کرکٹ ایک دل چسپ کھیل ہے لیکن یہ اسیڈیم کے اندر اور اس
سے کوسوں دور بیٹھے شائقین کو ہر پل سے باخبر رکھنے کے لیے رننگ کمنٹری کے
بغیر ادھورا ہے۔ ریڈیو پر کرکٹ کمنٹری کا آغاز 1930ء میں ہوا جب کہ ٹیلی
ویژن پرپہلی کمنٹری 1938ء میں ایک ٹیسٹ میچ کو ٹیلی کاسٹ کرکے شروع کی گئی
اور شائقین اپنے گھروں میں ریڈیو سیٹ اور ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر اس کھیل
سے محظوظ ہونے لگے۔ا س سلسلے میں بی بی سی اور ریڈیو آسٹریلیا نے انتہائی
شاندارکارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔پاکستان میں ساٹھ کی دہائی تک ریڈیو کو
واحدالیکٹرونک میڈیا کی حیثیت حاصل رہی۔ 1950ء میں ریڈیو پاکستان کی
ریڈیائی لہروں کے ذریعے کرکٹ کمنٹری نشر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔کرکٹ کی
براہ راست کوریج اور کمنٹری کے حوالے سے ریڈیو پاکستان کا تاریخی حوالہ اور
معیار کسی بھی غیرملکی الیکٹرونک میڈیا سے کم نہیں۔عمر قریشی اورجمشید
مارکر کرکٹ کےپہلے پاکستانی کمنٹیٹرتھے، جنہوں نے ریڈیو کی دنیا میں جان
ایلٹ ، ٹرومین کرسٹ ٹوفر، مارٹین،جینکن ایلن میگولری،کی طرح شہرت حاصل کی
بعد میں اس صف میں افتخار احمد بھی شامل ہوگئے۔ یہ تمام لوگ انگریزی میں
کمنٹری کرتے تھے۔ ریڈیو پاکستان سے جب اردو میں کرکٹ کمنٹری کا آغاز ہوا
تو پہلے قیوم نظر اور بعد میں منیر حسین نے اس شعبے کو کرکٹریڈیو کی دنیا
کا لازمیحصہ بنادیا۔ منیر حسین نے خوبصورت اور آسانپیرائے میں کمنٹری کرتے
ہوئے کرکٹ میچوں کے آ نکھوں دیکھا حال بیان کرنے کے سلسلے میں موثر طریقہ
کار کواپنایا۔ منیر حسین کے بعد حسن جلیل پاکستان کرکٹ کمنٹری کے پینل میں
شامل ہوئے اورانہوں نے اردو زبان کا استعمال کرتے ہوئےدل کش آواز اور
لفظوں کی خ وب صورت ادائیگی کے ذریعے،کرکٹ کمنٹری میں مزید رنگ بھر
دیا۔ریڈیو پاکستان کے اردو کمنٹیٹر زکے لیے انگریزی کمنٹری کی طرح کوئی
پہلے سے مرتب کردہ معیار اورضوابط پیشنظر نہیں تھی۔ لہذا قیوم نظر ، منیر
حسین ،محمد ادریس ،حسن جلیل ، بی اے خان اور راجہ اسدعلی خاں کو کرکٹ کے
احوال شائقین تک پہنچانے کے لے اپنے طور سے معیاراور اختراعات وضع کرنا
پڑیں۔ لاہو کے ریڈیواسٹیشن نے لاتعداد خوبصورت آوازوں کوسننے والوں سے
متعارف کروایا۔ لاہور ریڈیوسٹیشن سے تعلق رکھنے والے ملکی سطح کے معروف
کمنٹیٹرز طارق رحیم، راجہ اسدعلی خاں ، ریحان نوازاور طارق سعید پر مشتمل
کمنٹیٹرز پینل تشکیل دیا گیا جن کی کمنٹری کوعوام میں بے حد پسند کیا گیا۔
ٹی وی چینلز کی آمد کے بعد ریڈیو پاکستان کی اہمیت کم ہوگئی لیکن اس کے
