رفیق : ڈیڈی کے گھر آو ،ان کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔
غزل : اچھا ٹھیک ہے۔
نائلہ: کیا ہوا ؟
غزل : کچھ نہیں ۔ وہ میں صبح سے گھر سے نکلی ہوئی ہوں ، کسی کو کچھ بتایا
نہیں تو رفیق کو فکر ہو رہی تھی۔
غزل نے نائلہ کی طرف دیکھا۔
غزل: تم نے کوئی فون رکھا ہوا ہے۔ اگر کبھی تم سے بات کرنی ہو تو۔
نائلہ : ہاں ہاں ۔ ہے نا۔فون تو ۔بس فوٹو شوٹو نہیں آتی اس میں ۔تیرے فون
کی طرح۔
غزل: فون نمبر دو۔
نائلہ: ٹھہر وہ مجھے یاد نہیں ۔میں ابھی آتی ہوں۔
مراد : میں بھیج دیتا ہوں ،خوشی تو اپنا نمبر دے۔
غزل نے اپنا نمبر بولا تو مراد نے اسے نائلہ کا نمبر میسج کر دیا۔
غزل : میں اب جاوں گی ،پھر ملیں گئے ۔ انشااللہ تعالیٰ۔
نائلہ : دوسرے ملک جانے سے پہلے پھر ضرور آنا خوشی ۔ بلکہ میرے پاس رکنا۔
غزل : تمہارے اکبر کو اعتراض نہیں ہو گا۔
نائلہ : تیرے سامنے کچھ نہیں کہے گا ۔ بعد میں جو کرتاپھرے ۔خیرہے۔
غزل نے جاتے ہوئے ،نائلہ کے ہاتھ میں ہزار کے دو نوٹ دیے ،میں بچوں کے لیے
کچھ نہیں لائی ۔اس لیے۔
نائلہ : یہ تو بہت ذیادہ ہیں ۔
غزل :اچھا نائلہ اب چلتی ہوں۔اچھا مراد۔
مراد: میں بھی جاوں گا اب۔
غزل اور مراد ساتھ ساتھ گھر سے نکل آئے ۔ غزل نے مراد کی طرف دیکھا۔وہ اسی
کی طرف دیکھ رہا تھا۔
غزل : مرادپھر ملیں گئے۔اللہ حافظ۔
غزل نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے مراد کو دیکھا۔کچھ دیر میں وہ ڈاکٹر شیزاد کے
گھر پہنچ گئی۔ سب اس سے ناراض لگ رہے تھے ۔ مگر وہ اپنے دل میں بہت سکون
محسوس کر رہی تھی ۔ اپنی ماں کی قبر پر جا کر اسے جو اطمینان قلب ملا تھا ۔
وہ انمول تھا۔
رفیق: تمہاری دوست کیسی تھی۔
غزل:ٹھیک تھی۔
ڈاکٹر شیزاد : بیٹا کون سی دوست کے گھر میں تھی تم ۔ ایسے نہیں کرنا چاہیے
۔ رفیق تمہاری وجہ سے بہت پریشان تھا۔
غزل : جی ۔
ڈاکٹر شیزاد : تمہار ی طبعیت اب ٹھیک ہے۔ رفیق کہہ رہا تھا۔ کہ تم اچانک سے
رونے لگتی ہو۔ بیٹا اب پردیس میں تم دونوں کو اکیلے ہی رہنا ہے۔ ایک دوسرے
سے اپنے غم اور خوشیاں شئیر نہیں کرو گئے تو کیسے چلے گا۔
غزل : جی۔
وہ اپنے ناخنوں سے کھیل رہی تھی ۔رفیق نے اسے گھور کر دیکھا ۔
رفیق: اب گھر چلیں ۔
غزل: جی۔
ڈاکٹر شیزاد: چائے پی کر جاو نا۔
رفیق: نہیں سر گرمی ہو رہی ہے۔
غزل : پھر کبھی ڈیڈی ،میں بھی چائے پی کر آئی ہوں ۔رفیق کہہ رہے تھے ۔آپ
کی طبعیت خراب ہے ۔ کیا ہوا؟
ڈاکٹر شیزاد: کچھ نہیں وہی دل قابو میں نہیں رہا۔اب بہتر ہے ۔ رات کو کافی
تکلیف میں رہا ہوں ۔
غزل : اللہ بہتر کرئے ۔ آپ کھانے پینے کی احتیاط نہیں کرتے نا ۔یہ سب اسی
لیے ہے۔
عنابیہ: کیا کرو ں بیٹا ،یہ سنتے ہی نہیں ۔ ہر بار کہتے ہیں کل سے کروں گا۔
ان کی کل نہیں آتی ۔
غزل مسکراتے ہوئے،ڈاکٹر شیزاد کی طرف دیکھتی ہے ۔ تھوڑی دیر بعد غزل اور
رفیق گھر کے لیے نکل جاتے ہیں ۔ رفیق نے غزل پر تفصیلی نگا ہ ڈالی ۔ جو ہر
چیز سے بے نیاز انکھیں بند کیے گاڑی کی سیٹ پر سر ٹیکائے تھی ۔
رفیق:تمہیں نیند آئی ہے کیا؟
غزل : نہیں تو۔
رفیق: تو پھر اس طرح انکھیں کیوں بند کی ہیں تم نے؟
غزل: آپ جانتے ہیں ،میں ڈاکٹر شیزاد کی سگی بیٹی نہیں ہوں ۔
رفیق : تو؟
غزل: میرا اصل نام خوشی تھا۔ غزل ڈاکٹر شیزاد کی بیٹی کا نام تھا ۔جو انہوں
نے مجھے دیا۔
رفیق: تو؟
غزل: کچھ دن پہلے میں اپنے گھر گئی۔مجھے پتہ چلا کہ میری امی اب اس دنیا
میں نہیں رہی ۔ میں پچھلے کچھ دنوں سے اپنی ماں کے لیے بہت بے چین تھی۔ آج
ان کی قبر پر جا کر ایک عجیب سا سکون ملا ہے مجھے ۔
رفیق : تم صبح سےقبر پر تھی۔
غزل : نہیں ۔ مجھے میرا بھائی قربستان میں مل گیا ۔ میں اس کے ساتھ اپنی
