رفیق نے امتحان دینے کے ساتھ ہی نوکری کے لیے انٹر ویو
دینے شروع کر دیئے ۔ اسے ایک بہت اچھی کمپنی سے بہترین آفر ہوئی لیکن مسلہ
یہ تھا کہ اگر وہ یہ آفر قبول کر لیتا تو پاکستان دس سال تک نہیں جا سکتا
تھا ۔ اس کے دل میں غزل کو دیکھنے کے بعد ایک خواہش جاگ چکی تھی کہ ڈاکٹر
شیزاد نے جس طرح اس لڑکی کو اپنا نام اپنا گھر دیا ہے ۔ باقی کی زندگی وہ
اس کے گھر میں رہے ۔اس نے اس کمپنی کے مالک سے اجاذت مانگی کہ وہ اسے چار
ماہ کا وقت دے ۔ وہ پاکستان جا کر کچھ کام کر کے واپس آ سکے ۔ جبکہ وہ
ایگریمنٹ کرنے کو تیار ہے ۔ کپمنی کے مالک نے تین ماہ کا وقت دے کر اسے
اجاذت دے دی کہ وہ اگلے دس سال تک انگلینڈ میں ہی کام کرے گا۔ اب وہ دل ہی
دل میں گھر جانے اور ڈاکٹر شیزاد کے ہاں رشتہ بھیجنے کی سوچنے لگا ۔ اس کے
دل و دماغ میں غزل چلنے لگی تھی ۔
وہ اس کی زندگی میں پہلی لڑکی تھی ،جسے اس نے اپنی باہوں میں اُٹھایا تھا ۔
اس رات اسے بہت مشکل سے نیند آئی تھی۔ دوسری بار جب اس نے اُسے ڈاکٹر
شیزاد کے گھر دیکھا تھا تو اس کی نیلی نیلی آنکھوں میں کھو گیا تھا۔ وہ دل
ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ کیا وہ اس سے ہمدردی کی وجہ سے شادی کرنا چاہتا
ہے یا اس کی خوبصورتی کی وجہ سے یا کوئی اور ہی وجہ ہے۔ وہ جب بھی سوچتا
اسے کوئی بھی وجہ سمجھ نہ آتی۔ سوائے ایک احساس کو حاصل کرنے کی خواہش کے
۔وہ بس اسے اپنے ساتھ دیکھا چاہ رہا تھا۔اس نے اپنی ڈائری کھولی تو کچھ لفظ
اس کے دل و دماغ میں گھومنے لگے۔وہ انہیں اپنی ڈائری پر اُتارنے لگا۔
محبت احساس ہے شاہد ۔یہ احساس ہوتا ہے۔
کوئی کتنا ہی دور رہے ، وہ دل کے پاس ہوتا ہے۔
لب خاموش رہتے ہیں ،خاموشی بات کرتی ہے۔
محبت ہونے کے بعد جانا ،کیسے بے تاب کرتی ہے۔
اُس کو خبر بھی نہیں ، مانگ رہےجسےدُعاوں میں
اُسی کی صورت ہے آن بسی اب تومیری نگاوں میں
اُس نے اپنی آنکھوں کو بند کیا ۔ڈائری بند کر کے اپنے بیگ میں رکھ دی۔ دل
ہی دل میں اللہ تعالی سے دُعا مانگی ۔مگر اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ
کس طرح اور کیا کہے۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔اللہ سے بغیر کسی لفظ
کےاپنی حاجت بیان کر رہا تھا۔ وقت گزر رہا تھا۔ دوسرے دن اس نے پاکستان فون
کیا۔اس نے اپنی ماں سے غزل کے بارے میں بات کی۔
رفیق: امی میں صرف تین ماہ کے لیے ہی پاکستان آ رہا ہوں ۔ ان تین ماہ میں
مجھے گھر لینا ہے ۔ اچھا سا۔ اور ۔وہ امی۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ میں ۔
امی۔
مہناز : تم غزل سے شادی کرنا چاہ رہے ہو۔ ربیعہ نے بتایا ہے مجھے ۔بیٹا
کہاں ڈاکٹر شیزاد اور کہاں ہم ۔ تم ان کے ہاں ڈرائیور رہ چکے ہو ۔ وہ دیں
گئے تمہیں اپنی بیٹی کا رشتہ؟مجھے تو سمجھ میں نہیں آتا ۔
رفیق : امی ، میری یہاں نوکری ہو گئی ہے ۔ دس سال کا ویزہ ہے ۔ پھر اس کے
بعد میں پاکستان میں آ کر کچھ بھی کر لوں گا۔اب ڈرائیور تو نہیں ہوں نا
میں ۔ میرا خیال ہے ، ڈاکٹر شیزاد مان جائیں گئے۔
مہناز : اچھا تم آ تو جاو ۔ پھر جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر شیزاد کے ہاں ۔
رفیق : جی۔
رفیق نے دل میں سوچا ممکن ہے کہ ڈاکٹر شیزاد غزل کا رشتہ نہ دیں ۔اسے اس
سوچ سے ہی بے چینی محسوس ہوئی ۔اسے بے اختیار دانش کی بات یاد آئی ۔ محبت
جس نے نہ کی ہو وہ نہیں جان سکتا کہ محبت کیا ہوتی ہے ۔ اسے بہت بے چینی
محسوس ہو رہی تھی۔وہ سوچ رہا تھا کہ دانش ٹھیک کہہ رہا تھا۔ کچھ چیزوں کے
لیے دُعائیں ہی مانگنا ہوتی ہیں ۔ وہ غزل کی تصویر دیکھ رہا تھا۔ شاہد وہ
اُسی لمحے اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھا جب اس نے پہلی بار اسے اپنی
باہوں میں اُٹھایا تھا ۔ اس نے اپنے دل کو ٹٹولنا شروع کیا ۔وہ جتنا اس کے
بارے میں سوچتا اس کو اپنے قریب محسوس کرتا ۔
اس کے دل میں ایک انجان سا خوف بھی بھرا ہوا تھا۔ ممکن ہے ڈاکٹر شیزادغزل
کی شادی اس سے نہ کریں۔ اس کو کمپنی نے جو پیکیج دیا تھا ۔اس میں گھر گاڑی
اور شادی شدہ زندگی کی ہر سہولت تھی ،وہ دل کو تسلی دیتا کہ شاہد ڈاکٹر
شیزاد مان ہی جائیں اور ان تین ماہ ہی میں اس کی شادی غزل سے کر دیں ۔اس کی
بے چینی نے کب دم توڑا اسے خود معلوم نہ تھا۔ نیند ہر بے چینی کو ختم کر
دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شیزاد : غزل بیٹا تمہیں تمہاری وہ ٹیچر یا دہیں ،جن کے گھر تم جایا
کرتی تھی۔جنہوں نے تمہیں بولنا سیکھایا تھا۔
غزل : جی ڈیڈی ،کچھ لوگ بھول جانے کے لائق نہیں ہوتے ۔
ڈاکٹر شیزاد: ملنا چاہو گی ان سے؟
غزل کے چہر ے پر اچانک سے چمک اُترآئی ۔
غزل : جی ڈیڈی ، کیوں نہیں ،ایسا ممکن ہے ۔
ڈاکٹر شیزاد : آج ہم ان کے گھر جائیں گئے ۔انہوں نے ہی بلایا ہے تمہیں
۔ملنے کے لیے۔
غزل :آج کتنے بجے ؟
