’’روشن‘‘ میں نفسیاتی علاج بھی ہوتا تھا اور روحانی علاج
بھی ۔ شزوفرینیاں کا جو مرض مجھے لاحق ہو گیا تھا اس کے علاج کے لئے گولیاں
تو میں کھا ہی رہا تھا۔ ساتھ ساتھ دوسرے علاج کے طریقوں سے بھی میں گزر رہا
تھا تا کہ جلد از جلد شفا یاب ہوجاؤں اور پھر سے زندگی کی بھاگ دوڑ میں
اپنا ہاتھ بٹا سکوں۔
روز کی طرح آج بھی عصر کے بعد ہم سب مریض اس بڑے سے ہال میں موجود تھے ۔
جہاں روز ہمیں مختلف اور انوکھی قسم کی سرگرمیوں سے گزرنا پڑتا تھا۔وہی بڑا
سا ہال جس کی اونچی چھت تھی۔ تمام دیواروں اور چھت ، یہاں تک کے دروازے اور
کھڑکیوں پر بھی شفاف سفید رنگ کیا گیا تھا۔ مناسب تعداد میں سفید روشنی کے
بلب جب ہال میں جلتے تو یوں لگتا جیسے ہم کسی ماورائی دنیا میں پہنچ گئے
ہوں۔ ہمیشہ کونوں کونوں میں چند موم بتیوں کی لو بھی لہکتی رہتی اور بخور
دانوں سے فرحت بخش خوشبو بھی سارے ماحول کو مہکاتی رہتی۔ میں واضح طور پر
محسوس کرتا تھا کہ اس ماحول کا میرے اعصاب پر بہت قدر گہرا اثر پڑتا ہے۔
ہال میں قدم رکھتے ہی ہرکوئی از خود بلا وجہ مسکرانے لگتا ۔۔۔ وہاں کا
ماحول دیکھ کر خوش ہو جاتا۔
ڈاکٹر ذیشان ہمیشہ سفید رنگ کے کپڑے پہنتے تھے اور ان کا سارا اسٹاف بھی۔۔۔
جب بھی کوئی خاص قسم کی مشق کرنی ہوتی تو ہم سب کو بھی سفید رنگ کے کپڑے ہی
پہنائے جاتے۔
ڈا اکٹر ذیشان ہم سب کو یوگا اور بریدنگ ایکسرسائز کروا کے فارغ ہو چکے
تھے۔
’’آج ہم ایک خاص مشق کریں گے۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے کہا۔
’’ذولقرنین! آپ آگے آ جائیں۔‘‘ میں ان کی بات سن کر اٹھا اور آگے آ گیا۔ وہ
ایک چھوٹے سے اسٹیج پر بیٹھتے تھے۔ جس کی لمبائی، چوڑائی اور اونچائی کسی
چارپائی سے ذیادہ نہ تھی۔ وہ اسٹیج بھی پورا سفید رنگ کا تھا۔ انہوں نے
مجھے ہاتھ کے اشارے سے اپنے ساتھ اوپر اسٹیج پر بیٹھنے کا کہا۔ باقی تمام
افراد نیچے زمین پر میٹ بچھائے بیٹھے تھے۔
’’میں آپ سے ایک سوال پوچھوں گا اور آپ کو اس کا جواب دینا ہے۔ میں بار بار
وہی سوال آپ سے پوچھتا رہوں گا۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان بولے۔
’’بار بار ایک ہی سوال ؟؟؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’جی!‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے مسکرا کر جواب دیا۔ میں بھی ’’اچھا‘‘ کہہ کر چپ ہو
گیا۔ سب ہماری طرف متوجہ ہو گئے۔
’’تم کون ہو؟‘‘ یہ سوال تو بہت آسان تھا۔
’’ا م م ۔۔۔میں ذولقرنین ہوں۔‘‘ میں نے مسکرا کر سیدھا سا جواب دے دیا۔
’’وہ تو تمہارا نام ہے۔ تم کون ہو؟‘‘ مجھے ڈاکٹر ذیشان سے اس جواب کی توقع
نہ تھی۔ میں کچھ کنفیوز ہو گیا۔
’’تم کون ہو؟‘‘ انہوں نے پھر پوچھا۔
’’ام م م۔۔۔ میں ایک آدمی ہوں۔‘‘ میں نے پھر کہا۔
’’وہ تو اور بھی بہت سے آدمی ہیں۔ تم کون ہو؟‘‘ وہ پھر بولے۔
’’ میں ایک لڑکا ہوں۔‘‘
’’وہ تو تمہاری جنس ہے۔ تم کون ہو؟‘‘
’’۔۔۔ ا م م م۔۔۔ میں بزنس کرتا ہوں۔ میں بزنس مین ہوں۔‘‘ میں پھر بولا۔
’’وہ تو تمہارا پیشہ ہے ۔ تم کون ہو؟‘‘ انہوں نے پھر وہی سوال کر دیا۔
’’ میں یہ۔۔۔ میں میرے ہاتھ پاؤں وغیرہ ہوں۔‘‘ مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا
تھا کہ میں اب کیا کہوں۔
’’وہ تو تمہارے اعضاء ہیں۔ تم کون ہو؟‘‘ انہوں نے تجسس سے پوچھا۔
’’آآ۔۔۔‘‘ مجھے اور کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا۔’’ ا م م م۔۔۔ میں میرا
دماغ ہوں۔ میری سوچ۔۔۔‘‘
