لبیک الھمہ لبیک - آخری حصہ

 طواف زیارہ:
حج کا اہم تر ین ر کن ہے ر می کے بعد اگلے تین دن کے اندر اندر طواف کر نا ہے جو فرض ہے اور اس کانام طواف زیارہ ہے یہ مشکل تر ین طواف ہو تا ہے جب لا کھوں حجاج بیک وقت طواف کو چل پڑ تے ہیں ۔حر م شر یف میں تل دھر نے کو جگہ نہیں ہو تی ۔عام حا لات میں جو طواف پندرہ سے بیس منٹ میں مکمل ہو تا ہے ۔اس وقت وہ کئی گھنٹوں پر محیط بھی ہو سکتا ہے ۔ یہ بھی تر بیت کا ایک جز ہے جو مر د ہو یا عورت سب کو سیکھنا ہے ۔سب کو اپنی اطاعت اور فدو یت کا اظہار کر نا ہے ۔گو یا سب کہتے ہیں اے اللہ ۔!ہم حا ضر ہیں جو مشقت تو ما نگے جو قر بانی ما نگے ،جیسا چلنا ما نگے ۔ہم تیرے عشاق چلے آتے ہیں ،دیوانہ وار آتے ہیں ۔تیرے انبیاء کی سنت کو پورا کر تے ہوئے نبی رحمت ﷺ کے نقش قد م پر چلتے ہوئے ۔۔۔۔۔ کیا واقعی !زند گی اسو ہ حسنہ کے نقش قدم پر ہی ہے ؟ کیا واقعی جہاں اللہ نے پکارا ہم حا ضر ہو گئے ؟ جہاں اللہ کے دین کو ضرورت پڑی ہم دیوانہ وار آگئے ؟ کوئی عذر ،کو ئی معذرت ہماری راہ کی رکاوٹ نہ بنا ؟ کوئی مصرو فیت ،کو ئی کام ہمیں اللہ کے دین کے کام سے رو ک نہ سکا؟کبھی اے حجاج جائزہ لیا ہو تا ! جیسے دیوانہ وار اتنے رش میں اتنی مشقت سے یہ طواف زیارہ کر رہے ہیں جتنی والہیت کا اظہار کر رہے ہیں ،جتنی فدو یت آج طاری ہے ،اس کا عشر عشیر بھی عملی زند گی میں اللہ کی رضا جوئی کے لیے جدو جہد میں لگا یا ہو تا تو اسلامی معا شرے اس زمین پر ،اللہ کی دنیا میں ما ڈل معاشرے ہو تے !پھر کیا ہو تا ہے عملی زند گی میں یہ تعاون کہاں جا تا ہے؟یہ دین کی خا طر مشقت کہاںجا تی ہے ؟

اے مسلمانوں ! آج مسجدیں کیوں ویران ہیں ؟ کن کن مصرو فیات نے قدموں کو روک لیا ہے ؟کیوں نماز جمعہ کے وقت با زاروں میں رش بر قرار رہتا ہے ؟ کیوں فجر کی نماز میں ایک صف بھی مکمل نہیں ہو تی ؟ واپس جا کر یہ شوق کہاں غا ئب ہو جا تا ہے ؟آج بھی مسلمان ملکوں میں سینیمے آباد ہیں ،با زار آباد ہیں ،تھیڑوں میں رو نق ہے ،شادی ہال بھرے ہوئے اوردرس گا ہیں ویران نظر آتی ہیں! نفس تو مز دلفہ ،منیٰ ،رمی جمار کی مشقت کے بعد بہت تھکا ہوا ہو تا ہے ۔آرام ما نگتا ہے ۔لیکن یہاں اس کی نہیں سنی جا تی ۔نفس کے تقاضوں کو دبا یا جا تا ہے اور حجاج جو ق در جوق حرم شر یف میں پہنچتے ہیں ۔پیدل آنے والوں کے پا ﺅں سو جے ہوئے اور زخمی بھی ہو تے ہیں ۔لیکن پہنچتے ہیں !

پھر یہ سبق زند گی بھر یاد کیوں نہیں رہتا کہ زند گی کی اصل ،اللہ کی اطاعت ہے ۔زند گی کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے ۔زند گی محنت و مشقت سے عبارت ہے ۔نہ نفس ان مقا صد کی راہ میں رکا وٹ بنناچا ہیے نہ راہوں کا مشکل ہو نا ،نہ بیمار ہو نا ، نہ معذور ہو نا !ہر حال میں اللہ کو را ضی ر کھنا ہے ۔ہر حال میں اللہ کو یاد رکھنا ہے ،ہر حال میں اللہ کی اطاعت کر نی ہے ہاں مہر بان اللہ آسا نیاں کر دیتا ہے ،فرا مین میں تخفیف کر دیتا ہے۔لیکن قد م ااٹھا نا تو شر ط ہے ،چل پڑ نا تو شر ط ہے ،عہد کر لینا تو ضرورت ہے ! وفا مقدور بھر ہی ہو گی ،اجر دینے والا رﺅف با لعباد ہے !