بہن کے گھر گئی ۔ جب آپ نے فون کیا تو میں اپنی بہن کے گھر ہی تھی۔
رفیق: تم پہلے کبھی نہیں ملی ان لوگوں سے ۔
غزل : کبھی نہیں ۔ ماں بننے کے احساس نے میرے وجود میں ہلچل مچا دی ،میں
اپنی ماں سے ملنا چاہتی تھی۔ اپنی چاہت سے مجبور ہو کر میں جب گئی تو ،مجھے
وہاں کچھ نہیں ملا ۔ میری ایک بہن اور ماں اس دنیا سے چلی گئی،کب کس حالت
میں ،مجھے کچھ پتہ نہیں ۔
رفیق: تمہارے بہن ، بھائی خوش تھے ،تم سے مل کر۔
غزل: ہاں ،مراد اور نائلہ مجھ سے بہت پیار سے ملے۔
رفیق: تمہارے ابو ۔تم نے ان کا ذکر نہیں کیا۔
غزل خاموش ہی رہی ۔ رفیق نے بھی مذید سوال نہیں کیا۔ گاڑی پارکنگ ایریا میں
کھڑی کر کے رفیق اور غزل اوپر آ گئے۔غز ل کے دل و دماغ میں اپنے بہن بھائی
ہی چل رہے تھے ۔ اس کی نظر سے نویدہ کا چہرہ نہیں ہٹ رہا تھا۔
دن ڈھل گیا ۔رفیق کتاب پڑھنے میں مصروف تھا۔
غزل آپ کیا پڑھ رہے ہیں۔
رفیق :کتاب۔
غزل: کس چیز پر ہے۔ عنوان کیا ہے؟
رفیق۔ یہ کتاب پانچ پچھتاوں سے متعلق ہے۔ انسان موسٹلی جو افسوس دل میں لے
کر مرتا ہے ۔ان کے بارے میں۔جو ایک آسٹریلیا کی نرس نےاپنی ایک طویل ریسرچ
کے بعد لکھی،جو مرنے والوں کی باتوں کو نوٹ کرنے لگی تھی۔اس نے یہ کتاب اس
لیے لکھی ہے تاکہ لوگ مرنے کے وقت پچھتانے کی بجائے،مرنے سے پہلے زندگی میں
کچھ بہتر کر سکیں ۔تاکہ جب ان کی موت آئے تو افسردہ نہ ہوں۔
غزل: پچھتاوے؟ کیسے پچھتاوے؟
رفیق:یہ ہے ۔
رفیق نے فائیو ریگریٹ آف ڈائنگ ٹائیٹل والی کتاب غزل کے سامنے کی۔
غزل : کون سے ہوتے ہیں ،یہ پانچ بچھتاوے ۔ جو زیادہ تر مرنے والے اپنے دل
میں لے کر جاتے ہیں؟
رفیق: تم خود کتاب پڑھنا ۔
غزل : پھر بھی آپ بتا دیں ۔
رفیق:اچھا۔ پہلا بچھتاوہ یہ ہوتا ہے اکثر لوگوں کو مرتے ہوئے ۔ان میں ہر
ایک کہتا ہے کہ میں ایسا نہیں جی سکاجیسا کہ میں سچ میں جینا چاہتا تھا۔
دوسروں کی وجہ سے ،دوسروں کے لیےجیتا رہا ۔ کاش میں اپنے لیے جیتا۔ کاش میں
اس طرح جی سکتا جیسا کہ میں جینا چاہتا تھا ۔
دوسرا بچھتاوا۔ جو انسان مرنے کے قریب رکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ کاش میں ذیادہ
بہترطریقے سے ہر چیز کو کرتا۔ میں جس قدر کر سکتا تھا ۔ میں ہر چیز کو اس
کے مطابق ٹائم نہیں دے سکا۔
تیسراپچھتاوا یہ ہوتا ہے ،ذیادہ تر مرنے کے قریب لوگوں کو کہ میں نے اپنے
جذبات کا اظہار نہیں کیا ۔ بہت کچھ میرے دل ہی میں رہ گیا۔ میں وہ کہہ ہی
نہیں پایا جو میں کہنا چاہتا تھا ۔یا کہنا چاہتی تھی۔مثلاًہم اپنی محبت اور
دوسروں سے متعلق جذبات کو دل ہی میں رکھ کر بیٹھے رہتے ہیں ۔ اظہار نہیں
کرتے۔اگرچہ ہم کرنا چاہتے ہیں ۔اظہار کرنا بہت ضروری ہے ۔غزل میں تم سے بہت
پیار کرتا ہوں ۔میں بہت خوش ہوں کہ تم میری زندگی میں ہو۔ٹھیک ہے۔
غزل : اچھا ،شکریہ ۔چوتھا بچھتاوا کیا تھا اس کی تحقیق کے مطابق؟
چوتھا پچھتاوا۔۔جو اس نرس نے نوٹ کیا وہ یہ تھا کہ انسان مرتے وقت اس افسوس
کو لے کر مرتے ہیں کہ کاش وہ اپنوں سے ذیادہ ملتے جلتے ۔دوستوں اور اپنوں
کو ذیادہ ٹائم دے پاتے۔وہ اپنی دوستی اور رشتہ داری کو ذیادہ بہتر طریقے سے
نبھا سکتے تھے۔
پانچواں بچھتاوا ۔جو مرتا ہوا انسان موسٹلی محسوس کرتا ہے یہ ہے کہ، کاش
میں اپنے آپ کوخوش رہنے دیتا۔
غزل: ہم اپنے آپ کو خوش رہنے دے سکتے ہیں؟یہ ہمارے اختیار میں ہوتا ہے
کیا؟
رفیق: سب کچھ ہمارے اختیار میں ہوتا ہے۔ ہم اپنے عمل سے تقدیر کو کافی حد
تک شکل دیتے ہیں ۔
غزل: لوگ خوش رہنے نہیں دیتے بعض اوقات۔
رفیق: لوگوں کو یہ اختیار بھی تو ہم ہی دیتے ہیں نا۔اصل اختیار تو ہمارے ہی
پاس ہوتاہے ۔ ہم چاہیں تو خود بااختیاررہ سکتے ہیں۔ اگر چائیں تو اپنا
