آج انگنت مسائل کا شکار معاشرے کی پہلی ضرورت سستے
اور فوری انصاف کی فراہمی ہے ، کیونکہ انصاف کی فراہمی میں سستی یا تاخیر
کی وجہ سے ہی مسائل جنم لیتے ہیں اور افراد عدل کے ایوانوں سے مایوس ہوکر
جدل کا راستہ اختیار کرتے ہیں جوکہ ریاست کے لئے کسی طور بھی موزوں نہیں ۔
آزاد و خود مختار ریاست میں قانون کی بالادستی کے باعث خودساختہ جرگے،
پنچائیت یا عدالت لگا کر مختلف الزامات پرسزا دینے کا اختیار کسی کو حاصل
نہیں ہوتا، اور نہ ہی کوئی ایسا کرنے کی جرائت کرسکتا ہے۔ گزشتہ دنوں
منعقدہ دو روزہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس جس میں پاکستان کی تمام جوڈیشل اکیڈمیز
بشمول وفاقی جوڈیشل اکیڈمی،پنجاب جوڈیشل اکیڈمی، سندھ اور کے پی کے جوڈیشل
اکیڈمیز کے نمائندوں کے علاوہ آئرلینڈ، ترکی، نیپال،ساؤتھ آفریقہ، یونان،
یونائیٹڈ نیشن سے ججز اور لیگل ایکسپرٹس کے علاوہ پنجاب کی ضلعی عدلیہ کے
جوڈیشل افسران کی بڑی تعداد موجود تھی کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ فراہمی
انصاف کا سارا نظام عام آدمی کیلئے بناہے، جسٹس سیکٹر کے تین حصے ہیں ججز،
عدالتی سٹاف اور وکلاء اور ان تینوں کا مقصد عام سائل کی زندگی کو آسان
بنانا ہے۔ عدالتی نظام میں بہتری کیلئے جلد انصاف کی فراہمی ضروری ہے،
میٹروبس، سٹرکیں اور دیگر ترقیاتی پراجیکٹس اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں
لیکن عام آدمی جلد انصاف کا طلبگار ہے، اسے پیٹ کی بھوک سے زیادہ انصاف کی
بھوک ہے۔ لیکن یہ امر باعث افسوس ہے کہ ہماری صوبائی عدلیہ میں لاکھوں کی
تعداد مقدمات زیر التواء ہیں، ضلعی عدلیہ میں تقریباََ بارہ لاکھ اور لاہو
رہائی کورٹ میں ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب مقدمات زیر التواء ہیں۔ چیف جسٹس
لاہور ہائی کورٹ نے کہا بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر وقت کا تقاضا ہے کہ
سائلین کو جلد از جلد انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور پرانے ،
دقیانوسی اورروایتی طریقوں سے اتنی زیادہ تعداد میں مقدمات کو نمٹانا
ناممکن ہے۔ مقدمات کا لوڈ اتنا زیادہ ہے کہ ہمارے ججز کے پاس اپنے ہی سسٹم
پر توجہ دینے کا وقت نہیں ہے، پڑھنے اور نئے آئیڈیاز سے سیکھنے کا وقت نہیں
ہے۔ ان حالات میں ہمیں ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جہاں ہمارے ججوں کو
نیاجوش و ولولہ مل سکے اور جوڈیشل افسران کے زندگیوں میں تبدیلی آئے۔انہوں
نے کہا ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کی شکل میں
ایک بہترین فورم موجودہے، پنجاب جوڈیشل اکیڈمی جوڈیشل افسران کیلئے دوسری
ماں کا درجہ رکھتی ہے اور ہم سب کیلئے امید ہے۔چیف جسٹس نے کہا ہم نے پنجاب
جوڈیشل اکیڈمی کو جدید خطوط پر استوار کیا ہے اوراسے جدیدتقاضوں سے ہم آہنگ
کرنے کیلئے مزید کام کر رہے ہیں کیونکہ ایک مستحکم جوڈیشل اکیڈمی ہی بہترین
عدالتی نظام کی ضامن ہے۔ ان کا کہنا تھا اگر اکیڈمی میں ٹریننگ کے بعد بھی
جوڈیشل افسران یا سٹاف ممبران کی سوچ اور کام کرنے کے انداز میں تبدیلی
نہیں آتی تو ہم میں کوئی کمی رہ گئی ہے، اس لئے یہاں ٹریننگ کرنے والے تمام
جوڈیشل افسران اور سٹاف ممبرز کی کارکردگی کی جانچ کا جدید طریقہ کار بھی
وضع کیا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ہم لاہور ی ہیں اور ہماری دوستی محض
ایک شام کیلئے نہیں بلکہ ساری عمر کیلئے ہوتی ہے، ہم کانفرنس میں شرکت کرنے
والے معزز غیر ملکی مہمانوں سے رابطے میں رہیں گے اور سیکھنے کے اس عمل کو
مزید آگے لے کر چلیں گے۔ چاروں صوبوں کے جوڈیشل افسران کو پاکستان کی تمام
جوڈیشل اکیڈمیز میں ٹریننگ کروائی جانی چاہیے۔ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں
پہلے بھی تمام صوبوں سے جوڈیشل افسران تربیتی کورسز کیلئے آتے ہیں اور
آئندہ بھی تمام صوبوں کے وکلاء اور جوڈیشل افسران کیلئے پنجاب جوڈیشل
اکیڈمی کے دروازے کھلے ہیں۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے
45ویں چیف جسٹس مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ عوام کو سستے اور فوری انصاف
کی فراہمی، جوڈیشل اکیڈمی اورجوڈیشل افسران کی کارکردگی میں بہتری، اور
عدالتی سسٹم کو جدید خطوط پر استور کرنے کے لئے سنجیدہ کوششوں میں مصروف
عمل ہیں۔انہوں نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے
آڈیٹوریم میں لاہور ہائی کورٹ کے تمام سٹاف سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
لاہور ہائی کورٹ کا تمام سٹاف میرے بچوں کی مانند ہے وہ باپ کی طرح تمام
سٹاف کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں گے مگر جو بچہ غلط کام کرے گا اسے کان سے
پکڑ کر ادارے سے نکال باہر کریں گے۔ ‘‘ یہی وجہ ہے کہ آج جوڈیشل ادارے صحیح
سمت میں گامزن ہیں ، اور انصاف کی فراہمی میں بہتری کی بدولت عدلیہ کا وقار
پہلے سے زیادہ بلند ہوا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ موجودہ حکومت بھی عدلیہ کے
شانہ بشانہ دیگر ترقیاتی کاموں سے زیادہ سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے
لئے کوششوں میں معاونت کرے۔
٭……٭……٭ |