ہم انسان فطرتاً ناشکرے ہیں ۔اس دنیا میں شائد گنتی کے
چند افراد ہی ایسے ہونگے جو اپنی زندگی سے مکمل طور پر مطمئن ہونگے۔اﷲ
تعالیٰ اگر سب انسانوں کو برابر کی خصوصیات اور وسائل کا حامل بنا دیتا تو
پھر شائد ہم انسانوں کو جو تھوڑا بہت خدایاد ہے ،وہ بھی بھول گیا ہوتا۔ہمیں
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اﷲ کے ہر کام میں بہتری ہے ،وہ
ہمیں دے کر بھی آزماتا ہے اور ہم سے چھین کر بھی آزماتا ہے ۔ بالآخر دائمی
منزل کو وہی لوگ پاتے ہیں جو ہر حال میں ثابت قدم رہتے ہیں،جوخداوند کریم
کی ذات کے شاکر رہتے ہیں،جن کا ایمان متزلل نہیں ہوتا، جواﷲ کی ناشکری نہیں
کرتے ،جن کا توکل صرف اﷲ پر ہوتاہے ۔ ہاں وہ لوگ اپنی محنت کے بل بوتے پر
آگے بڑھتے ہیں ناکہ کسی دیگر ذریعہ سے ۔
طبقاتی تقسیم ،نشیب و فراز ،ظاہری امتیاز و دیگر خوبیاں و خامیاں ہمارے
معاشرے کا حصہ اور نظامِ قدرت ہیں ،ان سے الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں ۔تاہم
اگرہم اپنی سوچ کو مثبت انداز میں تبدیل کر لیں تو بہت سی خودساختہ خامیوں
کو قابو کیا جاسکتا ہے۔ہمیں ہمیشہ اپنے سے نچلے طبقے کی طرف دیکھنا چاہئے ،اگر
ہم اپنے سے نچلے طبقے کو دیکھیں گے تو پھر گمراہ نہیں ہونگے اور ہمیشہ
خداتعالیٰ کے شاکر رہیں گے ۔ جبکہ اپنے سے اوپر دیکھنے والے اکثر لوگ گمراہ
ہو جاتے ہیں ۔مثال کے طورپکے مکان والا کچے مکان والے کی طرف ،آنکھوں والا
اندھے کی طرف ، سائیکل پر جانیوالاپیدل سفر کرنیوالے کی طرف یا کار
والاموٹر سائیکل والے کی طرف دیکھے اورغرور و تکبرکئے بغیر اﷲ کا لاکھ لاکھ
شکر کرے کہ اس ذات ِ با برکات نے مجھے کم ازکم اس سے تو بہتر بنایا ہے تو
وہ کبھی گمراہ نہیں ہو گا ۔تاہم اس کے برعکس کوئی فرد جب اپنے سے اوپروالے
طبقے کو دیکھے گا(مثلاً کار والا اگر لگژ ری گاڑی والے کی طرف یاپکے مکان
والا کوٹھی بنگلے والے کی طرف دیکھے گا) تواس فرد کے اندرحرص، لالچ،
حوس،حسد،بغض،کینہ جیسی اخلاقی برائیاں گھر کر لیں گی،وہ فرد اس طبقہ کی
دنیاوی برابری کرنے کے لئے اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جائز و
ناجائزذرائع سے اپنی خواہشات پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا ۔
یاد رکھیں ! اس دنیا میں کامل کوئی نہیں ہے ۔ہر انسان میں کوئی نہ کوئی
کمی،خامی ضرور ہے ۔کسی کو اﷲ تعالیٰ نے دنیاوی مال و دولت دی ہے مگر علم
نہیں دیا ،کسی کو اﷲ نے علم کی دولت سے مالا مال کیا ہے مگر اس کی دال روٹی
تک بھی پوری نہیں ہوتی ۔کسی کو اﷲ تعالیٰ نے مال و دولت بھی دی اور علم بھی
،مگر حسن نہیں دیا۔ کسی کو خدا تعالیٰ نے مال و زر اورعلم وحسن دیا ،مگر
اولاد نہیں دی ۔کسی کے بیس بچے ہیں ،لیکن ان کو دینے کیلئے کچھ نہیں۔کسی کو
اﷲ تعالیٰ نے بے حساب مال و زر ،علم و حسن ،اولاد غرضیکہ سب کچھ دیا ،مگر
صحت و تندرستی نہیں دی ، وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں کھا سکتا۔کسی کو
اﷲ کریم نے دنیاوی مال وزرنہیں دیا مگر صحت و تندرستی کی دولت سے مالامال
کر دیا۔کوئی بیٹامانگ رہا ہے تو کوئی بیٹی۔جو مزدور اناج کی بوری اٹھاسکتا
وہ خرید نہیں سکتا اور جو خرید سکتا ہے وہ اسے اُٹھانہیں سکتا۔یہ میرے رب
شان ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے ۔ وہ ذات ِ بابرکات جس حال میں رکھے ہمیں اس کا
شکر ادا کرتے رہنا چاہئے ۔ ہمارا کام ایمانداری سے محنت کرنااور مثبت سوچ
اپنانا ہے ۔ جس دن ہم اس خودساختہ امتیاز سے نکل گئے اور اﷲ تعالیٰ کے اس
نظام کو سمجھ گئے ہماری زندگیاں آسان ہوجائیں گی۔ |