اختیار دوسروں کو سونپ دیں۔
غزل: مطلب ،آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو خود خوش نہیں
رہنے دیتا ؟
رفیق: ہاں ۔ مرنے کے وقت انسان کو یہ حقیقت محسوس ہو جاتی ہے کہ اس نے کیا
کھو دیا۔ ہم کسی بھی حال میں خوش رہ سکتے ہیں ۔ کم پیسہ میں ،خود غرض رشتہ
داروں میں ۔ یہاں تک کہ اپنی خامیوں کو قبول کر کے۔ مگر اکثر ہم قبول ہی
کچھ نہیں کرنا چاہتے ۔ ہم اپنے الزام دوسروں پر ڈال دیتے ہیں ۔
غزل: اچھا۔ خدا ناخواستہ کسی بچے کے ساتھ اگر کوئی ذیادتی کرتا ہے ۔ تو اس
میں اس بچے کا کیا قصور ،وہ اداس تو ہو گا نا۔ کیا وہ اپنی وجہ سے اداس ہو
رہا ہے۔ وہ تو اس شخص کی وجہ سے دُکھی ہو رہا ہے نا۔ تو اس کا بااختیار
ہونا کیسے ثابت کریں گئے آپ؟
رفیق: بچہ اگر کچھ بڑا ہے تو اسے سمجھایا جا سکتا ہے۔ حادثہ زندگی کا حصہ
ہوتے ہیں ۔یہ انسان پر ہے کہ وہ کسی حادثہ کو کس طرح سے قبول کرتا ہے ،اس
سے لڑتا ہے ،اس حادثہ کو کھو دیتا ہے یا اس میں کھو جاتا ہے۔ تم نے دیکھا
نہیں جن لوگوں کو مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،وہ جب ان مشکلات
سے لڑ کر جیت کر نکلتے ہیں تو ان کا کردار کس قدر مفید بن جاتا ہے ،اُن
کےاپنے لیے ۔ دوسروں کے لیے۔
دوسری طرف کچھ لوگ نشہ کرنے لگتے ہیں ۔مار دینے یا مر جانے کو فوقیت دیتے
ہیں ۔ سوچو اگر وہ بچہ یہ ٹھان لے کہ وہ بڑا ہو کر کچھ ایسا کرئے گا ، جس
سے بچوں کو ان کے حقوق مل سکیں۔ اگر وہ ہر روز اسی سوچ کے ساتھ دُگنی محنت
کرنے لگے تو وہ بھول ہی جائے گا ،اس کے ساتھ کیا ہوا۔جب ہم دوسروں کا بھلا
چاہنے لگتے ہیں تو اپنے ساتھ ہونے والی ذیادتی ہمیں دیکھائی ہی نہیں دیتی
۔کڑور روپیہ کما لینے میں اِتنی خوشی نہیں ملتی ،جتنا سکون ایک لاکھ روپیہ
کسی اپنے کی ضرورت پوری کر نے کے لیے دینے میں ملتی ہے۔
غزل :یہ تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ میں سوچ رہی ہوں کہ ڈیڈی نے مجھے جو رقم
دی ہے ۔اس میں سے دس لاکھ اپنے بھائی کو دے دوں ۔تاکہ وہ تعلیم جاری رکھ
سکے ۔ اسے کام نہ کرنا پڑے ۔
رفیق: اچھی سوچ ہے۔
غزل : اب کو اعتراض نہیں۔
رفیق: اعتراض ،مجھے کیوں ہو گا ،تمہاری رقم ہے تم بااختیار ہو ۔ جسے چاہو
دو۔
غزل : کیا آپ کو لگتا ہے کہ انسان کو ہر چیز کا اظہار کر دینا چاہیے ؟
رفیق: اگر کوئی اظہار آپ کو خوشی دے تو کر دینا چاہیے ۔اگر آپ کا اظہار
کسی کے دُکھ کا باعث بنے تو نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں ہماری خوشی کے ساتھ ساتھ
دوسروں کی خوشی کا دھیان رکھنا چاہیے۔
غزل: خواہ اگلا انسان آپ کے متعلق دھوکے میں مبتلا رہے۔ہمیں یہ دیکھنا
چاہیے کہ وہ خوش ہے ؟
رفیق: میرا ماننا ہے ،ممکن ہے کہ غلط ہی ہو۔ اگر آپ کو ٹھیک ہونے اور
مہربان ہونے میں کسی ایک چیز کو چننا ہو تو آپ مہربان ہونے کو چن لیں ۔
غزل کچھ خامو ش ہو گئی ۔ ان بچھتاوں سے متعلق سوچنے لگی ۔ جو انسان مرنے کے
وقت کرتے ہیں ۔وہ سوچ رہی تھی کہ اگر اسے پتہ چل جائے کہ وہ کل مر جائے گی
تو وہ کیا چیز ہو گی جو وہ کرنا چاہتی تھی ،پر اس نے نہیں کی۔ اس نے رفیق
کی طرف دیکھا۔ وہ اسے بتا دینا چاہتی تھی کہ وہ ڈاکٹر شیزاد کے پاس کیسے
پہنچی مگر اس کی ذبان نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔
رفیق: تم کیا سوچ رہی ہو غزل۔
غزل :میرا اصل نام خوشی ہے ۔ آپ مجھے خوشی ہی کہا کریں۔
رفیق: کیا۔چلو ٹھیک ہے ۔ اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
غزل : مجھے پڑتا ہے ۔ میں ،میں ہوں۔ جو ہوں آپ کو معلوم ہونا چاہیے۔میں
بھی کوئی بچھتاوا لے کر مرنا نہیں چاہتی ۔
