ظلم کی سیاہ رات کا خاتمہ ، روشن صبح کی چند گھڑیوں کے
ظہو رپذیر ہونے سے چند گھڑیاں پہلے ہی ہو جاتا ہے ، جمود کا وجود زیادہ دیر
قائم نہیں رہ سکتا ، آزادی کی ابتداء حرکت سے ہوتی ہے ، ذہن عجب چیز ہے جب
ایک بات کو تسلیم کر لیتا ہے اور اسکا سگنل دماغ کے ذریعے جسم کے ایک خلیے
میں داخل ہو کر دھمال ڈالنا شروع کر دیتا ہے ، اسی کو کسی عمل کا وقوع
پذیرہونا کہتے ہیں۔ تازگی سے لبریز ہوائیں وہاں کے باسیوں کے گلوں میں
آزادی کے پروانے ، ہاروں کی مانند لٹکا چھوڑتی ہیں جو جذبہ کی لہر سے دھیمے
سے لہجہ میں مسکراتے رہتے ہیں۔ناصح کا درس یہی تھا ، چراغ صداقت ! آندھیوں
اور اندھیروں کی یلغار میں ہمیشہ جلتا رہتا ہے ۔بقول شاعر
جلتا ہے جن کا خوں چراغوں میں رات بھر
ان غمزدوں سے پوچھ ، کبھی قیمت سحر
امر واقعہ یوں ہے کہ زبیر احمد نامی نوجوان ، بھارتی پولیس ریکارڈ کے مطابق
، پولیس سٹیشن کیگام ( Keegam)سے یکم مئی کو فرار ہوگیا تھا ، زبیر احمد کو
2015میں سرینگر سے کشمیر میں قابض بھارتی فورسز نے اپنے اوپر پتھراؤ کرنے
کے جرم میں گرفتارکر لیا تھا ۔ اس نوجوان پر بدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ
(PSA) کے تحت کارروائی کرتے ہوئے اسے مختلف عقوبت خانوں میں پس دیوار زنداں
رکھا گیا ، PSAکا سب سے زیادہ استعمال موجودہ دور میں بھارتی سرکار مقبوضہ
کشمیر کے مظلوم عوام پر کر رہی ہے ۔ یہ ایکٹ ریاست کی بھارت نواز حکومت کو
ٹرائل کے بغیر ہی مودی سرکار کو خوش کرنے کیلئے بے گناہ شہریوں کو گرفتار
کرنے کی اجازت دیتا ہے ، ۔ زبیر احمد کو ایسی ہی سول نافرمانی کے الزام کا
سامنا ہے ، اسکے خاندان کے مطابق وہ 3مئی سے بھارتی پولیس انتظامیہ کی زیر
حراست تھا ، لیکن پولیس نے اسے اس تاریخ کے دودن بعد گرفتار کرنے کا خود
اعتراف (جرم )کیا تھا ۔ جب پولیس نے اس کے خاندان کوبتایا کہ وہ
Keegamپولیس سٹیشن سے فرار ہو چکا ہے تو انہوں نے اس سفید جھوٹ کو ماننے سے
بہت کھلے لفظوں میں انکار کر دیا ، ایسی سینکڑوں کہانیاں ، قابض بھارتی
افواج کے کشمیریوں پر ظلم و ستم کی تاریخ سے بھری پڑی ہیں۔ اب آپ پلوامہ کے
علاقہ کی شہری 14سالہ ارفع خان کو ہی لے لیجئے ، جو پیلٹ بندوق کے چھروں کے
اندھا دھند استعمال سے اپنی بینائی سے محروم ہو چکی ہے ۔ جب اس سے اس کا
خواب پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ ’’میں اپنی ماں کا چہرہ دوبارہ دیکھنا
چاہتی ہوں ‘‘ مودی سرکار کشمیری کے جذبہ آزادی کو کچلنے کیلئے ہر حربہ آزما
چکی ہے مگر اسے ہمیشہ منہ کی مار کھانا پڑی ہے ۔ ستر سالوں سے کشمیر پر
قابض ہونے کے باوجود وہ کشمیریوں کے دلوں کو فتح کرنے میں چنداں ناکام رہنے
پر اسے کوئی ندامت نہیں ۔ بوکھلاہٹ یہاں تک کہ UNکے ہیومن رائٹس کمیشن کے
نمائندوں کو جموں وکشمیر کی تازہ صورتحال کو دیکھنے اورپر کھنے کیلئے بھارت
نے انہیں کشمیر آنے سے انہیں روک دیا ہے جب کہ پاکستان نے ان کے کشمیر
تشریف لانے کی پرزور حمایت کی ہے ۔ قابض بھارتی انتظامیہ نے اب کی بار
پینترا بدلتے ہوئے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جانے والے
طلباء کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے ۔ پیلٹ بندوقوں کے چھروں سے
سینکڑوں کشمیریوں کی بینائی کو نقصان پہنچانے کے بعد وہ کشمیریوں کی آنکھوں
