جب زندگی شروع ہوئی - حصہ 3

ہم ہوا کے نرم و تیز جھونکوں کی مانند آگے بڑ ھ رہے تھے ۔ اس چلنے میں کوئی مشقت نہ تھی بلکہ لطف آ رہا تھا۔ نجانے ہم نے کتنا فاصلہ طے کیا تھا کہ صالح کہنے لگا: ’’عرشِ الٰہی کے سائے میں مامون علاقہ شروع ہونے والا ہے ۔ وہ دیکھو! آگے فرشتوں کا ایک ہجوم نظر آ رہا ہے ۔ ان کے پیچھے ایک بلند دروازہ ہے ۔ یہی اندر داخلے کا دروازہ ہے ۔‘‘

میں نے صالح کے کہنے پر سامنے غور سے دیکھا تو واقعی فرشتے اور ان کے پیچھے ایک دروازہ نظر آیا۔ مگر یہ عجیب دروازہ تھا جو کسی دیوار کے بغیر قائم تھا۔ یا شاید دیوار غیر مرئی تھی کیونکہ دروازے کے ساتھ پیچھے کی سمت کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ گویا ایک نظر نہ آنے والا پردہ تھا جس نے دروازے کے پیچھے کے ہر منظر کو ڈھانپ رکھا تھا۔

تاہم اس کی بات سنتے ہی میرے قدم تیز ہوگئے اور فاصلہ تیزی سے گھٹنے لگا۔ دروازہ ابھی دور ہی تھا، مگر فرشتے واضح طور پر نظر آنے لگے تھے ۔ یہ انتہائی سخت گیر اور بلند قامت فرشتے تھے جن کے ہاتھ میں آگ کے کوڑ ے دیکھ کر میں گھبرا گیا۔ میں نے صالح کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر اسے روکتے ہوئے کہا:
’’تم غالباً غلط سمت جا رہے ہو۔ یہ تو عذاب کے فرشتے لگتے ہیں ۔‘‘
’’چلتے رہو۔‘‘، اس نے رُکے بغیر جواب دیا۔

ناچار مجھے بھی اس کے پیچھے جانا پڑ ا۔ تاہم میں نے اتنا اہتمام کر لیا کہ اس سے دو قدم پیچھے رہ کر چلنے لگا تاکہ اگر پلٹ کر بھاگنے کی نوبت آئے تو میں اِس سے آگے ہی ہوں ۔ صالح کو میرے احساسات کا اندازہ ہو چکا تھا۔ اس نے وضاحت کرنی ضروری سمجھی:
’’یہ بے شک عذاب ہی کے فرشتے ہیں ۔ ۔ ۔ ‘‘
میں نے اس کی بات درمیان سے اچک کر کہا
:
’’اور یہاں اس لیے کھڑ ے ہیں کہ آگے جانے سے قبل میری ٹھکائی کر کے میرے گناہ جھاڑیں ۔‘‘

وہ میری بات سن کر بے اختیار ہنسنے لگا اور بولا: ’’یار دیکھو اگر ٹھکائی ہونی ہے تو تمھارا بھاگنا مفید ثابت نہیں ہو گا۔ کوئی شخص ان فرشتوں کی رفتار اور طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ویسے تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ یہاں تمھارے لیے نہیں کھڑے ہیں ۔ بلکہ یہ اس لیے کھڑے ہیں کہ خدا کا کوئی مجرم اگر اس سمت آنے کی کوشش کرے ، تو اُسے اتنا ماریں کہ وہ دوبارہ اس طرف آنے کی ہمت نہ کرے ۔‘‘