رفیق : ابھی تو ہماری زندگی شروع ہوئی ہے ۔تم مرنے کی باتیں کیوں کر رہی
ہو۔
وہ مسکراتے ہوئے اس کے قریب آگیا۔غزل نے اس کے ہاتھ سے کتاب لے لی۔وہ سوچ
رہی تھی کہ وہ اسے کیسے بتائے جو وہ اسے بتانا چاہتی ہے ۔ اچانک سے اسے
ڈاکٹر شیزاد کا خیال آیا ۔ وہ ان سے مدد لے سکتی ہے۔اس نے اپنی انکھیں بند
کرلیں۔
رفیق: تمہیں ابھی سے نیند آ رہی ہے ، ابھی تو ہم ایک مووی دیکھیں گئے ۔
سمجھی۔ غزل نے انکھیں کھولی اور وہ رفیق کو دیکھ کر مسکرائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شفق اور دانش کمرے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔
شفق: دانی تمہیں کیا چاہیے ،بیٹا یا بیٹی۔
دانش: جو بھی اللہ دے،ویسے پہلا بیٹا ہو تو اچھا ہے۔
شفق: کیوں ۔ بیٹی اچھی کیوں نہیں۔
دانش: جیسے رفیق ،تمہارا اور ربیعہ کا خیال رکھتا ہے ۔ بھائی بڑا ہو تو
بہنوں کا خیال رکھ سکتا ہے نا۔
شفق: اچھا ،پھر ٹھیک ہے۔
دانش : تم کیا سمجھی؟
شفق: مجھے لگا، تم کہہ رہے ہو بیٹی نہیں ہونی چاہیے۔
دانش :میں پاگل ہوں کیا۔مجھے پتہ ہے گھر میں ایک لڑکی تو ہونی ہی چاہیے۔
میری کوئی بہن نہیں ہے ۔ میں جانتا ہوں ۔جب امی بیمار ہو جاتی تھیں ۔تو میں
اور ابو کس قدر پریشان ہو جاتے تھے ۔ ابو تو ذیادہ تر ملازمت کی وجہ سے
باہر ہی ہوتے تھے ۔ اصل مسلہ تو مجھے ہی ہوتا تھا۔ اب تم آ گئی ہو توسارے
مسلہ حل ہو گئے ہیں ۔
شفق: میں پتہ کروا لوں ۔ لڑکا آنے والا ہے یا لڑکی۔
دانش: نہیں یار ۔سرپرائز اچھا ہوتا ہے ۔ تمہارا کیا خیال ہے۔
شفق: میں پتہ کروا لیتی ہوں ،تمہیں نہیں بتاوں گی ۔ تمہارے لیے سرپرائز ہی
ہو گا ، کیسا؟
دانش : کیوں بھئی ،اگر پتہ کروانا ہی ہے تو مجھے بھی بتا دینا۔
شفق ذور سے ہنسی ۔ دانش بھی مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔
دانش: کیا ہوا ؟ اِتنا کیوں ہنس رہی ہو۔
شفق: سیدھے سے کہو نا پتہ کروا لو۔ پتہ کروانا بھی چاہتے ہو اور کہتے ہو
سرپرائز اچھا ہوتا ہے۔
وہ پھر سے ہنسنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل ملنے کے لیےڈاکٹر شیزاد کے گھر آئی تھی اس کی کل کی فلائٹ تھی ۔ رفیق
اوروہ یو۔کے کے لیے ساری تیاری مکمل کر چکے تھے۔ غزل کو چھوڑ کر رفیق اپنی
کوئی چیز لینے چلا گیا۔ غزل ڈاکٹر شیزاد اور عنابیہ کے ساتھ بیٹھی اپنی ہی
سوچوں میں گم تھی ،وہ چاہ رہی تھی کہ ڈاکٹر شیزاد رفیق کو اس کا مکمل ماضی
بتا دیں ۔ اس کے دل و دماغ میں ایک نئی سوچ کا بیج اپنے وجود کو مکمل پھاڑ
چکا تھا۔ وہ سوچ یہ تھی کہ۔(میں کوئی پچھتاوا لے کر نہیں مرنا چاہتی ۔ میں
نہیں چاہتی کہ جب میں اپنے آخری سانس گن رہی ہوں۔ مجھے لگے کہ مجھے رفیق
کو سب کچھ بتا دینا چاہیے تھا۔ میں اس طرح زندگی گزاروں گی ،جیسی زندگی میں
گزارنا چاہتی ہوں ۔ نہ کہ ایسی زندگی کہ جو گھٹن پر مبنی ہو )
عنابیہ:آپ لوگ باتیں کریں میں ذرا فریش ہو کر آتی ہوں ۔ بہت گرمی ہو رہی
ہے۔
عنابیہ جا چکی تھی۔غزل کو سوچوں میں گم سم دیکھ کر ڈاکٹر شیزاد نے اسے اپنی
طرف متوجہ کیا۔
ڈاکٹر شیزاد: غزل بیٹا ،تم کیا سوچ رہی ہو۔
غزل : ڈیڈی ،آپ میرے لیے میرا ایک کام کریں گئے؟
ڈاکٹر شیزاد: کیسا کام ؟ کیا بات ہے،تم بہت عجیب لہجے میں کہہ رہی ہو۔ اللہ
خیر ہی کرئے۔
غزل : ڈیڈی ،وہ ۔۔۔
ڈاکٹر شیزاد: کیا بات ہے بیٹا۔ بولو نا۔
غزل: ڈیڈی، میں چاہتی ہوں کہ۔ رفیق میرے بارے میں سب کچھ جان جائے ۔ میں
کچھ اس سے چھپانا نہیں چاہتی ۔ مگر میری ذبان میرا ساتھ نہیں دیتی۔ میں نے
کوشش کی لیکن بتانے میں نا کام رہی۔ شاہد کچھ باتوں کو خاموشی بیان نہیں کر
سکتی ۔ انہیں بیان کرنے کے لیے الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے۔میں رفیق جیسے اچھے
