"رات کے تین بج چکے ہیں مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے
۔بےبسی ،اور ذلت کااحساس سانپ بن کر ڈس رہاہے ،بھارتی جاسوس کلبھوش یادیوکو
پھانسی پہ لٹکانے کے لئے اگر سوبار مارشل لاء لگاناپڑے
تولگادیناچاہئے"۔موبایل پہ رات کےسواتین بجے اپنے دوست کایہ پیغام پڑھنے کے
بعد باقی رات مجھے بھی نیند نہیں آسکی ۔حقیقت یہ ہے کہ کلبھوشن یادیو کے
معاملے میں عالمی عدالت کی پھرتیاں ،اور بھارت کے حق میں فیصلے نے پوری قوم
کو ایسی ہی کیفیت میں مبتلا کیا ہواہے ۔ نوجوان سخت اضطراب کا شکار ہیں ،کہ
اب کیاہوگا؟ کیا "ریمنڈ ڈیوس" کی رہائی کی طرح اب ایک بار پھر ہماری
خودمختاری ،غیرت ،حمیت،اور بہادری کاجنازہ بڑی دھوم سے نکلے گا ؟۔کیا دنیا
ایک بار پھر دیکھےگی؟ ،کہ ہم کس قدر خود غرض لوگ ہیں ،کہ اپنے ہزاروں شہری
ایسے لاپتہ کرتے ہیں ،کہ پھر کبھی وہ منظرعام پر نہیں آتے۔لیکن ہمارے خلاف
کھلم کھلا دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث افراد کو ہم بڑی عزت سے اس کے
اپنے ملک روانہ کردیتے ہیں۔کوئی باہر سے آتاہے،اور ہمارے سارے سکیورٹی نظام
کو تہس نہس کرکہ کچھ لوگوں کوقتل کرکہ ان کی نعشیں تک اٹھا لےجاتاہے،سوشل
میڈیا پہ مقدس ہستیوں اور شعائر اسلام کو سخت تنقید کانشانہ بنایا
جاتاہے،پاک فوج کےخلاف منظم پروپیگنڈا کیاجاتاہے۔ پھربھی ہماری جبین بےنیاز
پہ شکن تک نہیں ابھرتی۔ڈالروں کے عوض ہم اپنی بیٹیاں،بیٹے عالمی غنڈے کے
ہاتھ بیچتےہیں ،اپنی کتابوں میں اعتراف کرتےہیں ،اور بڑی بے شرمی سے پھربھی
خود کو محب وطن گردانتے ہیں ۔ہم اپنے ہی ملک وقوم کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی
بات کرتےہیں ،اورپھربھی یہیں سیاست کرتے ،اقتدارکےمزےلیتےہیں۔کروڑوں اربوں
کی کرپشن کرنے والے،دہشت گردوں کو پناہ فراہم کرنے والے آزاد ہیں۔مگرمحب
وطن طبقے کو حراساں کیاجانااب عام بات بن چکی ہے۔سوال یہ پیداہوتا ہے ،کہ
آخرایسا کب تک چلےگا؟..ہمارے حکمران کب ہوش کے ناخن لیں گے۔کسی شاعر نے کیا
خوب کہاہے کہ :
"تازہ ہوا کے شوق میں اے امیرِ شہر!