’’او ہو۔۔۔ وہ تو تمہارا دماغ ہے۔ تمہاری سوچ ہے۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے یوں کہا
جیسے نا امید ہو گئے ہوں۔’’آخر تم کون ہو؟؟؟‘‘ انہوں نے اس بار اپنے سوال
کے ساتھ لفظ ’’آخر‘‘ بھی لگا دیا۔
’’اف۔۔۔ پتا نہیں میں کون ہوں۔۔۔‘‘ میں بیزار ہو کر بولا۔
’’تم کچھ نہیں ہو۔۔۔ تم کچھ نہیں چاہتے ۔۔۔ تم کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘ ڈاکٹر
ذیشان نے جیسے کوئی نعرہ مارا اور اپنے جگہ سے اٹھ کر سب کو مخاطب کر کے
بار بار یہی الفا ظ دہرانے لگے۔
’’تم کچھ نہیں ہو۔۔۔ تم کچھ نہیں چاہتے ۔۔۔ تم کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘
سب آنکھیں بند کر لیں اور اپنے آپ سے کہیں ۔’’ میں کچھ نہیں ہوں ۔۔۔ میں
کچھ نہیں چاہتا ۔۔۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘
’ میں کچھ نہیں ہوں ۔۔۔ میں کچھ نہیں چاہتا ۔۔۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘
میں نے اپنی آنکھیں بند کیں اور خود سے کہا۔ ’ میں کچھ نہیں ہوں ۔۔۔ میں
کچھ نہیں چاہتا ۔۔۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘’’ میں کچھ نہیں ہوں ۔۔۔ میں
کچھ نہیں چاہتا ۔۔۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘’’ میں کچھ نہیں ہوں ۔۔۔ میں
کچھ نہیں چاہتا ۔۔۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘ ہم سب یہی ورد کرنے لگے۔ ایک
عجیب عجزو انکساری کا احساس میرے دل میں ودیئت ہونے لگا۔ اپنی ہستی نابود
اور ہیچ سی لگنے لگی۔
’’تم کچھ نہیں ہو ۔۔۔تم سب تو بس کسی کا خیال ہو۔۔۔ کسی کا ارادہ ہو۔۔۔
خالقِ کائنات کا ارادہ۔۔۔‘‘
’’ تم کچھ نہیں چاہتے ۔۔۔ تم کچھ چا ہ ہی نہیں سکتے الا یہ کہ اللہ
چاہے۔۔۔‘‘ سورۃ الانسان ۔آیت ۳۰
’’ تم کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔ اللہ ہی نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تمہارے
اعمال کو بھی۔۔۔‘‘ سورۃ الصافات ۔ آیت ۹۶
’’میں‘‘ یعنی ’’انا‘‘۔اس دن اپنی ’’انا‘‘ کو ’’فنا‘‘ کرنے کا نسخہ ہمارے
ہاتھ آ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
مجدی بالکل فٹ اینڈ اسمارٹ ہو گیا تھا۔ پہلے وہ سلم سا تھا۔ مگر اب طاقتور
اور وجیہہ جوان بن گیا تھا۔ باقائدگی سے جم جانا اور اپنی صحت کا خاص خیال
رکھنا۔۔۔ اس کے لئے بہت اہم تھا۔ اب تو اس نے ایک مہنگے مین بیوٹی صالون
میں بھی آنا جانا شروع کر دیا تھا۔ وہ جو موٹی موٹی بھنویں تھی۔۔۔ تھریڈنگ
کروا کے اس نے سیٹ کروا لیں تھیں۔ دن کو سن بلاک لگانا اور رات کو اسکن
بلیچ کریم لگا کر سونا اس کا معمول تھا۔ اب وہ بھی ویسا ہی نظر آنے لگا تھا
جیسے اس کے ساتھ کام کرنے والے تمام کالیگز تھے۔ ہشاش بشاش۔۔۔ تر و تازہ۔۔۔
گوری چٹی چمکدار رنگت والے۔۔۔ فٹ ا ینڈ اسمارٹ لوگ۔۔۔
مجدی نے اپنا رہن سہن بھی بہت خوب بدلا تھا۔ اب وہ بس انگلش ہی بولتا تھا۔
بس کبھی کبھی اردو میں کچھ فرما دیا تو فرما دیا۔۔۔ دلاور کے دوستوں سے بھی
اس نے علیک سلیک کر لی تھی۔ لہذا ہائی سوسائٹی میں کیسے اٹھنا بیٹھنا ہے۔۔۔
وہاں کے کیا اسٹینڈرز اور اسٹائل ہیں ۔۔۔وہ سب کاپی کرچکا تھا۔
۔۔۔اور آخری چیز گاڑی خریدنا اور مہنگا موبائیل پکڑنا تھا۔ موبائیل تو اس
نے کئی روز پہلے ہی لے لیا تھا اور آج اسے بینک سے گاڑی بھی مل گئی تھی۔
اتنا ہی نہیں چند ہی روز میں اس کا ارادہ ایک بہترین رولیکس واچ خریدنے کا
بھی تھا۔
’’ویل ڈن مجدی! آئی ایم رئیلی امپریسڈ۔۔۔‘‘ مجدی کے باس مسٹر پرویز نے اس
