پڑھنے اور سننے میں عجیب سی بات لگتی ہے یہ کہ یہ کیسا
عنوان ہے یا یہ کہ یہ کیا لکھ دیا میں نے؟ ہوسکتا ہے عنوان پڑھ کر ایک عجیب
سی ناگواری کی کیفیت لے کر آپ اس مضمون کو پڑھنا شروع کریں اور ایسا بھی
ممکن ہے کہ کچھ احباب بلکل ہی نہ پڑھیں۔ مضمون پڑھتے رہیئے، آپ کے تمام
وسوسے بھی دور ہو جائیں گے اور آپ کو اپنے تمام سوالات کے جوابات بھی مل
جائیں گے۔ اس سے پہلے کے میں آپ کے وسوسے دور کروں اور آپ کو کسی سوال کا
جواب دوں، آپ سب میرے صرف ایک سوال کا جواب دے دیجیئے۔ میرا سوال پڑھ کر آپ
دل میں میری بات کا جواب ضرور دیں اور پھر مضمون پڑھنا جاری رکھیں۔ میرا
سوال آپ سب سے یہ ہے کہ کیا آپ کبھی گھر کی چار دیواری کے علاوہ اپنی ماؤں،
بہنوں، بیٹیوں وغیرہ کو سرِ بازار یا کہیں بھی پبلک میں، نام لے کر پکارتے
ہیں؟ ابھی میڈیا وغیرہ تو دور کی بات ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں آج تک
کوئ مرد ایسا نہیں دیکھا جو اپنے ان مقدس رشتوں، یہاں تک کہ کسی بھی خاتون
کو، چاہے اس سے کوئ رشتہ نہ بھی ہو اور وہ اس خاتون کا نام جانتا بھی ہو،
کو سرِ بازار یا گھر سے باہر کہیں بھی نام سے پکارتے سنا ہو۔ میرا خیال ہے
آپ بھی میری اس بات سے یقیناً متفق ہوں گے کہ میں صحیح کہہ رہی ہوں۔ اور اب
تک میرے کئے گئے سوال کا جواب بھی آپ کے ذہنوں میں فوراً 'نہیں' کی صورت
میں آ گیا ہوگا۔
ہم ان سب مقدس رشتوں کا احترام دل سے کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ ہماری
عزتیں اور غیریتیں ہیں۔ میں نے ٹھیک کہا؟ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ آپ سب کی
بھی یہی سوچ ہے۔
اب ذرا مجھے اس انتہائ تکلیف دہ، افسوس ناک اور شرم ناکبات کا جواب بھی دے
دیجیئے کہ ہمیں اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کا تو بڑا خیال ہے،
سرِبازار ان کا نام لینے پر ہماری غیرتیں جاگ جاتی ہیں مگر پوری امت مسلمہ
کی ماؤں، ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمدؐ کی ازواج مطہرات کا نام ہم
سرِبازار کیا، ہر جگہ، چاہے وہ درس ہے، مجلس ہے یا پھر میڈیا ہے، ایسے لیتے
ہیں جیسے نعوذ و با للہ وہ ہماری عزتیں اور غیرتیں نہیں۔ جن خواتین کو پوری
امت مسلمہ کی مائیں کہا گیا ہے، جو نبی پاکؐ کی ازواج مطہرات تھیں اور
جنھیں دنیا کی تمام خواتین سے افضل قرار دیا گیا ہے، ان کا نام پبلک میں
کسی طور بھی لینا کہاں کی مسلمانیت ہے؟ اپنی ماؤں کا نام کیا ہم کبھی اس
طرح لیتے ہیں کہ جگہ جگہ اور بات بات پر ہم حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
یا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہہ کر بات بتائیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ
گئ ہے کہ رفتہ رفتہ ہم اتنے غیرت مند ہوگئے کہ ہم نے مقدس ناموں کے ساتھ سے
