
بہترین اور اعلیٰ صفات کے حامل اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لئے جہاں اور بہت
ساری باتیں ضروری ہیں، وہاں آپس میں اتحاد و اتفاق اور باہمی الفت و محبت
بھی ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، کیونکہ آقا
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آپس میں الفت ومحبت کو ایمان کا حصہ قرار دیا اور
پھر اس کی بڑھوتری کے لئے معاشرہ میں ”سلام“ کو عام کرنے کا حکم دیا۔
چنانچہ صحیح مسلم میں مشہور صحابی رسول حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے: ”
قال: قال رسول الله ا : لاتدخلون الجنة حتی تؤمنوا ولاتؤمنوا حتی تحابّوا،
اولا ادلکم علی شیئ اذا فعلتموہ تحاببتم؟افشوا السلام“۔ (مسلم ،ج:۱،ص:۵۴)
ترجمہ:۔”حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم جنت میں داخل
نہیں ہوسکتے جب تک کہ ایمان نہ لاؤ، اور تم مومن نہیں کہلا سکتے جب تک کہ
ایک دوسرے سے محبت کے جذبات دل میں پیدا نہ کرلو، کیا میں تمہیں ایسی چیز
پر مطلع نہ کروں کہ اگر تم اسے کام میں لاؤ تو تم ایک دوسرے سے محبت کرنے
لگو گے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “سلام کو پھیلاؤ“۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ آقا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے عرض کیا
کہ یا رسول اللہ! اسلام کے اعمال میں سے افضل عمل کیا ہے؟آپ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا:لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور ہر (مسلمان) شخص کو سلام کرو،
خواہ تم اسے جانتے ہو ،یا نہیں، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے : ”عن عبد اللہ بن
عمرو بن العاص : ان رجلا سأل رسول اللہ ﷺ ایّ الاسلام خیر؟ قال: تطعم
الطعام وتقرأ السلام علی من عرفت ومن لم تعرف“ ۔ (مسلم:ج:۱،ص:۴۸)
قرآن کریم میں اللہ جل جلالہ نے سلام کا جواب بہتر اور اچھے لفظوں میں دینے
کا حکم دیا، چنانچہ ارشاد ہے:
”واذا حییتم بتحیة فحیوا باحسن منہا او ردّوہا“۔
یعنی جب تمہیں کوئی سلام کرے تو تم اچھے لفظوں میں سلام کرو۔ مثلاً: اگر
سلام کرنے والا السلام علیکم کہے تو تم جواب میں وعلیکم السلام ورحمة اللہ
کہو، اور اگر سلام کرنے والا ورحمة اللہ بھی کہدے تو تم وبرکاتہ کا اضافہ
کردو، چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں مشہور مفسر علامہ آلوسی بغدادی المتوفی
۱۲۷۰ھ رقمطراز ہیں: ”ای بتحیة احسن من التحیة التی حییتم بہا، بان تقولوا
وعلیکم السلام ورحمة اللّٰہ تعالیٰ، ان اتقصر المسلم علی الاول، وبان
تزیدوا وبرکاتہ ان جمعہا المسلم“ (روح المعانی ، ج:۳، ص:۹۹)
اور نبی کریم ا نے آپس میں ملاقات کے وقت گفتگو شروع کرنے سے پہلے سلام
کرنے کا حکم دیا، چنانچہ سنن ترمذی میں ہے: ”عن جابر بن عبد اللہ قال:
قال رسول اللہ ا : السلام قبل الکلام“ ۔
قرآن کریم کی آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں فقہاء نے لکھا ہے کہ
سلام کا جواب دینا واجب ہے اور اتنی بلند آواز سے جواب دینا ضروری ہے کہ
سلام کرنے والا سن سکے، چنانچہ دربار علم وفضل سے خاتمة المحققین کا لقب
پانے والے مشہور فقیہ علامہ ابن عابدین المتوفی ۱۲۵۲ھ اپنی شہرہ ٴ آفاق
کتاب فتاوی شامی میں رقمطراز ہیں: ’قال فی شرح الشرعة: واعلم انہم قالوا ان
السلام سنة، واستماعہ مستحب، وجوابہ ای ردہ فرض کفایة، واسماع ردہ واجب
بحیث لو لم یسمعہ لایسقط ہذا الفرض عن السامع“۔ (فتاوی شامیہ :۶/۴۱۳)
نیز لکھا ہے کہ سلام سے قبل گفتگو کا آغاز نہ ہو اور جو شخص سلام سے قبل ہی
گفتگو شروع کردے، اسے جواب نہ دیا جائے، چنانچہ شامیہ میں ہے: ”واذا دخل
بالاذن یسلم اولاً ثم یتکلم ان شاء… قال رسول اللہ ا : السلام قبل الکلام،
فمن تکلم قبل السلام فلایجیبہ، قال رسول اللہ ا : من تکلم قبل السلام
فلاتجیبوہ“۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر تعصب کی عینک اتار کر عدل وانصاف سے جائزہ لیا جائے تو
یہ حقیقت بالکل بے غبار معلوم ہوگی کہ تحیة مسنونہ (السلام علیکم ورحمة
اللہ وبرکاتہ) جتنا جامع ہے، دوسرے کسی قوم ومذہب کا تحیہ اتنا جامع نہیں
ہے، چنانچہ اسلامی تحیة میں اعلیٰ درجہ میں اظہار محبت کے ساتھ ساتھ مسلمان
بھائی کے لئے تمام مصائب وآلام سے نجات اور اللہ کی رحمت وبرکت کے نزول کی
دعا بھی ہے، نیز اللہ تعالیٰ کی طرف اپنے عجز واحتیاج کا اظہار ہے جوکہ
حقیقت عبدیت اور مطلوب شریعت ہے اور اس میں اپنے مسلمان بھائی کو اپنی طرف
سے امن وامان کا پیغام بھی ہے، جبکہ دیگر اقوام میں تحیة کی حیثیت محض رسمی
جملوں سے بڑھ کر نہیں ہے۔ چنانچہ یہودیوں کے ہاں تحیة کے لئے محض انگلیوں
کا اشارہ کافی سمجھا جاتا ہے، جبکہ نصاری ہتھیلیوں کے اشارے پر اکتفاء کرتے
ہیں، ان اشاروں میں ان کا جو بھی مقصد پنہاں ہو ،اس سے قطع نظرحقیقت یہ ہے
کہ ایک رسم سے بڑھ کر اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور دور جاہلیت کے مشرکین
”انعم صباحا“ کہہ کر رسم تحیہ بجالاتے تھے، چنانچہ ابوداؤد شریف میں ہے:
”ان عمران بن حصین قال:کنا نفعل فی الجاہلیة انعم اللّٰہ بک عیناً وانعم
صباحاً، فلما کان الاسلام نہینا عن ذلک“۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب فی الرجل
یقول انعم اللہ بک عینا)
اور انعم صباحا کی حیثیت ایسی ہے جیسے ہمارے ہاں بعض لوگ صبح بخیریا شب
بخیر کہتے ہیں، چنانچہ مشہور محدث ملاعلی القاری المتوفی ۱۰۱۴ھ مذکورہ حدیث
میں ”انعم صباحاً“ کی تشریح میں لکھتے ہیں:
”وہو الموافق للمتعارف فی زماننا علی لسان العامة صبحکم بالخیر ومشاکم
بالکرامة“۔ (مرقاة المفاتیح ج:۹،ص:۵۹)
آقا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہود ونصاری اور مشرکین کے ان تمام طریقوں
اور غیروں کی نقالی وتقلید سے سختی سے منع فرمایا اور غیروں کی نقالی کرنے
والوں کے لئے شدید وعید سنائی، چنانچہ ابو داؤد میں ہے: ”عن ابن عمر قال:
قال رسول اللّٰہ ﷺ من تشبہ بقوم فہو منہم“ ۔ (ابوداؤد:باب فی لبس الشہرة)
نیز فرمایا: ”لیس منا من تشبہ بغیرنا، لاتشبہوا بالیہود ولا بالنصاری فان
تسلیم الیہود الاشارة بالاصابع وتسلیم النصاری الاشارة بالاکف“ (ترمذی)
اس پر بھی بس نہیں، بلکہ کسی یہودی یا عیسائی سے آمنا سامنا ہونے کی صورت
میں اسے تنگ راستے کی طرف دھکیلنے کا حکم دیا، چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت
ابوہریرة سے روایت ہے:”عن ابی ہریرہ قال: قال رسول اللہ ا : لاتبدؤا
الیہود ولا با النصاری بالسلام واذا لقیتم احدہم فاضطروہ الی اضیقہ“۔ (مسلم
ج:۲،ص:۲۱۴)
مقام غور ہے کہ مذکورہ احادیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے غیروں