کے کاندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا۔ آج اس نے اپنی نائٹ شفٹ میں سب کو
چاکلیٹس کھلائیں تھیں۔ سب نے شوق سے اس کی نئی نویلی گاڑی دیکھی۔ ریڈ کلر
کی یہ گاڑی بڑی دلکش اور چمکدار تھی۔
مسٹر پرویز نے مجدی کو اپنی شخصیت کے ان ہی تین پہلوؤں پر کام کرنے کی
ہدایات دیں تھیں۔ اول اپنی ظاہری حالت کو خوب سے خوب تر کرنا۔۔۔ دوم اپنا
رہن سہن بدل کر برگر قسم کے لوگوں کی طرح ہو جانا۔۔۔ اور سوم یہ کہ نمود
ونمائش کی چیزوں جیسے گاڑی بنگلہ ، موبائیل ، برینڈڈ کپڑوں وغیرہ کا پورا
پوراخیال رکھنا۔
وہ لوگ چاہنے تھے کہ جو کوئی بھی وہاں کام کرے اس کی شخصیت ایسی پر کشش و
تابناک ہو کہ ہر کوئی دیکھنے والا اس جیسا ہو جانے کی حسرت کرے۔ اسے رشک کی
نگاہ سے دیکھے اور سوچے کہ کاش وہ بھی ویسا ہی ہو جائے۔
ان کا کام ہی کچھ ایسا تھا۔
اس دن اس کی ٹریننگ کا بھی آخری دن تھا۔ ہر روز اسے ایک پریزنٹیشن اٹینڈ
کرنا ہوتی ۔ اسی طرح کئی بار پاکستان کے باہر سے آن لائن لائیو سیشن
ہوتے۔وہ بڑی دلجمئی اور ذوق و شوق سے تمام معاملات کو سمجھتا۔ اس کے علاوہ
اسے پڑھنے کے لئے بہت سی بک لٹس اور دوسرا لٹریچر بھی دیا گیا تھا۔
ان کا اسی فیصد کام آن لانن ہی ہوتا کیونکہ آج کل کے دور میں بندے کی آن
لائن سرگرمیاں ہر قسم کی اسکروٹنی سے محفوظ ہوتی ہیں۔ لوگ آن لائن کچھ بھی
بہت آسانی سے کہہ سکتے ہیں اور کر سکتے ہیں ۔ کسی مخالف کی گرفت میں آنے کا
کسی کو کوئی خوف نہیں ہوتا۔ ذیادہ سے ذیادہ آن لائن ہی کوئی بحث و مباحثہ
طول پکڑ جاتا ہے۔ بات ذیادہ آگے بڑھے تو لوگ آپے سے باہر ہو کر گالم گلوچ
تک پہنچ جاتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کوئی کسی کو آن لائن ہاتھ تو نہیں لگا سکتا
نا۔۔۔ اسی طرح آن لائن سرگرمیوں میں اپنی اصل شناخت کو پوشیدہ رکھنا بھی
بہت آسان کام ہے۔ کوئی چاہے تو اپنی ہزاروں جھوٹی آئی ڈیز بنا کر کئی لوگوں
کو بیوقوف بنا سکتا ہے یا کوئی بھی قابلِ اعتراز حرکت با آسانی چھپ کر کر
سکتا ہے۔
ان لوگوں کے لئے بھی اپنی اصل شناخت کو پوشیدہ رکھنا بہت ضروری تھا۔ لہذا
ان کا بیشتر کام انٹر نیٹ کے ذریعے ہی ہوتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
ہر روز ہی گھر کا کوئی نہ کوئی فرد مجھ سے ملاقات کے لئے آتا تھا۔ اب تو
مجھے بھی ’’روشن ‘‘ میں ایڈمٹ ہوئے کئی دن گزر چکے تھے۔ میرا بہت اچھا علاج
ہو رہا تھا۔ ہر طرح سے میرا خیال رکھا جاتا۔ سچ بتاؤں تو میں اس ماحول میں
ایسا گھل مل گیا تھا کہ وہی اپنا گھر لگنے لگا تھا۔ باہر دنیا میں واپس
جانے کے خیال ہی سے ڈر لگاتا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں کسی جنت میں رہ
رہا ہوں۔۔۔ دنیا میں نہیں۔۔۔ اور دنیا میں واپس جاتے ساتھ ہی وہاں کے غم
والم مجھے پھر دبوچ لیں گے۔ میری یہی سوچ اس بات کی نشانی تھی کہ ابھی میرا
علاج مکمل نہیں ہوا۔ کیونکہ حقیقت میں تو ہمیں اس دنیا کے لئے تیار کیا
جانا تھا۔ یہاں رہنے کا ڈھنگ سکھایا جانا تھا۔ یہاں کے سرد و غم سے نبرد
آزما ہونے کی ہمت اور طاقت پیدا کی جانی تھی اور سب سے بڑھ کر ہمیں یہ سبق
دیا جانا تھا کہ ہم پر جو بیتا سو بیتا اب ہمیں اپنے جیسے پریشان حال لوگوں
کا دکھ درود بانٹنا ہے ۔ جس خدمتِ خلق کے جذبے کے تحت ہمیں ہماری بد حالی
سے نجات دلائی جا رہی ہے۔۔۔ صحت یاب ہو کر ہمیں بھی دوسروں کی خوشیوں کو
یوں ہی بحال کرنا ہے۔
میں ’’روشن‘‘ میں سوئمنگ پول کے کنارے بیٹھا ٹھنڈی ہوا کا لطف لے رہا تھا۔