اتنے نہ در بناؤ کہ دیوار گرپڑ ے
جھک کرسلام کرنےمیں حرج نہیں مگر
سراتنا مت جھکاؤ کہ دستار گرپڑے "
۱۰اپریل کو فوجی کورٹ میں "کلبھوشن "کوسزائےموت سنائے جانے کے فورا"بعد
بھارتی حکومت کا لب ولہجہ خاصا جارحانہ ہوچکا تھا ، بھارتی میڈیانے ایک
کہرام برپا کیا ہواتھا ،انڈین وزارت خارجہ کے ذمہ داران کھلم کھلا پاکستان
کو دھمکیاں دے رہے تھے، کہ وہ ہرقیمت پر کلبھوشن کو چھڑائینگے،پرائم
منسٹرنریندرمودی تک خود کو اس معاملے سے دور نہیں رکھ پائے۔انڈیا کلبھوشن
کو چھڑانے کے لئے سفارتی،اورعسکری دونوں محاذپہ سرگرم ہوچکاتھا۔لیکن افسوس
ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ کی طرح اس باربھی دانستہ روائتی لاپرواہی کا
مظاہرہ کیا ۔ہم نے نہ تو سفارتی سطح پہ کلبھوشن کےمعاملے کو ذیادہ اچھالا
اور نہ ہی عالمی عدالت میں کیس کی پیروی اچھے انداز سے کرسکے ۔دوسرے الفاظ
میں ہم خود یہی چاہتے تھے کہ ہمارا کیس کمزور ہو ،تاکہ اپنے ماضی کی روایات
کوجاری رکھتے ہوئے،اپنے قومی مجرموں کی رہائی کے اسباب پیدا کرسکیں ۔ افسوس
! کہ بھارت سے دوستی کےچکرمیں پاک فوج کی بے پناہ قربانیاں ،ہزاروں جوانوں
کی شہادتیں ،ملک وقوم کا بے پناہ جانی ومالی نقصان بھی حکمران طبقہ اپنے
پاؤں تلے روندنے کےلیے تیار ہے۔انڈین حاضر سروس فوجی ،جاسوس کلبھوشن یادیو
ہزاروں پاکستانیوں کا قاتل ہے (اس نے خودویڈیوبیان میں اعتراف کیاہے)اسے
جلد سے جلد کیفرکردار تک پہنچاناچاہئے۔ عالمی عدالت کشمیر،فلسطین،برما،شام
،عراق ،افغانستان کے مسلے پہ کبھی اتنی سرگرم کیوں نہیں ہوتی؟۔۔
بھارت اور عالمی طاقتیں ہمیشہ سے پاکستان کو غیرمستحکم کرنے،انارکی پھیلانے
،اور مایوسی پیدا کرنے میں کوشاں ہیں ۔ ایک طرف امریکہ "شکیل آفریدی" کی
رہائی کے لئے دباؤ بڑھارہاہے،تو دوسری طرف بھارت بھی "کلبھوشن "کی رہائی کے
لئے ہرحدتک جانے کو تیار ہے۔کیا نوازشریف انہیں سزائے موت دیکر بھارت
وامریکہ کی ناراضی برداشت کرپائنگے؟..ہمارے حکمران ہمیشہ ان دوممالک کی
دوستی کے چکر میں ملک کابہت سا نقصان کر بیٹھتےہیں۔ ایٹمی قوت کا حامل
پاکستان اتنا کمزور کیوں ہے؟ کہ اپنے مجرموں کو اپنی مرضی سے کیفرکردار تک
بھی نہیں پہنچاسکتا۔ہمیں عالمی عدالت کا فیصلہ "جوتے کی نوک " پہ رکھتے
ہوئےکلبھوشن یادیو کے ساتھ شکیل آفریدی کوبھی جلد تختہ دار پہ
لٹکادیناچاہئے۔جس سے دنیاکو یہ تاثر پہنچے گا کہ ہم ایک خود مختار ،آزاد
قوم ہیں ،جواپنے فیصلے خود کرنا جانتی ہے ۔حکومت اور فوج کو اس مسلے پہ ایک
پلیٹ فارم پہ اکٹھا ہوکر عالمی سازشوں کا مقابلہ کرناچاہئے۔لیکن افسوس ! کہ
ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا، حکومت اور فوج کےدرمیان دوریاں بڑھتی ہوئی
نظرآرہی ہیں ،جو ملک وقوم کے مفاد میں ہرگزنہیں ۔کلبھوش یادیو کو
ہر"قیمت"پر سزائے موت دی جانی چاہئے،یہ صرف فوج کی عزت اور وقار کا ہی نہیں
،بلکہ پورے پاکستان کی عزت،غیرت،استحکام اور تحفظ کا مسلہ ہے ۔پاک فوج اور
قوم بھارتی جاسوس کے لئے سزائے موت سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہوگی ،اور
ہونا بھی نہیں چاہئے!۔ |