Teesra Bab: Medan-e-Hashr
ہم دونوں ایک دفعہ پھر تیزی سے چل رہے تھے ۔ عرش کی حدود سے نکلتے ہی ایک
انتہائی گرم اور حبس زدہ ماحول سے واسطہ پڑا۔ لگتا تھا کہ سورج نو کروڑ میل
سے سوا میل کے فاصلے پر آ کر دہکنے لگا ہے۔ ہوا بالکل بند تھی۔ لوگ پسینے
میں ڈوبے ہوئے تھے۔ پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ مجھ پر جام کوثر کا اثر تھا
وگرنہ اس ماحول میں تو ایک لمحہ گزارنا ناممکن تھا۔ مگر میں دیکھ رہا تھا
کہ ان گنت لوگ اسی ماحول میں بدحال گھوم رہے تھے ۔ چہروں پر وحشت، آنکھوں
میں خوف، بال خاک آلود، جسم پسینے سے شرابور، وجود مٹی سے اٹا ہوا، پاؤں
میں چھالے اور ان چھالوں سے رستا ہوا خون اور پانی۔ یاس و ہراس کا یہ منظر
میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ ہر طرف افراتفری چھائی ہوئی تھی۔ ہر
کسی کو اپنی پڑی ہوئی تھی۔ میری نظریں کسی ایسے شخص کو تلاش کر رہی تھیں
جسے میں جانتا ہوں ۔ پہلی شخصیت جو مجھے نظر آئی وہ میرے اپنے استاد فرحان
احمد کی تھی۔ انہوں نے دور سے مجھے دیکھا اور تیزی کے ساتھ میری نگاہوں سے
اوجھل ہونے کی کوشش کرنے لگے ۔ میں نے صالح سے کہا:
’’انھیں روکو! یہ میرے استاد ہیں ۔ میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘
مگر اس نے مجھے ان کی طرف بڑ ھنے سے روک دیا اور تاسف آمیز لہجے میں بولا:
’’دیکھو عبد اللہ! اپنے استاد کی رسوائی میں اور اضافہ مت کرو۔ اس وقت یہاں
کوئی شخص اگر خوار و خراب ہورہا ہے تو سمجھ لو اس کے ساتھ عدل ہو چکا ہے ۔
وہ خدائی کسوٹی پر کھوٹا سکہ نکلا، اسی لیے اس حال میں ہے ۔‘‘
میں تڑ پ کر بولا:
’’مگر ہم نے تو خدا پرستی اور آخرت کی سوچ اور اخلاق کی ساری باتیں انہی سے
سیکھی تھیں ۔‘‘
’’سیکھی ہوں گی‘‘، صالح نے بے پروائی سے جواب دیا۔
’’مگر ان کا علم ان کی شخصیت نہیں بن سکا۔ دیکھو! خدا کے حضور کسی شخص کا
فیصلہ اس کے علم کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ اس کے عمل، سیرت اور شخصیت کی
بنیادی حیثیت ہوتی ہے ۔ علم صرف اس لیے ہوتا ہے کہ شخصیت درست بنیادوں پر
تعمیر ہو سکے ۔ جب تعمیر ہی غلط ہو تو یہ علم نہیں سانپ ہے :
علم را برتن زنی مارے بود
علم را بر من زنی یارے بود
(علم ظاہر تک رہے تو سانپ ہے اور اندر اتر جائے تو دوست بن جاتا ہے )
یہی تمھارے استاد کے ساتھ ہوا ہے ۔ وہ ایک اچھے مصنف تھے ۔ باتیں بھی اچھی
کرتے تھے ۔ مگر ان کی سیرت و کردار ان کی باتوں کے مطابق نہ تھی۔ درحقیقت
تمھارے استاد سانپ پال رہے تھے ۔ آج علم کے ان سانپوں نے انہیں ڈس لیا ہے ۔
آج یہاں جب تم لوگوں کو دیکھو گے تو انہیں ان کے ظاہر اور ان کی باتوں کے