پاس ہی میں ایک مصنوعی آبشار بنائی گئی تھی۔ تیز ہوا کے رخ پر بنی آبشار سے
پانی کی ننھی ننھی بوندیں اڑتیں اور میرے چہرے کو چھو کر جذب ہو جاتیں۔ بڑا
فرحت بخش اور دلفریب احساس تھا۔ میرے آس پاس کچھ اور مریض بھی بیٹھے اسی
سما کا لطف اٹھا رہے تھے۔ ہم سب کے چہروں پر بے اختیار ایک بڑی سی مسکراہٹ
پھیلی ہوئی تھی۔
’’واہ بھئی بڑا انجوائے کر رہے ہو۔۔۔‘‘ یکایک پیچھے سے کسی کی آواز آئی۔
میں چونک کر پیچھے مڑا تو مجدی اور اپنے بھائی اسد کو پاس آتے پایا۔ میں
چہک کر کھڑا ہو گیا۔ مانا یہاں سب کچھ تھا ۔ مگر کوئی اپنا ۔۔۔ کوئی سگا
نہیں تھا۔ مجدی اور اسد کو دیکھتے ہی میرا دل باغ باغ ہو گیا۔ میں آگے بڑھ
کر دونوں کے گلے ملا اور دونوں کا حال چال پوچھا۔
’’ ہم بالکل ٹھیک ہیں بھائی ۔۔۔ آپ بتائیں؟؟؟‘‘ اسد نے میری خیریت دریافت
کی۔
’’الحمد للہ! میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ بیٹھو۔۔۔‘‘ میں نے انہیں وہیں قریب
رکھے بینچز پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میری کیفیت اب بالکل بدل چکی تھی۔ وہ
جو مرجھایا مرجھایا اور چپ چاپ رہنے کی بیماری مجھے لگ گئی تھی۔ اس میں بے
حد افاقہ ہو چکا تھا۔ میں نارمل بات کر رہا تھا۔ بھول ہی گیا تھا کہ میں
کسی صدمے سے گزرا ہوں۔ ڈاکٹر ذیشان نے کچھ اس طرح کا ٹریٹمنت کیا تھا کہ
میرے لئے کسی بھی گزرے ہوئے ناخوشگوار واقعے کو یاد کرنا صرف مشکل ہی نہیں
نا ممکن سا ہورہا تھا۔ جیسے میں چاہ کر بھی اپنے تلخ تجربات کو یاد نہیں کر
پاؤں گا۔ جب کہ ایک وقت وہ تھا کہ میں ہر دم منفی خیالات کی زد میں رہتا
تھا۔ شیطانی وسوسے ہر وقت حاوی رہتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ وسوسوں مجھے خودکشی
پر اکسانے لگے تھے۔ شیطان تو ایسے ہی آسان اہداف، سافٹ ٹارگٹس کی تلاش میں
رہتا ہے۔ کسی کے ساتھ کوئی ظلم ہو گیا ہو، نا انصافی ہوئی ہو،کوئی دکھ ملا
ہو، کسی صدمے کی وجہ سے انسان جذباتی طور پر کمزور ہو۔۔۔ ایسے بے چارے
لوگوں پر وہ اپنا پورا زور لگاتا ہے ۔ تا کہ کوئی غلط عمل ان سے آسانی سے
کروا کر ان کا ایمان ضائع کروا دے۔
’’۔۔۔ گھر والے سب کیسے ہیں؟؟؟‘‘ میں نے اسد کو مخاطب کر کے پوچھا۔
’’۔۔۔ اور دلاور صاحب کہاں ہیں؟؟؟‘‘ میں نے ساتھ ہی مجدی سے دلاور کی خیر
خبر لی۔ وہ صرف ایک بار مجھے دیکھنے آیا تھا۔ پھر دوبارہ کبھی چکر نہیں
لگایا۔ مگر اس کی مطلبی طبیعت سے تو ہم سب آگاہ ہی تھے۔ اس لئے کوئی اس سے
ایسی کوئی اچھی امید لگاتا ہی نہیں تھا۔
’’دلاور صاحب مزے کر رہے ہیں بھائی۔۔۔‘‘ مجدی ہنستے ہوئے بولا۔ ’’آج کل کسی
کے ساتھ لاس ویگاس گئے ہوئے ہیں!‘‘
’’اچھا!!! ویگاس گیا ہوا ہے وہ۔۔۔‘‘ میں نے آنکھیں پھاڑ کر حیرانی سے
پوچھا۔
’’یَس۔۔۔‘‘ مجدی بولا۔
’’تو تم بھی چلے جاتے ۔۔۔‘‘ میں نے یوں ہی کہہ دیا اور ہنسنے لگا۔
ہم اسی طرح کوئی گھنٹہ بھر بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ کبھی یہاں
ٹہلتے کبھی وہاں۔۔۔ سب ہی کو ’روشن‘ سے بہت دلچسپی تھی۔ یہ تھی ہی بہت پر
کشش اور انو کھی جگہ۔۔۔ میں سب کو ’روشن‘ کی مختلف راہ داریوں ، ہالز اور
باغوں کی سیر کراتا۔ سب دلچسپی سے پر جگہ پھرتے اور اَش اَش کر اٹھتے۔۔۔
ملاقات کا وقت ختم ہو گیا تھا۔ میں مجدی اور اسد کو ان کی گاڑی تک چھوڑنے
جا رہا تھا۔
’’کہاں ہے گاڑی؟؟؟‘‘ مجھے کہیں اسد کی گاڑی نظر نہ آئی۔
’’ارے! آج تو ہم مجدی بھائی کے ساتھ آئیں ہیں۔۔۔‘‘ اسد نے جوشیلے انداز میں