ہمارے قریب پہنچنے سے قبل ہی انہوں نے دو حصوں میں بٹ کر ہمارے لیے ایک راستہ بنا دیا۔ ازراہِ عنایت انہوں نے یہ اہتمام بھی کیا کہ کوڑوں کو اپنے پیچھے کر لیا۔ میرا خیال تھا کہ یہ ہمیں دیکھ کر مسکرائیں گے اور اظہارِ مسرت کریں گے ، مگر کوشش کے باوجود میں ان کے چہروں پر کوئی مسکراہٹ تلاش نہ کرسکا۔ صالح کہنے لگا: ’’ان کی موجودگی کا ایک مقصد تمھیں اللہ کی اس نعمت کا احساس دلانا ہے کہ کس قسم کے فرشتوں سے تمھیں بچالیا گیا۔‘‘
بے اختیار میری زبان سے کلمۂ شکر و حمد ادا ہو گیا۔

ان کے بیچ سے گزر کر ہم دروازے کے قریب پہنچے تو وہ خود بخود کھل گیا۔ اس کے کھلتے ہی میری نظروں کے سامنے ایک پرفضا مقام آ گیا۔ یہاں سے وہ علاقہ شروع ہورہا تھا جہاں عرشِ الٰہی کی رحمتیں سایہ فگن تھیں ۔ روح تک اتر جانے والی ٹھنڈی ہوائیں اور مسحورکن خوشبو مجھے آنے لگی تھی۔ ہم دورازے سے اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ دروازے کے ساتھ ہی دور تک فرشتے قطار در قطار کھڑے تھے ۔ ان کے چہرے بے حد دلکش تھے اور اس سے کہیں زیادہ خوبصورت مسکراہٹ ان کے چہروں پر موجود تھی۔ یہ ہاتھ باندھے مؤدب انداز میں کھڑ ے تھے ۔ ہم جیسے ہی ان کے بیچ سے گزرے ، دعا و سلام اور خوش آمدید کے الفاظ سے ہمارا خیر مقدم شروع ہو گیا۔ ان کے رویے اور الفاظ کی تاثیر میری روح کی گہرائیو ں میں اتر رہی تھی اور ان کے وجود سے اٹھنے والی خوشبوئیں میرے احساسات کو سرشار کر رہی تھیں ۔

یہاں داخل ہوتے ہی مجھے یہ محسوس ہوا کہ میرے اندر کوئی غیر معمولی تبدیلی آئی ہے ۔ لیکن اس وقت میری ساری توجہ فرشتوں اور یہاں کے دلکش ماحول کی طرف تھی اس لیے میں زیادہ توجہ نہیں دے سکا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے ۔ میں اس کیفیت کو بس یہاں کے ماحول کا ایک اثر سمجھا۔

چلتے چلتے مجھے کچھ خیال آیا تو میں نے صالح کے کان میں سرگوشی کی: ’’یار یہ تو ٹھیک ہے کہ یہ لوگ مجھے کوئی نجات یافتہ شخص مان کر میرا استقبال کر رہے ہیں ، لیکن یہاں میری ذاتی واقفیت تو کوئی نہیں ہے ۔ کیا یہاں تمھارا کوئی واقف ہے ؟‘‘ میری بات سن کر صالح ہنستے ہوئے بولا:’’عبد اللہ! آج ہر شخص اپنی پیشانی سے پہچانا جائے گا کہ وہ کون ہے ۔ تمھیں علم نہیں مگر تمھارا پورا پورا تعارف تمھاری پیشانی پر درج ہے ۔ تم دیکھتے جاؤ آگے کیا ہوتا ہے ۔‘‘

قطار کے اختتام پر کھڑ ا ایک وجیہ فرشتہ، جو اپنے انداز سے ان سب کا سردار معلوم ہوتا تھا، میرے پاس آیا اور میرا نام لے کر اس نے مجھے سلام کیا۔ میں نے سلام کا جواب دیا۔ پھر وہ بہت نرمی اور محبت سے بولا: ’’کیا آپ آئینہ دیکھنا پسند کریں گے ؟‘‘

میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے یہ بات مذاق میں کہی تھی یا سنجیدگی سے ۔ کیوں کہ اس وقت آئینہ دیکھنے کی کوئی معقول وجہ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ تاہم اس نے میرے جواب کا انتظار نہیں کیا۔ ایک فرشتے کو اشارہ کیا اور اگلے ہی لمحے میرے سامنے ایک قدِ آدم آئینہ تھا۔ میں نے اس آئینے کو دیکھا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اس نے میرے ساتھ مذاق کیا تھا۔ کیونکہ یہ آئینہ نہیں بلکہ ایک انتہائی خوبصورت اور زندگی سے بھرپور پینٹنگ تھی جس میں ایک خوبصورت نوجوان بلکہ شہزادہ شاہانہ لباس زیب تن کیے کھڑ ا تھا۔ یہ تصویر کسی بھی اعتبار سے تصویر نہیں لگ رہی تھی بلکہ یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے آئینے کے سامنے کوئی انسان زندہ کھڑ ا ہوا ہے ۔
میں نے اس فرشتے کی طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا:
’’آپ اچھا مذاق کرتے ہیں ، مگر پینٹنگ اس سے زیادہ اچھی کرتے ہیں ۔ مصور تو آپ ہی معلوم ہوتے ہیں ، لیکن اس میں ماڈل کون ہے ؟‘‘
فرشتے نے انتہائی سنجیدگی سے میری بات کا جواب دیا:
’’پینٹر تو ’المصور‘ یعنی مالکِ ذوالجلال ہے ۔ البتہ ماڈل آپ ہیں ۔‘‘

اس کے بعد اس نے صالح کو اشارہ کیا۔ وہ میرے قریب آیا اور میرا سر گھما کر دوبارہ پینٹنگ کی طرف کر دیا۔ اس دفعہ پینٹنگ میں اس نوجوان کے ساتھ صالح بھی نظر آ رہا تھا۔ میں حیرت سے کبھی صالح کو دیکھتا اور کبھی اس آئینے میں کھڑے دوسرے شخص کو جس کے بارے میں ان دونوں کی متفقہ رائے یہ تھی کہ یہ میں ہی تھا۔
’’مگر یہ میں تو نہیں !‘‘، میں نے بلند آواز سے کہا۔
جواب میں صالح نے یہ مصرعہ پڑ ھ دیا:
اے جان جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو
’’لیکن یہ کیسے ممکن ہے ؟ میں تو ایک بوڑ ھا شخص تھا اور جوانی میں بھی کم از کم ایسا نہیں تھا!‘‘
اس دفعہ میری بات کا جواب فرشتے نے دیا:’’ آپ ناممکنات کی دنیا سے ممکنات کی دنیا میں آ گئے ہیں ۔ آپ انسانوں کی دنیا سے خدا کی دنیا میں آ گئے ہیں ۔ آج ہر شخص ویسا نہیں دکھائی دے گا جیسا وہ دنیا میں دوسرے انسانوں کو نظر آتا تھا۔ بلکہ آج ہر شخص ویسا نظر آئے گا جیسا وہ اپنے مالک کو نظر آتا تھا۔ اور مالک کی نظر میں انسانوں کی صورت گری ان کے گوشت پوست پر نہیں بلکہ ان کے ایمان و اخلاق اور اعمال کی بنیاد پر ہوتی تھی۔ آپ اسے دنیا میں جیسے لگتے تھے ، ویسا ہی آج اس نے آپ کو بنادیا ہے ۔ ویسے یہ عارضی انتظام ہے ۔ آپ کی فیصلہ کن شخصیت اس وقت سامنے آئے گی، جب جنت میں آپ کے درجات کا فیصلہ حتمی طور پر ہو گا۔ سرِ دست تو آپ آگے جائیں ۔ بہت سے دوسرے لوگ آپ کا نتظار کر رہے ہیں ۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے...............
Owais
About the Author: Owais Read More Articles by Owais: 27 Articles with 26276 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.