ابھی دن کا پہلا ہی پہر تھا کہ دھوپ شدید تیز تھی۔گاڑی
بان چابک سے بیل کو ہانک رہا تھا اور بیل گاڑی ہچکولے لیتی ہوئی گاؤں کی
کچی سڑک پر رواں دواں تھی۔ بیل کی گردن میں لٹکی گھنٹی کی آواز دھول مٹی
میں اپنا ساز بکھیر رہی تھی۔ شانو اور اس کا شوہر سانول گڈ پر اپنے پیر
لٹکائے شہر کی طرف جا رہے تھے۔سر پر رومال، آنکھوں میں سرمہ، بل دار
مونچھوں پر تیل،گلے میں تعویز،کان میں مندری ، سیاہ لاچہ اور کرتا پہنے
گہرے رنگ والے پر کشش سانول پر چٹے رنگ والی شانو مر مٹی تھی۔شانو نے بھی
اس تپتی دھوپ میں سیاہ رنگ کا گھاگڑا پہن رکھا تھا جس پر سرخ دھاگے کی
کڑھائی نے شانو کے حسن کو تپتی دھوپ میں بھی چار چاند لگائے ہوئے تھے ۔اس
کی گوری چٹی کلائیاں کانچ کی چوڑیوں سے بھری پڑی تھیں۔ ہتھیلیاں گہرے سرخ
رنگ کی مہندی سے رنگی ہوئی تھیں۔انگلیوں کی پوروں پر بھی سانول ہی کا نام
تھا۔اس کے دونوں گالوں پر سرمے سے تلک لگے ہوئے تھے۔شانو کے چٹے رنگ پر ذرا
سی گردپڑتی تو دھول اس کے پسینے ذدہ چہرے پر اپنا نشان چھوڑ جاتی ۔ سانول
کے پیروں میں تو جوتا تھا مگر شانو کے پیر ننگے ہی تھے۔
شانو اور سانول کی برادری ایک ہی تھی مگر خاندانی رنجشوں نے نفرت کی فصیل
کھینچ رکھی تھی۔جب دونوں کے رشتہ کی بات چلی تھی تو بات بڑوں کے مرنے مارنے
تک پہنچ گئی تھی۔ہزار جتن کئے لاکھ کوششیں کیں مگرکوئی ان کی محبت کو سمجھ
ہی نہیں پا رہا تھا۔محبت نے سانول کو خدا یاد کرادیا تو شانو کو بھی تپتے
صحرا کی دھول چٹا دی۔نجانے کہاں کہاں جا کر شانو نے منتیں مانی۔ کتنے
چڑھاوے چڑھائے ۔ کتنے چلے کاٹے اور پھر۔۔۔ آخر اس کی منتیں قبول ہوئیں۔وہ
جو آپس میں جان کے دشمن تھے خود ہی ایک دوسرے کے آگے زیر ہو گئے۔ شانو اور
سانول کی شادی ہو گئی۔شادی کے فوراََ بعد ہی شانو نے اپنی مانی ساری منتیں
پوری کرنا شروع کر دیں۔ وہ آج سانول کے ساتھ اپنی محبت کی آخری منت پوری
کرنے گاؤں سے شہر جا رہی تھی۔۔۔ بڑے شاہ کی درگاہ پر۔ اس نے اپنی سہیلی
سکھاں کے بتانے پر ہی اپنے گھر بیٹھے اس درگاہ پر حاضری دینے کی منت مانی
تھی۔ وہ آج پہلی بار اس درگاہ پر حاضری کے لئے جا رہی تھی۔
دونوں کا گرمی سے بُرا حال تھا۔ ہو نٹ خشک تھے مگر جب دونوں ایک دوسرے کو
مسکراتے ہوئے دیکھتے توسفر کی تکلیف بھول جاتے تھے۔ ’’ایسے دیکھے گا تو مر
جاؤں گی۔‘‘ شانو اپنی چنری کا پلو دانتوں میں دباتے ہوئے بولی۔’’تو کیا مرے
گی۔ مر تو میں گیا ہوں تجھ پر۔‘‘ سانول نے اسے محبت بھری نظروں سے مسکراتے
ہوئے جواب دیا۔’’ابھی کتنا رستہ باقی ہے؟‘‘ شانو نے سانول سے پوچھا۔’’کیوں۔۔۔