انسان کو اور دھوکا نہیں دینا چاہتی ۔ اگر وہ مجھے میرے ماضی کے ساتھ قبول
کرے تو ٹھیک ہے۔ اگر نہیں کرئے تو بھی مجھے اس سے کوئی شکائت نہیں ہو گی۔
میں کچھ نا کچھ تو کر لوں گی،اپنی زندگی کا ۔ آپ نے مجھے اس قابل تو بنا
ہی دیا ہے۔ کیا آپ میری خاطر ،رفیق کوبتائیں گئے کہ میں کس حالت میں اور
کہاں آپ کو ملی تھی۔
غزل کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
ڈاکٹر شیزاد: اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ غزل
غزل: ضرورت ہے۔ بہت ضرورت ہے۔ ڈیڈی۔کچھ چیزیں ،خلش کی طرح دل و دماغ میں
رہتی ہیں ۔ میرے لیے رفیق کا ،میرے بارے میں نہ جاننا ایسا ہی ہے ۔جیسے
میرے وجود میں کانٹا چبھ جائے اور میں یہ سوچتی رہوں کہ اسے نکالوں گی تو
دوسروں کو پتہ چل جائے گا۔مگر اب میں سوچتی ہوں کہ پتہ چلتا ہے تو چل جائے۔
میں تمام عمر یہ چبھن برداشت نہیں کر سکتی ۔ کانٹا نکل جائے تو کچھ وقت میں
ہی درد بھول جاتا ہے۔یہ بات مجھے میری ماں کی قبر پر جا کر سمجھ میں آئی ۔
ڈاکٹر شیزاد : تمہاری ماں کی قبر؟
غز ل : جی ۔اپنی ماں سے ملنے کی خواہش مجھے دوبارہ اس گلی میں لے گئی۔ جہاں
میرا بچبن گزرا تھا۔مگر میری ماں مر چکی تھی۔ تین سال پہلے۔ میں جب تک ان
کی قبر پر جاکر ،قبر سے لپٹ کر نہیں روئی تھی ۔ اس وقت تک شدید بے چین تھی۔
مگروہاں جانے کے بعد میرے دل کو سکون مل گیا ۔ مجھے لگا ۔جیسے میں واقعی
اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر روتی رہی ہوں ۔
ڈاکٹر شیزاد: اچھا ،یہ تو اچھی بات ہے ۔ تمہیں سکون میسر آ گیا۔
غزل: ابھی پورا سکون میسر نہیں آیا ۔ میں رفیق کے ساتھ ۔اسے اپنا مکمل سچ
بتائے بغیر نہیں جانا چاہتی ۔ ڈیڈی ،آپ میری مدد کریں ۔ آپ نے زندگی کے
ہر موڑ پر میری مدد کی ہے۔ ایک فرشتہ کی طرح ۔ اگر آپ نہ ہوتے تو۔ (وہ
اپنے گرتے ہوئے آنسووں کو صاف کرتی جاتی اور اپنی بات کہتی جاتی)میرا پتہ
نہیں کیا ہوتا ۔ اللہ تعالی ٰ نے۔(وہ روتے ہوئے ، بات نہیں کر پا رہی تھی
۔خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی)
ڈاکٹر شیزاد: میری بیٹی ہو تم ۔ تمہاری مدد میرا فرض ہے۔ سمجھی۔
غزل : تو کیا آپ میری مدد کریں گئے؟
ڈاکٹر شیزاد : میں نے کہا نا اس کی ضرورت نہیں ہے۔
غزل : آپ ایسا اس لیے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو ڈر ہے کہ رفیق مجھے چھوڑ دے
گا۔
ڈاکٹر شیزاد: نہیں ، ایسا نہیں ہے بیٹا
غزل اپنی بات پوری نہیں کر پائی۔اُس نے اپنی انکھوں سے بہتے آنسووں کو صاف
کیا۔ جو ساون کی برسات کی طرح کبھی ذیادہ تو کبھی کم برس رہی تھیں۔
ڈاکٹر شیزاد: لیکن ہر کوئی کنول کو کچر سے نکالنے کا خواہش مند ہوتا ہے
بیٹا ۔ تم مجھے نہیں رفیق ہی کو ملی تھی۔ اسی نے تمہیں اُٹھا کر میری گاڑی
میں ڈالا تھا ۔ وہ میرا ڈرائیور تھا ۔ اس وقت ۔ وہی ہمیں ہوسپٹل تک چھوڑ کر
گیا تھا ۔ تم اب رونا بند کرو۔ ہیرا کوڑے کے ڈھیر پر ہو یا قطب مینار پر
ہیرا تو ہیرا ہی ہوتا ہے۔ تم اس بات کو اپنے دل و دماغ میں بیٹھا لو۔
غزل نے حیرت سے ڈاکٹر شیزاد کی طرف دیکھا۔
غزل :کیا۔ رفیق
وہ خاموشی سے انکھیں صاف کر کے ڈاکٹر شیزاد کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ڈاکٹر
شیزاد نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
غزل : آپ سچ کہہ رہے ہیں ۔
ڈاکٹرشیزاد:غزل تم چاہتی ہو تو میں تمہارے سامنے اس بات کا تذکرہ رفیق سے
کر دوں گا۔ تمہاری تسلی ہو جائے۔ وہ ایسا نہیں چاہتا تھا۔ اسی لیے اس نے
اپنے گھر والوں کو یہ بتانے سے بھی منع کر دیا کہ تم میری سگی بیٹی نہیں ہو
۔ اس نے تمہارا رشتہ مجھ سے یہ کہہ کر مانگا کہ اگر میں اسے تمہارا رشتہ دے
