فروٹ بائیکاٹ

 تحریر: سحرش علی نقوی (رحیم یار خان)

ان دنوں سوشل میڈیا پر بڑے ہی زور و شور سے فروٹ بائیکاٹ مہم چلی ہے ۔ دھڑا دھڑ لوگوں نے اس سلسلے میں پوسٹس بھی لگائیں خاصا جوش بھی دکھایا مگر مضحکہ خیز بات یہ لگی کہ چار پوسٹس اگر اس بائیکاٹ کے حق میں لگیں تو آٹھ پوسٹس اس مہم کی شروعات سے پہلے ہی اس کے خلاف لگ گئیں ۔ ارے بھئی نہ تو میں فروٹ بائیکاٹ مہم کے حق میں ہوں نہ اس کے خلاف ہوں میں تو صرف بحیثیت پاکستانی اپنے ملک کی عوام کا حال دیکھ رہی ہوں جو مجال ہے کچھ بھی کسی کو کرنے دیں ۔

اعتراضات کیے گئے کہ فروٹ کا بائیکاٹ ہی کیوں ؟ مگر یہ کیوں نہیں سوچا گیا کہ چلو پہلے یہ مہم چل نکلی ہے تو مل کر اسے کامیاب کر لیں پھر دیگر مسائل بھی حل کر لیے جائیں گے ۔بد قسمتی سے اس وقت ہمارے ملک میں ہزاروں مسائل ہیں جن کا ایک ساتھ ہی حل نکلنا خاصا مشکل ہے مگر کم از کم جو مسئلہ حل ہونے چلا تھااسے تو سپورٹ کرنا فرض بنتا ہی تھا ۔ جس قوم میں اتنا بھی اتفاق نہیں کہ تین دن کے لیے یکجا ہوکر اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں وہ ترقی کیسے کرے گی ؟ جو قوم ایک چھوٹی سی مہم کامیاب نہ بنا سکی وہ بڑے بڑے مسائل کیسے حل کرے گی ؟شاید اسی لیے تو اتنے سالوں سے اب تک ہم اپنے لیے بجلی ،گیس جیسے اہم مسائل حل نہیں کر پائے ۔

اس بائیکاٹ کو ایک پریکٹس کے طور پہ بھی لیا جا سکتا تھا ۔اسے نقطہ ِ آغاز بھی تو سمجھا جا سکتا تھا۔ آج سب مل کر ایک چھوٹے سے مسئلے پر ایک ہو جاتے تو کل اسی طرح اتفاق سے بڑے مسائل کی طرف بڑھ سکتے تھے مگر نہیں یہاں تو ایک نے کہا کے تین دن پھل نہیں لینے تو چار نے کہا کہ ویسے ہم پھل لیتے نہ لیتے مگر اب تو ضرور ہی لیں گے۔ افسوس صد افسوس۔

جہاں تک بات ہے غریب کے چولہے کی تو یاد رکھنا چاہیے کہ غریب کا چولہا ہمارے سہارے نہیں چلتا،نہ غریب ہمارے دیئے پہ زندہ ہیں ۔ انہیں رزق دینے والا تو میرا مالک ہے ۔ کیا ہمارا ایمان اتنا کمزور ہے کہ ہم یہ سوچتے ہیں کوئی کسی کا رزق چھین سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔ کوئی کسی کا رزق نہ چھین پایا ہے نہ چھین سکتا ہے ۔رزق کا وعدہ میرے رب کا ہے ۔ایک چھوٹی سی کوشش میں سو طرح کی رکاوٹیں ڈال دی گئیں اور کہا گیا کہ برانڈڈ اشیاء وغیرہ کے خلاف بائیکاٹ کیا جائے ۔مگر اب تو لگتا ہے کہ اگر آج سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لگ گئی کہ برانڈڈ اشیاء کے خلاف بائیکاٹ ہے تو کل تک آٹھ پوسٹس لگ جائیں گی کہ برانڈڈ اشیاء کی فیکٹریز میں غریب مزدور کام کرتے ہیں ہم بائیکاٹ جیسی ظالمانہ مہم سے ان کو نقصان نہیں دینا چاہتے ۔
مجھے سمجھ تو یہ بھی نہیں آیا کہ اگر ہمارے ملک میں اتنے رحم دل انسان موجود ہیں جو غربا ء کے احساس میں بائیکاٹ نہیں کر رہے جن کے دل میں غرباء کی امدا د کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے تو اب تک ملک میں غربا ء ہیں ہی کیوں اور کیسے ؟؟ جہاں اتنے نرم دل لوگ پائے جاتے ہوں وہاں تو خوشحالی ہونی چاہیے تھی ۔غریب کی مدد کا سوال تھا تو بنا فروٹ خریدے بھی تو مدد کی جا سکتی تھی ۔ دراصل ہم ایسے لوگ ہیں جو صرف انتشار پھیلانا جانتے ہیں۔ ہمیں ایک ہونا آتا ہی نہیں ،قوم بننا آتا ہی نہیں ۔

Sundas Qamar
About the Author: Sundas Qamar Read More Articles by Sundas Qamar: 25 Articles with 23087 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.