بل فائٹنگ

اس خونیں جنگ میں فتح انسان کی ہی ہوتی ہے اور حیوان کے حصے میں صرف موت آتی ہے بل فائٹر کی ذرا سی غلطی خطرناک ثابت ہو تی ہے کیونکہ سانڈ ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر اس کو اپنے سینگوں پر اچھا ل کے موت کے گھاٹ بھی اتاردیتاہے

بل فائٹنگ کا کھیل ہسپانوی تہذیب و ثقافت کاایک ایسا لازمی جزو ہے جس کے بغیر ہسپانیہ کا کا وسیع کینوس بے رنگ ہے۔ غیر ملکی اسے بربریت سے بھرپور ایک ظالمانہ اور وحشیانہ کھیل قرار دیتے ہیں ، جس میں ہر مرتبہ چھ بھینسے ہلاک ہوتے ہیں، متعدد گھوڑے بھی زخمی ہوتے ہیں اور اکثر اوقات انسان بھی مارے اور زخمی ہوتے ہیں۔ بل فائٹنگ کا انداز ’’ویرونیکا‘‘ ایک عیسائی مذہبی بزرگ، سینٹ ویرو نیکا کے نام پر رکھا گیا ہے ، جنہوں نے حضرت عیسیٰ کے چہرے سے پسینہ پونچھا تھا۔ ہسپانیہ پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد عیسائی ان کے ساتھ سات سو برس تک جنگ و جدل میں مصروف رہے۔ اندلس کےعیسائی حکمراں، ان طویل جنگوں کی ذہنی اذیتیوں سے چھٹکارا پانے کے لیے فارغ اوقات میں جنگلی درندوں، ہرن، بارہ سنگھےاور جنگلی بھینسوں کا شکار کرتے تھے، ان میں سے چند آسان شکار ثابت ہوتے تھے جب کہ ریچھ سمیت کئی درندے اپنی بقاء کے لیے مزاحمت کرتے لیکن ان وحشی جنگ جوؤں کے مقابلے میں بے بس ہوجاتے تھے۔ آئبیرین سانڈ کے ساتھ مقابلہ ہمیشہ کچھ مختلف انداز میںہوتا تھا جو شکاریوں اور تماشائیوں کی تفریح طبع کا باعث بنتا تھا۔ یہ خوبصورت اور طاقتور حیوان غصے اور اپنی فطری بہادری کے سبب ہر شخص کو متاثر کرتا تھا۔ اس کے شکار کے لئے ہر بار ایک نئی حکمت عملی اختیار کرنا پڑتی تھی۔ شکاری کی ذرا سی کمزوری یا غفلت اس کی جان خطرے میں ڈال دیتی تھی۔ یہ شکار کے وقت دوسرے جانوروں کی طرح بھاگنے کی بجائے ڈٹ کر مقابلہ کرتا اور اپنے سامنے آنے والی ہر حرکت کرتی ہوئی شے کو اپنے سینگوں کی نوک پر رکھ لیتا تھا۔غالباًً یہی وجہ تھی جو ہسپانوی عوام کی طرف سے اس سرکش اور طاقتورحیوان کو پکڑ کر سدھانے کے لیے سوچا گیاتاکہ ضرورت کے وقت ان کی تلاش نہ کرنا پڑے اور شکاریوں کے جوش، جذبہ اور مہارت اور بہادری کا امتحان لیا جاسکے۔ قدیم اسپین کے دور دراز علاقوں میں تفریح طبع کے لیےجس مشغلہ کوجنم دیا وہ کچھ عرصے بعداسپین کا قومی کھیل بن گیا ہے جب کہ بعد میں اسے دنیا کے کئی اور ممالک میں بھی مقبولیت حاصل ہوگئی۔ سیاحت کے شوقین لوگ بل فائٹنگ کے مقابلوں کو دیکھنے کے لئے جوق در جوق اسپین کا رخ کرتے ہیں۔

تاریخ میں سب سے پہلے جس بل فائٹ کا تذکرہ ملتا ہے وہ 1133 میں لوگرہنو کے قصبہ ویرا میں شہنشاہ الفانسو ہشتم کی تخت نشینی کی موقع پر منعقد کی گئی تھی۔اسے درباریوں اور عوام نے اتنا پسند کیا کہ اس کے بعد حکم ران ہر تہوار یا خصوصی تقریبات کے موقع پر اس کھیل کا اہتمام کرنے لگے۔ بادشاہ کے مہمان اور رعایا اس بات کے خواہش مند ہوتے تھے کہ وہ ان کی تفریح طبع کے خاطر بل فائٹنگ کونمایاں درجہ دے۔ہسپانیہ پر عیسائیوں کے دوبارہ قبضے اور مسلمانوں کے انخلاء کے بعد یہ کھیل اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ ملک کے چپہ چپہ میں پھیل گیا جہاں پرُ جوش تماشائی ، انسان کوتند خو اور طاقتورسانڈسے دو دو ہاتھ کرتے دیکھتے تھے۔ انسان اور حیوان کے درمیان اس خونیں لڑائی میں فتح عام طور سےبل فائٹر کے حصے میں ہی آتی تھی جب کہ بے چارہ سانڈ اپنی تمام تر طاقت ، تیزی و پھرتی کے باوجود اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا تھا۔ برطانیہ کے بادشاہ چارلس اول اور فلپ چہارم نے بھی بل فائٹنگ کے مقابلوں کا باقاعدہ اہتمام کیا اور ان کے لئے بہترین اسٹیڈیم تعمیر کروائے، اس کی مثال میڈرڈ میں پلازہ میئر اسٹیڈیم ہے۔
کھیل کے نام پر انسانوں کے ہاتھوںجانوروں کے بے رحمانہ قتل کو روکنے کے لیے شہنشاہ فلپ دوم اور پوپ پائیس پنجم نے اپنے دور حکومت میں اس بے رحمانہ کھیل کوروکنے کے احکامات جاری کئے لیکن لوگوں نے اس کا کوئی خاص اثر نہ لیا اور ان مقابلوں کا اہتمام چوری چھپے جاری رہا۔ لوگ اس کھیل سے لطف اندوز ہونے کے اتنے عادی ہو چکے تھے کہ وہ کسی پابندی کو خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں تھے۔ عوام کا یہ جوش و جذبہ دیکھ کر پوپ گریگوری ہشتم نے اپنا جاری کردہ حکم نامہ منسوخ کردیا اور بل فائٹنگ دوبارہ زور و شور سےشروع ہوگئی۔ پوپ نے اپنا یہ فیصلہ اس دور کے مصنف فرے لوئس ڈی لیون کی اس نصیحت کو سامنے رکھ کر منسوخ کیا جس میں کہا گیا تھا کہ بل فائٹنگ اسپین کے عوام کے خون میں رچی بسی ہے اور اس کو روکنے کے نتائج سیاسی طور سے انتہائی بھیانک برآمدہوں گے۔

اس کھیل نے ہسپانیہ کے قومی کھیل کی حیثیت اختیار کرلی اور ایک وقت وہ آیا جب ہسپانیہ اوریہ کھیل، لازم و ملزوم ہوگئے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کھیل کی ہیئت میں بھی تبدیلی آتی گئی۔ پہلے شکاری یا ماسٹر اکھاڑے میں پیدل آتا تھا جسے آج کل میٹاڈور کہتے ہیںجب کہ نائٹ گھوڑے پر سوار ہوتا تھا۔ یہ موجودہ دور کا پیکاڈور ہے۔ میٹاڈور پہلے نائٹ کا غلام ہوتا تھا، اسی لئے وہ پیدل ہوتا تھا اور نائٹ گھوڑے پر ،مگر بعد میںیہ کردار تبدیل ہوگئے۔میٹا ڈور کو پیکاڈور یا نائٹ پر سبقت حاصل ہوگئی۔ یہ اعزاز پانے والا پہلا میٹاڈور فرانسسکورومیرو تھا جسے عوام نے 1726میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ رومیرو نے بل فائٹر کی حیثیت سے تاریخ ساز کامیابیاں حاصل کیں۔ اس کی کھیل میں مہارت، جی داری اور دلکش انداز نے اسے ایک عام آدمی سے ہیرو کا مقام دلادیا۔بعد میں کئی بل فائٹروں نے اس کا انداز اپنا کربل فائٹنگ میں حصہ لیا،جن میں رافائیل مولینا، مونٹے اور مینولیلی تین منفرد میٹاڈور تھے جو اس کھیل کی باریکیوں سے بخوبی واقف تھے۔ ہر ایک نے اس کھیل کے وحشیانہ پن کو ایک خوبصورت ہنر کی شکل دی جو آج کل اسپین کے ساتھ ساتھ فرانس، پرتگال، لاطینی امریکا، کولمبیا، ایکواڈور، گوئٹے مالا، میکسیکو، پاناما، پیرواورویزویلا میں دیکھنے میں آتا ہے۔ جاپان میں بھی اس کھیل کی تاریخ آٹھ سو سال قدیم ہے، لیکن اس میں صرف انسانوں کی بجائے سانڈوں کو ایک دوسرے ے لڑایا جاتا ہے، اس کھیل کو وہاں مقامی زبان میں oshi-oraseکہا جاتا ہے، جس کے لغوی معنی بیلوں کی جنگ کے ہیں۔