ابھی سے تھک گئی ہے؟‘ ‘سانول نے چھیڑتے ہوئے پوچھا۔ ’’تیرا ساتھ ہو تو پھر
کون بدبخت اپنی منزل کاسوچے گا۔‘‘شانو اپنی مٹھی میں اس کے ہاتھ زور سے
بھینچتے ہوئے بولی۔’’کیوں کاکا۔ ہم دوپہر تک تو درگاہ پر پہنچ جائیں گے نا؟‘‘
شانو نے مڑ کر گاڑی بان سے پوچھا۔ ’’ہاں ہاں۔ ۔۔ ہم دوپہر تک بڑے شاہ کی
درگاہ پر ہوں گے۔‘‘ گاڑی بان بیل پر چابک مارتے ہوئے بولا۔’’ویسے ایک بات
تو بتا، تجھے اس درگاہ پر منت ماننے کا کس نے بولا تھا؟‘‘سانول نے سوال کیا۔
’’سکھاں نے۔۔۔ سکھاں کہتی تھی محبت کرتی ہے تو پھر جتن بھی بڑے کر۔‘‘شانو
بولی۔ ’’اچھا، تو اس لئے ننگے پیر تو اس کڑی دھوپ میں نکلی ہے؟ پیر میں
چھالے پڑ گئے تو۔۔۔؟‘‘ سانول نے پوچھا۔ ’’یہ دھوپ کیا ہے۔ تیرے لئے انگاروں
پر بھی چلنا پڑ ا تو آہ تک نہ بھروں گی۔ ‘‘ شانو بولی۔ ’’اور اگر آہ بھر
گئی۔۔۔۔تو؟‘‘ سانول شانو کو پھر سے چھیڑتے ہوئے بولا۔’’تو خدا قسم۔۔۔ تو
مجھ بخت ماری کو کافر کہنا۔‘‘سانول نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کا بوسہ لیا
اور شانو کے ماتھے پر ہاتھ پھیرتا ہوا اس کی مانگ تک لے گیا۔شانو نے اپنا
سر اس کے کندھے پر رکھ دیا اور سانول نے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔
سورج سوا نیزے پر تھاجب بیل گاڑی پکی سڑک کے کنارے آکر رکی تھی۔ سڑک کے اس
پار بڑے شاہ کی درگاہ تھی۔تار کول کی سڑک ، دھوپ سے پگھل رہی تھی جب شانو
نے اس پر پیر رکھا تھا۔ ’’بس کر شانو۔ تیری منت پوری ہوئی۔ اب مجھ سے اور
برداشت نہیں ہو رہی تیری یہ تکلیف۔‘‘ سانول تڑپتے ہوئے بولا۔ ’’کون سی
تکلیف۔۔۔؟ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہو رہی۔اور پھرکچھ ہی دیر کی تو بات ہے
ابھی سورج ڈھل جائے گا۔۔۔اور تو دیکھنا ہوا بھی چلنے لگے گی۔۔۔ سکھاں کہتی
ہے کہ من میں سچی لو لگی ہو توپھر یہ گرمی دھوپ کچھ نہیں کہتی۔ اور دیکھ
،سچ ہی تو کہتی ہے وہ۔ ‘‘ شانو اپنا گھاگڑا اٹھاتے ہوئے،اپنے ننگے پیروں کی
طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔ ’’ایک تو یہ تیری سہیلی سکھاں۔۔۔ ‘‘ سانول
اکتاتے ہوئے بول رہا تھا۔ ’’ کیا اب یہیں باتیں کر کر کے میرے پیر جلائے گا
؟‘‘ شانو مسکراتے ہوئے اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔سانول نے جلدی سے شانو کا
ہاتھ تھاما اور اسے درگاہ کے اندر لے گیا۔صحن میں ایک بڑا گھنا درخت تھاجس
کی شاخوں پر منتوں کے دھاگے بندھے ہوئے تھے اور نیچے کبوتروں کے غول
انسانوں سے بلا خوف و خطر دانہ چگ رہے تھے۔ درخت کے قریب ہی ایک چبوترہ تھا