اس نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کو دیکھا۔
ڈاکٹر شیزاد: شام کو چلیں گئے۔
ڈاکٹر شیزاد نے سوچا کہ فیضان کے ساتھ شادی کا فیصلہ وہ غزل پر چھوڑیں گئے
،جو وہ طے کرے گی ،ویسا ہی کریں گئے۔ اللہ میری بیٹی کو زندگی کی ہر خوشی
دے ،وہ غزل کی طرف دیکھ کر سوچ رہے تھے ، جبکہ غزل اپنی ٹیچر سے متعلق سوچ
رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہناز اور ربیعہ رفیق کے آنے پر خوش تھیں ۔ رفیق نے انہیں بتایا تھا کہ
آج شام کی فلیٹ سے وہ واپس پاکستان آرہا ہے ۔ وہ کافی سالوں کے بعد گھر
آ رہا تھا ،مہناز اس کی پسند کی کھیر اور بریانی بنا رہیں تھیں ۔ ربیعہ نے
کچن میں آ کر مہناز سے کہا۔
ربیعہ : امی غزل نہ مانی تو کیا ہو گا۔ بھائی تو پورا پروگرام بنا رہے ہیں
، اسے اپنے ساتھ لے کر یو ۔کے جانے کا۔ تین ماہ کے اندر شادی اور ان کا
یہاں سے چلے جانا۔مجھے تو یہ سب شیخ چلی کا خواب لگتا ہے ۔ ڈاکٹر شیزاد کی
اکلوتی بیٹی ہے وہ ۔
مہناز: اب تمہارے بھائی کو یقین ہے تو مجھے اس کے یقین پر یقین ہے ۔ دیکھتے
ہیں کیا ہوتا ہے ۔ رفیق کو آنے تو دو۔
ربیعہ: امی ویسے غزل بہت خوبصورت ہے ۔ اگر رشتہ ہو گیا تو ہم فخر سے کہہ
سکتے ہیں ،یہ ہے ہماری بھا بی۔
مہناز : میرا بیٹا کون سا کم ہے کسی سے ۔انگلینڈ سے تعلیم یافتہ ہے۔ ایم پی
اے کی ڈگری ہے ۔اس کے پاس ،وہ کہہ رہا تھا کہ آتے ہی کوئی فلیٹ لے گا یہاں
پر ۔ اس کرایہ کے گھر میں مذید نہیں رہیں گئے ہم ۔
ربیعہ : غزل بہت اچھے اخلاق کی ہے ۔ دیکھا تھا نا آپ نے ۔ نخرہ تو نام کا
نہیں ہے اس میں ۔
مہناز: یہ تو ہے مجھے بھی اچھی ہی لگی ۔ اب اللہ کرئے تمہارے بھائی کی مراد
پوری ہو جائے۔ اگر میرے بیٹے کی مراد پوری ہو گئی نا تو میں عبداللہ شاہ
غازی کے مزار پر چادر چڑھاوں گی ۔
ربیعہ : صرف چادر ۔
مہناز : ایک ہزار ایک روپیہ بھی دوں گی۔
دونوں ہنسنے لگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہربانوکے گھر میں داخل ہوتے ہوئے غزل کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا ۔
ڈاکٹر شیزاد کے بعد وہ ہی تھی ، جو اس کی زندگی کا ہر راز جانتی تھی۔ ڈاکٹر
شیزاد نے ڈاکٹر شہر بانوکو اسلام کہا جبکہ فیضان کو گلے ملے ۔ غزل کو ڈاکٹر
شہر بانو نے قریب آ کر گلے لگا لیا۔ اس نے ویسا کچھ نہ محسوس کیا ،جیسا وہ
کچھ عرصہ پہلے محسوس کرتی تھی۔اس نے اپنے آپ سے سوال کیا ،کیا میں بدل گئی
ہوں؟
ڈاکٹر شہر بانو : کیسی ہے میری سٹوڈنٹ ،واہ بھئی ،تم تو اور خوبصورت ہو گئی
ہو۔
غزل کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی ۔ فیضان غزل ہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
فیضان : مما میں بھی یہاں ہوں ۔میرا تعارف کروائیں نا۔
ڈاکٹر شہر بانو: یہ میرا بیٹا ہے فیضان۔
غزل نے حیرت سے دیکھا اور اسلام علیکم کہا۔
غزل : مگر آپ کے تو بچے نہیں تھے ۔
ڈاکٹر شہر بانو: تم نے کہانی پوری نہیں سنی تھی میری ،وقت ختم ہو گیا تھا۔
وہ مسکرا رہی تھیں ۔ میرے دو بچے ہوئے تھے ،شادی کے کافی سالوں کے بعد ،ایک
تو یہ اور دوسرا اس کا بڑا بھائی وہ امریکہ میں ہی رہتا ہے ۔ وہیں کا ہو کر
رہ گیا ہے۔
غزل : اچھا ۔
غزل نے ان کے گھر کو غور سے دیکھا ۔جہاں اس کی بہت خواہش تھی کہ ٹیچر اسے
رکھ لیں بیٹی بنا کر مگر اس کی یہ خواہش ادھوری ہی رہ گئی ۔اس نے سوچا کچھ
خواہشیں ادھوری ہی رہ جائیں تو اچھا ہوتا ہے ۔ گذشتہ کچھ سالوں میں ڈاکٹر
شیزاد نے اس کے دل میں جگہ بنا لی تھی ،اب اسےان سے دور جانے کا دل نہیں
کرتا تھا۔
ڈاکٹر شہر بانو : غزل کھڑی کیوں ہو بیٹھو ۔آ جاو، انہوں نے غزل کا ہاتھ
تھاما اور پکڑ کر لاونچ میں ڈاکٹر شیزاد اورفیضان کے سامنے والے صوفہ پر
بیٹھا دیا۔ اسے کے دل و دماغ میں یادوں کا ایک ہجوم بپا تھا۔
فیضان : آپ کے ڈیڈی بتا رہے ہیں ، آپ نے میڈیکل کو ناپسند کر کے پروفیسر
بننے کو ترجیح دی ، ایسا کیوں ہے؟
غزل اپنے ہی خیالوں میں گم تھی اس نے کچھ سنا ہی نہیں ،فیضان نے اس سے کیا
کہا۔
ڈاکٹر شہر بانو: غزل ۔
انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑا تو وہ چونک گئی ۔
غزل : جی ۔
ڈاکٹر شہر بانو: فیضان کچھ پوچھ رہا ہے تم سے ،کہاں گم ہو۔
غزل نے فیضان کی طرف دیکھا جو خوش شکل کلین شیو نوجوان تھا۔ اس کا رنگ
تھوڑا گہرا لیکن چہرا پرکشش تھا۔ وہ غزل ہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ غزل نے اس
کی گہری نظروں کو بھانپتے ہوئے ، اپنی نظر یں اس پر سے ہٹا لی۔
غزل : سوری ، میں نے سنا نہیں ،آپ کیا کہہ رہے تھے؟
فیضان : میں پوچھ رہا تھا کہ آپ نے میڈیکل کو کیوں چھوڑ دیا ؟
غزل : جی نہیں مشکل نہیں تھی۔ مجھے دلچسپی محسوس نہیں ہوتی تھی اس میں۔
فیضان : آپ کو کس چیز میں دلچسپی محسوس ہوتی ہے؟
غزل : پڑھنے اور پڑھانے میں ۔
فیضان : تو آپ ٹیچر بننا چاہتی ہیں ؟
غزل : جی ہاں۔
فیضان : اگر آپ کا شوہر نہ چاہے تو۔
غزل نے غیر متوقع سوال پر گھور کر فیضان کی طرف دیکھا۔
غزل : میری شادی نہیں ہوئی۔
فیضان: اگر ہو تو۔ میرا مطلب ہے اگر آپ کی شادی ہو ،اور آپ کے شوہر کو
پسند نہ ہو ،یہ پروفیشن تو آپ کیا کریں گی؟
غزل : میں سوچ سمجھ کر شوہر کا انتخاب کروں گی ۔
فیضان خاموش ہو گیا۔
فیضان : آپ کسی قسم کے انسا ن کو اپناجیون ساتھی بنانا پسند کریں گی۔
غزل : آپ بہت پرسنل ہو رہے ہیں ۔میرا خیال ہے۔
فیضان کو محسوس ہوا کہ اسے کچھ بتا کر یہاں نہیں لایا گیا ،تو اس نے چہرے
پر ایک مسکراہٹ کے ساتھ سوری کر لی۔
فیضان : سوری ،اگر آپ کو بُرا لگا۔
غزل نے شہر بانو کی طرف دیکھا۔
غزل : آپ کے ابو ٹھیک ہو گئے تھے ؟
ڈاکٹر شہر بانو: نہیں ،مگر ان کی ہر تکلیف دور ہوگئی ۔ اب حیات نہیں ہیں
وہ۔
غزل : ایم سوری ۔
ڈاکٹر شہر بانو نے اسے اپنے سینے سے لگا کر ماتھے کو چوما۔
ڈاکٹر شہر بانو: یہی زندگی ہے بیٹا ،بڑے چلے جاتے ہیں ،پھر چھوٹے بڑوں کی
جگہ لے لیتے ہیں ۔ ہماری بھی گنتی شروع ہو گی ہے ۔
ڈاکٹر شیزاد : ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ ، ہارٹ اٹیک کے بعد مجھے بھی اس چیز کا
احساس ہو تا ہے ۔ زندگی کا کچھ بروسہ نہیں ،جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے ،موت کی
حقیقت کا احساس دل پر ذیادہ ذور سے دستک دیتا ہے۔نوکرانی چائے ،اور دیگر
چیزیں رکھ کر جا چکی تھی۔ ڈاکٹر شہر بانو نے سب کو چائے صرف کی۔
غزل : آپ لوگ ایسی باتیں تو نہ کریں ۔پلیز۔ڈیڈی بیماریاں تو آتی جاتی
رہتی ہیں۔
فیضان : آپ کو مصوری میں دلچسپی ہے کچھ ۔
غزل : جی ہاں ۔ آپ مصور ہیں ؟
فیضان : بس شوقیہ مصوری کرتا ہوں ۔ آپ آئیں ۔میں آپ کو اپنی مصوری
دیکھاتا ہوں ۔
غزل نے ڈاکٹر شیزاد کی طرف دیکھا۔
ڈاکٹر شیزاد : جاو بیٹا دیکھواگر تم دیکھانا چاہو تو۔
فیضان : چلیں نا پلیز۔
آپ کو اندازہ نہیں ہے تخلیق کار کو کتنا اچھا لگتا ہے ۔اپنی تخلیق دوسروں
کو دیکھانا ۔
غزل : ڈیڈی آپ بھی دیکھیں نا ،اِن کی مصوری۔
ڈاکٹر شیزاد : میں جاتے وقت دیکھوں گا ۔ ویسے بھی میں چائے پی رہا ہوں
ابھی۔
انہوں نے اپنے چائے کے کپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
غزل اور فیضان وہاں سے چلے گئے ۔ گھر کا یہ حصہ تو غزل نے دیکھا ہی نہیں
تھا ۔وہ چیزوں کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔
فیضان : یہ رہا اس پینٹر کا چھوٹا کمرہ ۔
غزل : یہ چھوٹا سا تو نہیں ہے ،خیر۔
فیضان : چلیں میرے لیے چھوٹا ہے ۔
غزل نے اس کی بنائی ہوئی تصویروں کو غورسے دیکھا ، جو کافی اچھی تھیں ۔
فیضان : کوئی رائے تو دیں ،آپ تو دیکھ رہی ہیں ۔کچھ بول ہی نہیں رہی۔
غزل : لگ نہیں رہا آپ نے بنائیں ہیں ۔
فیضان :مطلب ۔
غزل : آپ تو بہت بے صبر سے لگتے ہیں ،جبکہ یہ مصوری کہتی ہے کہ مصور بہت
صبر کرنے والا ہے۔
فیضان: ممکن ہے آپ کو سمجھے میں کچھ غلط فہمی ہو گئی ہو ۔
غزل : جی ہاں ممکن ہے ۔ غلطی کے چانس تو ہر کسی کے مشاہدہ میں باقی رہتے
ہیں ۔
فیضان : مجھے اچھا لگا آپ کا مجھ سے اتفاق کرنا۔
غزل : اب چلتے ہیں۔
فیضان : میرا کام اچھا لگا آپ کو؟
غزل : جی ہاں
فیضان : اور میں؟
غزل : جی
فیضان: بس ویسے ہی جاننا چاہ رہا تھا کہ آپ کو میں کیسا لگا ۔
غزل : باہر چلتے ہیں، ڈیڈی انتظار کر رہے ہوں گئے ۔
فیضان : چلیں ،جیسے آپ کی مرضی ۔مگر میری طرف سے تو ہاں ہے۔
غزل اس کی بات سنے بغیر ہی واپس لاونچ میں آگئی ،جیسا اس نے سوچا تھا ،
ویسا کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر شیزاد اسے چھوڑ کر نہیں گئے تھے ،بلکہ
وہ اس کے ساتھ ہی رہے ،فیضان بھی ٹیچر اور ڈاکٹر شیزاد کے ساتھ ہی بیٹھا
رہا ۔ غزل کو عجیب سی بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔ اسے ویسی محبت اپنی ٹیچر
سے محسوس نہیں ہو رہی تھی ،جیسی کچھ عرصہ پہلے وہ اپنے دل میں محسوس کرتی
تھی۔ وہ سوچ رہی تھی ،کیا وقت سوچوں کے ساتھ ساتھ ،انسان کے رشتوں اور
جذبات کو بھی متاثر کرتا ہے ۔ جن لوگوں سے ملنے کے لیے ایک وقت میں ہم اس
قدر بے چین ہوتے ہیں ۔کچھ عرصہ بعد ان سے ملنے کا ہمیں شوق بھی نہیں رہتا
۔وہ سوچ رہی تھی کس طرح ایک ایک پل وہ انتظار کرتی تھی ،ان ٹیچر سے ملنے
کا۔ مگر آج ملنے کے بعد ویسا محسوس نہیں ہوا ،جیسا اس وقت محسوس ہوتا تھا۔
اس کی وجہ کیا ہے۔وہ بے چینی کہاں گئی ۔ شاہد سالوں کے فاصلہ میں کہیں دب
گئی۔
ڈاکٹر شیزاد: چلو فیضان بیٹا ہم بھی آپ کی گیلری دیکھیں ۔
فیضان اور ڈاکٹر شیزاد وہاں سے اُٹھ کر جا چکے تھے ۔ ڈاکٹر شہر بانو، غزل
کی طرف دیکھ رہی تھیں ،جو اپنے ناخنوں سے کھیل رہی تھی ۔ اپنی سوچوں میں گم
تھی۔
ڈاکٹر شہر بانو: غزل تمہاری پڑھائی کیسی جا رہی ہے ؟
غزل : جی، بہت اچھی۔
ڈاکٹر شہر بانو: اگر اب میں تمہیں اس گھر میں بیٹی بنا کر لاوں تو کیا تم
آو گی۔
غزل کچھ دیر خاموش ہی رہی ، اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے ، اس کے
لیے جواب دینا مشکل ہو رہا تھا۔
ڈاکٹر شہر بانو: میں اور ڈاکٹر شیزاد تمہاری اور فیضان کی شادی کا سوچ رہے
ہیں ۔ اگر تمہیں اور اسے اعتراض نہ ہوا تو ہم ، تم دونوں کی شادی کر دیں
گئے ۔ تم میری بیٹی بن کر اس گھر میں آ جاو گی۔ اللہ بھی دیکھو کیسے کیسے
منصوبہ بناتا ہے ۔ اس کی قدرت دیکھو ،ہمیں کیسے ملوا دیا۔ شاہد اسی لیے
ملوا دیا۔
غزل نے حیرت سے ڈاکٹر شہر بانوکی طرف دیکھا۔ اب اسے احساس ہوا کہ فیضان اس
سے پرسنل قسم کے سوال کیوں کر رہا تھا۔ اوہ تو یہ بات تھی ۔ ڈاکٹر شیزاد نے
اسے بتایا کیوں نہیں ۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی اور خود سے بات کر رہی
تھی۔ ڈاکٹر شیزاد مجھے یہاں میری ٹیچر سے نہیں بلکہ ان کے بیٹے سے ملوانے
لائے تھے ، فیضان سے۔
ڈاکٹر شیزاد اور فیضان واپس آ چکے تھے ۔ غزل نے اُنہیں آتے ہوئے دیکھا۔
اس نے ایک نظر فیضان پر تفصیل سے ڈالی ،پہلی دفعہ اسے ایک عجیب سا احسا س
ہوا۔ کیا میں شادی کے لائق ہو گئی ہوں ، اس نے اپنے دل سے پوچھا۔
ڈاکٹر شیزاد: اب ہمیں اجاذت دیں ۔ مجھے ہوسپٹل بھی جانا ہے۔
ڈاکٹر شہر بانو: جی ،جیسے آپ کی مرضی۔ مگر اب تو آنا جانا لگا رہے گا ۔
ڈاکٹر شیزاد : کیوں نہیں ۔ جی جی
انہوں نے غزل کی طرف دیکھا۔
غزل نے اپنا چھوٹا سا پرس ہاتھ میں لیا، اس نے شہر بانو کو اللہ حافظ کہا
اور ان سے گلے لگی ،انہوں نے اس کےماتھے کو چوما ، اللہ تمہیں زندگی کی ہر
خوشی دے بیٹا۔گھر سے باہر آتے ہوئے ،غزل نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو فیضان
اور ڈاکٹر شہر بانوکی نگاہ ان پر ہی تھی۔ جبکہ وہ اس گھر کو دیکھ رہی تھی
جہاں کچھ عرصہ پہلے رہنے کے لیے وہ یہاں کی نوکرانی بھی بننے کو تیار تھی ۔
مگر اب اس نے اپنے اندر ایک عجیب سی لہر اُٹھتی محسوس کی۔ وقت انسان کو
کتنا بدل دیتا ہے ۔ سچ مچ قدرت بھی کیسے کیسے منصوبہ بناتی ہے۔
غزل : میں ڈرائیوکروں ڈیڈی۔
ڈاکٹر شیزاد نے گاڑی کی چابی اسے دے دی ۔ اس نےاپنے بلیک گاگل پرس سے نکال
کر انکھوں پر لگا لیے اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔ڈاکٹر شیزاداور غزل گھر پہنچ
چکے تھے ۔ ڈاکٹر شیزاد نے غزل کو اپنے پاس بیٹھنے کا کہا۔ وہ خاموشی سے
بیٹھ گئی۔
ڈاکٹر شیزاد:غزل بیٹا جب سے مجھے ہارٹ اٹیک آیا ہے ، میں زندگی پر بروسہ
نہیں کرتا ۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو تم اکیلی رہ جاو گی ۔
شایان اور عنابیہ پتہ نہیں تمہارے ساتھ کیا کریں ۔ بیٹا کوئی ایسا ہونا
چاہیے ،جس کے اور ہمارے غم اور خوشیاں مشترکہ ہو۔ جو ہماری خوشی میں ہنسے
اور جس کےغم میں ہم رو سکیں۔
(انہوں نے اپنی بات کچھ وقفہ دے کر جاری رکھی جبکہ غزل خاموشی سے ان کے پاس
بیٹھی تھی ۔)میں اور عنابیہ جیسے ہیں ۔ اگر اس گھر میں کچھ بھی بُرا ہو گا
تو ہم دونوں کو ہی بُرا لگے گا ۔ ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے محبت اور
عزت دل میں رکھتے ہیں ، میں چاہتاہوں کہ تمہاری شادی کر دوں ۔ تمہاری
ٹیچراصل میں ایک ماہر نفسیات ہیں ، جب تم بات جیت نہیں کرتی تھی تو میں نے
تمہاری بہتری کے لیے ،تمہیں ان کے پاس بھیجا تھا تاکہ تمہارے مساہل کو سمجھ
کر وہ تمہاری مدد کریں ۔ علم اپنے آپ میں بہت بڑی طاقت ہے ۔ انہوں نے وہ
کر دیکھایا جو اگر شاہد میں تمام عمر بھی چاہتا تو نہ کر سکتا ۔ انہوں نے
تمہارا رشتہ مانگا ہے فیضان کے لیے۔
غزل نے انہیں دیکھا،مگرکچھ بھی نہیں بولی۔
ڈاکٹر شیزاد : بیٹا تم کیا کہتی ہو اس بارے میں ۔ کیا دوبارہ ملنا چاہو گی،
اس لڑکے سے ۔ اس نے تو اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا ہے۔
غزل : ڈیڈی ،میں ابھی پڑھنا چاہتی ہوں۔
ڈاکٹر شیزاد : ہاں مگر ، میں ہر وقت ایک بے چینی میں رہتا ہوں ، اگر مجھے
کچھ ہو گیا ،تمہارا کیا ہو گا؟
غزل : اللہ نہ کرئے ڈیڈی ،آپ کیوں ایسا سوچتے ہیں ۔ زندگی کا تو کسی کو
نہیں پتہ کتنی ہے۔
ڈاکٹر شیزاد : ہاں مگر تم اسے میری خواہش سمجھو ،میں چاہتا ہوں کہ کوئی ہو
جو میرے بعد تمہیں تنہا نہ ہونے دے ۔ کوئی ایسا جسے تمہاری خوشی کا خیال
ہو۔ تمہاری حفاظت کرئے۔بیٹا رشتے زندگی میں ہونا بہت ضروری ہیں ۔ زندگی
تنہا ایسے ہی ہے جیسے کسی کو صحرا میں بغیر سامان زندگی کے چھوڑ دیا جائے۔
یہ رشتے سامان زندگی سمجھو۔ یہ ہمیں امید، خواہش اور سکون دیتے ہیں ۔ جینا
آسان ہو جاتاہے ان کے ساتھ ۔ کچھ عرصہ پہلے میں تمہارے لیے اجنبی تھا ۔
آج نہیں ہوں ۔ کل جب تم کسی کو اپناجیون ساتھی بنا لو گی تو وہ بھی تمہارے
لیے اجنبی نہیں رہے گا۔ کچھ وقت چاہیے ہوتا ہے ،بس پھر رشتے ایسے ہی وجود
کا حصہ ہوتے ہیں جیسے خون رگوں کا۔ہر انسان کا وجود تین پہلو رکھتا ہے۔ ایک