قر با نی و عید :
طواف زیارہ کے بعد حضرت ابراہیم ؑ کا ایک اور اسوہ ء مکمل کر نا ہے اور وہ ہے ۔”قر با نی “۔یوں تو حج سارے کا سارا ہی کسی نہ طور پر ایثار اور قر با نی کا نام ہے ۔لیکن یہ رسمِ قر بانی بھی خو ب ہے ! حضرت ابراہیم ؑ نے کیا قر بان کیا اور کیسے ؟ اللہ اللہ اسکا تصور بھی ہمارے لیے مشکل ہے ۔بیا ن تو ہم بہت جذبے سے کر تے ہیں (وعظ کیا مشکل ہے ۔واعظین کی تو امت میں کمی نہیں )لیکن عملا ً بیٹے کو لٹا لینا ،گر دن پر چھری چلا دینا ! کو ئی مداہنت ،کوئی عذر ،کوئی فتویٰ آڑے نہ آیا ۔آج (حا لات حا ضرہ میں )جہاد اور بہت سے دیگر احکام دین سے استثناء کے لیے فتوے ما نگے جا تے ہیں (اب تو خواتین گر می کے ڈر سے پتلے کپڑوں کے جا ئز ہو نے لیے بھی فتوے کی متلاشی نظر آتی ہیں اور مرد کفار کے ڈر سے داڑھی سے استثناء تک کے فتوے چا ہتے ہیں اور فتوے مل بھی جا تے ہیں )

لیکن حضر ت ابر اہیم ؑ نے کوئی فتویٰ نہ ما نگا ،نہ کوئی عذر ترا شا کہ وہ تو خواب تھا ۔وہ تو بس ایک کام جا نتے تھے اللہ کی اطاعت و فر ما نبر داری آخری حد تک ،جنون کی حد تک ،مثال کی حد تک ۔جو اللہ نے کہا کر گزرے !!
قا لو ا کو نوا ھو دً او نصرٰی تھتدوا ط قل بل ملة ابرا ھےم حنیفًا ط و ما کان من المشر کین ہ
” یہودی کہتے ہیں : یہودی ہو ،تو راہِ راست پا ﺅ گے ۔عیسا ئی کہتے ہیں: عیسائی ہو تو ہدایت ملے گی ۔ان سے کہو : نہیں بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیم ؑ کا طر یقہ اور ابراہیم ؑ مشر کوں میں سے نہ تھا ۔“ (سورة البقرہ : 135 )

وہ اللہ کے سوا اور کسی کی اطاعت نہ جا نتے تھے ،با پ کی بھی نہیں ،نمروداور انکی قوم کی بھی نہیں ،برادری کی اور اولا د کی محبت نہیں ،بیوی کی محبت نہیں ۔اللہ اور بس اللہ ان کی زند گی کا منتہائے مقصود تھا!اے لا کھوں حجاج انکی پیروی کا دعویٰ کر نے والو ! کیا یہودو نصاریٰ کی پیروی کر رہے ہو یا ابراہیم حنیف کی؟قر با نی تو انکی اقتداء میں ،عملی زند گی یہود و نصاریٰ کی اقتداء میں !تمھارے ملکوں پر انکا قبضہ ! تمھارے حکمران ان کے با جگزار ، تمھاری قومیں ان کی غلام ،تمھاری نسلیں وہ تیار کر رہے ہیں !تمھاری عورتیں انکی طر ح بے حجا ب ،تمھاری خواب گاہیں انکی تہذیب کا نمو نہ ! تمھاری زند گی کی دوڑ ان کے نقش قد م پر ! یہاں کیا قر بان کر کے جارہے ہو ؟ یہاں اللہ کے حضور کیا پیش کر رہے ہو ؟

انہوں نے تو ہر رو شن خیالی کو لات ماری تھی ! با دشاہ وقت کے آگے کلمہ حق ایسے انداز میں کہا تھا ، ان دلا ئل کے ساتھ کہا تھا کہ
 وہ مبہوت ہو گیا فبھت الذی کفر اس کے آگے کلمئہ تو حید پیش کیا،
اس کی سزا کے ڈر سے دین حنیف نہ چھوڑا ۔
تم فر عون ِوقت کے ڈر سے کیا کیا چھوڑ رہے ہو ؟
اے حجاج ! دین کو کہاں کہاں قر بان کر دیا گیا ہے ؟ کبھی سو چا ! !
اے حجاج تم کس قر با نی کے جذبے کو ساتھ لے کر جا رہے ہو ؟
اللہ کو کو نسی قر بانی پسند ہے ؟ پتہ نہیںکتنے حجاج سو چتے ہوں گے

