تحریر: موسیٰ غنی، کراچی
بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں. اگر کوئی قوم بچوں کی تعلیم و تربیت
میں کوتاہی برتے تو اس کے زوال کو کوئی نہیں روک سکتا۔ بچوں کی تربیت کا
اولین ادارہ ماں کی گود ہے۔ اگر ایک ماں اپنے بچے کی تربیت بہترین خطوط پر
کرتی ہے تو وہ معاشرے کو ایک بہتر انسان مہیا کرنے میں اپنا کردار کامیابی
سے ادا کرتی ہے۔پچھلے کچھ عرصے سے وطن پاکستان کی مائیں شاید اس کردار سے
دستبردار ہو چکی ہیں، اور تربیت کی ساری ذمہ داری یا تو آیا کے سپرد ہے اور
یا پھر مہنگے سکولوں کے۔
یہ بات مدنظر رہنی چاہیے کہ جو تربیت ایک ماں اپنی اولاد کی کر سکتی ہے وہ
کوئی دوسرا نہیں کر سکتا خواہ اس کے لیے کتنے بھی پیسے خرچ کیے جائیں۔پرانے
وقتوں میں گھروں میں صبح فجر کے وقت اٹھنے کا رواج تھا۔ بڑے خود نماز کے
لیے مسجد جایا کرتے تھے اور چھوٹے بچوں کو بھی جگا کر نماز اور قرآن پڑھنے
کے لیے مسجد بھیجا جاتا تھا۔ والدین گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے
تھے، اس سے ایک بابرکت دینی ماحول گھر میں میسر آتا تھا۔ رات کو جلدی سونا
اور صبح جلدی اٹھنے کی روٹین ہوا کرتی تھی مگر اب سب کچھ الٹ ہو گیا ہے۔
اب رات کو سب جاگتے ہیں اور پھر صبح دیر تک سوئے رہتے ہیں حالانکہ حدیث میں
عشاء کی نماز کے بعد بلاوجہ جاگتے رہنے سے منع فرمایا گیا ہے۔قرآن مجید کی
تلاوت اب کسی قربی گزر جانے پر ایصال ثواب کے لیے ہی کی جاتی ہے. روزانہ
ایک مقرر مقدار میں تلاوت قرآن ہمارے روزمرہ کے معمولات میں شامل ہی نہیں
ہیقرآن مجید اﷲ کا کلام ہے اور جب ہم اپنی زبان سے اس کلام کی تلاوت کرتے
ہیں تو چاہے ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے، یہ اپنی ایک تاثیر رکھتا ہے اور غیر
محسوس طریقے سے ہماری زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اگرچہ افضل یہی ہے کہ اس
کی زبان سیکھ کر اس کو سمجھ کر پڑھا جائے اور اس کے مطابق اپنے زندگی کو
ڈھالا جائے لیکن اس کی صرف تلاوت بھی روزانہ کی بنیاد پر صبح یا شام کی
جائے اور بچوں کو بھی اس کی ترغیب دی جائے۔بچوں کی تربیت میں والدین ان کو
روزانہ کچھ وقت دیں، ان کے ساتھ گپ شپ کریں، سکول کے معاملات ڈسکس کریں۔
صرف پیسے خرچ کر کے والدین کی ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی بلکہ انہیں چاہیے
کہ خود بچوں کو مانیٹر کرتے رہیں۔ بچوں سے دوری ان کی تربیت میں بہت بڑا
خلا پیدا کر دیتی ہے۔ یہ جو ہم آئے روز ون ویلنگ اور سٹریٹ کرائم میں اضافہ
دیکھ رہے ہیں، یہ بھی والدین کی اپنی اولاد سے عملی لاتعلقی اور ان کی
تربیت سے لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کو چھوٹی عمر سے
ہی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم دلانے کا خصوصی اہتمام کیا جائے
تاکہ ہم معاشرے کو ایک بے ہنگم ہجوم کے بجائے تربیت یافتہ اور سلجھی ہوئی
نسل دینے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں. اگر کوئی قوم بچوں کی تعلیم و تربیت