جس پر دوپہر کے وقت بھی لوگ اپنی منتوں کے دیے روشن کر رہے تھے۔صحن کے
احاطے کے ایک طرف حجرہ تھا جہاں بڑے شاہ جی کا مزار تھا۔ شانو نے اس حجرے
کے دروازے پر اپنا ماتھا ٹیکا اور پھر اپنی چنری کے پلو کی گرہ کھولی اور
سو کا نوٹ نکال کر گلے کی نذر کیا۔ شانو اور سانول دونوں نے ہی دعاکے لئے
ہاتھ بلند کئے۔شانو دعا مانگ چکی اور شکرانے کے نفل بھی ادا کر چکی تھی مگر
سانول ابھی بھی آنکھیں بند کئے ہاتھ اٹھائے دعا مانگ رہا تھا۔ شانو اس کے
قریب گئی اور پھر سے اپنی چنری کی گرہ کھول کر سانول کا صدقہ اتارنے لگی۔
شانو کے صدقہ اتارتے ہوئے سانول نے اپنی آنکھیں کھولی۔اس نے مسکراتے ہوئے
شانو کی بازو پکڑ لی ۔’’کیا مانگ رہا تھا؟‘‘ شانو نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’سچ بولوں تو شانو۔۔۔ میرا یقین بھی کامل ہو گیا ہے۔‘‘سانول بولا۔ ’’وہ
کیسے۔۔۔؟‘‘ شانو نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔ ’’ابھی دعاؤں میں تیرا ہی ذکر
چل رہا تھاکہ آنکھیں کھولیں تو تو ہی سامنے تھی۔‘‘ سانول نے جواب دیا۔شانو
نے اپنی بازو چھڑوائی اور صدقے کے پیسے گلے کی نذرکرتے ہوئے بولی۔’’ تو تو
نے بھی صرف مجھ ہی کو مانگا ہے؟‘‘ ’’تو تیرے سوا اور کیا مانگتا۔۔۔تجھے پتا
ہے عمر بھر کی منت مان کر جا رہا ہوں کہ ہر پہلی جمعرات کو یہاں حاضری دینے
آیا کروں گا۔‘‘سانول نے شانو کو بتایا۔وہ دونوں حجرے سے باہر آگئے۔ درخت کی
ٹہنی سے بندھے دھاگوں میں سے ایک دھاگے کی گرہ کو شانو نے کھول دیا۔ اس نے
دھاگے کی ڈوری کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔وہ آدھی ڈوری سانول کی بازو پر
باندھتے ہوئے بولی۔’’یہ ڈوری تجھے اور مجھے ہمیشہ ایک ساتھ باندھے رکھے
گی۔۔۔ آخری سانس تک۔‘‘ ’’محبت کو ان دھاگے ڈوریوں کی ضرورت ہی کہاں ہوتی ہے
شانو۔‘‘سانول آدھی ڈوری اس کی کلائی پر باندھتے ہوئے بولا۔شانو دیے جلانے
لگی اور سانول کبوتروں کو دانہ ڈالنے لگا۔ شانو کی نظریں کچھ کھوج رہی تھیں
جیسے وہ کچھ تلاش کر رہی ہو۔سانول اس کی طرف بڑھا اور پوچھنے لگا۔ ’’اب تو
کسے ڈھونڈ رہی ہے؟‘‘ ’’یہاں ایک بابا کا آستانہ ہے۔ سکھاں بتا رہی تھی کہ
بہت بڑا عامل ہے۔ پیشانی دیکھتے ہی دل کا حال بتا دیتا ہے۔‘‘شانو نے عامل
بابا کے بارے میں بتایا۔’’اچھا۔۔۔ تو اب تجھے اس بابا سے کیا کام؟‘‘ ’’اتنا
سفر طے کر کے آئے ہیں تو اس آستانے پر بھی حاضری دیتے چلتے ہیں۔‘‘ شانو نے
خواہش ظاہر کی۔سانول نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور بولا۔’’چل۔۔۔ تو
اپنی یہ خواہش بھی پوری کر لے۔‘‘ عامل بابا کا آستانہ درگاہ کے باہر ہی