مطابق نہیں پاؤ گے ، بلکہ ان کی شخصیت ٹھیک ویسے ہی نظر آئے گی جیسا کہ وہ
اندر سے تھے ۔ یاد رکھو! خدا لوگوں کو ان کے ظاہر اور ان کی باتوں پر نہیں
پرکھتا۔ وہ عمل اور شخصیت کو دیکھتا ہے ۔ خاص کر اہل علم کا احتساب آج کے
دن بہت سخت ہو گا۔ جو باتیں دوسرے لوگوں کے لیے عذر بن جائیں گی، عالم کے
لیے نہیں بن سکیں گی۔‘‘
’’مگر انہوں نے بڑ ی قربانیاں دی تھیں ۔‘‘، میں نے ہار نہ مانتے ہوئے کہا۔
’’ہاں مگر ان کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں مل گیا۔‘‘، صالح نے جواب دیا۔
’’علم کی غلطیاں معاف ہو سکتی ہیں ، مگر شخصیت اور عمل کی کمزوری آج کے دن
اسی حال میں پہنچائے گی جس میں تمھارے استاد مبتلا ہوئے ہیں ۔ خیر ابھی تو
یہ دن شروع ہوا ہے ، دیکھو آخر تک کیا ہوتا ہے ۔‘‘
میں صدمے کی حالت میں دیر تک گم سم کھڑ ا رہا۔ میں ایک یتیم شخص تھا جس کا
کوئی رشتہ ناطہ نہ تھا۔ میرے لیے جو کچھ تھے وہ میرے استاد تھے ۔ انہوں نے
میری سرپرستی کی، مجھے علم سکھایا، میری شادی کروائی، اور زندگی میں ایک
مقصد دیا۔ جو شخص میرے لیے باپ سے زیادہ مقدم تھا، اسے اس حال میں دیکھ کر
مجھے ایک شاک (Shock) لگا تھا۔ میں اس کیفیت میں اپنے ماحول سے قطعاً لا
تعلق ہو گیا۔
میرے سامنے ان گنت لوگ بھاگتے ، دوڑ تے ، گرتے پڑ تے چلے جا رہے تھے ۔ فضا
میں شعلوں کے دہکنے کی آواز کے ساتھ لوگوں کے چیخنے چلانے ، رونے پیٹنے اور
آہ و زاری کرنے کی آوازیں گونج رہی تھیں ۔ لوگ ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ
رہے تھے ، گالیاں دے رہے تھے ، لڑ جھگڑ رہے تھے ، الزام تراشی کر رہے تھے ،
آپس میں گتھم گتھا تھے ۔
کوئی سر پکڑ کے بیٹھا تھا۔ کوئی منہ پر خاک ڈال رہا تھا۔ کوئی چہرہ چھپا
رہا تھا۔ کوئی شرمندگی اٹھا رہا تھا۔ کوئی پتھروں سے سر ٹکرا رہا تھا۔ کوئی
سینہ کوبی کر رہا تھا۔ کوئی خود کو کوس رہا تھا۔ کوئی اپنے ماں باپ، بیوی
بچوں ، دوستوں اور لیڈروں کو اپنی اس تباہی کا ذمہ دار ٹھہرا کر ان پر برس
رہا تھا۔ ان سب کا مسئلہ ایک ہی تھا۔ قیامت کا دن آ گیا اور ان کے پاس اس
دن کی کوئی تیاری نہیں تھی۔ اب یہ کسی دوسرے کو الزام دیں یا خود کو برا
بھلا کہیں ، ماتم کریں یا صبر کا دامن تھامیں ، اب کچھ نہیں بدل سکتا۔ اب
تو صرف انتظار تھا۔ کائنات کے مالک کے ظہور کا۔ جس کے بعد حساب کتاب شروع
ہونا تھا اور پورے عدل کے ساتھ ہر شخص کی قسمت کا فیصلہ کر دیا جانا تھا۔
مگر میں اس سب سے بے خبر نجانے کتنی دیر تک اسی طرح گم سم کھڑ ا رہا۔ یکایک
میرے بالکل قریب ایک آدمی چلایا:
’’ہائے ۔ ۔ ۔ اس سے تو موت اچھی تھی۔ اس سے تو قبر کا گڑ ھا اچھا تھا۔‘‘