کہا۔ میں بھی حیران رہ گیا۔ مجدی نے گاڑی کی چابی کا بٹن دبا کر اسے دور ہی
سے اَن لاک کیا۔ ایک لمحے کو اس کی گاڑی کی ساری لائٹس آن ہو کر آف ہو
گئیں۔
’’واہ! ‘‘ میرے منہ سے خوشی سے نکلا۔
’’تم نے گاڑی لے لی۔۔۔!‘‘ میں خوش بھی تھا اور حیران بھی۔ کیونکہ ابھی چند
ہی ماہ پہلے تک تو مجدی کی نوبت ادھا رتک پہنچ گئی تھی۔ اسی معاشی تنگ دستی
کی رجہ سے ہی تو اس کی منگنی بھی ٹوٹ گئی تھی۔ اور اب اس کے پاس ایک نئی
گاڑی تھی۔ میں بڑا حیران ہو گیا۔
مجدی نے میرے سوال کا کوئی تفصیلی جواب نہ دیا۔ بس زور لگا کے مسکرایا۔
’’ہیں۔۔۔ کب لی تم نے گاڑی؟ تمہاری ہے؟؟؟‘‘ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔ مجھے
یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ گاڑی اس کی ہے۔
’’بس ابھی ہی لی ہے۔۔۔ کچھ دنوں پہلے۔۔۔‘‘ مجدی نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
’’واؤ! امیزنگ!‘‘ میں خوش بھی تھا اور حیران بھی۔
’’پوچھتا ہوں تم سے۔۔۔ آنے دومجھے باہر۔۔۔‘‘ مجدی اور اسد بھی ہنسنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔
میں ’’روشن‘‘ میں گارڈن میں بیٹھا باغبانی کر رہا تھا۔ کبھی ایک پودے میں
ہاتھ مارتا کبھی دوسرے میں۔۔۔ ہم سب کو روز کوئی نہ کوئی اچھا کام کرنے کی
ہدایت دی گئی تھی۔ کوئی بھی اچھا کام۔۔۔
کسی نے روز کسی کو کھانا پکا کر کھلانے کا کام اپنے ذمے لیا۔
کسی نے کہا کہ وہ دوسروں کے کمروں کی صفائی میں مدد کرے گا۔
ایک بندے کو اچھا گانا گانا آتا تھا ۔ اس نے لوگوں کو گانا سکھانا شروع کر
دیا ۔
کسی نے سوچا کہ وہ بوڑھے مریضوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کیا کرے گا کیونکہ
وہ عموعاََ اکیلے اکیلے رہتے تھے۔
۔۔۔اور میں نے طے کیا کہ میں روز ایک پھولوں کا گلدستہ اپنے ہاتھوں سے بنا
کر کسی نا کسی کو ’’روشن‘‘ میں پیش کیا کروں گا۔
میرے ہاتھوں میں گلاب کے پھولوں کی چار پانچ ٹہنیاں تھیں۔ مجھے گلاب ویسے
ہی بہت پسند تھے۔ بڑی محنت سے میں نے گلاب کی ٹہنیوں پر سے کانٹے اتارکر ان
کا ایک چھوٹا سا گلدستہ بنا یا تھا۔میں نے ایک اور ٹہنی توڑنی چاہی تو اس
کا ایک کانٹا میری انگلی کے پوروں میں چبھ گیا۔ میں نے جھٹ سے اپنا ہاتھ
پیچھے کیا اور غصے سے اس ٹہنی کو دیکھا۔ میری انگلی کے پور میں سے ایک ننھا
سا لال رنگ کا قطرہ ابھر آیا ۔ کتنا خوبصورت اور چمکدار تھا وہ رنگ۔۔۔ ایک
ہلکی سی گدگدی میرے اندر پیدا ہو گئی۔ میں مسکرا کر وہیں گلاب کے پودے کے
پاس بیٹھ گیا اور گلاب کے پھول کو ناک کے قریب کر لیا۔
کیسا عجیب اثر تھا ’’روشن‘‘ کا۔۔۔ اب مجھے اپنی چوٹ بھی اچھی لگنے لگی تھی۔
خون کا قطرہ بھی قدرت کا ایک شاہکار نظر آ رہا تھا۔ ہلکا سا درد گدگدی کی
مانند ہو گیاتھا۔ میں خود ہی خود مسکرانے لگا۔
میں نے وہ ٹہنی نہیں توڑی۔ کچھ دوسرے پیارے پیارے پتے لے کر گلدستہ مکمل
کیا اور وہاں سے اٹھ کر کسی کو گلدستہ پیش کرنے چل پڑا۔
وہیں پاس ایک درخت سے لٹکے جھولے پر ایک لڑکی جھولا جھول رہی تھی۔ میں خوشی
خوشی اس کے قریب جانے لگا کو آج اسے گلدستہ پیش کروں گا۔
’’السلام علیکم!‘‘ میں نے اس کم عمر لڑکی کے پاس پہنچ کر سلام کیا۔ وہ کوئی
بیس بائیس سال کی لڑکی ہوگی۔ پتلی دبلی سی۔۔۔ کمزور سی ۔۔۔ اس نے سفید رنگ
کا شلوار قمیض سوٹ پہن رکھا تھا اور پیلا دوپٹہ گلے میں ڈالا ہوا تھا۔
جھولا جھولتے ہوئے جب اس کا دوپٹہ لہراتا تو کوئی فلمی سین ذہن میں اجاگر
ہو جاتا۔