وہ جسے وہ خود جانتا ہے ،دوسرا وہ جسے اس کے چاہنے والے جانتے ہیں اور
تیسرا وہ جسے دنیا جانتی ہے ۔ رب انسان کے ہر وجود کو جانتا ہے ۔ وہ انسان
کی ہر ضرورت کو جانتا ہے۔چاہنے والے ہونا زندگی میں بہت ضروری ہیں بیٹا۔ ان
کے بغیر زندگی ادھوری ہوتی ہے۔اسی لیے تو رب نے ہر قسم کی انواح کے جوڑے
بنائے ہیں۔
غزل: مگر فیضان۔
خوشی اِتنا ہی بول پائی اور خاموش ہو گئی۔
ڈاکٹر شیزاد : بیٹا فیضان ہی لازمی نہیں ۔تم سوچ لو ،میں تمہارے لیے رشتہ
دیکھ رہا ہوں ،آخری فیصلہ تمہارا ہی ہو گا ۔
انہوں نے شفقت اور پیار سے غزل کی طرف دیکھا ۔ جو خاموشی سے ان کی تمام
گفتگو کو اپنے اندر اُترتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔
غزل : جی ،ڈیڈی ۔ میں اب جاوں؟
ڈاکٹر شیزاد: مجھے تمہارے جواب کا انتظار رہے گا۔
غزل : جی
غزل اپنے کمرے میں چلی گئی ، وہ انکھیں بند کر کے بستر پر لیٹی ہوئی تھی کہ
اسے دھیرے دھیرے اپنے دماغ میں باتیں سنائی دینے لگی۔ وہ اپنی امی سے کہہ
رہی تھی ۔ امی نیلم کی شادی اکبرے سے نہ کریں ۔ اس کی امی کہہ رہی تھیں
،بچہ یہ فیصلہ تو مرد کرتے ہیں نا۔ وہ سوچ رہی تھی ۔وہ سوچ رہی تھی ،کس
آسانی سے ڈاکٹر شیزاد نے فیصلہ اس پر چھوڑ دیا ۔ کیوں نیلم سے پوچھا تک
نہیں گیا۔ ہمارا ہی معاشرہ کس قدر مختلف سوچوں کا حامل ہے۔ ڈاکٹر شہر بانو
کے نزدیک اس میں کوئی کمی نہیں وہ اُسے اپنی بہو بنانے کے لیے تیار ہو گئی
۔ کیوں سدرہ کی اپنی ہی ماں نے اسے موت کے حوالے کر دیا۔ کاش کہ میں اپنی
اُس دنیا عورت کے لیے کچھ کر سکتی ،مگر کوئی کچھ نہیں کر سکتا اگر انسان
خود بدلنے پر آمادہ نہ ہو۔ وہاں پر کوئی عورت مانتی ہی نہیں کہ اس کے ساتھ
زیادتی ہو رہی ہے ۔ ایسے میں ،اس کے لیے کوئی اور کیا کر سکتا ہے۔
اسے نائلہ کی باتیں بے اختیار یاد آنے لگیں ۔جس کا خیال تھا کہ شوہربے شک
مارے ،پیار بھی تو کرئے۔غزل کے ذہین میں یادوں کے دفتر کھلنے لگے۔ کیسی بے
وقوف عورت ہے اس دنیا کی اور کیسا جاہل مرد ۔ نسل درنسل یہی سلسلہ چلے گا
یا کچھ بہتری آ جائے گی۔ پتہ نہیں مراد کا کیا ہو گا۔ وہ سوچ رہی تھی۔
کتنے عجیب خوف دئیے جاتے ہیں۔ ان تنگ گلیوں کے گھروں میں بچے خواہش کم اور
خوف ذیادہ رکھتے ہیں ۔ ان کی خواہشات ان کے ڈر کےنیچے ہی دبی رہ جاتی ہیں
۔اگر اب میری اُس ماں کو پتہ چل جائے کہ میں نے دس نہیں بلکہ چودہ کر لیں،
ہیں ۔ میں گاڑی چلا لیتی ہوں تو کیا ہو۔کاش میں انہیں بتا پاتی۔ مگر اس نے
اپنا کانوں کو گیلا ہوتے ہوئے محسوس کیا ۔اس کا دل ایک بوجھ سے دبنے لگا تو
وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس نے اپنا لیب ٹاپ نکالا اور اس میں فیس بک دیکھنے
کی کوشش کرنے لگی ۔
اس نے ربیعہ کی فیس بک پر لگائی ہوئی تصاویر دیکھیں ۔ ان کو لائیک کیا ،ایک
دو ویڈو دیکھنے کے بعد اس کا دماغ اب پڑانی یادوں کے بھنور سے نکل آیا
تھا۔ اس نے انکھوں میں چبھن محسوس کی لیکن انکھوں کو بندنہیں کیا ۔ وہ
دوبارہ ماضی کی یادوں میں نہیں جانا چاہتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیق واپس آچکاتھا ۔وہ آنے کے بعد مہناز کے ساتھ شفق کے گھر گیا ، وہ شفق
اور اس کے سسرال والوں کےلیے کافی تحائف لایا تھا ۔ اس نے دانش سے شادی پر
نہ آ سکنے کی معذرت کی تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
دانش : باہر جو بھی جاتا ہے ، باہر کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے ۔
رفیق: شاہد ہاں ۔ وہاں ترقی کے مواقع ذیادہ ہیں ۔
دانش : یہاں پر بھی کچھ نہ کچھ تو ہو ہی جاتا ہے۔
رفیق : کچھ نہ کچھ نہیں بہت کچھ یہاں بھی ہو سکتا ہے ۔ اسے یار قسمت ہی
سمجھو ۔ جہاں روزگار لکھا ہو ۔
دانش : تم تو کہتے تھے ،انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے ۔
رفیق : ہاں ، اسے تم ففٹی ففٹی ہی سمجھو ،میں نے اپنی پوری کوشش کی قسمت
بنانے کے لیے ، لیکن اچھی نوکری کا مل جانا میری کوشش کے ساتھ قسمت بھی تھا
۔ مجھے اگر اتنی اچھی کمپنی میں ،ایسی نوکری نہ ملتی تو شاہد میں پاکستان
میں واپس آ کر کچھ کرنے کا سوچتا۔ محنت کے بعد قسمت پر یقین بھی ہے
میرا۔جو چیز آپ کو فائدہ دے اسی پر یقین رکھنا چاہیے ۔
دانش : یہ تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو
مہناز نے شفق کے چہرے پر خوشی دیکھی تو انہیں اطمینان ہوا۔انہوں نے غزل کے
متعلق بات کی تو شفق نے خوشی کا اظہار کیا ۔ امی وہ تو بہت ہی پیاری لڑکی
ہے ۔ ذبردست جوڑی لگے گی رفیق اور غزل کی ۔ اللہ کرئے اس کے گھر والے مان
جائیں۔مہناز نے امین کہا ۔
شفق : امی آپ لوگ کب جائیں گئے ۔ غزل کے گھر ۔
مہناز: رفیق پہلے جا کر مل آئے پھر ہم جائیں گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ وہاں سے واپس لوٹے تو رفیق ڈاکٹر شیزاد کے ہاں جانے کی تیاری کرنے
لگا۔ اس نے ڈاکٹر شیزاد کو فون کیا۔