تھا۔ لوگوں کی ایک لمبی قطار انتظار میں تھی۔ شانو اور سانول بھی وہیں
انتظار میں بیٹھ گئے۔ دوپہر ڈھل چکی تھی۔سانول اس کو کئی بار واپس چلنے کا
کہہ چکا تھامگر وہ عامل بابا سے ملے بغیر وہاں سے واپس نہیں جانا چاہتی
تھی۔سانول تو بار بار شانو کے پیروں پر ہی نظر دوڑائے جا رہا تھا جو گاؤں
سے شہر تک میلوں کی مسافت طے کر کے آئے تھے۔آخر شانو کی باری آہی گئی۔دونوں
ایک ساتھ عامل بابا کے قریب جا کر بیٹھ گئے۔کھجور کے پتوں کی چٹائی تھی جس
پر عامل بابا بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان کی آنکھوں میں گہرا سرمہ تھا۔ دونوں
ہاتھوں کی تمام انگلیاں پتھر کے نگینوں سے بھری پڑی تھیں۔ منکے اور تسبیحوں
کے ہار ان کے گلے کی زینت تھے ۔ عامل بابا کے دائیں طرف مٹی کا پیالہ پڑا
ہوا تھا اور بائیں طرف ایک دیا پڑا تھا جس کی لو ہوا کے دوش پر ہچکولے کھا
رہی تھی ۔ ’’بڑی منتوں سے پایا ہے تو نے اس کو شانو۔‘‘ عامل بابا نے شانو
کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اپنا نام سنتے ہی شانو نے نظریں اٹھائیں اور
مسکراتے ہوئے سانول کی طرف دیکھا اور پھر عامل بابا سے بولی۔ ’’ بابا،آپ
میرا نام بھی جانتے ہیں؟‘‘ ’’پچھلے چالیس سالوں سے یہاں ڈیرہ جمائے بیٹھا
ہوں۔ماتھے کی شکن دیکھ کر بندے کا نصیب پڑھ لیتا ہوں۔آج تک کسی نے آکر میری
کہی بات کو غلط نہیں کہا۔ جس دن میں غلط ثابت ہوا اس دن میں اپنا آستانہ
چھوڑ دوں گا۔‘‘ عامل بابا نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔’’آپ کا ذکر سنا
تھا بابا۔تبھی سلام کرنے آپ کے آستانے پر حاضر ہوئے ہیں۔۔۔ ہمارے حق میں
دعا کر دیجئے۔‘‘ سانول نے عقیدت مندی سے التجا کی۔ شاہ بابا نے سانول کا
ہاتھ پکڑا اور اس کی لکیروں کو دیکھنے لگے۔ ’’ یہ سانول میری اب تک کی
دعاؤں کا نصیب ہے بابا۔آپ کے آستانے پر آئے ہیں۔ ہم پر بھی نظر کرم کریں کہ
ہمارے آنگن بھی پھول کھلے۔‘‘ شانو نے بھی بابا کو دعا کے لئے کہا۔ ’’تیری
عمر بہت لمبی ہے سانول۔ تیرے ہاتھ کی لکیروں میں دور دور تک کوئی دوسری
عورت نہیں ہے۔ تیری قسمت میں صرف شانو تھی، شانو ہے اور شانو ہی رہے گی۔۔۔
‘‘عامل بابا سانول کا ہاتھ دیکھتے ہوئے بولا۔’’تو شانو سے زیادہ با وفا ہے۔
‘‘ عامل بابا نے مسکراتے ہوئے کہا۔شانو نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے اپنے سینے
پر ہاتھ رکھا او ر کہنے لگی۔’’اس کی سلامتی کی دعائیں مانگی ہیں میں نے
بابا۔ابھی بھی گھی کا دیا جلا کے آئی ہوں کہ اﷲ سائیں میرا سہاگ ہمیشہ