متبادل کرکٹ کے تمام میچز ایف ایم 101 اور میڈیم ویو چینل پر نشر کیے
جاتےہیں۔1970ء میں جب پاکستان ٹیلی ویژن سے کرکٹ میچز براہ راست دکھانے کا
اہتمام کیا گیاتو چشتی مجاہد، عمر قریشی کے ساتھ پہلے ٹی وی کمیٹیٹر تعینات
کیے گئے۔ 1974ء میں عمر قریشی پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ منیجر کی حیثیت سے
منسلک ہوگئے تو افتخار احمد چشتی مجاہد کے ہمراہ شریک ہوگئے۔جمشید مارکر
1965ء میں ڈپلومیٹ کی حیثیت سے حکومت پاکستان کے ساتھ وابستہ ہوگئے اور کئی
ممالک میں سفیر کے طور پر کام کرتے رہے۔
1970ء میں کھیلوں کے ممتازصحافی اور پبلشر، جو خود بھی فرسٹ کلاس کھلاڑی
تھے، ریڈیو پاکستان کو اردوکمنٹیٹر کی حیثیت سے جوائن کیا۔ اس سے قبل
کھیلوں کی کمنٹری انگریزی میں نشر ہوتی تھی، جس پاکستان کی تین تہائی سے
زیادہ انگریزی سے نابلد آبادی سمجھنے سے قاصر رہتی تھی۔ درحقیقت وہ ملک
میں اردو کمٹری کے بانی تھے، بعد میں پاکستان کے سابق فاسٹ بالر فضل محمود
بھی ان کے ساتھ اردو میں کمنٹری میں شریک ہوگئے۔ عمر قریشی جو انگریزی کے
مقبول کمنٹیٹر تھے، اس صورت حال سے سخت دل گرفتہ اور ناخوش تھے،کیوں کہ ان
کا موقف تھا کہ ’’جتنی اچھی کرکٹ ا نگریزی زبان میں کی جاسکتی ہے ، کسی اور
زبان میں کرکٹ کی اصطلاحات کا استعمال مشکل ہے‘‘۔ کرکٹ کنٹرول بورڈ اور
وزارت اطلاعات و نشریات نے ان کے موقف کو رد کردیا۔
اردو میں کمنٹیٹرز کی زبان سے نئے الفاظ اور اصطلاحات سننے کو ملتی تھی،
مثلاً ایک میچ کے دوران جب عمران خان، مخالف بیٹسمین کو بالنگ کرارہے تھے،
فضل محمود نے کمنٹری کرتے ہوئے کہا،’’ عمران بھاگتے ہوئے آئے، گیند کرائی،
یہ ’’ٹپا گیند‘‘ (باؤنسر) تھی، مہندر امرناتھ نے بلاّ چلایا، کھلاڑی گیند
کے پیچھے بھاگے، لو چار رنز بن گئے۔‘‘ جب پاکستان ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیل
رہا تھا تو دسویں اوور پر پاکستانی کمنٹیٹر حسن جلیل نے کہا کہ ’’ پاکستان
نے ویسٹ انڈیز پر شکنجہ کس لیا ہے‘‘۔ جاوید میاں داد نے جب ایک اونچا شاٹ
کھیلا تو منیر حسین جذباتی انداز میں چیخے،’’جاوید میں داد نے ’’چوے‘‘ کے
لیے بلاّ گھمایا، اور گیند ہوا میں گئی، اب تیزی سے باؤنڈری کی طرف جارہی
ہے، اور یہ ایک رن بن گیا‘‘۔ ایک اور میچ کے موقع پر ان کی کمنٹری اس انداز
میں تھی، ’’پاکستان فتح کے قریب ہے، ابھی اس کا ایک کھلاڑی باقی ہے، جو
ابھی تک جم کر کھیل رہا ہے‘‘۔ جب ایک میچ میں انضام الحق بیٹنگ کرنے آئے
تو منیر حسین گویا ہوئے’’ انضمام الحق آئ۔، بڑے پرامیسنگ کھلاڑی ہیں، اور