دو ں تو وہ دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان ہو گا ۔ میں نے اسی لیے۔ تمہارے
لیے اسے منتخب کیا۔اُٹھو اپنا منہ دھو لو ۔ رونا بند کرو ۔ تم روتی ہوئی
بہت بُری لگتی ہو۔
غزل: مجھے آپ پر خود سے ذیادہ یقین ہے۔اگر رفیق یہ چاہتے ہیں تو یہ ہی
سہی۔ میرے دل پر اب کوئی بوجھ نہیں رہا۔
ڈاکٹر شیزاد: غزل بیٹا ،اہم یہ بات نہیں ہوتی کہ انسان کو پیش کیا آیا
،اہم یہ بات ہوتی ہے کہ انسان کو جو کچھ بیش آیا ،انسان نے اسے کس طرح سے
سمجھا اور کس طرح سے اس چیز سے متعلق سوچا۔ کچھ لوگ بہت سا علم حاصل کر
لیتے ہیں لیکن ان کے علم کا ان کی زندگی پر کوئی اثر دیکھائی نہیں دیتا ۔
کچھ لوگ کسی ایک کتاب سے اس قدر متاثر ہو جاتے ہیں کہ وہ ان کی زندگی بدل
کر رکھ دیتی ہے۔ چیزوں کو ان کے مثبت پہلو وں سے دیکھنا شروع کرو۔ جب تم
چیزوں کو غیر جانبداری سے جانچنے لگو گی تو تمہیں ان کے نئے نئے پہلو نطر
آئیں گئے۔ انسان کی زندگی انمول ہے ۔انسان کی عادات اس کی زندگی کو سنوار
یا بگار دیتی ہیں ۔ خود کو حقیر جاننا بھی ایک عادت ہی ہے۔ ہر کسی کو حقیر
سمجھنا بھی ایک عادت ہے۔ دوسروں کو اچھا سمجھنا بھی ایک عادت ہے۔ تم نے
دیکھا نہیں کچھ لوگ کیسے ہر کسی کو اچھی نگاہ سے دیکھتے ہیں ،انہیں ہر ایک
مخلص ہی نظر آتا ہے۔ بیٹا اپنی عادات کو اچھا بنانے کی کوشش کرو ۔ مجھے
دیکھو۔ ورزش کرنے کی عادت ہو تی تو آج یوں موٹا نہ ہو جاتا۔ اب پچھتاوا
ہوتا ہے۔ مگر اس عمر میں عادت بدلنا مجھے مشکل لگتا ہے۔اسی لیے چاہتا ہوں
کہ تم اچھی عادات اپنا لو۔ تم اس عمر میں آسانی سے اپنی عادات کو اچھا بنا
سکتی ہو ۔
رفیق جیسا جیون ساتھی ملا ہے تمہیں۔ اس کی ہر اچھی چیز کو اپنانے کی کوشش
کرو۔ وہ بتا رہا تھا کہ کچھ اچھا پڑھے بغیر اب اسے نیند ہی نہیں آتی۔کس
قدر اپنی صحت کا خیال ہے اُسے ۔ کس طرح سے طے شدہ چیز ہی کھاتا ہے ۔ میں
ڈاکٹر ہو کر بھی ایسا نہیں کر پاتا۔ ساری بات عادت کی ہے ۔ بیٹا ،جب تم خود
سے پیار نہیں کرو گی تو کوئی دوسرا بھی تم سے پیار نہیں کرے گا ۔خود سے ہر
حال میں پیار کرو۔ کوئی اس دنیا میں مکمل نہیں ہے ۔ ہر انسان میں کچھ نہ
کچھ کمی ہوتی ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنابیہ واپس آچکی تھی۔ غزل اب چپ چاپ ڈاکٹر شیزاد کی باتیں سنجیدگی سے سن
رہی تھی ۔
عنابیہ: کس انسان کی کمی کی بات ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر شیزاد: سب انسانوں کی ، ہر انسان میں کچھ تو کمی ہوتی ہی ہے ۔
عنابیہ: یہ تو ہے ۔ کامل تو اللہ کی ذات ہی ہے۔
ڈاکٹر شیزاد:غزل یو ۔کے جا کر بھول نہیں جانا ہمیں ۔ فون کرنا سکائپ کھلا
رہتا ہے میرا۔
غزل : جی۔
ڈاکٹر شیزاد: جاو ،کچھ دیر آرام کر لو۔
غزل اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
وہ اپنے بستر پر انکھیں بند کیے لیٹی تھی ۔ اس کو اپنا دل و دماغ پرسکون
محسو س ہو رہے تھے ۔ اس نے دل ہی دل میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا ،وہ
سوچ رہی تھی ،کچھ چیزوں کے لیے محنت نہیں دُعا ہی کام کرتی ہے ۔ شاہد واقعی
امی کی دُعائیں میرے کام آ گئی ہوں ۔وہ رات بھر الٹے سیدھے خدشات کی وجہ
سے سو نہیں پائی تھی۔ اسے کب نیند آگئی ۔ اسے پتہ بھی نہ چلا ۔
صبا کہہ رہی تھی ،کیا تو کیا کہہ رہی ہے تو نے چودہ کی ہیں ۔ سچ کہہ رہی ہے
تو ۔ اس نے پیار سے خوشی کا سر چوما ، خوشی اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ
گئی ،وہ اس کے بالوں میں ہاتھوں سے کنگھی کر رہی تھی ۔ خوشی نے صبا سے کہا
، امی آپ ٹھیک کہتی تھی ،مرد واقعی افضل ہوتا ہے۔مگر کچھ اپنے کردار اور