کی مشابہت ونقالی سے کس شد ومد کے ساتھ منع فرمایا۔ معلوم ہوا کہ یہود
ونصارٰی کے خلاف کرنا عین تقاضا ایمان ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے
معاشرہ میں جدت پسندی بمعنی مغرب پرستی اس عروج پر ہے کہ روشن خیالی کے نام
پر یہود ونصارٰی سے دوستی کو ترقی کی معراج سمجھاجاتا ہے اور کامیابی وترقی
کا راز مغرب کے نقوش قدم میں سمجھا جاتا ہے، چنانچہ یہود ونصاریٰ میں کسی
بات کا رواج ہوتے ہی ہمارا معاشرہ اسے ہاتھوں ہاتھ لے لیتا ہے اور پھر اسے
اتنا عام کرتا اور پھیلاتا ہے کہ اس کے خلاف سننے کو کوئی تیار ہی نہیں
ہوتا۔ الحمد للہ! ہم مسلمان ہیں ، اللہ نے ہمیں کامل واکمل اور حق و سچ
اورہمہ گیر مذہب دین اسلام سے نوازا ہے، ہم اپنی معاشرتی الجھنیں سلجھانے
یا دینی ومذہبی مسائل ومعاملات حل کرنے میں کسی دوسرے مذہب کے قطعاً محتاج
نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم غیروں کی نقالی میں کیوں کوئی دقیقہ
فروگزاشت نہیں کرتے؟
اور غیروں کی مشابہت کی ممانعت پر آقا ا کے مذکورہ واضح اور غیر مبہم
ارشادات کے باوجود ہم نے جدت پسندی کے جنون میں مغرب کی اندھی تقلید کرکے
گڈمارننگ اور گڈایوننگ کا رواج ایسا عام کردیا کہ توبہ بھلی، یہاں تک کہ
موبائل کے ایس، ایم، ایس کے آخر یا شروع میں گڈمارننگ یا گڈ ایوننگ لکھا
ہوا نہ ہو تو گویا وہ دم بریدہ وناتمام سمجھا جاتا ہے، اور تو اور اس مرض
میں اچھا خاصا دیندار طبقہ بھی مبتلا ہے، عقل محو حیرت ہے کہ کس نفع کی حرص
وہوس میں ہم یہود ونصاری کی وضع قطع کو مایہ ٴ ناز سمجھ کر اسے حرزجان
بنائے بیٹھے ہیں۔
وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اور ستم بالائے ستم یہ کہ جب کوئی اللہ کا بندہ نبوی ارشادات کی روشنی میں
اس طرز عمل کی قباحت وشناعت بیان کر کے اس سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے تو
بلاسوچ وتأمل جھٹ سے اسے دقیانوسی، قدامت پسندی اور بنیاد پرستی جیسی
نسبتوں سے نوازا جاتا ہے، اس سے انکار نہیں کہ گڈمارننگ اور گڈایوننگ سے
بھی کسی گونہ مخاطب کی خیریت مطلوب ہوتی ہے ، لیکن کیا یہ طرز اسلامی بھی
ہے؟ کیا آقا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے مبارک، جامع اور دعائیہ
جملہ السلام علیکم ورحمة اللہ سے گڈمارننگ زیادہ جامع ہے؟ کیا آقا صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے غیروں کی نقالی سے منع نہیں فرمایا، کیا گڈمارننگ کہنے
میں پہل کرنے پر بھی غرور وتکبر جیسی قبیح، شنیع اور مبغوض بیماری سے پاکی
کی بشارت سنائی گئی ہے؟ اگر نہیں اور ہرگز نہیں تو پھر کون ہے جو مغرب پر
ستانہ فکر وعمل کے امڈتے ہوئے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کا فریضہ نبھائے
اور السلام علیکم ورحمة اللہ جیسے مبارک دعائیہ اور اسلامی تحیہ کو عام کر
کے لسان نبوی سے صادر شدہ بے شمار بشارتوں کا مستحق بنے اور اسلامی شعار کے
ساتھ اپنے وجود کو دنیا میں متعارف کرانے پر فخر محسوس کرے، اور غیروں کی
نقالی ومشابہت سے خود کو اور دیگر مسلمانوں کو بچانے کی بھر پور کوشش کرے،
اللہ عمل کی توفیق بخشے۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۱ھ - جون: ۲۰۱۰ء, جلد 73,
شمارہ 6
https://www.banuri.edu.pk/ur/node/1108 |