یہ بالر نے انہیں گیند کائی اور انضمام آؤٹ ، پہلی ہی گیند پر‘‘۔
منیرحسین نے ’’گگلی‘‘ کے لیے دھوکے باز گیند کی اصطلاح وضع کی تھی۔ چند
سالوں بعد حسن جلیل اور بشیر خان بھی ریڈیو پاکستان کے اردو کمنٹری کے پینل
میں شامل ہوگئےجب کہ انگریزی کمنٹری میں شہزاد ہمایوں اور افتخار احمد چشتی
مجاہد اور عمر قریشی کے ساتھی بن گئے۔ 1970ء کے آخری سالوں میں ریڈیو
پاکستان کی جانب سے عمر قریشی، چشتی مجاہد، افتخار احمد اور منیر حسین کو
کرکٹ میچوں کی رننگ کمنٹری کے لیے بیرون ملک بھی بھیجا جانے لگا۔ 1981ء میں
پاکستان کرکٹ رٹیم کے دورہ آسٹریلیا کے موقع پر آسٹریلیا کے چینل 9پر
پاکستانی کمنٹیٹر افتخار احمد کی رچی بینود، ونی گریگ، کیتھ اسٹیک پول ٹونی
کوزیئر اور بل لاری کی معاونت کے لیے کمنٹیٹر کی حیثیت سے خدمات حاصل
کرلیں۔ 1986ء میں شارجہ کپ کے دوران جب جاوید میاں داد نے اپنا شہرہ آفاق
’’چھکا‘‘ لگایا تو اس وقت افتخار احمد انتہائی جوش و ولولے کے عالم میں
کمنٹری کررہے تھے، وہ اپنی نشست سے کھڑے ہوکر چیخنے لگے ’’ اور میاں داد کے
اس بلند و بالا چھکے کے ساتھ، پاکستان نے شارجہ کپ جیت لیا ہے‘‘۔ جب
پاکستان نے 1993ء میں وسیم اکرم کی قیادت میں ویسٹ انڈیز کا دورہ کیا تو
برطانیہ میں حال ہی میں شروع ہونے والا نیا ٹی وی نیٹ ورک ’’اسکائی ٹی وی‘‘
اور بھارت کےکا ’’اسٹار ٹی وی‘‘ اس ٹورنامنٹ کی براہ راست کوریج کررہے تھے۔
ان دونوں چینلز کی طرف سے ویسٹ انڈیز، برطانوی اور آسٹریلین کھلاڑیوں کے
ساتھ ایک پاکستانی کمنٹیٹر کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی، لیکن وہ کمنٹیٹر نہ
تو افتخار احمد تھے اور نہ ہی چشتی مجاہد، بلکہ اس کے لیے سابق پاکستانی
کپتان عمران خان کی خدمات حاصل کی گئی تھیں، جو 1992ء میں کرکٹ سے ریٹائر
ہوگئے تھے۔
1990ء میں پاکستان کے سابق اوپننگ بیٹسمین رمیز راجہ کو انٹرنیشنل کمنٹیٹرز
پینل میں شامل ہونے کی پیشکش موصول ہوئی۔ چشتی مجاہد کی خدمات متحدہ عرب
امارات میں پاکستان کے میچز میں کمنٹری کے لیے ایک اور غیر ملکی اسپورٹس
چینل ’’ٹین اسپورٹس‘‘ نے حاصل کرلیں۔ افتخار احمد 2011ء میں کرکٹ کمنٹری سے
ریٹائر ہوکر کینیڈا میں سکونت پذیر ہوگئی جب کہ عمر قریشی کا 2005ء اور
منیر حسین کا 2013ء میں انتقال ہوگیا۔ حسن جلیل اب پاکستان کرکٹ کے ڈومیسٹک
میچز کی ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر کمنٹری کرتے ہیں۔
کرکٹ کی کمنٹری کے دوران اکثر و بیشتر دل چسپ واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کی ہوم سیریز کے دوران پاکستان ٹیلی ویژن نے بھارتی کرکٹ