میں آزادی کے جمے ہوئے خواب کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچا سکا ۔ کشمیریوں نے
بینائی کوقربان کر کے آزادی کے خواب کا زندہ جاوید کر رکھا ہے سب سے بڑی
جمہوریت کا علمبردار بنے بھارت ، اب سکول جانے والے طلباء کو اغواء اور
تشدد کر کے آزادی کی تحریک سے دور رکھنا چاہتا ہے ۔ ایسا مگر ہونے سے رہا ،
تاریخ میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی طالبات بھی عملی طورپر
قابض بھارتی فورسز کے خلاف پوری طرح کمر بستہ ہیں مودی سرکارکا یہ اقدام ان
کی نام نہاد جمہوریت کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے ، مودی سرکار ان طلباء کو
Anti-nationalقرار دے کر ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے مگر آزادی کی
تحریک اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ چمک دھمک رہی ہے ۔ نوجوان کمانڈر برہان
مظفروانی کی شہادت کے بعد آزادی کی تحریک نوجوانوں کے فولاد سے زیادہ مضبوط
ارادوں اور جذبوں کو منتقل ہو چکی ہے ۔ مختلف طرز کی پابندیوں کے بعد اب
وہاں سوشل میڈیا پر بھی پابندی عائد کی جاچکی ہے ۔ سندیپ پانڈے سرینگر کے
ایک انگریزی اخبار میں Path To Kashmir Solutionنامی مضمون میں لکھتے ہیں
کہ ’’ہم کشمیریوں پر یہ الزام دھرتے ہیں کہ انہوں نے کبھی خود کو انڈیا کا
حصہ نہیں سمجھا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے کشمیر کو کبھی بھارت کا حصہ
نہیں سمجھا ، اگر ایسا ہوتا تھا تو کبھی پیلٹ بندوقوں کے چھروں سے بے گناہ
کشمیریوں کی آنکھوں پر اور چہروں پر یوں اندھا دھند یورش نہ کر دی جاتی ،
یہ تو سوچنا بھی محال کہ کشمیریوں کے علاوہ پیلٹ کے چھروں کا استعمال بھارت
کے کسی اور کونے میں بھی ہو سکتا ہے ۔ جب پارلیمنٹ کے رکن R.L Sharmaنے
یوپی کے ایک SSPکی رہائش گاہ پر دو ممبر قانون ساز اسمبلی سمیت درجنوں
ساتھیوں کی مدد سے حملہ کیا تو اسے Anti- nationalقطعاً نہ کہا گیا ، اگر
کشمیری پتھراؤ کریں تو انہیں Anti-nationalگردانا جاتا ہے‘‘ ۔ پوری دنیا پر
بھارتی جمہوریت کا مکروہ چہرہ عیاں ہو چکا ہے ، حالات کا تقاضا یہی ہے کہ
بھارت عالمی سطح پر اپنے آپ کو مزید شرمندگی سے بچانے کیلئے سب سے پہلے وہ
اپنی قابض افواج کو کشمیر سے فی الفور ہٹائے اور اسکے بعد اقوام متحدہ کی
قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادایت کا حق دیا جائے جوان کا
پیدائشی اور قانون حق ہے ۔ کشمیر اب Flash Pointبن چکا ہے ، آزادی کی
چنگاری اپنی منزل تک پہنچنے کیلئے بھڑک رہی ہے ، آزادی کی منزل نوشتہ دیوار
ہو چکی ہے ،ایک کشمیر کمیٹی ہواکرتی ہے اور اسکے چیئرمین کشمیریوں پر ہونے
والے ظلم و ستم سے ناآشنا نظر آتے ہیں۔ کشمیریوں کی اخلاقی حمایت میں ایک
بیان تک جاری کرنا ان کی طبیعت پر گراں گزرتا ہے شائد کشمیری طلباء نے اسی
بات کے ’’راز‘‘ کو سمجھتے ہوئے حقیقی معنی میں جدوجہد آزادی کا ذمہ اپنے
کندھوں پر اٹھا رکھا ہے ۔ آزادخطہ کی سیاسی قیادت کی کارکردگی اس معاملہ
میں کوئی خاطر خواہ نہیں البتہ صدر ریاست سردار مسعود خان کی کوششیں قابل
تعریف ہیں اور انہیں معاملے کا بخوبی ادراک بھی ،کشمیریوں کے اذہان میں
آزادی کا سگنل رچ بس چکا ہے جب ایسا جائے تو پھر وہ عمل کی صورت میں وقوع
پذیر ہو کر رہتا ہے ۔ |