رفیق: اسلام علیکم سر۔
ڈاکٹر شیزاد:واعلیکم اسلام کیسے ہو۔
رفیق:سر آپ اگر گھر ہی ہیں تو میں حاضری دینا چاہوں گا۔
ڈاکٹرشیزاد: کیوں نہیں ،آجاو ،آج کل کام کم ہی ہو رہا ہے ۔ کچھ طبعیت
ٹھیک نہیں رہتی میری۔
رفیق : سر پھر میں آتا ہوں ۔
رفیق نے لائے ہوئے تحائف بیگ میں ڈالے او رربیعہ نے مسکراتے ہوئے بھائی کو
چھیڑا۔
ربیعہ:بھائی، آپ غز ل کے لیے بھی کچھ لائے ہیں ۔
رفیق : ہاں ،لایا ہوں نا۔
ربیعہ: کیا ؟کیا؟ بھائی۔
اس نے حیرت سے کہا۔
رفیق: چاکلیٹ اور کیا۔
وہ مسکراتا ہوا نکل گیا۔
گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے منظور کو دیکھا تو اسلام علیکم کہا ۔ ڈاکٹر
شیزاد اس کا انتظار کر رہے تھے۔
رفیق : اسلام علیکم سر۔
اس نے تحفوں کو میز پر رکھا ۔
ڈاکٹر شیزاد : ان کی کیا ضرورت تھی۔
رفیق: کیوں سر ،ہر چیز ضرورت کے تحت کہاں کی جاتی ہے ۔ کچھ چیزیں محبت کے
تحت بھی تو ہوتی ہیں ۔
ڈاکٹر شیزاد : ہوگیا تمہارا ایم پی اے؟
رفیق : جی سر ۔ ایک اچھا پیکج ملا تھا ۔بس تین ماہ کا وقت ہی ملا ہے ۔ واپس
جاوں گا۔
ڈاکٹر شیزاد : کیسا کام ہے؟
رفیق : کام مشکل نہیں ہے ۔ پالیسی میکینگ ڈیپارٹمنٹ میں سپروائزرکا کام ہے۔
گھر گاڑی اور کافی چیزیں دے رہے ہیں ۔
ڈاکٹر شیزاد : یہ تو اچھا ہے۔ بلکہ بہت اچھا ہے۔
رفیق : آپ بتائیں ، آپ کا کام کیسا جا رہا ہے ؟ شایان اور آفان کیا کر
رہے ہیں آج کل؟
ڈاکٹر شیزاد : سب ٹھیک ہے۔ بس دو ماہ پہلے ایک ہارٹ اٹیک کی وجہ سے صحت
ویسی نہیں رہی ۔
رفیق : آپ اپناخیال بھی تو نہیں رکھتے۔
ڈاکٹر شیزاد:تمہارے ماموں کی بیٹی کا کیا ہوا؟
رفیق : پتہ نہیں سر۔انہوں نے تو مجھے دوسرے ہی دن گھر سے نکال دیا تھا
۔شاہد ان کی بیٹی نے منع کر دیا یا کیا ہوا میں نہیں جانتا۔ لیکن میں نے
انہیں ان کی رقم واپس کر دی ہے ۔
ڈاکٹر شیزاد : اچھا ۔ کوئی بات نہیں ۔ جو قسمت میں ہو وہی ملتا ہے ۔ جوڑے
تو ویسے بھی کہتے ہیں نا۔ آسمان پر بنتے ہیں ۔
رفیق: وہ میں سوچ رہا ہوں کہ اب شادی کر کے جاوں ۔دس سال وہاں رہنا ہے تو
کب تک اکیلا رہوں گا۔
ڈاکٹر شیزاد : یہ تو بہت اچھا ہے۔ شادی ٹھیک عمر میں کر لینی چاہیے۔
رفیق : سر آگر آپ بُرا نہ مانیں تو ایک بات کہوں ۔
ڈاکٹر شیزاد : کیسی بات ؟ کہو کہو۔ بے فکر ہو کر کہو۔
رفیق: وہ سر میری امی آپ سے اس سلسلے میں ملنا چاہ رہی ہیں۔
ڈاکٹر شیزاد : کیا مطلب کس سلسلے میں۔
رفیق: سر وہ آپ کی بیٹی میری بہن ربیعہ کی دوست ہے۔وہ میری بہن شفق کی
شادی میں بھی شریک ہوئی تھی ۔ کچھ ماہ پہلے ۔
ڈاکٹر شیزاد: تم غزل کی بات کر رہے ہو۔ تم غزل سے شادی کرنا چاہتے ہو؟
رفیق: جی ،اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو۔
ڈاکٹر شیزاد : تمہاری امی کو پتہ ہے کہ وہ میری لے پالک بیٹی ہے ۔
رفیق: نہیں ، میں نہیں چاہتا کہ انہیں پتہ بھی چلے ۔ مجھے پتہ ہے ،کافی
ہے۔میری بہنوں اور امی کو وہ بہت پسند ہے۔
ڈاکٹر شیزاد کچھ دیر خاموش ہی رہے۔
ڈاکٹر شیزاد : تمہیں پتہ ہے نا کہ غزل کون سی لڑکی ہے ۔ تمہیں وہ میڈیکل
کیمپ یاد ہے؟
رفیق: مجھے سب کچھ یاد ہے۔مجھے وہ اسی وقت ہی اچھی لگی تھی ۔ مگر میں اس
وقت اسے دُعا کے سوا کچھ نہیں دے سکتا تھا ۔ اسی لیے خاموشی کو ہی بہتر
جانا۔
ڈاکٹر شیزاد : اگر یہ بات ہے تو تم اپنی امی کو بھیجو ۔ میں فیصلہ غزل پر
چھوڑو گا۔اگر اس نے تمہارے حق میں فیصلہ کیا تو ٹھیک ہے۔
رفیق: سر ایک بات کہوں ۔
ڈاکٹر شیزاد : ہاں بولو۔
رفیق: میں نہیں چاہتا کہ غزل کو پتہ چلے کہ میں اس کے ماضی کو جانتا ہوں ۔
ڈاکٹر شیزاد : ہاں ۔ ٹھیک ہے۔
رفیق اپنی باتیں کر کے چلا گیا ۔ڈاکٹر شیزاد کو رفیق ہی غزل کے لیے بہترین
جیون ساتھی لگ رہا تھا ۔ انہوں نے اس کی باتوں سے محسوس کیا کہ وہ غزل کو
پسند کرتا ہے۔ ڈاکٹر شہر بانو غزل کے متعلق سب جانتی تھی ۔ لیکن فیضان کچھ
نہیں جانتا تھا۔ یہاں معاملہ مختلف تھا ۔رفیق غزل سے متعلق سب کچھ جانتا
تھا ۔ جو اسے اپنے ساتھ یو۔کے لے کر جانا چاہتا تھا ۔ اس کی فیملی غزل کے
متعلق کچھ نہیں جانتی تھی ۔ رفیق چاہتا بھی نہیں تھا کہ اس کی فیملی کو کچھ
پتہ چلے ۔
ڈاکٹر شیزاد کو رفیق بہتر تو لگ رہا تھا لیکن وہ غزل پردباو نہیں ڈال سکتے
تھے ۔ دوسرے ہی دن رفیق نے اپنی امی کو مٹھائی کے ساتھ بھیج دیا۔ ربیعہ بھی
مہناز کے ساتھ آئی تھی۔
غزل کو سغرہ نے بتایا کہ اس کی دوست اپنی امی کے ساتھ آئی ہے ۔ربیعہ پہلے
کبھی غزل کے گھر نہیں آئی تھی۔
غزل: اسلام علیکم آنٹی۔ربیعہ تم کیسے آگئی۔
ربیعہ: بہت بڑے کام سے آئی ہوں ۔
ڈاکٹر شیزاد اور عنابیہ لاونچ میں داخل ہوئے۔مہناز نے اسلام کے بعد ان کے
گھر کو دیکھتے ہوئے ،گھر کی تعریف کی۔غزل کو حیرت ہوئی کہ عنابیہ بھی یہاں
بیٹھی تھیں۔ غزل نے تعارف کرواتے ہوئے کہا۔
غزل : ڈیڈی یہ ربیعہ ہے میرے ساتھ پڑھتی ہے ہے اور یہ اس کی امی ہیں۔
ڈاکٹر شیزاد : اچھا ۔
