آج کادور ترقی یافتہ کہلاتا ہے۔روز نت نئی ایجادات ہورہی
ہیں۔جدید ایجادات کے سامنے عقل انسانی محوحیرت ہے۔سوشل میڈیا ایک ایسا آلہ
ہے جو لوگوں کو اظہار رائے کی اجازت دیتا ہے۔ جس کی مقبولیت میں تیزی سے
اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل ویب سائٹس میں سے زیادہ تر لوگ فیس بک ، ٹویٹر ، یو
ٹیوب ، گوگل پلس اور لنکڈان وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔سوشل میڈیا کو دوسرے
میڈیا سے اس لحاظ سے بھی سبقت یا برتری حاصل ہو جاتی ہے کہ باقی میڈیا میں
ان پٹ والے عناصر تقریبا’’ محدود اور فکسڈ‘‘ ہوتے ہیں۔ جبکہ سوشل میڈیا میں
تقریبا ’’ہر شخص ہی شریکِ کار ہے ۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹس میں سے فیس بک
پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔
کئی مرتبہ نیوز چینلز بھی وہ معلومات نہیں دیکھاتے جو سوشل میڈیا کے ذریعے
ہم تک پہنچ جاتی ہے ۔جب ہم سوشل میڈیا کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو آج کے
اس دور میں جہاں ہر کوئی اس میڈیا کا دلدادہ ہے۔
ملک میں صحافتی آزادی کے باجود ہمارا میڈیا عوامی جذبات کی صحیح ترجمانی
کرنے سے قاصر ہے۔ لوگ اپنی پریشانیاں شیئر کرنا چاہتے ہیں مگر نہ تو کسی ٹی
وی چینل میں ان کے لئے کوئی جگہ ہے اور نہ کسی نیوز پیپر میں ان کو ایک
کالمی جگہ مل پاتی ہے۔ ایک خاص طبقہ ہے جس نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر
اپنا اثرو رسوخ قائم کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی کتنا بھی مجبور ہو اس کی
آواز کو سننے والا اور اس کو شائع کرنا والا کوئی نظر نہیں آتا۔چند ایک
ایسے ادارے موجود ہیں جو اپنے صحافتی ذمہ داریوں کو محسوس کر تے ہوئے عوام
کی آواز کو متعلقہ محکموں، اداروں اور افراد تک پہنچا رہے ہیں مگر ایسے
اداروں کی تعداد نمک میں آٹے کے برابر سمجھی جاسکتی ہے۔
سوشل میڈیا کے مستعمل افراد کی تعداد اس وجہ سے بھی بڑھی کہ جب میڈیا نے
حقائق کو چھپانا شروع کردیا اور سچ اور جھوٹ کو ایسے خلط ملط کیا جانے لگا
تو جو لوگ حقائق سے واقف تھے انہوں نے اپنے طور پر حقائق عوام کے سامنے
رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جس کا اور تو کوئی طریقہ نہ مل سکا تو سوشل میڈیا پر
اپنی آواز کو اٹھانا شروع کردیا۔ جس سے وہ کسی حد تک سچ واضح کرنے میں
کامیاب رہے۔
سوشل میڈیا کی اہمیت کے پیش نظر ضروری ہے کہ اس کے درست استعمال کے لئے
کوششیں تیز کی جائیں۔ اس قسم کا میڈیا ہمارے ملک میں طاقتور حلقوں کے
استحصال کا شکار طبقات کے لئے امید کی نئی کرن بھر کر ابھرا ہے اور لوگ
بھرپور طریقے سے اس کو اظہار خیال کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ
کی یہ نئی قسم عوامی طاقت کے اظہار کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ سوشل میڈیا نے
مثبت اثرات کے علاوہ معاشرے میں بہت سے منفی اثرات بھی مرتب کیے ہیں۔ یہاں
پر ایک خاص برائی جو سوشل میڈیا کے ذریعے ہمارے معاشرے میں پائی جا رہی ہے
وہ ہے مذہبی طبقے کی غیر محتاطی۔ بہت سے ایسے افراد جو دین کی تھوڑی بہت
سمجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ مختلف غلط اور ناواقف فتوے دیتے نظر آتے ہیں۔جس سے
نہ صرف عقیدے میں خرابی واقع ہوتی ہے بلکہ وہ لوگ عوام الناس کو بھی گمراہی
کے رستے پر ڈال رہے ہوتے ہیں۔
سماجی میڈیا کے نقصانات سے بھی خبردار رہنا چاہیے۔بلاتحقیق خبر پوری دنیا
میں پھیل جاتی ہے۔ فیس بْک اور جدید ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے جھوٹ
اورکذب بیانی نشر کرنے کا نہ تھمنے والا سیلاب اْمڈ آیا ہیں۔جس طرف دیکھیں
اختلاف ہی اختلاف نظر آئے گا۔آپ ایسے لوگوں سے خبردار رہیں جو سوشل میڈیا
پر فساد ، بد امنی ، لڑائی جھگڑے اور غلط خبریں پھیلاتے ہیں۔ کوئی بھی بات
بغیر تحقیق کے شیئر نہ کریں۔
چاہیے تو یہ تھاکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ کو ہم رواداری اور امن و امان
کے فروغ کا ذریعہ بناتے ،اس کے ذریعے اپنے مسائل سے اگاہی اور تعمیر وطن کا
کام لیتے ،لیکن اس کے برعکس شرپسند اور منفی سوچ کے حامل افراد نے اسے
لوگوں کو ذلیل کرنے اور شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے کا زریعہ بنا لیا ہے۔
بحثیت محب وطن شہری ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم منفی پروپیگنڈااور
اشتعال انگیز موادپھیلانے والے ایسے تمام شر پسندعناصر کی نشان دہی
کریں۔نیشنل رسپانس سینٹر فار سائبرکرائم کے ای میل ایڈریس[email protected]اور
ہیلپ لائن0336-6006060 , 051-9106384پر فوری شکایت درج کروائی جائے تاکہ
سماجی رابطے کی ویب سائٹس سے ان دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ |