بنا ہم سفر کے سفر اک سزا ہے‘‘،،،کوئی تو ہو،،،ندا سلمان
کی تحریر پڑھ رہی تھی‘‘،،،آگے کا جملہ اس کے ٹپکتےہوئے آنسوؤں نے دھندلا
دیا‘‘،،،اس نے سوچا آگے یہ جملہ ہونا چاہیے تھا‘‘،،،جسے دل کہے وہ میرا
مجازی خدا ہے‘‘،،،ویسے وہ اپنی ماں کی باتوں کا برا نہیں منایا کرتی
تھی‘‘،،،کیونکہ وہ خود کو ان کی پریشانیوں کی ایک بڑی وجہ سمجھتی تھی‘‘وہ
سکول میں تھی‘‘تو ماں اس کے جہیز کے نام پر چیزیں جمع کرتی تھی‘‘،،،
پھر شور کرتی تھی‘‘اپنا تو پورا ہوتا نہیں‘‘،،،بیٹی کے لیے بچا بچا کے
رکھو‘‘،،،بیٹے تو جیسے آسمانی شہزادے تھے‘‘،،،پہلےان کے کپڑے‘‘ان کے
جوتے‘‘،،،یہ تو بہت پڑھے گے‘‘،،،یہ آٹھ(٨)پڑھ لے بہت ہے‘‘ہم نے کونسا اس سے
نوکری کروانی ہے‘‘
سالن میں سے اچھی اچھی گوشت کی بوٹیاں بھائیوں کے لیے‘‘،،جو کہ دونوں اس سے
بہت چھوٹے تھے‘‘ان پر پھر بھی گوشت نہیں چڑھا‘‘‘اور نہ وہ آٹھ سے ذیادہ پڑھ
سکے‘‘،،،
کم بخت‘‘پہلے ہی یہ دنیا میں آ گئی‘‘،،،بھائی اس سے بڑے ہوتے‘‘تو کیا اچھا
ہوتا‘‘،،،ماں ندا کو ایسے کوسنے دیتی‘‘،،جیسے وہ اپنی مرضی سے پہلے پیدا
ہوئی ہے‘‘،،،مگر‘‘ماں نے یہ آج کیوں کہا‘‘کسی چرسی موالی سے بھی بیاہ دیا
جائے‘‘،،،میں نے اس لیے تیس(٣٠)سال گزار دیے‘‘اپنی سب سہیلوں کچھ بڑی‘‘کچھ
چھوٹی کی شا دیاں اپنی آنکھوں سے دیکھی‘‘صرف اس لیےکہ شاید کوئی بہتر انسان
میرا نصیب ہو‘‘،،،کوئی بھی ذرا پڑھا لکھا‘‘اچھا کمانے والا‘‘،،،میں نے خود
سے کتنے وعدے کیے تھے‘‘،،،میں اپنے بچوں کو پڑھاؤں گی‘‘لڑکی کو لڑکوں کی
طرح ایک ہی پلیٹ میں کھانا دوں گی‘‘،،،سب کے کپڑے جوتے ایک ساتھ لایا کروں
گی‘‘،،،اپنی بیٹی کو کبھی بھی اپنی ماں کی طرح کوسنے نہیں دوں گی‘‘
مگر یہ سب بس خواب ہی رہے گے‘‘،،،بس خواب‘‘ادھورے‘‘زخمی‘‘نامکمل اور ٹوٹے
پھوٹے خواب‘‘ماں کی بات اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھی‘‘،،،کوئی
بھی‘‘‘،،،،،کوئی بھی‘‘‘،،،،،چرسی موالی‘‘‘،،،،،چرسی موالی‘‘،،،
کم بخت‘‘آج سلمان بھی تو نہیں ہے‘‘جو مجھے تسلی دے دیتا‘‘ندا صاحبہ!ایسا
ویسا کچھ نہیں ہو گا ‘‘دیکھ لینا‘‘تم ایک دن راج کرو گی‘‘ماں کی باتوں کا
کیا برا منانا‘‘،،،بس یہ سب کچھ تم اپنے بچوں‘‘خاص کر اپنی بیٹی سے کبھی نہ
کہنا‘‘،،،ندا مسکرا دیتی‘‘اورہاں‘‘بچے دو ہی اچھے‘‘وہ منہ دوسری طرف کر کے
کہتا‘‘ندا توبہ کہہ کر گلابی سی ہو جاتی‘‘(جاری )
|