لاہور میں کامیاب تجربے کے بعد یکم جون سے پنجاب کے
تمام اضلاع میں اے ڈی آر مصالحتی سینٹرز کام کا آغاز کر یں گے، اس بارے میں
گزشتہ دنوں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ نے پنجاب جوڈیشل
اکیڈمی میں تربیتی کورس مکمل کرنے والے جوڈیشل افسران میں اسناد تقسیم کرنے
کیلئے منعقدہ تقریب میں بتایا کہ مقدمات کا التواء کا مسئلہ ایک بہت تلخ
حقیقت ہے، پنجاب میں 1700 ججز کے پاس 13 لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں، ایسا
کون سا کمپیوٹر سسٹم لے آوں جو ان مقدمات کو حل کردے۔بہت سے مقدمے مقدمہ
بازی سے نہیں بات کرنے سے حل ہوسکتے ہیں۔ اگر کاروباری حضرات عدالتوں کے
چکر لگاتے لگاتے تھک جائیں گے تو ملک کی معیشت کیسے ٹھیک ہوگی۔ عوام اور
وکلاء ہم سے گلہ کرتے ہیں کہ سالہاسال سے مقدمات حل نہیں ہوتے۔ سالہاسال سے
زیر التواء مقدمات کے گمبھیر مسئلے کو نبٹانے کے لئے تنازعات کی دادرسی کے
متبادل مراکز ( اے ڈی آرسنٹرز ) کا نظام لایا گیا ہے۔ سات مارچ سے لاہور
میں اے ڈی آر مصالحتی سینٹرز کا آغاز کیا گیا تھا،اعداد و شمار کے مطابق
گزشتہ 2 ماہ میں 178مقدمات لاہور کے مصالحتی مرکز کو بھیجے گئے ،ان میں85
فیصد مقدمات میں کامیابی سے مصالحت کروا دی گئی۔اے ڈی آر مصالحتی سینٹرز
میں سستے اور بروقت انصاف کی فراہمی کی بدولت عوام کا رجحان مصالحت کی جانب
بڑھ رہا ہے، سائلین کی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے میڈی ایٹرز کی تعداد
میں اضافہ کیا گیاہے ، جو روزانہ کی بنیاد پر ثالثی کا کام کریں گے۔ اے ڈی
آر مصالحتی سینٹرز کا اقدام منصور علی شاہ کا نہیں بلکہ لاہور ہائی کورٹ کا
ہے، کیونکہ افراد معنی نہیں رکھتے، ادارے افضل ہوتے ہیں۔ سید منصور علی شاہ
تو پس منظر ہے اصل کام تو ٹیم کر رہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عدلیہ سے
50 فیصد سے زائد مقدمات اے ڈی آر مصالحتی سینٹرز کے ذریعے حل ہوجائیں، اور
ہم اس میں ضرور کامیاب ہوں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک تمام سٹیک ہولڈرز
ایک پیج پر نہ ہوں تو کوئی بھی پراجیکٹ نہیں چلتا، میری خوش قسمتی ہے کہ
ہمیں ایک پروفیشنل بار لیڈر شپ میسر ہے اور انکا بھرپور تعاون شامل حال ہے۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا کے بھی بہت مشکور ہیں جس نے ہمارے اس کام کو عام
عوام تک پہنچایا، ہم سوشل میڈیا کے ذریعے بھی لوگوں کو اے ڈی آر مصالحتی
سینٹرزکی افادیت کے متعلق آگاہ کریں گے۔ تقریب کے اختتام پر چیف جسٹس لاہور
ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ نے لاہور ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحبان اور
جوڈیشل افسران کے ہمراہ کامیابی سے تربیتی کورس مکمل کرنے والے61 میڈی
ایٹرز میں اسناد تقسیم کیں۔ فاضل چیف جسٹس نے یکم جون سے پنجاب کے تمام
اضلاع میں مصالحتی سینٹر کو کام شروع کرنے اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحبان
کو تمام ضروری انتظامات مکمل کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔ جبکہ اے ڈی آر
مصالحتی سینٹرز میں تعیناتی سے قبل پنجاب کے 72 ججز کو پنجاب جوڈیشل اکیڈمی
میں تربیتی کورس مکمل کروایا گیا ہے۔
یہ ایک المیہ ہے کہ صرف پنجاب کی عدالتوں میں 13 لاکھ مقدمات زیر التواء
ہیں اور اس تعداد میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے ۔ زیرالتواء مقدمات کی بڑھتی
تعداد جہاں ججز صاحبان پر بوجھ ہے وہاں نظام انصاف کی پیچیدگیوں کو بھی
ظاہر کررہی ہے۔ اس گھمبیر صورتحال کے باعث نہ جانے کتنے خاندان اذیت میں
ہوں گے، نہ جانے کتنے لوگوں کی زمینوں کے جھگڑے ہوں گے ، کتنے لوگوں کے