اعمال سے انسان ہونے کی بھی فضیلت کھو دیتے ہیں ۔ امی آپ نے کبھی سوچا کہ
مرد کو افضل بننے کا موقع ایک عورت ہی دیتی ہے ۔
صبا نہیں بیٹا ۔اسے اللہ نے بنایا ہی افضل ہے۔ خوشی مگر امی اسے جنم تو ایک
عورت ہی دیتی ہے۔ اللہ تعالی ٰ نے اس کی جنت بھی ایک عورت کے پاوں میں رکھی
ہے ۔ ذیادہ افضل کون ہوا۔ صبا پتہ نہیں بیٹا ۔مجھے تو جو میری ماں نے
بتایا، میں تو بس وہی جانتی ہوں ۔ تیرے جیسا دماغ نہیں ہے میرا ۔ پر میں
خوش ہوں ، خوشی میں بہت خوش ہوں تو نے دس جو کر لیں ۔خوشی بھی ہنسنے لگی۔
موبائل کی آواز سے غزل کی انکھ کھل گئی ۔ اس نے پھر انکھیں بند کر لیں
موبائل کی آواز اور اس کا خواب دونوں ختم ہو چکے تھے ۔ اس نے افسردگی سے
موبائل کی طرف دیکھا۔ رفیق کی کال تھی ، اس نے موبائل دیکھا ۔ پھر میسج
دیکھا ۔ جس میں لکھا تھا میں تمہیں لینے آ رہا ہوں ۔ غزل مسکرائی ۔ اس نے
میسج کا جواب لکھا ۔ ویلکم۔میں تیار ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیق اور غزل واپس اپنے گھر آ رہے تھے کہ غزل کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے
،رفیق نے اس سے سوال کیا۔
رفیق: تم کچھ کہنا چاہتی ہو۔
غزل : امی کی قبر سے ہو کر جائیں ، پتہ نہیں پھر کب واپس آنا ہو۔
رفیق: ہاں ،تم راستہ بتاو ، چلتے ہیں ۔
کچھ دیر میں وہ دونوں صبا کی قبر پر فاتحہ پڑھ رہے تھے۔ پھر کچھ دیر دونوں
قبروں پرٹھہر کر وہ دونوں واپس آرہے تھے کہ اچانک رفیق نے غزل سے پوچھا۔
رفیق: تم اپنی بہن یا بھائی سے ملنا چاہو تو وہاں سے بھی ہو آتے ہیں ۔
غزل کے چہر ے پر چمک آ گئی ۔ اس نے نائلہ کے گھر کا راستہ سمجھانا شروع کر
دیا۔ کچھ دیر بعد وہ وہاں پہنچ گئے ۔ غزل نے دستک دی تو دروازہ صابر نے
کھولا ۔
غزل کا دل ذور سے دھڑکا ۔
خوشی: ابو۔
صابر : خوشی تو۔ آ ۔اندر آ ۔
صابر بہت کمزورلگ رہا تھا ۔وہ بہت آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ خوشی کو یقین
نہیں آ رہا تھا کہ اسےصابر کو دیکھ کر نہ ہی غصہ آیا تھا ،نہ ہی اس کے دل
میں کوئی نفرت آمیز جذبہ پیدا ہوا تھا۔ اسے تو اس شخص سے ہمدردی محسوس
ہوئی جو کمزور اور ضیعف تھا ۔
رفیق خوشی کے پیچھے پیچھے اندر آگیا۔
صابر : کیسی ہے تو۔ مجھے مراد نے بتایا ،تو نے اسے پڑھنے کے لیے بہت سارے
پیسے دیئے ہیں۔ تجھے پتہ ہے ۔ ان پیسوں میں سے دو لاکھ اس نے اکبر کو دے
دئیے ۔ وہ دُبئی چلا گیا ہے۔ وہاں اسے کام بھی مل گیا ہے ۔ خود ہوسٹل چلا
گیا ،مجھے نائلہ کے پاس چھوڑ کر ۔ کہتا ہے ،خوشی کہتی ہے۔ افسر بن۔
خوشی خاموشی سے صابر کی باتیں سن رہی تھی۔ رفیق خوشی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
نائلہ: ابو یہ خوشی کا گھر والا ہے۔رفیق نام ہے اس کا۔
صابر : اچھا ۔اچھا ہے۔ بہت اچھا ہے۔(وہ کچھ دیر خاموش رہ کر پھر بولا) تو
بھی تو کچھ بول نا۔ خوشی۔
خوشی : کیا بولوں؟
خوشی نے صابر کی طرف دیکھا ۔خوشی سوچ رہی تھی ،رب بھی کس طرح بندوں کو سبق
سکھاتا ہے ،تمام عمر لڑکیوں کو بوجھ سمجھنے والا آج لڑکی ہی کی چوکھٹ پر
ہے۔
نائلہ : تو آج کھانا کھا کر جائے گی اچھا ۔ ٹھیک ہے نا بھائی۔
رفیق خاموش رہا۔
خوشی : نہیں ،وہ ہماری کل صبح کی فلائٹ ہے چھ بجے کی ۔تو سوچا کہ مل کر
جائیں ۔ مجھے نہیں پتہ تھا ۔ کہ
نائلہ : خوشی تو واقعی خوشی ہے ۔ جس گھر میں قدم رکھے اس کے تو دن ہی پھر
جاتے ہیں ۔تیرے بھائی کب سے باہر جانا چاہ رہے تھے ۔بس پیسے نہیں تھے ۔ تو
نے مراد سے کہا تھا ہماری مدد کرنے کو۔
خوشی : نہیں ۔ میں نے تو فقط یہی کہا تھا کہ انسان کو ملتا وہی ہے جو وہ
دیتا ہے۔اس نے اچھا فیصلہ کیا۔
نائلہ : تو نے اسے کتنے پیسے دئیے تھے۔