ہسپانیہ کےبیشتر شہروں میں بل فائٹنگ کے باقاعدہ اسکول بنے ہوئے ہیں جن میں تربیت حاصل کرکے فارغ التحصیل ہونے والے ہزاروں بل فائٹرز میں سے بہ مشکل ایک سو کے قریب ہی کسی چھوٹے موٹے بل رنگ میں داخل ہوتے ہیں جن میں سے دو چار ہی پیشہ ور بل فائٹر کا رتبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔ پروفیشنل بل فائٹر کا خطاب ہمیشہ میڈرڈ کے بل رنگ میں دیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ انسان اور حیوان کی اس جنگ کی ہسپانیہ میں دو اقسام ہیں، ایک اندلس کی اور دوسری میڈرڈ کی۔

اس ملک میں بل فائٹر کی تربیت کے لیے تو ادارے قائم ہیں ہی ،لیکن وہاں اس لڑائی میں حصہ لینے والےسانڈوں کے لیے بھی فارم ہاؤسز بنے ہوئے ہیں ، جہاں اعلی نسل کے بیل پالے جاتے ہیں اور انہیں بل فائٹنگ میں حصہ لینے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ ان مقابلوں کے لیے بل کا وحشی اور ناتجربہ کار ہونا بہت ضروری ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ فائٹ میں حصہ لینے والے’’ بل‘‘کو ہلاک کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے وہ رنگ میں بل فائٹر کے ہاتھوں سے بچ جائے تو فائٹ کے اختتام پر اسے فارم میں لے جاکر مار دیا جاتا ہے، ورنہ اگر ایک سے زائد مرتبہ اسے بل رنگ میں لڑنے کا موقع دیا جائے تو وہ سابقہ تجربے کو بروئے کار لاکر بل فائٹر کی ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔ ابتدا میں جب اس پابندی نے قانونی شکل اختیار نہیں کی تھی تو ہر سال بل رنگ میں سیکڑوں بل فائٹر اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے تھے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے پوپ کے حکم پر ہسپانیہ کی ساری ریاستوں میںاس قانون کا نفاذ ہوا۔

سرخ رنگ بل فائٹ کا نمایاں حصہ ہوتا ہے۔ اسٹیڈیم کی سرخ محرابیں، اصطبل کا سرخ پھاٹک، سرخ رومال، سرخ پوشاکیں، سرخ خون اس کھیل کا بنیادی جزو ہوتے ہیں۔اس جنگ میں انسان اور حیوان ایک دوسرے کے مدمقابل آتے ہیں۔ سانڈ اپنی طاقت کے نشے میں اپنے حریف سے نبرد آزما ہوتا ہے جب کہ آدمی اس سےیہ ثابت کرنے کے لیے لڑتا ہے کہ وہ آج بھی لاکھوں سال قبل جنگلوں میں رہنے والے اپنے آباء و اجداد کی مانند، جنگلی درندے کے سامنے اکیلا خم ٹھونک کر کھڑا ہوسکتا ہے اور اسےاپنی چابک دستی اور ذہانت سےزیر کرسکتا ہے۔ اس کھیل میں مختلف الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، جیسے’’ لیرافتادو‘‘جس کے معنی ناقابل تسخیر کے ہیں۔’’ براریتو‘‘، بہادر،’’ آران کادا‘‘، بزدل، ’’ہے تورو‘‘، بل کو مخاطب کرنا۔بل رنگ میں صدر نشین ،اس فائٹ کا مختار کل ہوتا ہے جو رنگ میں بنے اپنے کیبن میں بیٹھتا ہے۔ اس کھیل کے دیگر کرداروں میں دو گھڑ سوار جنہیں ’’گوسلز‘‘ کہا جاتا ہے، میدان میں آنے کے بعد صدر سے فائٹ شروع کرنے کی اجازت طلب کرتے ہیں اور اس کے احکامات کو بل فائٹر تک پہنچاتے ہیں۔ بل فائٹر کے ساتھ اس کے معاونین بھی ہوتے ہیں جو آڑے وقت میں بل کو اپنی جانب متوجہ کرکے فائٹر کی جان بچا لیتے ہیں۔ ان میں چپراسی، باندریلو، گھڑسوار ’’پکاڈور‘‘ یا نیزہ بردار شامل ہوتے ہیں۔ فائٹ کا باقاعدہ آغازبل فائٹر کی بجائے اس کے معاونین کرتےہیں جو بل کے آگے سرخ کیپ لہرا کر اسےمشتعل کرتے ہیں تاکہ وہ ان کے پیچھے دوڑے۔ اس سے ان کا مقصد بھینسے کو بھگا کرتھکانا اور اس کی تیزی ختم کرناہوتا ہے۔ بل فائٹر اس دوران حیوان کی حرکات و سکنات اور حملہ کرنے کی صلاحیتوں کا جائزہ لیتا ہے ۔ تماشائی اس دوران ’’اولے اولے‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔ یہ فائٹ مختلف سیشنز پر محیط ہوتی ہے۔ پہلے سیشن میں بل فائٹر، ویرونیکا اور ری بولیرا انداز اپنا کر’’بل‘‘ کے سامنےکیپ لہراتے ہوئے اشتعال دلا کر حملے کی دعوت دیتا ہے اور اس کی زد سے بچنے کے لیے اپنی ذہانت اور پھرتی کو استعمال کرتا ہے۔ دوسرے سیشن میں’’ پکاڈور‘‘ جس کا گھوڑا سر سے پاؤں تک روئی کے گدیلوں میں پوشیدہ ہوتا ہے، بل پر نیزے سے حملہ کرتا ہے۔ لڑائی کے تیسرے ایکٹ میں بل فائٹر کیپ کی بجائے دو باندریلو (ایک گز لمبی چھڑی جس کے سرے پر چھ انچ لمبی برچھی ہوتی ہے) تین مرتبہ جانور کی گردن پر مارتا ہے۔ اس فائٹ کے اختتامی سیشن کو ’’ترسیل‘‘ یعنی موت کا کھیل کہتے ہیں۔ اس ایکٹ میں بل فائٹر مولیتا لیے رنگ میں داخل ہوتا ہے۔ مولیتا، سرخ سرج کے اس کپڑے کو کہتے ہیں جو ایک چھڑی کے گرد لپٹا ہوتا ہے ۔ یہ بل کے سر کو نیچا کرنے کے کام آتا ہے۔ اس مرحلے میں فائٹر، صدر نشین سے بل کو ہلاک کرنے کی اجازت طلب کرتا ہے اور صدر اپنا رومال لہرا کر اجازت دے دیتا ہے۔ جس کے بعد بل فائٹر ، اس کے کندھوں اور سینگوں کے درمیان تلوار گھونپ کر اس کا خاتمہ کردیتا ہے۔بل فائٹنگ کے دوران میٹاڈور اس بات کا خاص خیال رکھتا ہے کہ اس کے اور بل کے درمیان ایک مخصوص فاصلہ برقرار رہے۔ میٹاڈور اس کھیل کا واحد کردار ہے جو اس تمام ڈرامہ کا خالق اور پیش کار ہوتاہے ۔وہ اپنی مہارت سے سانڈ کو کوئی موقع فراہم نہیں کرتا کہ وہ اسے زک پہنچا سکے۔ سانڈ کی فطرت ہے کہ ہر حرکت کرتی شے پر حملہ کرتا ہے جب کہ میٹاڈور ماہرانہ انداز میں اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے کیپوٹ کو اس زاویہ سے اور اپنے جسم کے اس قدر قریب سے حرکت دیتا ہے کہ سانڈ اس سے بال برابر کے فاصلہ سے نکل جاتا ہے اور اسے کوئی گزند نہیں پہنچتی۔ خود سے قریب تر کیپوٹ رکھنے کا ماہر میٹاڈور عوام کے دلوں میں گھر کرلیتا ہے۔وحشی حیوان کے برق رفتارحملوں سے خود کو بچانااور اسے زیادہ سے زیادہ تھکانا اور غصہ دلانا میٹاڈور کی مہارت کا ثبوت سمجھا جاتا ہے۔ اسپین کے ایک نقادنے بل فائٹنگ کے حوالے سے کہا تھا کہ ہر وہ شخص بل فائٹربن سکتا ہے جو جرأت مند ہو اور کھیل کی باریکیوں کو سمجھتا ہو۔