کاروبار کا حرج ہورہا ہوگا، نہ جانے کتنے افراد انتظار کی سولی پر لٹکے ہوں
گے، اور نہ جانے کتنے لوگ فیصلے کے انتظار میں اس دنیا دار فانی سے رخصت
ہوچکے ہوں گے۔ اور پھر جب کوئی شخص مقدمہ دائر کرتا ہے تو ظاہر سی بات ہے
کہ دوسرا شخص بھی اس کے ساتھ نتھی ہوتا ہے، اسی طرح گواہان کو شامل کر لیا
جائے تو ایک مقدمے سے کئی افراد منسلک ہوتے ہیں ، یوں لاکھوں مقدمات میں نہ
جانے کتنے خاندان پریشان کن کیفیت سے دوچار ہوں گے ۔ ان حالات میں اگران
لاکھوں مقدمات کونبٹانے کے لیے ججز کی تعداد میں اضافہ بھی کر دیا جائے تو
بھی معاملہ حل نہیں ہوتا۔ عدالتوں پر کام کا بوجھ کم کرنے کے لئے ضروری ہے
کہ زیر التواء پرانے مقدمات کے فیصلے کرکے سستے اور فوری انصاف کی فراہمی
اور نئے دائر ہونے والے مقدمات کی فوری سماعت کی راہ ہموار کی جائے ۔ جناب
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے جلد انصاف کی فراہمی کے لیے اقدامات قابل قدر
ہیں مگر زیر التوا ء مقدمات کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ جب تک ہنگامی
اقدامات نہیں کیے جاتے مسئلہ حل نہیں ہوتا ، اس گھمبیر صورتحال کی بہتری کے
لئے اے ڈی آر مصالحتی سینٹرز ( Alternative Dispute Resolution )کا قیام
یقینی طور پر فائدہ بخش ہوگا ، اس کے ذریعے بہت سے فیملی،سول اور دیگر
پرانے مقدمات سمیت حل طلب معاملات اور تنازعات کو فریقین کے درمیان مصالحت
سے حل کرکے سالوں کا کام دنوں میں نبٹایا جاسکے گا۔ جبکہ اگر دیوانی مقدمات
کا جائزہ لیا جائے تو کسی بھی مقدمہ میں محض جواب دعویٰ، شہادتوں اور بحث
میں ہی سالہاسال لگ جاتے ہیں۔ بلاشبہ عدلیہ میں روایتی طریقوں سے ہٹ کر
جدید تقاضوں کے مطابق اقدامات سے ہی زیر التواء مقدمات کا کلچر ختم کیا
جاسکتا ہے، اے ڈی آر مصالحتی سینٹرز کے قیام سے جہاں مقدمات کی تعداد میں
کمی ہوگی وہاں مقدمات کے فیصلے بروقت ہوں گے۔ لاہور ہائی کورٹ ، اور پنجاب
کا جوڈیشل سسٹم جو کہ تقریباً نصف پاکستان کا احاطہ کئے ہوئے ہے، چیف جسٹس
لاہور ہائی کورٹ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں ہمہ وقت عدالتی اصلاحات
اور بروقت انصاف کی فراہمی کے لئے خلوص دل اور مضبوط اداروں کے ساتھ کوشاں
ہے ، جو خلق خدا کیلئے ایک اچھی اور بڑی خبر ہے۔ چیف جسٹس سید منصور علی
شاہ کا ہر فیصلہ اور اقدام تاریخ ساز ہے۔ پروفیشنل وکلاء اور بار ایسو سی
ایشنوں کو مکمل تعاون فراہم کرنے کا فیصلہ، جوڈیشل افسران کو وکلاء کے دباؤ
کے بغیر بلا خوف و خطر قانون کے مطابق فیصلے کرنے کیلئے ماحول کی فراہمی کا
فیصلہ، کرپشن الزامات پر 27 جوڈیشل افسران کو او ایس ڈی بنانے کا فیصلہ،
معیار سے کم اہلیت رکھنے والے ضلعی عدلیہ کے ججز کو تربیتی کورسز کروانے کا
فیصلہ، لاہور ہائی کورٹ میں سائلین کوایس ایم ایس کے ذریعے مقدمات کی
معلومات فراہم کرنے کیلئے سہولت سنٹر کے قیام کا فیصلہ، ضلعی عدالتوں میں
کال سنٹرز، ویڈیو لنک کورٹس اور مقدمات کی آٹومیشن کرنے کا فیصلہ، زیر
التواء اور زیر سماعت مقدمات کو بروقت نمٹانے کیلئے کیس مینجمنٹ پلان ترتیب
دینے کے فیصلے سمیت ان کے دیگر کئی اہم اور تاریخ ساز فیصلے عدالتی تاریخ
میں اپنی مثال نہیں رکھتے، یہی وجہ ہے کہ انصاف کی فراہمی میں بہتری کی
بدولت عوام کے دلوں میں عدلیہ کا وقار پہلے سے زیادہ بلند ہوا ہے اور عوام
کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہوا ہے ۔ان سطور میں ہم دعا گو ہیں کہ ربّ کریم
انسانیت کا درد اپنے دل میں محسوس کرنے والے ہمارے ان نیک منصفوں کو نیک
ارادوں میں کامیاب فرمائے ، تاکہ سستا اور فوری انصاف آسانی کے ساتھ ہر فرد
کی دسترس میں ہو، آمین۔ |