بد ترین مذہبی گلوبل دہشت گردی

دین اسلام عقیدہ توحید و رسالت اور قیامت کے بارے میں انسانوں کو روز اول سے ہدایت اور ایمان کی راہ دکھاتا ہے۔ انسان اول آدمؑ کو نبوت کا شرف بھی حاصل ہوا۔ نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ تک تمام انبیائے کرام کی امتوں کو وقت کے حالات کی مناسبت سے ذیلی شرعی تعلیمات میں تنوع موجود رہا۔ مثلاً ہر نبی کو اپنے مخاطبین کی زبان میں دعوت و کتاب عطا کی گئی۔ اہل کتاب کی اصطلاح سابقہ آسمانی کتابوں کی مناسبت سے استعمال کی جاتی ہے۔تو رات کے مخاطبین یہود اور انجیل کے مخاطب نصاریٰ کہلاتے ہیں۔ قرآن پاک میں آخری آسمانی کتاب ہدایت کی حیثیت میں سابقہ امتوں کے احوال پر بہت کچھ روشنی ڈالی گئی ہے جسے ان امتوں کے بارے میں معلومات کا اہم ترین اور سو فی صد مبنی برحق ذریعہ ماننا ایمان کا تقاضا ہے۔مذاہب کی تاریخ میں باہم تکذیب اورضدو ہٹ دھرمی کا سلسلہ یہود سے شروع ہوا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑکی نبوت اور کتاب و دعوت کو ماننے سے انکار کا راستہ اختیار کیا اور ان کے خلاف پھانسی تک کی سازش کی مگر اﷲ کریم نے انہیں زندہ آسمان پر اُٹھا لیا اور سازشیوں کو ایک شبہے میں ڈال دیا گیا۔بعدازاں متعصب عیسائیوں نے موسیٰ ؑ اور تورات کو ماننے سے انکار کر دیا اور خود ساختہ طور پر حضرت عیسیٰ ؑ کو اﷲ کا بیٹا قرار دے ڈالا۔ آخر کار جب حضور ﷺ کی تشریف آوری ہوئی تو اہل کتاب کے دونوں گروہوں میں سے کئی اہل علم و فضل اور صاحب تقویٰ سچے و کھرے انسان رسول اﷲ ﷺ پر ایمان لائے اور اقرار کیا کہ تورات و انجیل میں آپ کی تشریف آوری کی خوشخبری اور بہت سی علامات بتائی گئی تھی اور ان کو ہدایت قبول کرنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ ہوئی اور قرآن پاک میں انہیں دوہری سعادت کی خوشخبری دی گئی تا ہم بہت سے شریر اور منافقین نے خو درسول اﷲ ﷺ کی موجودگی میں اپنے ضد، ہٹ دھرمی، شرارت، خباثت اور شیطنت کے رویے کی ایک تاریخ رقم کی۔ قرآن پاک میں ان کی ایسی سر گرمیوں کی حقیقت سے آگہی بخشی گئی ہے۔ تاریخ کا پہیہ چلتا رہا ، صلیبی جنگوں کی تاریخ کوئی نئی بات نہیں ، مسجد ابا صوفیہ اور مسجد قرطبہ کا ماضی و حال صدیوں سے ارباب ِ نظر کا موضوعِ فکر ہے۔ آج کی دنیا مذہبی بنیادوں پر تقسیم کے لحاظ سے عیسائی اکثریت پر مشتمل ہے ۔ مغرب کی اکثر ریاستیں اپنے آپ کو جمہوری اور سیکولرکہلانے کے باوجود اپنے جھنڈوں اور اپنے کردار کے لحاظ سے کٹر صلیبی ریاستیں ہیں۔ یہود تعداد میں کم مگر عالمی صلیبی ریاستوں کی پشت پناہی کے باعث اسرائیلی ریاست اور صہیونی اثرات کے حامل ہیں۔ میڈیا پر ان کا غلبہ غیر متنازعہ حقیقت سچائی کا درجہ رکھتا ہے۔ کاروباری دنیا پر ان کے عمل دخل نے کئی عیسائی ریاستوں پر بھی ان کا گہرا اثر و رسوخ حاصل کر لیا ہے۔ اقوامِ متحدہ بھی کبھی اُن کی مرضی کے خلاف چوں چراں تک نہیں کر سکتی اور ’’ ہولوکاسٹــ‘‘ کے حوالے سے الیکٹرانک یا پرنٹ و سوشل میڈیا کی مجال نہیں کہ اُن کی مرضی کے خلاف کوئی لفظ بول سکے ۔

اس سب کچھ کے باوجود ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ مغربی ریاستوں اور بالخصوص میڈیا پر غالب و قابض طاقتوں نے یہ ناپاک طرزِ عمل اپنا رکھا ہے کہ ہر تھوڑے سے وقفے کے بعد اسلامیانِ عالم کے دلوں کو اذیت پہنچانے اور تڑپانے ، اور اُن کے دل و دماغ و روحوں کو مجروح کرنے کیلئے ان کی دل و جان ، ما ں،باپ ، اولاد، مال و اسباب وغیرہ ہر چیز سے محبوب ترین ہستی آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ کی ذات پاک پر کیچڑ اُچھالنے اور کسی نہ کسی انداز میں توہین کا ارتکاب کر کے اس سے مجرمانہ اور وحشیانہ سرور حاصل کرتے ہیں ۔ اس سے زیادہ وحشت و دہشت کا کوئی تصور ممکن ہی نہیں۔ خدا کی قسم یہ بہت بڑی ، جی ہاں بہت بڑی، بلکہ سب سے بڑی دہشت گردی ہے۔ دہشت گردی کے عنوان سے بیا ن کیے جانے والے سب قصے اس جرمِ عظیم کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔ انیس سو اسی کے عشرے میں برطانوی حکمرانوں کی سرپرستی میں ایک مردود رشدی کو اس مشن کیلئے اُچھالا، ابھارا، اور اُٹھایا گیا ۔ اس وقت کی راقم کی تحریریں ریکارڈ پر ہیں کہ اس نا پاک مہم سے جو کچھ آگے کیا جانا مطلوب تھا وہ بتا دیا گیا اور آج تک ہمارے اندازے سو فیصد درست ثابت ہوئے۔ امریکی صدر بش نے جس صلیبی جنگ کا رسمی طور پر افتتاح کیا، عالم اسلام کو مختلف عنوانوں اور حوالوں سے جس طرح تاراج کیا گیا ، باہم جنگ و جدال میں مبتلا کیا گیا، ملک کی قیادتوں کو خاک میں ملایا گیا، امریکہ، برطانیہ و فرانس، اسرائیل کے گٹھ جوڑ سے جو تاریخ رقم کی گئی اس پر ہزاروں صفحات لکھے جاتے رہیں گئے ۔ اسلامی دنیا کے کئی ملین معصوم مردوں ، عورتوں، بچوں ، جوانوں کو قتل کیا گیا، لاکھوں کو معذور و اپاہج بنایا گیا ، شہر اُجاڑے گئے روئے زمین کے حسین ترین اور محبوب ترین مقامات دمشق و بغداد ، کابل و قندھار ، قاہرہ، طرابلس، کویت، ایران وغیرہ ملکوں کو نا قابل تلافی طور پر برباد کیا گیا صرف کابل کو ہی دیکھ لیا جائے کہ کیسی کیسی کہانیاں اور افسانے بنا کر اسلامی غیور افغانوں کے دارالحکومت پر مستقل قبضہ جمایا گیا ۔ آج عرب و عجم میں جو منحوس جنگی فضائیں پیدا کر دی گئی ہیں ، مسلمانوں کی ریاستوں پر مغرب پرست ، بد عنوان اور ذات پرست لوگوں کو اس طرح براجمان کرایا گیا اورایسے قانون بنائے گئے کہ سوئس بنکوں اور پانامہ کمپنیوں کی پناہ گاہیں مسلمان ممالک کے مجرموں کے مورچے بن جائیں۔ کیا اسلامیہ جمہوریہ پاکستان اس لیے قائم ہوا تھا کہ بھارت اور مغرب کے ایجنٹ سیاسی قائدین کا روپ دھارلیں ۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس صورتحال کی خالق اسلام دشمن صلیبی و یہودی طاقتوں کے ایجنڈے دنیا کے سامنے ہیں۔ مسجدوں کے مینار و گنبد ، خواتین کے حجاب پر پابندیاں ،اور بلیک واٹرز کی یلغاریں کیا عالمی امن اور جمہوری سوچوں کی ترجمانی کر رہی ہیں ۔سوڈان کا حصہ الگ کر دیا گیا مگر کشمیر میں آئے روز مظالم نئے منظر دکھا رہے ہیں ، یہ سب مغرب کے ویٹو بردار حاکموں کی کارستانیاں نہیں تو اور کیا ہیں ۔ آج کل سوشل میڈیا کو گھر گھر پہنچا کر اُسے کائنات کی عظیم ترین ہستی پر کیچڑ پھینکنا ایک فیشن بنایا جا رہا ہے ۔ ہماری رائے میں سوشل میڈیا کو چلانے والی سائنسز کے مسلمان ماہرین کا امتحان ہے ۔ اگر ایک شہر میں قاتل ، ڈاکو یا کوئی اور فسادی ظلم و ستم برپا کر رہے ہوں تو مجرموں کو پکڑ کر انجام تک پہنچانے کی کوششیں کی جائیں گی تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے حالات میں بسا اوقات وقتی طور پر کرفیو تک نافذ کرنا ضروری ہو جاتا ہے جس سے معمور کی زندگی تو بحرحال متاثر تو ہوتی ہی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی مہلک بیماری یا اپریشن کی صورت میں جسم کی دنیا پر کئی پابندیاں لگائی جاتی ہیں جو خوراک، لباس، حرکات و معمولات کو بدل دیتی ہیں۔ آج کی پیچیدہ اطلاعاتی دنیا کے ایسے ذلیل ترین ننگِ انسانیت عناصر کو قابو میں لانا عالمی امن و سکون کیلئے ضروری ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ایک رشدی سے خباثت کا جو سلسلہ شروع ہوا ، آج رشدیوں کا ابو جہلی لشکرجرار میڈیا میں پھینک دیا گیا ہے ۔ علامہ اقبال نے ’’ مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے ‘‘ کہہ کر جو حقیقت بیان کی تھی اس کا آج سامنا ہے اور شاید اسی لیے اقبال کا ذکر بند کرنے کیلئے مغرب پرست حکمرانوں نے یوم اقبال کی سالانہ چھٹی بھی ختم کردی ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ آئینی عہدوں کے حلف کی عبارت میں یہ الفاظ شامل کیئے جائیں کہ ’’میری جان مال آبرو والدین اولاد غرض میرا سب کچھ آقائے نامدار ﷺ کے کو ناموس کی حفاظت پر قربان ہے‘‘ آخر میں ایک مثال پیش کی جاتی ہے کہ ہمارے شہروں میں دھاتی تار کا مسئلہ ایک معمہ بنا ہوا ہے ۔ مجرم قانون کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ عالمی سطح پر اسلامیانِ عالم کے امن و سکون کی خاطر یہ دہشت گردی اولین توجہ کی طلبگار ہے کہ یہ بد ترین نوعیت کی دہشت گردی ہی تو ہے۔

Rasheed Ahmad Angvi
About the Author: Rasheed Ahmad Angvi Read More Articles by Rasheed Ahmad Angvi: 48 Articles with 38385 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.