ہرملک کے اپنے اپنے موسم ہوتے ہیں ،یہ موسم قدرتی
ہوتے ہیں اوران موسموں میں تغیرو تبدل فطری عمل ہوتا ہے، کوئی موسم دائمی
نہیں ہوتاہے ۔دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی یہ قدرتی موسم پائے جاتے
ہیں،البتہ پاکستان میں ان قدرتی موسموں کے علاوہ چند مصنوعی موسم بھی ’’تخلیق‘‘کر
لئے جاتے ہیں،یہ مصنوعی موسم مختلف مفاد پرست ٹولے ،مافیازاورایجنٹس پیدا
کرتے ہیں،ان مصنوعی موسموں میں’’ مہنگائی کا موسم‘‘ قدرے نمایاں ہے ،جس میں
خاص مواقع پرکافی ’’شدت‘‘ آجاتی ہے خصوصاً رمضان المبارک اور عیدین پریہ
’’موسم ‘‘ پورے جوبن پر ہوتا ہے ، اس موسم کی’’شدت‘‘ سے کافی لوگ متاثرہوتے
ہیں بالخصوص نچلا طبقہ۔ جیسے ہی رمضان المبارک کا چاند نظر آتا ہے ، یوں
سمجھئے کہ ذخیرہ اندوزوں کی بھی چاندی ہو جاتی ہے اور ماہِ رمضان کے چاند
کے ساتھ ہی مہنگائی کا جن ،بوتل سے نکل کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے ۔ اکثر
دیکھنے میں آیا ہے کہ جو جتنا بڑا تاجر ہوتا ہے ، وہ اتنا ہی بڑا ذخیرہ
اندوزبھی ہوتا ہے ۔ جیسے ہم جذباتی مسلمان ہیں ویسے ہمارے ہاں دکانوں و
کاروبار کے نام بھی مبارک مذہبی ناموں کی مناسبت سے رکھے جاتے ہیں ،مثلاً:بسم
اﷲ مارٹ ، الحاج سپر سٹور، مدنی کریانہ سٹور ، مدینہ فروٹ شاپ۔۔۔ وغیرہ،
مگر رمضان المبارک میں ہماری ساری ’’مسلمانی‘‘ عیاں ہوجاتی ہے ۔ پوری دنیا
میں مذہبی تہواروں پر اشیائے ضروریہ سستی ہوجا تی ہیں، حتیٰ کہ غیر مسلم
ریاستوں (کینیڈا،امریکہ ،برطانیہ ، یورپ اوربشمول ہمارے روایتی حریف بھارت
)میں بھی اس ماہِ مقدس میں تمام اشیائے خوردونوش پر سبسڈی دی جاتی ہے مگر
ہمارے ہاں سلسلہ اس کے برعکس، دیگر امور کی طرح تہواروں پر اشیاء دوگنے
داموں سے بھی زیادہ فروخت ہو تی ہیں ۔سستے رمضان بازار تو لگتے ہیں مگر ان
میں کوئی چیز سستی نہیں ملتی ،حکومت پیکج تو دیتی ہے مگر اس پیکج کی ’’لیکج
‘‘ کی طرف دھیان نہیں دیتی اور یوں وہ پیکج عام عوام تک پہنچتے پہنچتے
’’خالی ‘‘ہو جاتا ہے اور یوں وہ عوامی پیکج’’ خاص گروہ ‘‘کا پیکج بن جاتا
ہے ۔مسلمان تو مسلمان ،اس مہنگائی کے رگڑے میں بیچاری اقلیتیں بھی پسی جاتی
ہیں ۔اس اعصاب شکن مہنگائی نے عام آدمی کی مت مار کر رکھ دی ہے ، حکومت تو
بجٹ خسارہ بیرونی قرض حاصل کر کے پورا کر لیتی ہے ، مگر وہ بے بس ولاچار
مزدور جس کا بجٹ پندرہ ہزار روپے ماہانہ ہے ،وہ اپنا خسارہ کہاں سے پورا
کرے گا؟وہ اس بجٹ میں کیا کیا خریدے گا؟وہ اپنے بچوں کے احساس کمتری کو
کیسے دور کر پائے گا ؟
اپر کلاس کو تو شائد یہ مہنگائی محسوس نہ ہوتی ہو مگر جس مزدور کی پانچ سو
روپے دیہاڑی ہے(وہ بھی کبھی لگتی ہے اور کبھی نہیں) ،وہ کیا خریدے گا ؟ اس
بیچارے نے اسی پانچ سومیں سے روز مرہ چیزوں کے ساتھ ساتھ آٹے ،چاول ،یوٹیلٹی
بلز(بجلی ،گیس،پانی کے بل) ، اپنے اور بچوں کے کپڑوں اور جوتوں کے پیسے بھی
نکالنے ہوتے ہیں ،پھلوں کی جو آج کل قیمتیں ہیں ،ان قیمتوں سے غریب پھلوں
کو دیکھ تو سکتا ہے مگر خرید نہیں سکتا۔
ویسے تو شیاطین اس ماہ میں جکڑ دئیے جاتے ہیں لیکن ذخیرہ اندوز مافیازشیطان
کی غیر حاضری محسوس نہیں ہونے دیتے بلکہ خود شیطانی روپ دھار تے ہوئے سارے
سال کی ’’کسریں‘‘ نکال لیتے ہیں ۔تلخ حقیقت یو یہ ہے کہ ہم صرف نام کے
مسلمان رہ گئے ہیں ،ہم میں اور ڈاکوؤں میں کوئی فرق نہیں ،وہ رات کے
اندھیرے میں لوٹتے ہیں اور ہم دن کے اُجالے میں ، وہ نقاب پہن کر لوٹتے ہیں
جبکہ ہم سر عام ۔
میری حکومت سے اپیل ہے کہ حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے عام آدمی کے
ریلیف کے لئے بھی کچھ سوچے ،اگرکسی پیکج کا اعلان کیا جاتا ہے تو اس پیکج
کو کاغذی کاروائی کی بجائے حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنایا جانا چاہئے
تاکہ غریب طبقہ بھی ماہ ِ مقدسہ کے چند دن سکھ سے جی سکے ۔ |