ملک الشعراء حضرت ابو الحسن امیر خسرو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

اسلام و علیکم۔

آپ کا نام مبارک "ابو الحسن" اور لقب مبارک "امیر خسرو "ہے،آپ کے والد ماجد کا نام "حضرت امیر سیف الدین بلخ "رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہے۔

آپ کی ولادت شریف 653ھ میں موضع پٹالی ضلع ایٹہ میں ہوئی اور آپ کا وصال مبارک 18 شوال المکرم 725ھ میں ہوا ،آپ کی جملہ عمر مبارک 72 سال رہی-

حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی جب ولادت ہوئی تو آپ کے والد ماجد آپ کو محلہ کے ایک مجذوب بزرگ کے پاس لے گئے،مجذوب صاحب نے آپ کو دیکھتے ہی فرمایا:اس مشہور زمانہ کو لائے ہو جو خاقانی سے بھی دو قدم آگے ہے-

تعلیم وتربیت:
ابتدائی تعلیم آپ نےاپنے برادر محترم "اعز الدین علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ "سے حاصل فرمائی-

حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جس وقت حضرت خواجہ محبوب الہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو اس وقت آپ کی عمر مبارک آٹھ (8) سال تھی،جب آپ بیعت کی نیت سے حضرت کے دربار میں حاضر ہوئے تو دروازہ کے باہر ہی بیٹھ گئے ،اور دل میں یہ رباعی پڑھی اور کہا کہ اگر محبوب الہی شیخ کامل ہیں تو میری رباعی کا جواب دیکر مجھے اندر بلوائيں گے-

تواں شاہی کہ بر ایوان قصرت
کبوتر گر نشیند باز گردد
غریبے مستمندے بردر آمد
بیا ید اندروں یا باز گردد

ابھی کچھ دیر ہی نہ گزری تھی کہ حضرت محبوب الہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خادم خاص" مبشر" باہر آئے اور یہ رباعی پڑھی:

بیاید اندروں مرد حقیقت
کہ باما یک نفس ہم راز گردد
اگر ابلہ بوداں مردناداں
ازاں راہے کہ آمد بازگردد

اور ارشاد فرمایا کہ یہاں کوئی ترک آیا ہے،ان سے کہو کہ وہ اندر آجائے، حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حاضر ہوئے اور شرف بیعت سے مشرف ہوئے،حضرت محبوب الہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ کو کلاہ چار ترکی عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا:جس منزل کے حصول میں مہینوں لگ سکتے تھے، آپ نے انہيں دنوں میں حاصل کیا اور چالیس(40) سال تک آپ صائم الدہر(مسلسل روزہ رکھتے )رہے-

حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے پیر ومرشد سے بے پناہ محبت کیا کرتے، اسی طرح حضرت محبوب الہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی آپ سے بے انتہا محبت فرمایا کرتے-

آپ نے ارشاد فرمایا :امیر خسرو میرے بعد زندہ نہ رہ سکیں گے،جب وہ وصال کرجائیں تو انہيں میرے پہلو میں دفن کرنا اور میں جنت میں اس وقت تک قدم نہ رکھوں گا جب تک کہ امیر خسرو کو ہمراہ نہ لے لوں-

حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے پیر ومرشد کی نظر کرم سے فن شاعری میں ید طولی رکھتے ،نہ صرف فارسی بلکہ عربی ،ترکی،ہندی ہر زبان میں آپ نے اپنے علم وفن کا لوہا منوایا-

آپ علم ظاہر میں جہاں اپنی مثال آپ ہیں وہیں آپ علم باطن کا بھی ایک عظیم سمندر ہے-

آپ اوراد ووظائف کے علاوہ صرف نماز تہجد میں روزآنہ سات پارے تلاوت فرمایا کرتے-

ابتک جو آپ کی تصانیف دریافت ہوسکی ان کی تعداد نوے(90)ہیں-

حضرت نظام الدین محبوب الہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے وصال مبارک کے وقت حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ موجود نہ تھے،جب آپ کو حضرت کے وصال کی خبر ملی تو آپ نے اپنی ساری ملکیت حضرت پیر ومرشد کے ایصال ثواب کے لئے فقراء ومساکین پر خرچ کردی،اور حضرت کی مزار اقدس پر حاضر ہوئے اور "سبحان اللہ ،آفتاب زير زمین اور خسرو زندہ "کہکر بے ہوش ہوگئے،اور اس غم میں چھ ماہ تک رہ کر وصال فرمایا،اس چھ ماہ میں شب وروز آستانہ عالیہ پر رہ کر جاروب کشی اور چراغ افروزی کی اور دن و رات اپنے شیخ کے غم میں روتے رہے-

بعض حضرات نے کہا کہ متاخرین میں کوئی اتنا نہیں روئے جتنا حضرت امیر خسرو اپنے شیخ کے غم میں روئے-

حضرت محبوب الہی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے وصال مبارک کے ٹھیک چھ ماہ کے بعد ایک دن مزار اقدس پر حاضر ہوئے اور یہ شعر پڑھا :

گوری سوئے سیج پر اور مکھ پر ڈالے کیس
چل خسرو سانجھ بھئی گھر اپنے چودیس

اس کے بعد آپ کا وصال ہوگيا- (تاریخ الاولیاء،ص:147/151)

از:حضرت ضیاء ملت مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ

نائب شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ بانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر
Kashif Akram Warsi
About the Author: Kashif Akram Warsi Read More Articles by Kashif Akram Warsi: 12 Articles with 48512 views Simple and friendly... View More