حضرت اور رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے الفاظ بھی حذف کردئے۔ اب صرف خدیجہ اور
عائشہ ہی کہہ دینا کافی سمجھا جاتا ہے۔ ڈر ہے کہ کچھ عرصہ بعد کہیں ہم اس
کو مزید مختصرنہ کر دیں۔ آپ کے کانوں نے ہزار بار یہ جملہ سنا ہوگا کہ
عائشہ نے کہا یا عائشہ نے پوچھا وغیرہ۔ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کا نام صرف عائشہ لکھتے ہوۓ بھی شرم آ رہی ہے مگر کہیں عائشہ اور کہیں
اماں عائشہ۔ یہ ایک گھناؤنا مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟ ادب و آداب کی ساری
حدیں توڑ دی گئی ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ حضورؐ کی ازواج مطہرات کی ذات سے کوئ واقعہ منسوب ہو تو اس
کو بیان کرنے کے لئے بعض دفعہ نام لینا ضروری ہوجاتا ہے۔ مگر اس ضروری کو
تعلیمی اداروں یا گھروں تک ہی محدود رکھا جاۓ تو اچھا ہے۔ اگر ان واقعات کو
سناۓ بغیر ہمارا دین مکمل نہیں ہوتا تو گھروں میں بچوں کو سناۓ جائیں یا
پھر ان تمام واقعات کو ایک ہی کتاب کی شکل دے دی جاۓ اور کسی درس، مجلس،
میڈیا یا پبلک میں ذکر کرنا اتنا ہی ضروری ہو جاۓ تو حوالہ کے لئے صفحہ
نمبر بتانا کافی ہے۔ اس بات کے اور بھی کئ نعم البدل ہیں۔
اپنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کے نام ہماری زبان پر نہیں آتے، ہم نے ان کا ذکر
کرنا بھی ہو تو یہی کہتے ہیں کہ تمھاری والدہ یا میری والدہ محترمہ وغیرہ۔
ہم یہی کہتے ہیں یا ان رشتوں کے نام لے کر بات کرتے ہیں؟ یا پھر یوں کہتے
ہیں کہ میری ماں سلمہ نے کہا؟ جب ہم اپنے مقدس رشتوں کا احترام کرتے ہوۓ ان
کو نام سے نہیں پکارتے یا ان کا نام لے کر کسی دوسرے سے بات نہیں کرتے تو
پھر امت کی ماؤں کا نام بے دھڑک ہو کر لینے کا کیا مقصد ہے؟
ہم جانے انجانے نعوذ و با للہ ان کے تقدس کو پامال کرنے پر کیوں تلے ہوۓ
ہیں؟ خدا نخواستہ کوئ ختم نہیں ہوجاۓ گا دین اسلام اگر ہم امت کی ماؤں کے
واقعات کا پرچار ان کا نام لے کر نہیں کریں گے۔ اگر امت کی ماؤں کا نام لئے
بغیر گزارہ نہیں تو پھر پہلے اپنی ماں، بہن اور بیٹی کا ہر جگہ نام لینے
عادت ڈال لیں۔ انھیں رشتوں کے ناموں سے نہ بلائیں ورنہ بند کر دیں ہماری
ماؤں کا نام لینا۔ غیرت کا تقاضہ یہی ہے۔
اس بات کے جواب میں قطعی طور پر بے جا تاویلوں یا غیر ضروری صفائیاں پیش
کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے اور ہمیں اس بات کو ہر صورت ماننا
ہی پڑے گا۔ کیا پتہ ہماری قوم کو اس بات کی ہی سزا مل رہی ہو کہ ہم ایک طرف
تو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنی ماؤں کا احترام نہیں
کرتے۔ ہمیں اس پیغام کو ملک کے کونہ کونہ میں پہنچانا چاہیئے کہ مسلمانو!
امت مسلمہ کی ماؤں کے ناموں کی بے حرمتی نہ کرو اور انھیں وہ درجہ دو جو
اللہ تعالیٰ نے انھیں عطا کیا ہے۔ |