یہ چیخ نما آواز مجھے واپس اپنے ماحول میں لے آئی۔ لمحہ بھر میں میرے ذہن
میں ابتد ا سے انتہا تک سب کچھ تازہ ہو گیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں نے گردن گھما کر صالح کی طرف دیکھا۔ اس کا چہر ہ ہر قسم کے تأثر سے
عاری تھا اور وہ مستقل مجھے دیکھے جا رہا تھا۔ میری توجہ اپنی طرف مبذول پا
کر وہ بولا:’’عبد اللہ! تم میدان حشر کے احوال جاننے کے شوق میں اپنی جگہ
چھوڑ کر یہاں آئے ہو تو ایسے بہت سے مناظر ابھی تمھیں اور دیکھنے ہوں گے ۔
میں تمھیں مزید صدمات سے بچانے کے لیے ابھی سے یہ بات بتا رہا ہوں کہ
تمھاری بیوی، تین بیٹیوں اور دو بیٹوں میں سے تمھاری ایک بیٹی لیلیٰ اور
ایک بیٹا جمشید اسی میدان میں خوار و پریشان موجود ہیں ۔‘‘
صالح کی یہ بات سن کر میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ مجھے چکر سا آیا اور
میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ صالح میرے ساتھ ہی زمین پر خاموش بیٹھ گیا۔
میری آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے ۔ مگر یہاں کسی کو کسی کی کوئی پروا
نہیں تھی۔ کوئی کیوں بیٹھا ہے ؟ کیوں کھڑ ا ہے ؟ کیوں لیٹا ہے ؟ کوئی کیوں
رو رہا ہے ؟ کیوں چیخ رہا ہے ؟ کیوں ماتم کر رہا ہے ؟ یہ کسی کا مسئلہ نہیں
تھا۔ آج سب کو اپنی ہی پڑ ی تھی۔ ایسے میں کوئی رک کر مجھ سے میرا غم کیوں
پوچھتا؟ لوگ ہمارے پاس سے بھی بے نیازی سے گزرتے چلے جا رہے تھے ۔ کچھ دیر
بعد میں نے صالح سے پوچھا:
’’اب کیا ہو گا؟‘‘
’’ظاہر ہے حساب کتاب ہو گا۔ پھر اس کے بعد ہی کوئی حتمی بات سامنے آئے گی۔‘‘
اس کا جواب دوٹوک تھا۔ پھر وہ اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بولا:
’’جن لوگوں نے آج کے دن کی حاضری کو اپنا مسئلہ بنالیا تھا اور وہ اسی کے
لیے جیے ، چاہے وہ ایمان و اخلاق کے تقاضے پورے کرنے والے صالحین ہوں یا
خدا کے دین کی نصرت کو اپنا مسئلہ بنانے والے اہل ایمان، سب کے سب اس طرح
اٹھائے گئے ہیں کہ ان کی نجات کا فیصلہ ہو چکا ہے ۔ ان لوگوں نے زندگی میں
صرف نیکیاں کمائی تھیں ۔ خالق و مخلوق کے حقوق پورے کیے تھے ۔ چنانچہ ان کی
موت ہی ان کا پروانہ نجات بن کر سامنے آئی تھی اور حشر کے دن انہیں شروع ہی
سے عافیت نصیب ہوگئی۔‘‘
’’مگر گناہ تو سب کرتے ہیں ۔ تو کیا ان لوگوں نے گناہ نہیں کیے تھے ؟‘‘،
میں نے پوچھا۔
’’ہاں گناہ انہوں نے بھی کیے تھے ، مگر ان کے چھوٹے موٹے گناہ ان کی نیکیوں
نے ختم کر دیے اور اگر کبھی کسی بڑ ے گناہ سے دامن آلودہ ہوا تو انھوں نے
فوراً توبہ کے آنسوؤں سے ان داغوں کو دھودیا تھا۔ ایسے تمام صاف ستھرے
پاکیزہ لوگ اس وقت عرش کے سائے کے نیچے موجود ہیں ۔ ان لوگوں کا رسمی حساب
کتاب ہو گا جس کے بعد ان کی کامیابی کا اعلان کر دیا جائے گا۔
اس کے برعکس جن لوگوں کے نامہ اعمال میں کوئی ایسا بڑ ا جرم ہوا جو ایمان
ہی کو غیر مؤثر کر دے جیسے کفر، شرک، منافقت، قتل، زنا، زنابالجبر ، ارتداد،
یتیموں کا مال کھانا، اللہ کی حدود کو پامال کرنا اور اسی نوعیت کے دیگر
جرائم وغیرہ، تو میزان عدل میں ایسے لوگوں کے گنا ہوں کا پلڑ ا بھاری ہو گا
اور انہیں جہنم کی سزا سنادی جائے گی۔‘‘، صالح نے قانون کی تفصیلی وضاحت کی۔
’’لیکن انسان تو ان دو انتہاؤں کے درمیان بھی ہوتے ہیں ۔ ان کا کیا ہو گا؟‘‘،
میں نے سوال کیاتو صالح نے جواب دیا
:
’’ہاں ان دو انتہاؤں کے درمیان وہ لوگ ہیں جن کے پاس ایمان اور کچھ نہ کچھ
عمل صالح کا سرمایہ بھی ہے ، مگر وہ دنیا میں گناہ بھی کرتے رہے اور توبہ
بھی نہیں کی۔ ایسے لوگوں کو اپنے گنا ہوں کی پاداش میں حشر کے دن کی سختی
جھیلنی ہو گی، اس کے بعد نجات کا کوئی امکان پیدا ہو گا۔ آج جو لوگ میدان
حشر میں پھنسے ہوئے ہیں وہ یا تو مجرمین ہیں جنہیں آخر کار جہنم میں پھینکا
جائے گا یا پھر وہ اہل ایمان ہیں جن کا دامن گنا ہوں سے داغدار ہے ۔ سو جس
کے گناہ جتنے زیادہ اور جتنے بڑ ے ہوں گے آج کے دن اسے اتنا ہی خوار و خراب
ہونا ہو گا۔ کم گناہ والوں کو حساب کتاب کے آغاز پر ہی نجات مل جائے گی۔
مگر جیسا کہ میں نے بتایا کہ دنیا کی زندگی کے سیکڑ وں برس تو گزرچکے ہیں ۔
ان لوگوں کو ابتدا میں نجات بھی ملی تو یہ حشر کی سختی دنیا کی پچاس سالہ
زندگی کے گنا ہوں کا نشہ ہرن کرنے کے لیے بہت ہے ۔ جبکہ جن کے گناہ زیادہ
ہیں ان کو تو نجانے ابھی کتنے ہزار یا لاکھ سال تک اس سخت ترین ماحول کی
شدت، سختی اور ہول جھیلنا ہو گا۔
صالح کی بات سن کر میں نے دل میں سوچا کہ دنیا میں گناہ کتنے معمولی لگا
کرتے تھے ، مگر آج یہ کس طرح مصیبت میں ڈھل گئے ہیں ۔ کاش لوگ اپنے گنا ہوں
کو چھوٹا نہ سمجھتے اور مستقل توبہ کو اپنا معمول بنالیتے ۔ وہ غیبت، چغل
خوری، اسراف، نمود و نمائش، الزام و بہتان وغیرہ کو معمولی چیز نہ سمجھتے ۔
اللہ اور بندوں کے حقوق کی پامالی کو چھوٹا نہ خیال کرتے ، اللہ کی
نافرمانی سے بچتے اور رسولِ کریم کی پیروی کرتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑ
تا جہاں ایک گناہ کی تھوڑ ی سی لذت سیکڑ وں برس کی خواری میں بدل چکی ہے
۔‘‘
پھر میں نے اس سے دریافت کیا:
’’کیا اس وقت کسی کو یہ معلوم ہے کہ اس کی نجات ہو گی یا نہیں اور ہو گی تو
کس طرح ہو گی؟‘‘
صالح نے جواب دیا:
’’یہی اصل مصیبت ہے ۔ یہاں کسی کو یہ نہیں معلوم کہ اس کا مستقبل کیا ہے ۔