پھر وہ مسکرائے اور بولے مجھے پتہ ہے لیکن تم جانتی ہو یہ یہاں کیوں آئی
ہیں ۔
غزل نے ربیعہ کی طرف دیکھا۔
ڈاکٹر شیزاد: یہ تمہاری دوست اپنے بھائی کے لیے تمہارا رشتہ مانگنے آئی
ہے۔
غزل : کیا؟
غزل نے ربیعہ کی طرف دیکھا ۔تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ ڈاکٹر شیزاد
مسکرائے۔
ڈاکٹر شیزاد : تم نے دیکھا ہے ،اس کے بھائی رفیق کو۔
غزل نے شرمندگی سے نہیں میں سر ہلایا۔
غزل: ڈیڈی ۔ میں کبھی نہیں ملی اس کے بھائی سے ۔ ہاں اس نے ایک بار پک
دیکھائی تھیں مجھے ۔مگر
ڈاکٹر شیزاد : تم مل بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ یہاں تھا ہی نہیں ۔ میں بھی
جانتا ہوں اسے۔
غزل نے عجیب سا سکون محسوس کیا ۔ وہ ابھی تک شاہد مکمل طور پر اس کلاس میں
نہیں ڈھلی تھی۔جہاں لڑکے لڑکیاں آپس میں جنسی تضاد کے بغیر اچھے دوست
تھے۔انسان جو کچھ اپنی اوائل عمر میں سیکھ لیتا ہے وہ اس کی ذات کا حصہ بن
جاتا ہے۔
ڈاکٹر شیزاد نے عنابیہ کو کھانا لگوانے کا کہا۔ مہناز اور ربیعہ کھانے کی
میز پر پہنچی تو لاونچ میں رفیق داخل ہوا ۔ مہناز نے پلٹ کر دیکھا۔
ڈاکٹر شیزاد : رفیق کو میں نے بلایا ہے ۔ غزل نے آنے والے نوجوان کو سرسری
دیکھااور نظریں ربیعہ کی طر ف لے گئی۔ دھیرے سے اس نے ربیعہ سے کہا۔
غزل : تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ تم یہاں کس وجہ سے آ رہی ہو۔
ربیعہ : سر پرائز یار سرپرائز بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے ۔
غزل نے اسے گھورا تو وہ مسکرانے لگی۔
ڈاکٹر شیزاد: رفیق یہاں آو ۔ غزل بیٹا یہ رفیق ہے ۔ باہر سے آیا ہے ۔ کچھ
ماہ کے لیے ۔ رفیق یہ میری بیٹی ہے غزل ۔ رشتے تو آسمان میں بنتے ہیں ۔تم
لوگ ایک دوسرے کو دیکھ لو بات کر لو۔
غزل نے رفیق کی طرف دیکھا تو اس نے مسکرا کر دیکھنے کے بعد نظر ڈاکٹر شیزاد
کی طرف گما لی ۔ غزل نے اس پر تفصلی نظر ڈالی ۔اس کے دل میں خیال آیا کہ
یہ تو کہیں سے نہیں لگ رہا کہ دوسرےملک سے آیا ہے۔اس کے بال بنانے کا
طریقہ اور لباس سادہ سا تھا۔
ڈاکٹر شیزاد : ہماری غزل کو کھانا بنانا نہیں آتا ۔ یہ کام تو اس کے سسرال
والوں کو ہی سکھانا ہو گا ۔ میری اکلوتی بیٹی ہے تو میں تو اسے کام کرتے
نہیں دیکھ سکتا۔
رفیق: سر مجھے آتا ہے کھانابنانا۔ اس نے مسکر ا کر کہا اور غزل کی طرف
دیکھا جو اپنی پلیٹ میں موجودسیلٹ سے کھیل رہی تھی۔
ڈاکٹر شیزاد : تو شادی کے بعدتم خود ہی کھانا بنایا کرو گئے۔
رفیق: میں نے سنا ہے بیویاں بڑی مہربان ہوتی ہیں سر۔ میری بیوی بھی تو میرے
لیے مہربان ہو گی ۔
سب مسکرانے لگے ۔ لیکن غزل نے سنجیدگی سے رفیق کی طرف دیکھا ۔ جو کانٹے سے
چکن پیس کو کاٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔ کچھ دیر غزل اس کو دیکھتی رہی مگر اس
نے غزل کی طرف نہ دیکھا۔ غزل کو عجیب محسوس ہوا ۔ کھانا کھانے کے بعد سب
لوگ واپس لاونچ میں آگئے ۔
ڈاکٹر شیزاد : غزل تم ربیعہ اور رفیق کو گاڑڈن میں لے جاو۔ ہم بڑوں سے دور
گپ شپ کر لو۔
رفیق ،ربیعہ اور غزل باہر گارڈن میں چلے گئے ۔
ربیعہ: میں تو خواہ مخواہ کباب میں ہڈی ہوں ۔
رفیق: صرف ہڈی۔
غزل نے رفیق کی طرف دیکھا تو وہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
ربیعہ:اگر غزل نے ہاں کر دی تو بھائی سمجھیں آپ کی لاٹری نکل آئے گی۔
رفیق : یہ تو ہے۔
ربیعہ:آپ لوگ آپس میں بات کرو ،میں ذرا پھول دیکھ کر آتی ہوں۔
غزل:اچھا ،یہاں سے تمہیں پھول دیکھائی نہیں دے رہے۔
رفیق: پھول بہت اچھے ہیں ،آپ کے گارڈن کے۔
غزل : ڈیڈی کو بہت پسند ہیں ،وہ مالی سے خاص خیال رکھنے کا بولتے ہیں۔
رفیق: ڈاکٹر صاحب تو ہر اچھا کام کرتے ہیں ۔ آپ کے ڈیڈی میرے آئیڈیل
ہیں۔ویسے آپ کسی کو اپنا آئیڈیل سمجھتی ہیں۔
غزل: میری ایک ٹیچر تھیں ۔ وہ مجھے پسند تھیں۔
رفیق: آپ ٹیچر بننا چاہتی ہیں۔ مجھے بھی پڑھنا لکھنا پسند ہے۔ وہاں میرے
پاس کافی کتابیں جمع ہیں ۔
غزل: آپ کس قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں ۔
رفیق : میرے پاس سیلف ڈیویلپمنٹ سے متعلقہ بہت زیادہ کتابیں ہیں ۔ میں ہر
قسم کی میعاری کتاب پڑھ لیتا ہوں ،اگر مل جائے تو ۔آپ کو کس قسم کی کتابیں
پسند ہیں ۔
غزل : مجھے ناول پسند ہیں ۔
ربیعہ : بھائی، غزل اچھی خاصی رائٹر ہے ۔ یہ بچوں کے لیے کہانیاں لکھتی ہے۔
ہماری ویب پر اس کی کہانیاں کافی ذیادہ ہیں ۔
رفیق: ہاں بچوں کے لیے تو لکھنا چاہیے۔ ہمارے ہاں سب سے مظلوم طبقہ بچے ہی
ہیں ۔ گھر میں ماں ،باپ کے پابند اور باہر معاشرہ کے ۔ پر نکلنے سے پہلے ہی
یہاں پر کاٹ دیئے جاتے ہیں۔
غزل : آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ مگر کوئی حل بھی تو نکلنا چاہیے ۔ یہاں پر
بچوں کے لیے کام کرنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں ۔
رفیق: یوں کہنا چاہیے کہ یہاں اچھائی کو سپورٹ کرنے والے افراد کی کمی ہے۔