میں کوتاہی برتے تو اس کے زوال کو کوئی نہیں روک سکتا۔ بچوں کی تربیت کا
اولین ادارہ ماں کی گود ہے۔ اگر ایک ماں اپنے بچے کی تربیت بہترین خطوط پر
کرتی ہے تو وہ معاشرے کو ایک بہتر انسان مہیا کرنے میں اپنا کردار کامیابی
سے ادا کرتی ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے وطن پاکستان کی مائیں شاید اس کردار سے دستبردار ہو چکی
ہیں اور تربیت کی ساری ذمہ داری یا تو آیا کے سپرد ہے اور یا پھر مہنگے
سکولوں کے۔ یہ بات مدنظر رہنی چاہیے کہ جو تربیت ایک ماں اپنی اولاد کی کر
سکتی ہے وہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا خواہ اس کے لیے کتنے بھی پیسے خرچ کیے
جائیں۔nپرانے وقتوں میں گھروں میں صبح فجر کے وقت اٹھنے کا رواج تھا۔ بڑے
خود نماز کے لیے مسجد جایا کرتے تھے اور چھوٹے بچوں کو بھی جگا کر نماز اور
قرآن پڑھنے کے لیے مسجد بھیجا جاتا تھا۔ والدین گھر میں قرآن مجید کی تلاوت
کیا کرتے تھے، اس سے ایک بابرکت دینی ماحول گھر میں میسر آتا تھا۔ رات کو
جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنے کی روٹین ہوا کرتی تھی مگر اب سب کچھ الٹ ہو
گیا ہے۔ اب رات کو سب جاگتے ہیں اور پھر صبح دیر تک سوئے رہتے ہیں حالانکہ
حدیث میں عشاء کی نماز کے بعد بلاوجہ جاگتے رہنے سے منع فرمایا گیا ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت اب کسی فوتیدگی پر ایصال ثواب کے لیے ہی کی جاتی ہے.
روزانہ ایک مقرر مقدار میں تلاوت قرآن ہمارے روزمرہ کے معمولات میں شامل ہی
نہیں ہے۔قرآن مجید اﷲ کا کلام ہے اور جب ہم اپنی زبان سے اس کلام کی تلاوت
کرتے ہیں تو چاہے ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے، یہ اپنی ایک تاثیر رکھتا ہے اور
غیر محسوس طریقے سے ہماری زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اگرچہ افضل یہی ہے کہ
اس کی زبان سیکھ کر اس کو سمجھ کر پڑھا جائے اور اس کے مطابق اپنے زندگی کو
ڈھالا جائے لیکن اس کی صرف تلاوت بھی روزانہ کی بنیاد پر صبح یا شام کی
جائے اور بچوں کو بھی اس کی ترغیب دی جائے۔بچوں کی تربیت میں والدین ان کو
روزانہ کچھ وقت دیں، ان کے ساتھ گپ شپ کریں، سکول کے معاملات ڈسکس کریں۔
صرف پیسے خرچ کر کے والدین کی ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی بلکہ انہیں چاہیے
کہ خود بچوں کو مانیٹر کرتے رہیں۔ بچوں سے دوری ان کی تربیت میں بہت بڑا
خلا پیدا کر دیتی ہے۔ یہ جو ہم آئے روز ون ویلنگ اور سٹریٹ کرائم میں اضافہ
دیکھ رہے ہیں، یہ بھی والدین کی اپنی اولاد سے عملی لاتعلقی اور ان کی
تربیت سے لاپرواہی کا نتیجہ ہیضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کو چھوٹی عمر سے
ہی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم دلانے کا خصوصی اہتمام کیا جائے
تاکہ ہم معاشرے کو ایک بے ہنگم ہجوم کے بجائے تربیت یافتہ اور سلجھی ہوئی
نسل دینے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ |