میڈم اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘‘،،،اگر میرے ہاتھ مزدوروں
جیسے نہیں‘‘،،،انسان جب پیدا ہوتا ہے‘‘،،،وہ صرف اک معصوم سا بچہ ہوتا
ہے‘‘کل وہ ڈاکٹر‘‘،،،انجینئر‘‘،،،ڈاکو‘‘،،،یا کوئی لٹریچر والا ہو گا‘‘کچھ
پتا نہیں ہوتا‘‘،،،بس وہ اپنے بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ چلتےاس سے قدم ملا
ملا کےاک پہچان بنا لیتا ہے‘‘،،،میں بھی مزدور بن ہی جاؤں گا‘‘،،
دیکھ لینا‘‘ایک دن‘‘ان ہاتھوں میں مزدوری کی لکیر ہو ‘‘نا‘‘ہو چھالے
مزدوروں والے ضرور ہوں گے‘‘،،،،اس کے چہرے پر اک زخمی سی مسکراہٹ پیدا ہو
گئی‘‘،،،چاچا ماڈل اور روزی خاموشی سے اسے سن رہے تھے‘‘،،،
سلمان واپس اپنے وجود کو اک مصنوئی غلاف میں لپیٹنے لگا‘‘ارے بی بی جی‘‘کن
باتوں میں لگا دیا‘‘،،،کریم صاحب
کیا سوچیں گے‘‘کتنے ہڈ حرام مزدور لے آیا ہوں‘‘،،،روزی کچھ نہ بولی‘‘بس
خاموشی سے الماری کی جانب بڑھ گئی‘‘،،،
ماڈل چاچا الماری کی اٹھک پٹھک سے خراب ہونے والا قالین ٹھیک کرنے لگا‘‘،،،اسلم
کمرے میں داخل ہوا‘‘،،،
سلمان باؤ‘‘سلمان نے شکر ادا کیا‘‘کہ کوئی تو بچاؤ کو آیا‘‘،،،وہ ذرا
کنفیوز ہو رہا تھا‘‘اسے اپنے اوپر قابل رحم آنکھوں‘‘اور توجہ سےالجھن ہونے
لگتی تھی‘‘،،،
یار آپ لوگ یہاں سے فری ہو جاؤ‘‘،،،تو ذرا میرے پاس ڈرائنگ روم میں
آجانا‘‘،،،اسلم نے جلدی جلدی کہا‘
روزی نے اسلم کی بات سنی ان سنی کر دی‘‘،،،اسلم یہاں ابھی ذرا کام باقی
ہے‘‘تم چاچا کو لے جاؤ‘‘،،،پھر سلمان کی طرف اشارہ کر کے بولی‘‘،،،بس اسے
یہاں چھوڑ جاؤ‘‘اسلم نے کوئی توجہ نہیں دی‘‘،،،بے فکری سے،،،ٹھیک ہے بی بی
جی‘‘
چاچا آپ فری ہو کے آ جانا‘‘،،،وہاں کام ذیادہ ہے‘‘کیونکہ جلدی نمٹانا
ہے‘‘پھر مہمان آ جائیں گے‘‘اسلم پلٹ کے کمرے سے باہر نکل گیا‘‘،،،روزی نے
مہنگی سی چاکلیٹ نکال کر ان دونوں کی طرف بڑھا دی‘‘،،،
اچھی لگے تو شکریہ کہہ دینا ورنہ صرف کھا لینا‘‘ویسے ایک بات بتا دوں
چاکلیٹ صرف ذائقے کے لیے ہوتی
ہے‘‘پیٹ بھرنے کے لیے نہیں‘‘اور پیٹ کو ذائقے کا کچھ پتا نہیں ہوتا‘‘نہ
حلال حرام کا پتا ہوتا ہے‘‘یہ سب انسان کا دماغ بتاتاہے‘‘سلمان کی طرف دیکھ
کر بو لی‘‘تمہارا دماغ بہت چلتا ہے‘‘،،،میری اس بات پر بحث کرو گے
‘‘یا‘‘میں صحیح ہوں؟؟؟اس نے سلمان کو گھورا‘‘سلمان کی حیرت تجسس میں بدل
گئی‘‘اس نے سوچ لیا‘‘کہ اب
،،،،،(جاری)
|