سر منڈوانا :
حج کا اگلا اہم فعل حلق یا تقصیر ۔مر دوں کے لیے سر منڈوانا ،عورتوں کے لےے بال کٹوانا ، یہاں بھی اصل رو ح تو اللہ کی غیر مشرو ط اطاعت ہے اور خواہش کی قر با نی بھی ! اللہ تعالیٰ تر بیت کر تے کر تے اس مقام پر لا تا ہے کہ چھو ٹی سی چھو ٹی چیز بھی میری راہ میں قر با ن کر نے سے دریغ نہ کرو ۔چا ہے وہ سر کے بال ہوں ۔ مو منا نہ زند گی ! اللہ کی اطاعت کا نام ہے ۔اب ا حرام اتر گیا، اچھے کپڑے پہنیں ،خو شبو لگا ئیں ،عید منائیں ،خو شی منائیں کہ حج کر لیا ۔گنا ہ معاف ہو گئے ۔اللہ را ضی ہو گیا یہ عیدکیا صرف اسی با ت کا جشن ہے ۔تو پھر وہ سب کیوں منا تے ہیں جو حج پر نہیں آئے !علما ء کہتے ہیںکہ یہ اسوہء ابر اہیمی تو ضرور ہے لیکن اس آیت کے نزول کا جشن بھی ہے جو میدان عرفات میں عین دوران حج نبی کر یم ﷺ پر نا زل ہوئی :
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینًا ط (سورة المائدہ : 3 )

” آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے ،اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔“ پورے ادیان عالم میں سے اللہ نے دین اسلام کو پسند فر ما یا ۔اپنے سارے بندوں کے لیے پسندکیا ۔ اس دین کا امین اللہ نے امت مسلمہ کو بنا یا ہے اور یوم عر فہ میں یہ آیت نا زل ہو ئی ۔یہ ”دینِ تو حید“ اس کا ہم پر احسان ہے اور اس احسان کا جشن یہ عید ہے گو یا اس بات کی خو شی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا مکمل دین عطا فر مانے کے لیے چن لیا ہے ۔اب اس دین کے تقا ضے پورے کر نے کے لیے جس محنت ،ایثار و قر با نی کی ضرورت ہے ا سکو اسوہ ابرا ہیمی ؑ کے ساتھ جو ڑ دیا ۔کہ اس کی تکمیل اس طر ح ہو سکتی ہے کہ جن پر اللہ نے یہ عنا یت کی اور انبیا ء کا وارث بنا یا وہ اس دین کی اقامت اور دنیا میں اس کا بو ل با لا کرنے کے لیے اللہ کی راہ میں نکلیں ،وقت لگا ئیں ،مال خر چ کریں ،اپنی صلا حیتیں اس کی سر بلندی کے لیے استعمال کر یں ۔جس جس قر با نی کا تقا ضا یہ مشن اور نصب العین کر ے اسے سنت ِ ابر اہیمی کے مطا بق کر تے چلے جا ئیں یہاں تک کہ دنیا سے شیطان کی عملد اری ختم ہو کہ اللہ کا نظام غا لب آجا ئے ۔اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول ﷺ کا مشن مکمل ہو جا ئے ۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کاایک مرکز پر اتنا بڑا اجتماعوہ بھی تقویٰ اورپاکیزگی کے عالیشان جذبوں کے ساتھ،رضائے الٰہی کے اعلیٰ اور یکساں نصب العین کے تحت دنیا میںاور کہیںمنعقد نہیں ہوتا۔دو دن منیٰ میں قیام کے بعد حاجی واپس آکرطواف وداع کرتے ہیںگویااللہ کی فوج اپنی ٹریننگ پوری کرکے ہیڈ کوارٹر کی طرف واپس آرہی ہے اور اب یہاںسے اپنی اپنی بیرکوں ،مورچوںاور میدانوں کی طرف اپنی مستقل ڈیوٹیادا کرنے چلی جائیگی جس روحانی قوت وتربیت کی اسے ضرورت تھی جو شارٹ کورس اسکی تازگی کے لئے مطلوب تھا وہ اسنے پورا کرلیا۔اب میدانوں کا رخ ہوگا اور معرکے سر کئے جائیں گے۔!کاش ایسا ہوجائے!!
Dr.Rukhsana Jabeen
About the Author: Dr.Rukhsana Jabeen Read More Articles by Dr.Rukhsana Jabeen: 15 Articles with 25329 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.