محبت اک سلسلہ تشنگی(قسط ٢)

ہماری شادی بہت ۔۔۔سبین نے اس کی بات کاٹ دی۔ شادی اور ہماری ۔ شارب میں تم سے شادی نہیں کر سکتی۔ مجھے تو کبھی بھی اندازہ نہیں ہوا کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو۔
شارب کو اپنی محبت کا محل ریت کا بنا ہوا محسوس ہوا ۔ شارب نے سبین کی طرف دیکھا اور لجاحت سے کہا۔ ایسا تو نہیں کہوسبین ۔تم مذاق کر رہی ہو۔ بولو نا۔ سبین نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ میں تمہیں اپنا بہت اچھا دوست سمجھتی ہوں ۔ لیکن شادی ۔ شارب کو اپنے کانوں پر یقین انہیں ہو رہا تھا۔ اس نے اپنی جیب سے انگوٹھی نکالی۔ اسے دھیرے سے کھولتے ہوئے سبین کو دیکھانے لگا ۔ سبین اگر تم مجھ سے محبت نہیں بھی کرتی تو پھر بھی میں تو تم سے محبت کرتا ہوں ۔ اپنی جان سے بھی ذیادہ ۔ تم کسی نہ کسی کو تو چنو گی نا اپنے لیے ۔تو مجھے کیوں نہیں ۔ میں تمہاری امیدوں پر پورا اُترنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں کچھ بھی۔
سبین نے الجھتے ہوئے شارب کو دیکھا اور اپنی چھتری کو کھول لیا ۔ بار ش تیز ہوگئی تھی ۔ عنابیہ ان کے پاس پہنچ چکی تھی۔ سبین نے عنابیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ تمہاری امتحان کے لیے تیاری کیسی ہے۔ آج آخری دن ہے یونیورسٹی کا ۔ہم ہمیشہ کے لیے جدا ہو جائیں گئے سب ۔ اس نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے شارب کی طرف دیکھا ، جیسے شارب کو سمجھانا چاہ رہی ہو کہ وہ کسی غلط فہمی کے زیر اثر نہ رہے۔
شارب کے ہاتھ میں چھلا دیکھ کر عنابیہ نے دل لگی کرتے ہوئے پوچھا۔ شارپ کہیں آپ سبین کو پرپوز تو نہیں کرنے والے۔ شارب خاموش رہا لیکن سبین نے بیزاری سے کہا۔ ہاں اس نےپرپوز کر دیا اور میں نے انکار بھی کر دیا۔ بات ختم۔ کبھی کبھی جہاں ہم بات ختم سمجھتے ہیں وہ بات کی شروعات ہوتی ہے ۔عنابیہ نے شارب کی انکھوں میں اُتر آنے والی ویرانی کو دیکھ کر کہا۔ سبین نے دھیرے سے اینی وے کہا ۔شارب وہاں کا وہاں ہی کھڑا رہ گیا۔ وہ دونوں اپنی اپنی چھتری کے ساتھ اس کے آگے سے گزر گئیں ۔
شارب چلتا ہوا یونیورسٹی کے گاڑڈن میں گھڑا تھا۔ اس کے چہرےپرآنسو اور بارش کا پانی مسلسل بہہ رہے تھے۔ اسے اپنا دل بھیگتا ہوا محسوس ہوا۔ برسات کا موسم تھا ۔وہ سر سے پاوں تک بھیگ چکا تھا۔ مگر اس کے وجود میں تشنگی کا احساس اسے چین نہیں لینے دے رہا تھا۔ پانی اس کے بالوں سے گزرتا ہوا ، اس کے چہرے کو یوں دھو رہا تھا جیسے وہ شاور کے نیچے گھڑا ہو۔ وہ درخت کے ساتھ ٹیک لگائے گھڑا تھا ۔اسے وقت رُکا ہوا محسوس ہوا۔ عجیب خالی پن ۔ دنیا وہی تھی پر جاتے ہوئے سبین اس کی خوبصورتی اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ اس نے خود سے سوال کیا ۔ کیا یہ میری غلط فہمی تھی کہ وہ مجھے اسی طرح سے چاہتی ہے ۔ جس طرح میں اسے چاہتا ہوں ؟کیا وہ سچ کہہ رہی تھی کہ اسے کبھی میری محبت کا احساس نہیں ہوا۔ وہ کس آسانی سے انکار کر کے چلی گئی اس اظہار کو جسے اس تک پہنچانے کے لیے نہ میں چین سے سو پا رہا تھا نہ جاگ پا رہا تھا۔ اسے خود اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ اس کے چہرے پر آنسو ذیادہ گِررہے ہیں یا بارش کی بوندیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نازیہ باربار توقیر کے نئے آنے والے ایس ایم ایس کو پڑھ رہی تھی۔ اس نے جو شعر بھیجا تھا۔ بار بار اس کی نظروں کو چھوکر گزر رہا تھا۔
عجیب سے احساسات کا مجموعہ ہی تو ہےہمدم۔
کیسے دل سےتیری ملاقات کا پھرتذکرہ ہو گا۔
جب کوئی خوشبو چھوئے گی وجود کو میرے۔
روح سے میری تیرےعشق کا تبصرہ ہو گا۔
نازیہ مسکرا رہی تھی کہ غزالہ کمرے میں آئیں ۔ امی کو آتا دیکھ کر اس نے موبائل کو فوراً سے بند کیا ۔ غزالہ نے مسکرا کے نازیہ کو کالج یونیفارم تبدیل کرنے کا کہا۔ وہ فوراً سے اُٹھ گئی۔ غزالہ حسن بہت دوستانہ رویے سے اپنے بچوں کو پال رہی تھی۔ اس کے باوجود نازیہ اپنی باتیں اپنی ماں سے کم ہی شیئر کرتی تھی۔ اس کی وجہ اس کی فطرت تھی۔وہ اس معاملے میں اپنے پاپا سے ملتی تھی جو کم گو تھے۔
غزالہ کمرے سے چلی گئی تو نازیہ اپنا یونیفارم تبدیل کرنے کے بعد پھر سے ایس ایم ایس دیکھنے لگی۔
یہ جو میرے وجود پر تیری ذات کا اثر رہتا ہے۔
میں بھی نہیں جانتا ہوں میرا دل کدھر رہتا ہے۔
نازیہ توقیر کی شاعری ،اس کی باتیں ۔یہاں تک کہ اس کی ہر چیز کو پسند کرتی تھی۔ وہ اس کی دوست کا بھائی تھا۔ جس سے اس کی دوستی کالج میں فسٹ ایر میں ہوئی تھی۔ پورا سال ہو چکا تھا۔اب اس کے ایف کے پیپر ہونے والے تھے ۔توقیر ایم اے کا سٹوڈینٹ تھا۔توقیرکی تصویر دیکھ کر ہی نازیہ اس پر فدا ہو گئی تھی۔ فوزیہ ہمیشہ اپنی باتوں سے اپنے بھائی کا ایسا نقشہ کھینچتی تھی کہ توقیر اس کے دل میں اُترتا ہی گیا۔ جب وہ پہلی بار اس سے ملی تو اس کی نظروں سے ہی توقیر کو اندازہ ہو گیا کہ وہ کس قدر اسے پسند کرتی ہے۔ وہ اکثر فوزیہ سے ملنے اس کے گھر آتی جاتی رہتی تھی۔تو قیر نے دوسری ہی ملاقات میں اس سے محبت کا اظہار کیا تو اس نے بھی رضامندی دے دی۔ فوزیہ کو توقیر اور نازیہ کی محبت کا علم تھا۔ توقیر کی فیملی بہت ماڈرن تھی۔
نازیہ کا موبائل جو اسے حسن نے فسٹ آنے پر لے کردیا تھاوہ توقیر کے ایس ایم ایس سے بھرا ہوا تھا۔ وہ اکثر اس کی باتیں اور اشعار کو فارغ وقت میں پڑھتی رہتی ۔ اس کے لیب ٹاپ میں ایک فولڈر جس کا نام اس نے احساس محبت رکھا تھا ۔وہ توقیر کے ایس ایم ایس اور تصاویرسے بھرا ہوا تھا۔نازیہ کی چیزوں کو کوئی اس کی مرضی کے بغیر ہاتھ تک نہیں لگا سکتا تھا۔ اس لیے اس کو کوئی ڈر نہیں تھا کہ توقیر کی کسی بھی چیز کو کوئی دیکھ پائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شارب جب گھر لوٹا تو اسے دیکھ کر غزالہ حسن پریشان ہو گئی ۔ اس کا منہ لٹکا ہوا تھا۔ کیا ہوا شارب انہوں نے اس کے پاس آتے ہوئے کہا۔ تم چھتری کیوں نہیں لے کر گئے ۔بارش سے بچ جاتے نا۔ اس نے مایوسی سے کہا۔ کچھ چیزوں سے انسان کسی صورت نہیں بچ سکتا امی۔ وہ قسمت میں لکھ دی جاتی ہیں ۔ وہ ہمیں ہر حال میں ملتی ہیں ۔ پھر چاہے ہم دامن کو کتنا ہی جھاڑتے رہیں وہ وجود سے چمٹ جاتیں ہیں ۔ وہ کھویا کھویا سا چابی کوٹیبل پر رکھ کر اندر چلا گیا۔