مگر اب شعور بیدار ہو رہا ہے ۔ امید کی جا سکتی ہے کہ نیا آنے والا وقت
اچھی تبدیلی کا امین ہو گا۔
ربیعہ : مجھے لگ رہا ہے میں دو سوشل ورکر کے درمیان بیٹھی ہوں ۔کچھ موضوع
تبدیل کریں۔
غزل : تو تم ہی طے کرو ۔ کیا بات کرنی چاہیے؟
ربیعہ : یہاں بھائی صرف تین ماہ کے لیے آئے ہیں ۔ اِن کے حق میں جلدی سے
فیصلہ دے دو ۔ اس سے اچھا موضوع اور کیا ہو گا۔
غزل: جلدی میں اکثر انسان نقصان میں رہتا ہے۔
رفیق: کچھ فیصلہ تو لمحوں میں ہو جاتے ہیں ۔اور سب فیصلے ہم کرتے بھی کہاں
ہیں ،وہ تو پہلے ہی طے ہوتے ہیں ۔ہم تو بس قبولیت میں سر ہلا کر قدرت کا
ساتھ دیتے ہیں ۔
غزل: کبھی کبھی جو نظر آ رہا ہوتا ہے وہ نہیں ہوتا ۔ ہم پیتل کو سونا سمجھ
کر دامن پھیلا رہے ہوتے ہیں ۔میرا خیال ہے سب کچھ قدرت پر چھوڑ دینا حماقت
ہے۔
رفیق: کبھی کبھی پیتل آپ کو سونے سے ذیادہ عزیز ہو سکتا ہے ،بات ساری یقین
اور جذبات کی ہے۔ جس کے ساتھ دل اپنا جوڑ بنا لے ۔ہم چاہ کر بھی توڑ نہیں
سکتے ،پھر پیتل کیا اور سونا کیا؟
غزل : اگر آپ سونا سمجھ کر مانگیں اور بعدمیں پیتل نکلے تو آپ کیا کریں
گئے؟
رفیق: میں اس پیتل کو بھی سنبھال کر رکھوں گا۔یہ سوچ کر کہ اس میں کچھ تو
بات تھی جو مجھے وہ سونا لگا۔
غزل نے سوچنے کے اندازمیں نظریں جھکا لیں۔
ربیعہ : آپ لوگوں نے پیتل اور سونے کو لے کر کیا باتیں کی۔ میری تو سمجھ
میں کچھ نہیں آیا۔
رفیق: تم نہ ہی سمجھو ،اسی لیے تو ہم ایسے بات کر رہے ہیں ۔
غزل نے مسکراتے ہوئے ،رفیق کی طرف دیکھا۔ چائے ختم ہو چکی تھی۔ ربیعہ بھی
ہنسنے لگی ۔
رفیق: میرا خیال ہے ۔ اب اندر چلتے ہیں ۔
کچھ دیر مذید بیٹھنے کے بعد ،رفیق کی فیملی جا چکی تھی۔ عنابیہ بھی اُٹھ کر
اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ غزل بھی جانے لگی تھی کے ڈاکٹر شیزاد نے اسے اپنے
پاس روک لیا۔
ڈاکٹر شیزاد: غزل بیٹا ، رفیق کو میں کافی سالوں سے جانتا ہوں ۔ فیضان کا
تو مجھے ٹھیک سے نہیں پتہ ،لیکن یہ لڑکا بہت محنتی ہے۔ آج جو کچھ بھی اس
کے پاس ہے ،اس کی اپنی محنت کا نتیجہ ہے۔ ایک وقت تھا ،یہ میرے ہاں ڈرائیو
رتھا۔ بی اے کا امتحان دینے کے بعد کام ڈھونڈ رہا تھا ۔ آ ج دیکھو اپنی
محنت کے بل پر سب کچھ ہے اس کے پاس ۔ تم نے فیضان کے بارے میں کچھ سوچا۔
غزل : کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں اپنی پڑھائی پوری کر لوں ۔پھر آپ
میرےحق میں جو فیصلہ کریں گئے ،مجھے منظور ہو گا۔
ڈاکٹر شیزاد: بیٹا ،رفیق کو واپس جانا ہے ۔ سچ کہوں تو میں سوچتا ہوں ۔اس
سے اچھا جیون ساتھی تمہیں شاہد پھر نہ ملے ۔ اس کے پاس صرف تین ماہ ہی ہیں
۔ باقی آخری فیصلہ تو تمہارا ہی ہے ۔ تم فیضان کو پسند کرو یا رفیق کو یا
دونوں کو ہی انکار کر دو۔ مگر بیٹا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ۔ خوش نصیبی بار
بار دستک نہیں دیتی ۔ ایک اچھا جیون ساتھی ۔ہزار ڈگریوں سے ذیادہ اچھا ہوتا
ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ رفیق تمہیں پڑھنے لکھنے سے نہیں روکے گا۔علم حاصل
کرنے کا شوق ہو تو راستے نکل آتے ہیں ۔ کوئی ایک ادارہ ،کوئی ایک ڈگری یا
کوئی ایک شخص آپ کے لیے مکمل علم دینے کا دعوی کر ہی نہیں سکتا ۔یہ تو
ایسا سمندر ہے ، جس کی حد کوئی انکھ دیکھ نہیں سکتی ۔میں تمہیں علم حاصل
کرنے سے نہیں روک رہا ۔ میں تمہیں ایک اچھا انسان چننے کا مشورہ دے رہا ہوں
۔ جو تمہیں سوچنے سمجھنے کی آزادی دے ۔
غزل : اگر آپ میری شادی جلد از جلد کرنا چاہتے ہیں تو آپ جو بھی فیصلہ
کریں مجھے منظور ہو گا۔
ڈاکٹر شیزاد :تم یہ کہہ رہی ہو کہ میں رفیق اور فیضان میں سے جس کو چاہوں
تمہارے لیے منتخب کر لوں ۔
غزل: جی ،اگر آپ کو لازمی مجھے اس گھر سے نکالنا ہی ہے تو پھر ۔۔۔۔
ڈاکٹر شیزاد: تم جانتی ہو بیٹا ، میں تمہیں تمہارا گھر دینا چاہتا ہوں ،ہر
باپ کا یہی خواب ہوتا ہے۔ مجھ پر نہ چھوڑو ، میں چاہتا ہوں، خود فیصلہ کرو
،رفیق یا فیضان یا دونوں ہی نہیں ۔ ہم ان دونوں کے علاوہ بھی کسی کو دیکھ
سکتے ہیں ۔
غزل : لوگوں کی پہچان بہت مشکل کام ہے ۔ اگرچہ کبھی کبھی ہم سمجھتے ہیں کہ
ہم جانتے ہیں ۔ مگر بعد میں مایوسی ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے ، آپ میرے لیے
مجھ سے بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں ۔آپ کو جو بہتر لگے ۔ آپ وہ فیصلہ کریں ۔
ڈاکٹر شیزاد :رفیق کہہ رہا تھا وہ نیا گھر لینے کے لیے کل ڈیل کر رہا ہے
،وہ لوگ اس گھر میں چلے جائیں ذرا ۔پھر ہم بھی ان کے گھر چلتے ہیں ۔ مجھے
رفیق تمہارے لیے ذیادہ مناسب لگتا ہے۔
غزل : جیسے آپ کی مرضی ، ڈیڈی۔
ڈاکٹر شیزاد : تم نے میری بہت بڑی مشکل حل کر دی ،اب اگر مجھے کچھ ہو بھی
جائے تو مجھے پروا نہیں ہو گی۔
غزل : اللہ نہ کرئے ڈیڈی، آپ کیسی باتیں کرتے ہیں۔
|