نواز شریف کے تیسر ے دورمیں اسحاق ڈار کا پانچواں بجٹ 2017-18

وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے مسلسل پانچواں بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ بجٹ دراصل اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے۔ الفاظ اور جملے وہی رہتے ہیں صرف اعداد وشمار بدل کر قوم کو حسین خواب دکھا نے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ بجٹ کے مضمرات وہ ہوتے ہیں جو زمینی حقائق کی صورت میں ہر خاص و عام انہیں جھیل رہے ہوتے ہیں۔ معاشیات کی زبان میں بجٹ2017-18مجموعی طور پر خسارے کا بجٹ ہے۔ بجٹ کا مجموعی حجم47کھرب52ارب 90کروڑ روپے ہے۔ جس میں کل خسارہ 1480ارب ظاہر کیا گیا ہے۔بجٹ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک فاضل Surplusبجٹ اور دوسرا خسارے کا بجٹ ۔ خسارے کا بجٹ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جاری مالی سال میں حکومت کے اخراجات کا تخمینہ اس کی آمدنی کے تخمینے سے زیادہ ہے اور ان زائد اخراجات کے لیے عوام پر اس مرحلے میں دوبارہ ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔اس مرحلے میں ٹیکس نہیں لگایا جارہا البتہ بھر ہم جو ٹیکس لگائیں گے، حکومت کی آمدنی بڑھانے کے لیے جو اقدامات کریں گے اس کوئی گارنٹی نہیں۔ کالم نگار سید انور محمود نے اس بجٹ کو’ مسلم لیگ ن کا پانچواں عوام دشمن بجٹ کہا ہے‘۔ انور صاحب کی مثال اس لیے دی کہ ان کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں وہ سچ اور کھرالکھنے والوں میں سے ہیں۔ بعض دیگر تجزیہ نگاروں نے بھی اس بجٹ کو عوام دشمن ہی کہاہے ۔ سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کی بات اس لیے نہیں کررہا کہ ہمارا سیاسی کلچر جن بنیادوں پر سفر کر رہا ہے وہاں سچ کو سچ نہ کہنا ، ہم درست دوسرا غلط، احتساب ہمارا ہو تو غلط دوسروں کا ہو تو جائز والی مثالیں ہیں ۔ اسی طرح مسلم لیگ ن اور ان کے ہمنوا اس بجٹ کو چاہے انہوں نے اسے ایک نظر دیکھا بھی نہ ہو، اسے دنیا کا بہترین بجٹ کہیں رہے ہیں۔غیر جانب دار کالم نگاروں اور تجزیہ نگار وں کی رائے ہی مناسب ہوتی ہے۔ میری رائے میں یہ’ ’بجٹ عوام دشمن تو نہیں البتہ یہ ایک سیاسی بجٹ ہے اور اسے چوتھی باری کے تناظر میں تیار پیش کیاگیا ہے‘‘۔ اس لیے کہ انتخابات بہت دور نہیں2018سر پر ہے ۔ ویسے بھی کچھ کہا نہیں جاسکتا بہت ممکن ہے کہ پاناما لیکس کی جے آئی ٹی قبل از وقت دوڑیں لگوادے اور سیاسی جماعتوں کوانتخابات کے اکھاڑے میں کودنا پڑ جائے۔ملک کے دو بڑے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے سر پر نہ اہلی کی تلوار لہرارہی ہے۔

بجٹ کے مطابق پاکستان نے جو قرضے لیے ہوئے ہیں ان پر سود کی مد میں 1363ارب ادا کرنا ہوں گے جب کہ قرض کی اصل رقم اپنی جگہ واجب الاادا ہوگی۔ پہلے اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی باتوں پر نظر ڈالتے ہیں جو وزیر خزانہ نے فخریہ انداز میں کہیں۔ چوتھی باری ملے یا نہ ملے لیکن وزیر خزانے نے پانچویں باری لے کر اپنے آپ کو وزارت خزانہ کا اہل ثابت کردیا یہی نہیں بلکہ وزیر اعظم صاحب نے اس موقع پر فرمایا کہ ’ آج پاکستان پہلے سے مضبوط ہے آئندہ بجٹ بھی ن لیگ کی حکومت پیش کرے گی، انہوں نے بجٹ کو متوازن بجٹ قرار دیا‘۔ اسحاق ڈار صاحب نے فرمایا کہ ’’پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ مسلسل پانچواں بجٹ پیش کر رہے ہیں۔ یہ چیز مضبوط جمہوریت کی عکاسی کرتی ہے جس پر پوری قوم فخر کرسکتی ہے‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر خزانہ صاحب نے یہ بڑا اعزاز حاصل کیا اور انہوں نے ایک تاریخ رقم کی۔ اس تاریخ کو بنانے میں وزیر موصوف کا اتنا دخل نہیں جتنا وزیر اعظم میاں نواز شریف کا ہے اور اس رشتے اور تعلق کا جو اسحاق ڈار اور میاں صاحب کے درمیان موجود ہے۔