میری آواز سنتے ہی اس نے جھولا جھولنا بند کیا اور مجھے سلام کا جواب دیا۔
’’یہ میری طرف سے گلدستہ قبول کیجئیے۔۔۔ میں نے ہر روز ایک گلدستہ کسی نہ
کسی کو دینے کا اچھا کام اپنے ذمے لیا ہے۔‘‘
’’آہ!‘‘ وہ لڑکی خوش ہو گئی۔ گلدستے میں لگے لال سرخ گلاب دیکھ کر وہ کھل
اٹھی۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر مجھ سے گلدستہ لیا اور شکریہ ادا کیا۔ میں
بھی اسے دیکھ کر مسکرانے لگا۔
’’کیا نام ہے آپ کا؟؟؟‘‘ اس نے پوچھا اور گلابوں کی مہک سونگنے لگی۔
’’ذولقرنین۔۔۔ اور آپ کا؟؟؟‘‘
’’سمینہ‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔
ہم سب ہال میں اپنے اپنے یوگا میٹس پر چونکڑا مار کر بیٹھے تھے۔ سامنے
ڈاکٹر ذیشان ہمیں کچھ نصیحتیں کر رہے تھے۔
’’انسان یا تو اپنے ماضی کے بارے میں سو چ سوچ کر کڑھتا رہتا ہے ۔ یا پھر
اپنے مستقبل کی پلاننگ کرتا رہتا ہے۔ اور جس حال میں وہ جی رہا ہوتا ہے اس
پر اس کی سب سے کم توجہ ہوتی ہے۔ جبکہ ہمیشہ یاد رکھئیے گا کہ ’’خوشی‘‘ آپ
کے حال میں ہے۔‘‘
’’خوشی نہ ہی ماضی میں ملے گی۔۔۔ کہ وہ تو گزر گیااور نہ ہی مستقبل میں۔۔۔
کیونکہ کل کا تو کچھ پتا نہیں ،ہم ہوں بھی کہ نہ ہوں۔‘‘
’’صحیح؟؟؟‘‘ ہم سب نے ڈاکٹر ذیشان کی بات سن کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’آپ کے ماضی میں جو کچھ ہو گیا سو ہو گیا۔ نہ ہی اسے بدلا جا سکتا ہے نہ
ہی اسے روکا جا سکتاہے۔ جو کچھ ہوا جانے دو۔۔۔ اب اپنے حال میں جیو۔ اسی
میں رہو۔۔۔ اسے انجوائے کرو۔۔۔ اپنے حال کا ایک ایک لمحہ بہتر سے بہتر
طریقے سے گزارو۔‘‘
’’اسی طرح جو لوگ اپنے مستقبل کی بے پناہ تیاریاں کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی کے
بارے میں ضرورت سے ذیادہ پریشان رہتے ہیں۔پلاننگز، چکر بازیاں، چالاکیاں
۔۔۔ یعنی اپنے مستقبل میں ہی گم رہتے ہیں۔ وہ بھی کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔
کیونکہ مستقبل میں کیا ہونا ہے کسی کو نہیں پتا۔۔۔ آپ اپنی ہزار پلاننگز
کرتے رہیں۔۔۔ مگر۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے رکے۔
’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے
خدا کو پہچانا۔‘‘
’’آپ کے ارادے ،آپ کی منصوبہ بندی سب دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ ہوتا وہی ہے
جو خدا چاہتا ہے۔۔۔‘‘
’’کبھی کسی بچے کو آئس کریم کھاتے ہوئے دیکھا ہے؟؟؟‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے اچانک
پوچھ لیا۔ سب ہی نے بچوں کو کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے دیکھا تھا۔ سب نے اثبات
میں سر ہلا دیا۔
’’کس طرح ایک بچہ دنیا و مافیا سے بے خبر تمام تر توجہ اپنی آئس کریم کھانے
پر صرف کئے ہوتا ہے۔ بچہ نہ ماضی کا سوچتا ہے نہ مستقبل کا۔۔۔ اور یہی
مخلوق سب سے ذیادہ خوش مطمیئن اور پر سکون ہوتی ہے۔ بس اسی طرح جینا ہے۔
تمام تر توجہ اس چیزپر مرکوز کر کے جو آپ ابھی کر رہے ہیں۔ نہ پیچھے کے
بارے میں کچھ سوچو نہ آگے کے بارے میں۔۔۔ اپنے حال میں جیو۔۔۔ صرف اور صرف
اسی میں خوشی ہے۔‘‘
پھر ڈاکٹر ذیشان نے ایک ٹوکری اٹھائی جس میں بہت سی گہری سرخ رنگ کی چیریز
اور انگور رکھے تھے۔ وہ آگے بڑھے اور ہم سب کے سامنے آ کر ایک ایک چیری یا
انگور اٹھانے کو کہا۔ ہم سب نیچے یوگا میٹ پر چونکڑا مارے بیٹھے تھے۔ میں
نے بھی ایک چیری اٹھائی اور اسے منہ میں ڈالنے لگا۔
’’آ ۔۔۔آ۔۔۔ رکیں ابھی کھانی نہیں ہے۔‘‘ میں مسکرا کر رک گیا اور حیرت سے