ٹیم کے سابق کپتان لالہ امرناتھ کو پاکستانی کمنٹیٹرز کے ساتھ تجزیے کے لے
کمنٹری باکس میں بلایا۔ ان کی عادت تھی کہ جب ان سے کھیل کے کسی منظر کے
بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ بے تکان بولنا شروع ہوجاتےاور روکنے کے
باوجود ان کی آواز میں بریک نہیں لگتا۔ کراچی میں ٹیسٹ سیریز کے تیسرے روز
جب چائے کے وقفے کے دوران کمنٹیٹر افختخار احمد نے ان سے کھیل کے بارے میں
کوئی سوال پوچھا تو انہوں نے بولنا شروع کردیا ، اس دوران کھیل دوبارہ شروع
ہوگیا اور افتخار احمد انہیں خاموش کرنے کے لیے ’’اوکے، اوکے، تھینک یو،
تھینک یو‘‘ کہتے رہے لیکن انہیں روکنے میں ناکام رہےتو انہوں نے لالہ
امرناتھ سے رخ بدل کر کمنٹری شروع کردی، جس پر لالہ غصے میں چیخ پڑے’’خاموش
ہوجاؤ، مجھے بات پوری کرنےدو‘‘ ، کمنٹری باکس میں خاموش ہوگئی تو بولے’’
کیا جلدی ہے، کچھ نہیں‘‘۔ اس میچ میں مشتاق احمد جو لیگ برکیر بالر تھے،
انہوں نے بھارتی بیٹسمین کو’’ گگلی‘‘ بال کرائی تو منیر احمد نے کمنٹری
کرتے ہوئے اس کا اردو ترجمہ ان الفاظ میں کیا’’ مشتاق احمد نے بلے باز کی
جانب ایک دھوکے باز گیند کرائی‘‘۔
1980میں بیرون ملک میچ کے دوران عبدالرقیب بیمار ہوگئے، ان کی تیمارداری کے
فرائض پاکستان کے لیفٹ آرم اسپنر، اقبال قاسم نے انتہائی تندہی سے ادا
کیے۔ منیر حسین نے اس تمام صورت حال کا جائزہ اپنی کمنٹری میں ان الفاظ میں
پیش کیا، ’’ قاسم نے رقیب کی بییماری کے دوران ایک ماں کا کردار ادا
کیا‘‘۔1980ء میں پاکستان اور آسٹریلیا کی ہوم سیریز کے دوران عمر قریشی
کمنٹری کررہے تھے کہ ایک انتہائی مہیب آواز سن کر خاموش ہوگئے بعد میں
معلوم ہوا کہ مذکورہ آواز کمنٹری بکس میں بیٹھے کسی شخص کے بلند آہنگ
قہقہے کی وجہ سے گونجی تھی جب کہ افتخار احمد نے مذکورہ آواز کے بارے میں
بتایا کہ ایک کمنٹیٹر بیزاری کے عالم میں کرسی پر جھول رہے تھے کہ اچانک
کرسی ٹوٹ گئی جس کی وجہ سے وہ پیچھے کی جانب گرگئے، ان کے گرنے کی وجہ سے
جو دھماکا ہوا وہ ٹیلی وژن ناظرین نے اپنےٹی وی سیٹ پر بھی سنا‘‘۔ 1985 ء
میں شارجہ کپ میںایک روزہ کرکٹ میچ کے دوران سابق پاکستانی کپتان آصف
اقبال کوتبصرے کے لیے بلایا گیا۔ افتخار احمد جو کمنٹری کررہہےتھے، ان سے
ایک سوال پوچھا، آصف نے ابھی جواب دینا شروع کیا تھا کہ افتخار نے اسی وقت
کھیل کی کمنٹری شروع کردی، آصف اس صورت حال سےپریشان ہوکر خاموش ہوگئے۔
افختار نے کمنٹری روک کر ان کی توجہ دوبارہ اپنے سوال کی جانب مبذول کرائی
، اور آصف نے اپنا ٹوٹا ہوا سلسلہ ایک مرتبہ پھر ابتدا سے شروع کیا، ابھی
وہ اظہار خیال کر ہی رہے تھے کہ افتخار نے کمنٹری بکس سے کھیل کی تازہ ترین
صورت حال دیکھ کر ، اس کی رودواد بیان کرنا شروع کردی۔، جس کی وجہ سے آصف
کو نروس ہوکر دوبارہ رکنا پڑا، اس کے فوراً بعد افتخار نے آصف کی نشست ہلا
کر دوبارہ انہیں اپنی جانب متوجہ کیا اور بولنے کا اشارہ کیا اور ناظرین کو
بتایاکہ یہ کھیل کا وقفہ تھا۔ ننیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز کے دوران
نیوزی لینڈ کی ٹیم اپنا پہلا ٹیسٹ میچ ہار گئی، اس پر کیوی کپتان انتہائی
دل گرفتہ تھے۔ دوسرے ٹیسٹ میچ کا انعقاد حیدرآباد کے نیاز اسفیڈیم میں
ہوا۔ میچ شروع ہونے سے قبل کمنٹیٹر افتخار احمد نے نیوزی لینڈ کی ٹیم کے
کپتان جرمی کونی کو کمنٹری باکس میں بلایا اور ان سے پاکستانی اسپنرز کی
کارکردگی کے حوالے سے سوال کیا، جس پر جرمی کونی غصے سے کرسی کا ہتھا پکڑتے
ہوئے پھٹ پڑے اور ایمپائروں کے خلاف اظہار خیال شروع کردیا۔ افتخار نے ان
کی توجہ دیگر موضوعات کی طرف کرنے کی اپنی سی ہر ممکن کوشش کی لیکن انہوں
نے امپائروں کے خلاف ہرزہ سرائی روکنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’’جانب
دانرانہ ایمپائرنگ کے باعث ان کی ٹیم کے کھلاڑی مایوسی کا شکار ہیں اور وہ
اپنا دورہ ختم کرکے وطن واپسی کے لیے سوچ رہے ہیں‘‘، یہ سن کر افتخارنے
کیمرے کی جانب رخ کرتے ہوئے کہا کہ’’ آپ کا بہت بہت شکریہ، جرمی کونی، ہم
آپ کی اور آپ کی ٹیم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔
عبدلحفیظ کاردار جو پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان تھے، اکثر کمنٹری باکس
میں آجاتے تھے۔ ایسے ہی ایک میچ کے موقع پر جس میں پاکستانی ٹیم نے عمران
خان کی قیادت میں بھارت کو شکست دی تھی، کاردار اردو کمنٹیٹر بشیر خان کے
ساتھ کمنٹری باکس میں موجود تھے۔ جیسے ہی پاکستانی بالرز نے بھارت کے آخری
کھلاڑی کو آؤٹ کیا تو کاردار مائک اپنی طرف کرکے جذباتی انداز میں چیخے،
بشیر، ہم نے معجزہ کر دکھایا ہے، ہم نے ہندوؤں کو شکست دے دی، ہم نے
ہندؤں کو شکست دے دی۔ ایسے ہی اکثر موقع پر بشیر خان نے محسوس کیا کہ
کمنٹری کے دوران کاردار بے جا مداخلت کرتے ہیں اور جذباتی انداز میں چیختے
ہوئے ان پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہوں نے ایک میچ کی کمنٹری
کے دوران انتہائی غیرمحسوس انداز میں ان کے پاس رکھا ہوا مائکرو فون دور
کردیا اور ایک منظر پر مظطربانہ انداز میں کمنٹری کرتے ہوئے بولے، ’’کاردار
صاحب بہت خوش ہیں، خوشی اچھی چیز ہوتی ہے‘‘۔ |