نجات کی کوئی امید ہے یا نہیں ؟ یہ کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ تعالیٰ کے ۔
اسی لیے رسول اللہ اور دیگر انبیا مسلسل یہ دعا کر رہے تھے کہ حساب کتاب
شروع ہوجائے ۔ اس کے نتیجے میں اہل ایمان کو یہ فائدہ ہو گا کہ وہ مجرمین
سے الگ ہوکر حساب کتاب کے بعد نجات پاجائیں گے ۔ تم جانتے ہو آج کے دن
انفرادی طور پر نہ کسی کے لیے زبان سے کوئی حرف نکالا جا سکتا ہے اور نہ اس
کی کوئی گنجائش ہے ۔ اور خوشی کی بات یہ ہے کہ رسول اللہ کی یہ دعا قبول ہو
چکی ہے ۔ یہ بات رسول اللہ نے تمھیں خود بتائی تھی۔‘‘
’’مگر ابھی تک حساب کتاب تو شروع ہوتا نظر نہیں آتا۔‘‘، میں نے حیرت سے
پوچھا تو صالح بولا:
’’دعا قبول ہوئی ہے ، مگر اس پر عملدرآمد اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مصلحت کے
تحت ہی کریں گے ۔ ہو سکتا ہے کہ ابھی تک پوری دنیا سے لوگ قبروں سے نکلنے
کے بعد یہاں پہنچے ہی نہ ہوں ۔‘‘
’’کیا مطلب لوگ اتنے برسوں میں بھی یہاں تک نہیں آئے ؟‘‘
’’تمھارا کیا خیال ہے کہ آج لوگ ہوائی جہاز، ریلوں ، بسوں ، اور موٹروں میں
بیٹھ کر یہاں تک آئیں گے ؟ آج سب پیدل دوڑ تے آ رہے ہیں ۔ اسرافیل کے صور
نے لوگوں کو اسی سمت آنے کے لیے مجبور کر دیا تھا۔ آج سمندر پاٹ دیے گئے
ہیں اور پہاڑ ڈھا دیے گئے ہیں ۔ اس لیے لوگ سیدھا یہاں آ رہے ہیں ، مگر
ظاہر ہے پیدل آتے ہوئے وقت تو لگے گا۔ البتہ صالحین کے ساتھ فرشتے تھے جو
انہیں فوراً یہاں لے آئے ۔ بہرحال جب تک حساب کتاب شروع نہیں ہوتا، ہم یہاں
موجود لوگوں کے احوال دیکھ لیتے ہیں ۔ ویسے شاید تم اسی مقصد کے لیے یہاں
آئے تھے ۔‘‘
صالح نے یہ الفاظ کہے اور میرے جواب کا انتظار کیے بغیر میرا ہاتھ تھامے
آگے بڑ ھنے لگا۔ اس وقت شدید گرمی سے چہرے تپ رہے تھے ۔ ہر طرف دھول و غبار
اڑ رہا تھا۔ لوگ گروہوں کی شکل میں اور تنہا اِدھر سے اُدھر پریشان گھوم
رہے تھے ۔ میری نظریں اپنے کسی شناسا کو تلاش کر رہی تھیں ، مگر ابھی تک
کوئی شناسا صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ اچانک ایک طرف سے ایک لڑ کی نمودار
ہوئی اور قبل اس کے کہ میں اس کی شکل دیکھ پاتا وہ میرے قدموں پر گرکر بے
بسی سے رونے لگی۔ میں نے قدرے پریشانی سے صالح کی سمت دیکھا۔
اس نے سپاٹ لہجے میں لڑ کی سے کہا:
’’کھڑ ی ہوجاؤ! ‘‘
اس کے لہجے میں نجانے کیا تھا کہ میری ریڑ ھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہونے لگی۔
لڑ کی بھی سہم کر کھڑ ی ہوگئی۔ میں نے اس کا چہرہ دیکھا۔ یہ چہرہ خوف،
اندیشے اور غم کے سایوں سے سیاہ پڑ چکا تھا۔ چہرے اور بالوں پر مٹی پڑ ی
ہوئی تھی۔ پیاس کے مارے ہونٹوں پر پپڑ یاں جمی ہوئی تھیں اور وحشت زدہ
آنکھوں میں خوف و دہشت کا رنگ چھایا ہوا تھا۔
کرب کی ایک لہر میرے وجود کے اندر اترگئی۔ میں نے اس چہرے کو جب پہلی دفعہ
دیکھا تھا تو بے ساختہ چشم بد دور کہا تھا۔ میدہ شہاب گورا رنگ۔ کھڑ ا کھڑ
ا ناک نقشہ۔ کتابی چہرہ۔ گلابی ہونٹ، نیلی آنکھیں اور گہرے سیاہ بال۔ خدا
نے اس چہرے کو قدرتی حسن سے اس طرح نوازا تھا کہ زیب و زینت کی اسے حاجت نہ
تھی۔ مگر آج یہ چہرہ بالکل بدل چکا تھا۔ ماضی کا جمال روزِ حشر کے حزن و
ملال کی تہہ میں کہیں دفن ہو چکا تھا۔ سراپا حسرت، سراپا وحشت، سراپا اذیت
اور مجسم ندامت یہ وجود کسی اور کا نہیں میرے چہیتے بیٹے جمشید کی بیوی اور
اپنی بڑ ی بہو ھما کا تھا جو حسرت و یاس کی ایک زندہ تصویر بن کر میرے
سامنے کھڑ ی تھی۔
’’ابو جی مجھے بچالیجے! میں بہت تکلیف میں ہوں ۔ یہاں کا ماحول مجھے مار
ڈالے گا۔ میں نے ساری زندگی کوئی تکلیف نہیں دیکھی، مگر لگتا ہے کہ اب میری
زندگی میں کوئی آسانی نہیں آئے گی۔ اللہ کے واسطے مجھ پر رحم کیجیے ۔ آپ
اللہ کے بہت محبوب بندے ہیں ۔ مجھے بچالیجیے ۔ ۔ ۔ ‘‘
یہ کہتے ہوئے ھما ہچکیاں لے کر رونے لگی۔
’’جمشید کہاں ہے ؟‘‘، میں نے ڈوبے ہوئے لہجے میں دریافت کیا۔
’’وہ یہیں تھے ۔ وہ بھی آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں ۔ مگر یہ اتنی بڑ ی جگہ ہے اور
اتنے سارے لوگ ہیں کہ کسی کو ڈھونڈنا ناممکن ہے ۔ ان کا حال بھی بہت برا ہے
۔
وہ مجھ سے بہت ناراض تھے ۔ انہوں نے ملتے ہی مجھے تھپڑ مار کر کہا تھا کہ
تمھاری وجہ سے میں برباد ہو گیا۔ ابو میں بہت بری ہوں ۔ میں خود بھی تباہ
ہوگئی اور اپنے خاندان کو بھی برباد کر دیا۔ پلیز مجھے معاف کر دیں اور
مجھے بچالیں ۔ اللہ کا عذاب بہت خوفناک ہے ۔ میں اسے برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘
ھما فریاد کر رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑ یاں بہہ رہی تھیں ۔
میرے دل میں پدری محبت کا جذبہ جوش مارنے لگا۔ وہ بہرحال میری بہو تھی۔ مگر
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، صالح اسی سپاٹ لہجے میں بولا:
’’یہ بات تمھیں دنیا میں سوچنی چاہیے تھی ھما بی بی۔ آج تمھاری عقل ٹھکانے
آ گئی ہے ۔ مگر یاد ہے دنیا میں تم کیا تھیں ؟ تمھیں شاید یاد نہ آئے ۔ ۔ ۔
میں یاد دلاتا ہوں ۔‘‘
یہ کہتے ہوئے صالح نے اشارہ کیا اور یکلخت ایک منظر سامنے نظر آنے لگا۔ یہ
جمشید اور ھما کا کمرہ تھا۔ مجھے لگا کہ میرے اردگرد کا ماحول غائب ہو چکا
ہے اور میں اسی کمرے میں ان دونوں کے ہمراہ موجود ہوں اور براہ راست سب کچھ
دیکھ اور سن رہا ہوں ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے........... |