ڈاکٹر ذیشان کو دیکھنے لگا کہ جانے اب کیا ہونے والا ہے۔
ڈاکٹر ذیشان سب کے ہاتھ میں ایک ایک چیری پکڑا کر واپس اپنی جگہ پر آئے۔
’’اب آنکھیں بند کر کے۔۔۔ پوری توجہ سے۔۔۔ آہستہ آہستہ۔۔۔ اس ایک چیری کو
مزے لے لے کر کھائیں۔‘‘
میں نے آنکھیں بند کیں اور جو چیری میرے ہاتھ میں تھی اسے منہ میں ڈال
لیا۔دانتوں سے چیری کو پیستے ہی ایک رس کی دھار سے منہ بھر گیا۔ کتنی خوش
ذائقہ تھی وہ چیری ۔ میں بہت اطمینان سے اس رس کے ذائقے کا مزہ لینے لگا۔
پھر کچھ رک کر اسے اپنے حلق سے نیچے اتار لیا۔ اب میں نے دوسرا چکھ بھرا
۔۔۔ اب تو لگا جیسے لطف دوبالا ہو گیا ہو۔ مجھے تو کبھی پتا ہی نہیں تھا کہ
ایک چیری اتنی مزیدار ہوتی ہے۔ میرا منہ ایک بار پھر چیری کے جوس سے بھر
گیا۔ مجھے بہت اچھا لگنے لگا۔ ایک ایکسائٹمنٹ سی ہونے لگی محض ایک چیری
کھانے پر۔۔۔ میں آنکھیں بند کئے آہستہ آہستہ چیری کو چبا رہا تھا۔ یوں لگ
رہا تھا جیسے وہ ختم ہی نہیں ہو رہی۔ میں نے چیری کے گودے کو اس کی گٹھلی
سے الگ کیا۔ اور اسے اپنے دانتوں سے پیسنے لگا۔ ہلکی سی لالی میرے ہونٹوں
پر نمودار ہو گئی۔ میں نے اپنے ہونٹوں کو ہلکا سا چاٹ لیا۔
بڑے نا ز اور اہتمام سے۔۔۔ اچھی طرح وقت لگا کر۔۔۔ میں نے وہ چیری تمام کی۔
اب مجھے پتا چلا کہ اگر انسان چاہے تو کس طرح چھوٹی چھوٹی چیزوں کو انجوائے
کر سکتا ہے۔ اس سادے سے تجربے سے پہلے تو میں انگوروں کی مٹھی بھرتا تھا
اور پیٹ میں ٹھونس لیتا تھا ۔ کبھی اس طرح پھلوں کے حقیقی مزے کو میں نے
آشکار کیا ہی نہ تھا۔ اس دن ہم سب کو سبق مل گیا کہ واقعی اگر ہم پوری
دلجمئی اورپوری توجہ صرف کر کے کوئی بھی کام کریں تو ہم چھوٹی سے چھوٹی
چیزوں سے بھی کس قدر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
’’آیا مزہ؟؟؟‘‘ ڈاکٹر ذیشان چہک کر بولے۔ ہم سب خوشی سے انہیں تکنے لگے۔
’’ایک اور دے دیں سر!!!‘‘ کسی نے مذاق میں ایک اور چیری مانگی اور سب ہنسنے
لگے۔
’’کہنے کو تو بہت آسان ہے کہ ہر کام پر پوری توجہ دومگر کرنے کونہیں۔۔۔ ‘‘
ڈاکٹر ذیشان نے مزید بات کی۔
’’آج میں آپ کو بتاؤں گا کہ یہ ہو گا کیسے!!!‘‘ سب تجسس سے ڈاکٹر ذیشان کا
چہرہ تکنے لگے کہ جانے کیا بتائیں گے۔
’’تمام افراد اپنی اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اور اپنی اپنی توجہ اپنی سانس
پر مرکوز کر لیں۔۔۔ سانس لینے کی آواز آ رہی ہے نا؟؟؟‘‘ ہم سب نے اپنی اپنی
آنکھیں بند کر لیں اور گہرے گہرے سانس لینے لگے۔ ہال میں سناٹا چھا گیا۔ اب
ہمیں اپنی اپنی سانسوں کے اندر اور باہر جانے کی آواز سنائی دینے لگی۔
’’بس پوری توجہ اپنی سانس پر مرکوز کر لو۔ ‘‘
’’پوری توجہ کے ساتھ اپنی سانس کو اندر داخل کرو اور پھر باہر نکالو۔ اسے
اپنے اندر اترتا اور پھر باہر نکلتا محسوس کرو۔ ناک سے سانس لو اور ناک ہی
سے باہر نکالو۔‘‘
چند منٹ تک ہم سب خاموشی سے یہ مشق کرتے رہے ۔
’’اگر کوئی خیال ذہن میں ابھر رہا ہے تو اسے نرمی سے کسی بادل کی طرح سرکنے
دو۔۔۔ کہ وہ خیال آیا اور نرمی سے گزر گیا۔ اور پھر سانس پر توجہ کر لو۔‘‘
’’قرآن مجید کی آیت ہے کہ زمین اور آسمان کی ہر شے اللہ کی تسبیح بیان کر
رہی ہے۔ تو پھر آپ کی اپنی ذات بھی کر رہی ہو گی!!! آپ کے جسم کا پور پور
اللہ کا نام لے رہا ہے۔ تصور کریں کہ آپ اپنی سانس کے ساتھ اللہ اللہ کا
ورد کر رہے ہیں۔‘‘
’’ناک سے سانس اندر لیں ۔۔۔ گہرا سانس۔۔۔اور اللہ کہتے ہوئے منہ سے نکال
دیں۔‘‘