غزالہ حسن حیران تھیں ، شارب کبھی اسی طرح بات نہیں کرتا تھا۔ انہوں نے شارب کو کمرے کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے اسے کچھ دیر تنہا رہنے دیا۔ وہ کپڑے تبدیل کر چکا تھا ۔جب وہ کچھ دیر بعد کمرے میں گئی تو وہ اپنے بیڈ پر اوندھا لیٹا ہوا تھا۔ غزالہ حسن اس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی ۔ شارب بیٹا کچھ کھاو گئے۔ انہوں نے دھیرے سے پوچھا۔
نہیں ۔ اس نے فوراً ہی کہہ دیا۔ غزالہ حسن نے آہستہ سے کہا۔ کچھ ہوا ہے کیا۔ سبین سے بات کی تم نے ؟
شارب نے اپنا سر اپنی امی کی گود میں رکھ لیا ۔ امی ا س نے منع کر دیا۔ شارب نے روتے ہوئے کہا۔ غزالہ حسن نے حیرت سے کہا۔ تم نے اس سے پوچھا نہیں کیوں ۔ میرا مطلب ہے ،کیا وہ کسی اور سے شارب کو اپنے اندر ایک آگ جلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ کسی اور سے اس نے اپنی امی کے الفاظ کو دُہرایا۔ اس نے خود سے ہی تردید کر دی۔ اگرچہ اسے خود اپنے جواب پر یقین نہیں تھا۔ شارب کی امی نے اسے تسلی دی ۔ بیٹا تم دل چھوٹا نہ کرو ۔ ممکن ہے کہ اس نے محبت کے بارے میں یا شادی کے بارے میں سوچا ہی نہ ہو۔ گیلی لکڑی بھی دیر تک کوشش کرنے پر جل جاتی ہے ۔ یہ تو لڑکی ہے۔ ضرور مان جائے گی۔ شارب نے اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔ امی کیا آپ کو یقین ہے۔ اس کی ماں نے اعتماد سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ تقدیر اور تدبیر مل کر آپ کی خواہش کو پورا کر نے میں کارگر ہوتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزالہ حسن نے جب شارب کی نظروں میں مایوسی دیکھی تو انہیں اپنا ماضی یاد آ گیا۔ حسن ان کے موجودہ شوہر اور ان کےدرمیان رشتہ کس قدر مشکل سے جڑا تھا۔ غزالہ راجپوت گھرانے سے تھیں ۔ ان کے خاندان میں تعصب کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ جب غزالہ میٹرک میں تھیں توحسن اپنے چچا کے گھر نوکری کے سلسلے میں رُکے ۔ انہوں نے غزالہ کو دیکھاتو انہیں وہ اچھی لگ گئی۔ حسن کا خاندان مہاجر کہلاتا تھا۔ غزالہ نے اپنی امی سے معصومیت سے پوچھا تھا۔ امی یہ مہاجر کیا ہوتے ہیں ۔ ابو ان لوگوں سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں۔
جس سوال کا جواب غزالہ کی ماں کو خود معلوم نہیں تھا۔ وہ اپنی بیٹی کو اس کا جواب کہاں سے دیتی ۔ انہوں نے محض سوال کا جواب دینے کے لیے کہہ دیا۔ یہ لوگ پان کھاتے اور جگہ جگہ پچکاری کرتے پھرتے ہیں نا ، اس لیے۔ غزالہ نے پھر معصومیت سے کہا۔ اگر ان میں سے کوئی پان کھا کر پکا ری نہ کرنے والا ہو۔ ابو کے سارے بھائی سگریٹ پیتے ہیں ۔ ابو نہیں پیتے نا۔ اسی طرح ۔ ان مہاجروں میں سے اگر کوئی پان نہ کھاتا ہو تو کیا ابو اسے اچھا سمجھیں گئے۔ غزالہ کی امی نے مسکرا کر کہا۔ پتہ نہیں یہ تم اپنے ابو سے ہی پوچھو۔
حسن نے جب سکول کے دروازے پر غزالہ کو روک کر اپنا پہلا محبت نامہ دیا توغزالہ نے لینے سے انکار کر دیا۔ چھت سے تو کہیں بار حسن غزالہ کو گلاب پھینک کر اور کبھی اشاروں سے اظہار محت کرتا رہا تھا۔ لیکن جب اس طرح آمنے سامنے حسن نے اپنا محبت نامہ پیش کیا تو غزالہ ڈر گئی۔ وہ وہاں سے جلدی جلدی گھر آ گئی ۔ شام کو حسن نے پھر اس خط کولہراتے ہوئے اپنے کزن وکی سے ذور ذور سے کہا۔ تم کر کیا رہے ہ وکی۔ ادھر دیکھو۔ میری طرف ۔ میں پتنگ کے ساتھ باندھ رہا ہوں ۔ سنا ۔ میں پتنگ کے ساتھ باندھ رہا ہو۔
غزالہ کو اپنی سانس رُکتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ اسد جو اس کا چھوٹا بھائی تھا۔ جو قدر اور جسامت میں اس سے بڑا محسوس ہوتا تھا۔ چھت پر کب آ چکا تھا۔ حسن کو دیکھتے ہوئے، اسے محسوس ہی نہیں ہوا تھا۔ اس کے بھائی بھی اس کے ابو کی طرح ان مہاجر لڑکوں کو بُرا ہی سمجھتے تھے ۔ بُرا سمجھتے کیوں تھے یہ غزالہ کی سمجھ سے باہر تھا۔
غزالہ کو ناذیہ کی آواز سنائی دی۔ امی آپ کہاں ہیں ۔ امی۔ امی۔
غزالہ نے ایک نظر شارب حسن کے چہرے کی طرف دیکھا۔ انہیں اپنے دل میں درد اُترتا ہوا محسوس ہوا۔اولاد کی محبت دینا میں ہر محبت سے مقدم ہوتی ہے۔ ماں اپنے چھوٹے سے بچے اور اپنے اڈھیڑ عمرکے بیٹے دونوں ہی کے درد کو برابر محسوس کرتی ہے۔ شارب حسن کا چہرہ درد وغم کا مجمو عہ لگ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن آفس سے واپس آ چکے تھے۔ غزالہ نے انہیں چائے اور پاپے دیے ۔ حسن معمول کی طرح خاموش تھے۔ غزالہ نے حسن کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے مایوسی سے کہا۔ آپ نے گھر کا کچھ کیا ۔ مالک مکان نے خالی کرنے کا جو وقت دیا ہے وہ ختم ہو رہا ہے۔ حسن نے ماتھے پر بل لاتے ہوئے کہا۔ اچھا۔
وہ شارب نے چابی دے دی تھی ۔ میں نے آپ کی الماری میں رکھ دی ہے۔ حسن نے نظریں گھماتے ہوئے کہا۔ شارب کی پارٹی اچھی رہی ؟غزالہ نے دھیرے سے جی کہا اور خاموش ہو گئی۔
حسن نے سنجیدگی سے غزالہ کی طرف دیکھااور کہا۔تم اسے کہنا کہ پڑھائی پر دھیان دے ۔ اس کے امتحان ہو جائیں پھر اس کی نوکری کے لیے کچھ کروں گا۔ اس قدر مہنگائی میں اکیلے اب سب کچھ نہیں سنبھالا جاتا مجھ سے۔ غزالہ نے اپنی ذات پر ایک نظر ڈالی اور پھر دھیرے سے جی کہا۔ حسن کے خاندان میں تمام عورتیں اپنے شوہروں کی طرح نوکریاں کر رہی تھیں ، غزالہ کے خاندان میں عورتوں کا نوکری کرنا بُرا سمجھا جاتا تھا۔ ایسے آدمی جو اپنی بیوی کو نوکری کرواتے تھے انہیں بےغیرت جیسے القاب کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ غزالہ کی شادی بھی کچھ اس طرح سے ہوئی تھی کہ اس کی تعماپ ادھوری رہ گئی تھی۔ ایسے حالات میں وہ اپنے شوہر کی کسی بھی قسم کی مالی امداد کرنے سے معذور تھی۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد غزالہ نے خالی چائے کا کب اور پلٹ اُٹھائی اور کمرے سے باہر آ گئی ۔ اس کی انکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ناذیہ ریڈیو سن رہی تھی۔ جس میں ڈی جے نے شعر پڑھا :
بہت بے آباد کرتی ہے محبت دل میں آباد ہو کر۔
بہت تکلیف دیتے ہیں وہ جو دل میں بستے ہیں۔ ٍ
غزالہ کمرے سے باہرآ چکی تھی ۔وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کاش کہ حسن نے اس سے شادی نہ کی ہوتی تو حسن کو اس قدر پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔حسن کےساتھ اس نے گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی۔ جس کی وجہ سے اس کے ماں باپ ابھی تک اس سے ناراض تھے۔ انہوں نے اس کا نکاح تو کروا دیا تھالیکن وہ ابھی تک اسے اپنی باتوں اور عمل سے جتاتے کہ اس نے راجپوت گھرانے کی عزت کو مٹی میں ملا دیا۔ ایک مہاجر ان میں بیٹھنے کے لائق نہیں جبکہ دوسری طرف حسن کے خاندان میں اس کو وہ عزت نہیں ملی تھی جو اس کا حق ہوتی ۔اگر وہ شادی سے پہلے ہی حسن کے ساتھ اس کے گھر نہ آئی ہوتی تو شاہد یہ سب کچھ اس کا مقدر نہ ہوتا۔دونوں خاندانوں نے مجبوراً اور مصلحتاً حسن اور غزالہ کا نکاح تو کروا دیا تھالیکن دونوں ہی اس رشتے سے خوش نہ تھے۔ غزالہ، حسن کے خاندان والوں میں اسی طرح تھی جیسے ہد ہد کبوتروں کے غول میں سب سے جدا لگتی ہے۔ جبکہ کبوتر کالے بھی ہوں تو مسلہ اور بھی سنگین ہوتا ہے۔ غزالہ کے دو بچے بھی اسی کی طرح تھے جبکہ عارف اپنے پاپا پر جانے کی وجہ سے اپنے خاندان والوں کی طرح ہی لگتا تھا۔
غزالہ کے تینوں بچوں کو بھی ان کی اس محبت بھری کہانی کا علم تھا۔ یہ علم غزالہ کانہیں بلکہ دادی اور نانی کا فراہم کردہ تھا۔ جو ان کی محبت کے قصے کو بہت بُرے طریقے سے بچوں کے سامنے پیش کرتی رہی تھی۔ اس کے باوجود تینوں بچوں کے دلوں میں محبت کرنے کا جذبہ جانے کہاں سے راسخ ہو چکا تھا۔ شاہد ان کے گھر میں پر امن ماحول ۔ ماں باپ کا ایک دوسرے کی بات فوراً مان جانا اس کی وجہ تھی ۔ سچ تو یہ تھا کہ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی غزالہ اورحسن کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھامگر شارب کی پیدائش کے بعددونوں کا اپنے کیے پر ثابت قدم رہنا لازمی تھا۔ غزالہ حسن کی ہر بات اسی لیے خاموشی سے مان لیتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے میکے میں اس کے بچوں کو کوئی اس طرح سے پیار نہیں کرتا۔ جس طرح اس کی بہن کے بچوں کو کیا جاتا ہے ۔ جو راجپوت خاندان میں ہی شادی کر کے گئی ہے۔ غزالہ کے ابو تو اس کے بچوں کو اپنے پاس تک نہیں بیٹھا تے تھے۔
غزالہ سوچ رہی تھی کہ محبت کے بعد محبوب شوہر بن جاتا ہے ۔ وہ کبھی بھی عاشق نہیں رہتا ۔ بے وقوف لڑکی سمجھتی ہے کہ محبت کا سلسلہ ہی تمام عمر چلتا رہے گا۔ لیکن ہر سلسلہ اسی لیے ہوتا ہے کہ اس کا اختتام ہو جائے۔ محبت کا اختتام شادی ہے۔وہ یہ بات اپنے بچوں پر ظاہر نہیں کر سکتی تھی۔ پہلے ہی وہ ان محبتوں سے محروم تھے جو ماں، باپ کے خاندانوں کی طرف سے بچوں کو ملتی ہیں۔ لہذا وہ اپنی محبت کا بھرم رکھے ہوئے تھی۔

 

kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 281114 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More