اس وقت جس تیزی سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور
سماج دن بدن فکری و قلبی تنزلی کا شکار ہوکر ان راہوں پر اپنا سفر طے کر
رہا ہے جس کی آخری منزل تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ مغرب کی ہلاکت خیز
تہذیب نے نسل نو کو فکری انحطاط کے دہانے پر پہونچا دیا ہے جس کی بناپر نئی
نسل بڑی تیزی کے ساتھ مغرب کے مستعار کلچر کے سائے اپنی زندگی کی سانسیں طے
کر رہی ہے۔
نتیجتاً سماج کے اندر فحاشی و عریانیت کو فروغ مل رہا ہے اور اعلیٰ تہذیب و
اقدار کا خاتمہ ہورہا ہے ایسے سماج کے نوجوان طبقہ کی ذمہ داری دوگنی
ہوجاتی ہے کیونکہ آنے والے مستقبل کے لئے وہی مشعل راہ ہوں گے انہیں کے
کردار و عمل کی روشنی میں آنے والی نسلیں اپنا سفر طے کر یں گی۔جب تک
نوجوان سماج میں پھیلی ہوئی برائی کے سد باب کے لئے کمر بستہ نہیں ہونگے
صاف ستھرے اور مہذب معاشرہ کی تشکیل نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ ہر زمانے میں
بگڑی ہوئی قوم کو صحیح راستے پر لانے کے لئے نوجوانوں کو ہی قربانی دینی
پڑتی ہے-
وہ جب تک سماج ،قوم ،ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے تئیں سنجیدہ نہیں ہونگے
تب تک مثبت توقع کی امید نہیں کی جا سکتی ہے با لخصوص اس سلسلے میں ہم مسلم
نوجوانوں کو فکر مند ہونا پڑے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خیر امت بنایا
ہے جس کا کام ہی یہ ہونا چاہیے کہ لوگوں کو بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے
منع کرے اس لئے دنیا کی دوسری قوموں سے زیادہ ہمیں دنیا کے بدلتے ہوئے منظر
نامہ پر گہری نگاہ رکھنی ہوگی اور شائستہ تہذیب و ثقافت کے نفاذ کے لئے
سوچنا ہوگا اس کے لئے مظبوط ارادے،چٹان صفت کلیجہ اور صبر و استقامت کا
ثبوت پیش کرنا ہوگا تب جاکر ایک مثالی سماج و معاشرہ وجود میں آئے گا سچ
کہا شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہ-
چیتے کا جگر چاہئے شاہیں کا تجسس
دنیا نہیں مردان جفا کش کے لئے تنگ
|