ان کے دو ہی تو لاڈلے ساتھی ہیں جن کے ناز و نخرے میاں صاحب اٹھالیتے ہیں ایک وزیر داخلہ اور دوسرے وزیر خزانہ۔ نواز شریف کا ٹریک ریکارڈ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی لوگوں کو قربانی کا بکرابنانے میں دیر نہیں لگاتے۔ پرویز رشید ،مشاہد اﷲ خان، طارق فاطمی ،رعنا ثناء اﷲ ، رعنا مشہوداور دیگر کی قربانیاں سامنے ہیں۔ اسحاق ڈار پر خاص نظر کرم ہے اس لیے وہ مسلسل بجٹ کی باریاں لے رہے ہیں۔میاں صاحب نے 1981میں پنجاب کی حکومت کے وزیر خزانہ کے طور پر ہی اپنی سیاست کا آغاز کیاتھا۔ ان کی اگلی منزل پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھی اور پھر یکے بعد دیگرے تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم کے مرتبے پر فائز ہوئے اوراب چوتھی باری کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ قبلہ اسحاق ڈار نے بھی وزیر خزانہ کا کافی تجربہ حاصل کر لیا ہے لیکن ان میں وہ صلاحیت دکھا ئی نہیں دے رہی کہ یہ بھی میاں صاحب کی طرح وزارتِ خزانہ سے وزارت اعظمیٰ کے مسند پر پہنچ سکیں۔یہ ضرور ہے کہ مشکل حالات میں میاں کے متبادلوں میں ان کا نام بھی لیا گیا۔ اول تو چھوٹے میاں صاحب اپنے بڑے بھائی کی پیروی کرتے ہوئے تخت لاہور کے بعد اپنا تخت اسلام آباد میں بچھانے کے خواہش مندہوں گے۔ان کی موجودگی میں سمدھی جی نمبر دو ہی رہیں گے۔ قبلہ وزیر داخلہ بھی تو طاقت کا سرچشمہ ہیں۔وہ بھی خوابوں کی جنت میں نظر آتے ہیں۔ کئی بار میاں صاحب کو خاموش پیغام دے چکے ہیں ۔ تین تین ماہ میاں صاحب سے ملاقات نہیں کرتے، آخر کو ملک کی اہم ترین وارت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔

وزیر خزانہ کے مطابق جو قرضے لیے ہوئے ہیں اس پر سود کی مد میں 1363ارب ادا کرنا ہوں گے جب کہ قرض کی اصل رقم اپنی جگہ واجب الاادا رہے گی۔ اکتوبر2016کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا کہ حکومت نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران 6290ارب روپے کا ملکی قرضہ اور9.7ارب ڈالرکا غیر ملکی قرضہ حاصل کیا۔ غیر ملکی قرضہ 2060تک واپس کیا جائے گا۔ یہی وہ قرضہ ہے جس پر سود کی رقم موجودہ مالی سال کے دورا 1363ارب ادا کرنی ہوگی۔ میں نے اپنے ایک کالم بعنوان ’وزیر خزانہ پر قرض لینے کابھوت سوار ہے‘ لکھا تا جو روزنامہ جناح میں یکم دسمبر میں شائع ہوا تھا۔ اپنے اس کالم میں لکھا تھا ’’آج میں کسی ادبی موضوع پر لکھنا چاہتا تھا’جناح ‘ اخبار کا اداریہ پڑھ کر میری سوچ کا دھارا 2013ء کی انتخابی مہم کے تانے بانے بننے لگا میاں صاحب نے اپنا ایک منشور پیش کیا تھا، اپنی انتخابی تقریروں میں گلا پھاڑ پھاڑ کر اعلان کیا کرتے تھے کہ وہ حکومت میں آکر غربت کا خاتما کردیں گے، غریب کو مشکلات سے نجات دلائیں گے، ملک کو قرضوں سے نجات دلائیں گے ، کشکول توڑ دیں گے، بھیک نہیں مانگے گے، اپنے وسائل پر بھروسہ کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ ڈھائی سال کی حکمرانی (اب چار سال ہوچکے) میں یہ تمام باتیں کہیں دکھائی نہیں دیں۔ میاں صا حب کہا ں گیا آپ کا منشور، کیا ہوئے آپ کے وعدے غربت کو ختم کرنے کے، غریب کی مشکلات کو دور کرنے کے، کہاں گیا آپ کا وعدہ کہ آپ کشکول توڑ دیں گے۔ آج سب کچھ ویسا کا ویسا ہی ہے۔ نہ غربت ختم ہوئی، نہ غریب کی مشکلات میں کمی آئی، نہ کشکول ہاتھ سے چھوٹا ، نہ قرض لینے کے عادت گئی، نا آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی عادت گئی بلکہ اس میں تیزی آچکی ہے۔ وزیر خزانہ قرض حاصل کرنے کے ایکسپرٹ بن چکے ہیں بہ الفاظِ دیگر اسحٰق ڈار صاحب آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے قرض حاصل کرنے کے ’ماہر حصولِ قرضہ جات ‘ بن چکے ہیں ۔ انہیں وزیر خزانہ سے ’وزیر حصول قرضہ جات‘ بنا دیا جائے تو بہتر ہوگا۔ انہوں نے ایسے گُر سیکھ لیے ہیں کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک قرض کی منظوری میں ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر قرض کی اگلی قسط کی منظوری دے دیتے ہیں۔کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جو قرض وہ دے رہے ہیں وہ کئی گنا ہوکر واپس انہیں کے پاس آجائیگا، وزیر خزانہ ، اپنے سمدھی وزیر اعظم پر ایک اور احسان داغ دیتے ہیں کہ دیکھو سمدھی جی میں اس باربھی قرض حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ ہوئی نہ میری سیٹ پکی چوتھی ٹرم کے لیے۔

میاں صاحب پاکستان کے وہ واحد سیاسی رہنما ہیں جو 2013کے عام انتخابات کے نتیجے میں تیسری بار ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ پہلا دور یکم نومبر 1990سے شروع ہوا جولائی میں غلام اسحاق خان نے انہیں جبری رخصت پر بھیج دیا ،دوسرے دور کا آغاز فروری 1997 سے شروع ہوا 13سال 7ماہ اور 21 دن بعد12اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے ان کی بِساط لپیٹ دی۔ تیسرا دوریعنی موجودہ دور جون 2013میں شروع ہوکرچوتھے سال میں داخل ہوچکا ہے۔ ان چار سالوں میں بھی ایسے حالات آکر گزر چکے ہیں کہ جب یہ احساس ہوچلا تھا کہ میاں صاحب اب گئے کے جب گئے لیکن وہ محفوظ رہے۔دھرنوں، احتجاجوں،جلسے جلوسوں، پاناما لیکس، ڈان لیکس اور دیگر معاملات کی تیز آندھی تیسری بار ی کا چراغ گل کرنے کو تھی لیکن قسمت کی دیوی میاں صاحب کو ساتھ دیتی رہی اور میاں صاحب ان طوفانوں سے بچ نکلے۔البتہ ابھی پاناما کیس کے فیصلے کے نتیجے میں قائم ہونے والی جے آئی ٹی ایک تلوار کی صورت میں میاں صاحب پر سایہ فگن ہے۔کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ جمہوریت کا حسن تو یہی ہے کہ ہر ایک عوام کی طاقت سے آنے والا اپنا مقررہ وقت پورا کرے، لیکن سیاست میں کوئی بھی چیز حتمی نہیں ہوتی، کب کیا ہوجائے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔یہاں بجٹ 2017-18میرا موضوع تھا چلا گیا وزیرخزانہ اور میاں صاحب کے معاملات پر ۔ دراصل وزیر اعظم میاں نواز شریف اور سابق صدر قبلہ آصف علی زرداری صاحب کی شخصیت اتنی خصوصیات لیے ہوئے ہیں کہ قلم چلتے وقت ان دونوں میں سے کسی کاذکر آجائے تو بس رکتا نہیں ، آخر کو دونوں نے پاکستان کی تاریخ میں ایسی تاریخ رقم کی ہے جس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بجٹ میں موبائل، مرغی، کھاد، زرعی مشینری، پولٹری مصنوعات ، آٹو پارٹس، بچوں کے ڈائیپرز، اسمارٹ موبائل فونز، آلات جراحی سستے، ڈیولپرز فکس ختم، ملٹی میڈیا پرجیکٹر ز پر ٹیکس کم اور فوجیوں ‘ سرکاری ملازمین، کی تنخواہوں میں اور پنشنرز کی پنشن میں 10فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔ کم از کم اجرت15ہزار روپے کرنے کی سفارش ہے۔ قرض لینے کا دفع کرتے ہوئے وزیر موصوف کا کہنا ہے کہ ہم نے پہلے بار صرف قومی ترقی کے لیے قرضے لیے ہیں ۔ ملک کے معروضی حالات کچھ ا س نہج پر ہیں کہ عام آدمی کو بجٹ کے موضوع پر دلچسپی نہیں وہ عملی طور پر معاشی مسائل سے دوچار ہے، بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے پریشان ہے، رہی سہی کثر گرمی کی شدد نے پوری کردی ہے۔ سب سے اہم ضرورت غریب کو تین وقت کھانا، تن کا ڈھانپنے کے لیے لباس اور سر پر چھت درکار ہے۔ اچھی حکمرانی تو یہ ہے کہ بہ اختیار مخلوق غریب کی بنیادی ضروریات کی فراہمی اور معاشی مسائل کے حل پر پوری توجہ دے۔ اچھا بجٹ وہی ہے جس سے غریب عوام آسودہ حال ہوسکیں(31مئی2017)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437312 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More