سلامت رکھے۔‘‘’’تیری منت پوری ہو گئی ہے شانو۔۔۔ یہ دیکھ۔‘‘ عامل بابا
سانول کے ہاتھوں کی لکیریں شانو کو دکھاتے ہوئے بولا۔’’یہ زندگی کی لکیر
ہے۔ اس کی پوری ہتھیلی پر پھیلی ہے۔۔۔صاف ۔۔۔شفاف۔‘‘ سانول عامل بابا کی
بات سن کر مسکرادیا۔۔’’میرا ہاتھ نہیں دیکھو گے بابا؟‘‘ شانو اپنا ہاتھ آگے
کرتے ہوئے بولی۔ ’’تیری لکیریں تو سانول کے ہاتھوں میں رچی بسی ہیں۔
جا۔۔۔تیری نیّا بھی پار ہے۔ تیرے آنگن بھی پھول کھلیں گے۔‘‘عامل بابا ،
شانو کا ہاتھ دیکھے بغیر بولا۔عامل بابا کی باتیں سن کر دونوں کے چہروں پر
خوشی کی لہر دوڑ گئی۔سانول نے نذرانہ عامل بابا کی نذر کیا اور دونوں چٹائی
سے اٹھ گئے۔شام ڈھل گئی تھی۔ ٹھنڈی ہوا بھی چل پڑی تھی۔ دونوں سڑک پار کر
کے بیل گاڑی تک پہنچ گئے۔شانو کے پیر سوجھ چکے تھے۔اس کے تلوؤں کے آبلے پھٹ
چکے تھے مگر عامل بابا کی باتیں اس کے کانوں میں ابھی تک رس گھول رہی تھیں
۔ وہ اپنی تکلیف بھول چکی تھی۔گاڑی بان ابھی بیل گاڑی چلانے کو ہی تھا کہ
سانول نے اسے رکنے کو کہا۔ سانول کو درگاہ کے ساتھ ہی پھولوں کی دکان نظر
آئی۔ وہ اپنی شانو کے لئے گجرے لینے کے لئے سڑک پار کر کے گیا۔سانول نے
موتیے کے گجرے خریدے۔اس نے دور سے مسکراتے ہوئے شانو کو گجرے ہوا میں لہرا
کر دکھائے۔سانول ہاتھوں میں گجرے لئے سڑک پار کر ہی رہا تھا کہ تیز رفتار
ٹرالے کی زد میں آگیا۔ٹرالے کی ٹکڑ نے اسے ہوا میں اچھال دیا۔ شانو نے منظر
دیکھا تو چیختی چلاتی ہوئی سانول کی طرف دوڑی۔لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو
گیا۔وہ سڑک پر خون میں لت پت پڑاتھا۔ گجرے ٹوٹ کر اس سے دور بکھرے پڑے تھے۔
سانول کی شاید آخری سانس تھی جب شانو نے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ سانول کے
ہاتھوں کا لہو موتیے کی خوشبو میں رچ گیا تھا۔شانو نے جلدی سے اس کی ہتھیلی
کا خون اپنے چہرے سے صاف کیا۔ وہ بوکھلائی ہوئی سانول کے ہاتھ کی اس لکیر
کو دیکھنا چاہ رہی تھی جو ابھی چند لمحے پہلے صاف شفاف اس کی پوری ہتھیلی
پر پھیلی ہوئی تھی۔ مگرخون تھا کہ اس کی رگوں سے رسے جا رہا تھا۔ اس نے
سانول کی ہتھیلی کے خون کو اپنے ہاتھ سے پھر سے پونجھا۔سانول کی زندگی کی
لکیر اس کے ہاتھ سے بھی کٹ چکی تھی۔شانو کی تو سانسیں تھم گئیں۔ سڑک کے اس
پار عامل بابا اپنی چٹائی پر کھڑا حیرانگی سے کھلے منہ سانول کی لاش کو
دیکھ رہا تھا۔عامل بابا نے اپنے گلے سے منکے اور تسبیحاں اتار کر چٹائی پر
پھینک دیں اور اپنے ننگے پیر سے قریب پڑے جلتے دیے کو روند ڈالا۔ وہ سب کچھ
چھوڑ چھاڑ کر اندھیری سڑک کی طرف چل دیا۔ |