کسی بھی کھیل میں جیت کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں، شائقین بھی اسی کی تمنا کرتے ہیں۔ وہ اپنے کھلاڑیوں کی کارکردگی کا ریکارڈ رکھتے ہیں لیکن بل فائٹنگ میں کوئی اسکورنگ نہیں ہوتی۔اس کا نتیجہ عام طور سے سب کو معلوم ہوتا ہے کہ انسان بالآخر سانڈ کے خلاف فتح یاب ہو گا لیکن وہ صرف یہ دیکھنے کے لئے اسٹیدیم کا رخ کرتے ہیں کہ ان کا پسندیدہ میٹاڈور کیسےدائو پیچ، چالاکی، مہارت اور خوبصورتی سے سانڈ کو کیپوٹ یا مولیتا کے ذریعے کتنا دوڑاتا ، تھکاتا اور تنگ کرتا ہے۔ وہ میٹاڈور کے ہرایکشن پرفلک شگاف آوازوں میں شور مچا کر اسٹیڈیم سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ بل فائٹرکو اپنی مہارت اورحیوان پر سبقت حاصل کرنے کا صلہ عام طور سے عوام کے انہی نعروں کی صورت میں ملتا ہے۔ایک بل فائٹرنے وحشی بل سے لڑائی میںاپنے تجربات ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اس کے نزدیک بل فائٹنگ موت کے ساتھ بیلے ڈانس کی طرح ہے کیونکہ جس طرح وہ رقص کے دوران اپنی حرکات و سکنات پر قابو رکھتا ہے تاکہ اس کے قدم موسیقی کے ساتھ ہم آہنگ ہوں اسی طرح مقابلہ کے دوران بل فائٹر کی ذرا سی غلطی ہلاکت خیز ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ سانڈ ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر اس کو اپنے سینگوں پر اچھا ل کے موت کے گھاٹ بھی اتار سکتا ہے یا ریشمی لبادہ اپنے سینگوں سے پھاڑ کر اس کے بدن میں سینگ گھسا سکتا ہے۔
ہسپانیہ میں بل فائٹنگ کے دوران 33بل فائٹرز سمیت 134دیگر افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جب کہ لاتعداد بل قتل کیےجاچکے ہیں۔ہسپانیہ میں ہی اس کھیل کی ایک شکل ایسی ہے جس میں کوئی پیشہ ور بل فائٹر نہیں لڑتا بلکہ بیلوں کو تنگ گلیوں میں دوڑایا جاتا ہے اور درجنوں نوجوان، بل کے آگے سفید لباس پہنے دوڑتے ہیں جو اکثر بیلوں کے سموں تلے کچے جاتے یا اس کے سینگ لگنےسے زخمی اور ہلاک ہوجاتے ہیں۔بل فائٹ کی یہ شکل پامپلونا شہر میں خاصی مقبول ہے۔ کچھ عرصے قبل اس کھیل پر پابندی عائد کرنے کے لیےمیڈرڈ کے سول چوک پرہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا جس میں جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’’پیکما‘‘ پیش پیش تھی۔ اس کے نتیجے میںکاتالونیا سمیت کئی ہسپانوی شہروں میں اس کھیل پر پابندی عائد کردی گئی ہے لیکن بہت سے شہروں میں یہ کھیل اب بھی جاری ہے۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223443 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.