خوشی : کچھ ذیادہ نہیں ۔
نائلہ : ابو آپ ٹی وی والے کمرے میں چلے جائیں ۔اگر آرام کرنا چاہ رہے
ہیں تو۔
صابر : میں سن رہا ہوں ۔تم لوگ باتیں کرو ۔ مجھے یہاں ہی بیٹھنے دو۔
خوشی: ابو کل اگر آپ ہمیں اپنی باتوں میں شریک کرتے ،تو آج ہمارے پاس بہت
سی باتیں ہوتیں۔ آپ کے ساتھ کرنے کے لیے۔
صابر: ہاں ،مجھ سے بہت سی غلطیاں ہو گئیں۔
خوشی: کوئی بات نہیں ابو ۔ انسان سے غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ آپ نے مان لیا
کافی ہے۔
خوشی گھر سے نکلنے لگی تو اس نےنائلہ کو پھر کچھ نہ لا سکنے کا کہہ کر بچوں
کو پیسے دئیے۔ سب کے چہروں پر خوشی تھی وہ وہاں سے نکل گئی۔ رفیق اور غزل
گاڑی میں بیٹھ چکے تھے ۔
رفیق :تمہارے ابو تو بہت اچھے لگے مجھے ۔ اس دن تم سے میں نےتمہارے ابو کے
بارے میں پوچھا تو تم نے کچھ نہیں کہا ۔ مجھے لگا تم ان سے ناراض ہو ۔
خوشی: آپ کو ٹھیک لگا تھا ۔ میں ان سے ناراض ہی تھی ۔ مگر جب میں نے انہیں
یہاں دیکھا تو مجھے ڈیڈی کی بات یاد آ گئی ۔ مجھے آپ کی اچھی عادات اپنا
لینی چاہیے ۔ تو میں نے اس کی شروعات کی ہے۔
رفیق: میری اچھی عادت ۔ کون سی ؟
خوشی: آپ رشتوں کو ان کی اچھائی اور بُرائی کے ساتھ مکمل اپنا لیتے ہیں ۔
اگر ہم انسان کی اچھائی پر نظر رکھیں تو اس کی بُرائی ہمیں تکلیف نہیں دے
پاتی ۔ میں کل تک ابو کو اپنی ہر محرومی کا ذمہ دار مانتی تھی ۔ مجھے لگتا
تھا۔ انہوں نے میرے ساتھ کچھ اچھا نہیں کیا۔ ان کا خوف نہ ہوتا تو میں گھر
سے نکلی ہی نہ ہوتی ۔
رفیق: کیسا خوف ؟
غزل: میرے ابو ہمیشہ میرے چھوٹے بھائی ہی کو سب کچھ سمجھتے تھے ۔ ہم تین
بیٹیاں ان کے لیے بوجھ ہی تھیں ۔ انہیں ہم سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ میرے اور
مراد کے درمیان ایک جھگڑا ہوا۔ ایک کاغذ کو لے کر ۔جس پر میں نے ابو کی اور
مراد کی بُرائی کی تھی۔ میں چاہتی تھی ،وہ کاغذ مجھے دے ۔مگر وہ بھاگ کر
چھت کے کونے پر پہنچ گیا ۔ اس کا پاوں پھسل گیا ۔وہ نیچے گِر گیا۔ دادی نے
مجھے کاغذ تھامے دیکھ لیا ۔ مراد کی چیخ سن کر گھر والے بھاگے ۔دادی ہی سب
سے پہلے مراد کے پاس پہنچی ۔وہ پروس کے گھر سے نکلی تھیں ۔انہوں نے مراد کے
ہاتھ میں کاغذ کا چھوٹا سا ٹکڑا دیکھا ۔ جو خالی تھا۔ وہ چلانے لگی ۔ مراد
کو خوشی نے دھکا دے دیا۔ کیا زمانہ آ گیا ہے ۔ لڑکی کا خط دیکھ لیا بھائی
نے تو اس نے بھائی کو ہی مار ڈالا۔
رفیق: خط۔
خوشی: انہوں نے خود سے ایسی کہانی بنائی تھی ۔ابو کی مار نہ کھانی پڑے ۔ اس
لیے میں گھر سے قریب ایک میدان میں جا کر چھپ گئی ۔اگر مجھے یقین ہوتا کہ
ابو میری بات کا یقین کر لیں گئے ۔تو میں گھر سے کبھی نہ بھاگتی ۔
رفیق: تم نے اب اپنے ابو کو معاف کر دیا؟
خوشی: ہاں ۔
رفیق: کیوں۔
خوشی: کیونکہ مہربان ہونا صحیح ہونے سے بہتر ہے۔ میں نے جب ابو کی اچھائیوں
کے بارے میں سوچا تو مجھے ان کی ذیادتی کم دیکھائی دینے لگی۔ انہو ں نے
مجھے پندرہ سال اپنی محنت کی کمائی سے پالا بھی ۔ سکول میں پڑھایا بھی۔
چاہتے تو میری پیدائش کے بعد کسی کوڑے کے ڈھیر پر چھوڑ دیتے ۔ ماں باپ سے
خواہ کیسی ہی شکایت ہو ،ان سے محبت دل میں ہمیشہ رہتی ہے۔اللہ تعالیٰ کے
بعد وہ انسان کے کے سب سے بڑے محسن ہوتے ہیں۔اللہ ہے مجھے یقین آ گیا اللہ
ہے۔ وہ ٹھیک کہتا ہے ،وہ کسی نفس کو اس کی برداشت سے ذیادہ تکلیف نہیں
دیتا۔ وہ ہر مشکل کے بعد آسانی رکھتا ہے ۔ ہر مشکل کے بعد آسانی ہی ہوتی
ہے ۔ ہم ہی سمجھ نہیں پاتے۔
رفیق : تم سچ کہہ رہی ہو۔
رفیق نے گاڑی پارک کی ۔ وہ گھر کی طرف چل پڑے۔ ان کے درمیان کی خاموشی محبت
کے احساس سے محو گفتگو تھی۔
ختم شد۔
|