’’ ایک دوسرا طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ تصور کریں کے آپ کا دل دھڑک نہیں رہا
بلکہ اللہ اللہ کی صدا لگا رہا ہے۔ اپنی توجہ دل کی دھڑکن پر مرکوز کریں
اور اسے کہتا ہوا سنیں اللہ اللہ اللہ۔۔۔‘‘
ہم سب کسی اور ہی دنیا میں چلے گئے تھے۔ تھوڑی سی دیر کی مشق کے ساتھ ہی
ہماری توجہ ہماری سانس یا دل کی دھٹکن پر مر کوز ہو گئی تھی۔ہم کوئی پندرہ
منٹ تک یہی مشق کرتے رہے۔ مجھے ایک انجانا سا بجلی کا سا احساس اپنی
انگلیوں کے پوروں میں محسوس ہونے لگا ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے جسم سے ہلکی
ہلکی سی بجلی خارج ہو رہی ہو۔
’’اگر کوئی لیٹنا چاہتا ہے تو لیٹ جائے اور اپنے دل کی دھڑکن یا سانس کو
اللہ کی تسبیح بیان کرتا ہوا سنتا رہے۔‘‘
کچھ دیر اور گزری تو ڈاکٹر ذیشان نے ہم سب کو آہستگی سے اپنی آنکھیں کھول
لینے کی ہدایت دی۔ ہم سب نے آنکھیں کھول لیں۔ از خود ہی ہم سب کے چہروں پر
ایک مسکراہٹ پھیل گئی۔ ڈاکٹر ذیشان بھی سامنے چونکڑا مارے بیٹھے مسکرا رہے
تھے۔
’’اسے کہتے ہیں مراقبہ۔۔۔ اور یہ راز ہے اپنے حال میں جینے کا۔۔۔‘‘
’’جو جتنا ذیادہ مراقبہ کرے گا اسے خود پر اتنا ہی کنٹرول حاصل ہو گا۔ اس
کی سوچ اس کے قابو میں رہے گی۔ اس کے جزبات کہیں نہیں بہکیں گے۔ کوئی آپ کو
اشتعال نہیں دلا سکے گا۔‘‘
’’ ایک بہت آسان طریقہ ہے کہ اس مشق کو اپنی نمازوں میں شامل کر لیں۔ نماز
پڑھتے رہیں۔ساتھ ساتھ آنکھیں بند کر کے گہرے گہرے سانس لیتے رہیں۔ اس طرح
خود با خود دن میں پانچ مرتبہ مراقبہ ہو جائے گا اور آپ کے سب مسئلے
دور۔۔۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان کے چہرے پر بڑی سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔
’’یہ جو شکایت رہتی ہے نا نماز میں وسوسے آنے کی سب ختم ہو جائے گی!!!‘‘
اس دن ایسا لگا جیسے ڈاکٹر ذیشان نے کوئی بہت بڑا راز ہم پر کھول دیا ہو۔
ہم سب لوگ وہاں نماز تو پڑھتے ہی تھے۔ اس مشق کو نماز کے ساتھ ملانے سے
واقعی مجھ پر اس قدر سکون اور اطمینان کی کیفیت طاری ہو جاتی کہ بیان سے
باہر ہے۔ میں روز پانچوں نمازوں میں بھی اور اس کے علاوہ بھی فجر کی نماز
کے بعد مراقبہ کرنے لگا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ میں بہتر سے بہتر ہوتا جا رہا
تھا۔ ایک انرجی سی مجھ میں آنے لگی۔ ایک جوش و خروش مجھ میں بھرنے لگا تھا۔
نا جانے کہاں سے مجھ میں بھی ڈاکٹر ذیشان کی طرح کچھ بہت اچھا۔۔۔ کچھ اپنی
ذات کو پرے رکھ کر ۔۔۔ کچھ دوسروں کے لئے کرنے کا جزبہ ابھرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’میرا نام وسیم ہے اور میرے بھائی کا نام سلیم۔۔۔‘‘
’’ہم دونوں جڑواں پیدا ہوئے تھے۔ سلیم مجھ سے دِکھنے میں بھی اچھا تھا اور
بچپن سے ہی سلیم پڑھائی میں بھی بہت تیز تھا اور مجھے ہر کوئی ’نا لائق‘
کہہ کر پکارتا تھا۔‘‘
اس دن پھر ہمارا ’’آپ بیتی‘‘ سیشن تھا۔ میں وسیم کے سامنے بیٹھا اس کی
کہانی سن رہا تھا۔ وہ کوئی ستائس سال کا جوان شخص تھا۔ ارد گرد بیٹھے تمام
افراد کسی نہ کسی کو پکڑے انہیں اپنی روداد سنا رہے تھے۔ میں وسیم کو اپنی
داستان گوش گزار کر چکا تھا۔ اب اس کی باری تھی۔
’’میں نا لائق نہیں تھا۔ بس مجھے انگلش سمجھ ہی نہیں آتی تھی۔ اس لئے سب
کچھ سمجھنے میں مشکل ہوتی تھی۔ وہ انگلش میڈیم اسکول تھا۔۔۔‘‘ وسیم نے اپنی
صفائی میں تفصیل بیان کی۔’’ پتا نہیں کیسے سلیم ہر چیز کا رٹا لگا لیتا
تھا۔ اس لئے اس کے نمبر بہت اچھے آتے تھے اور وہ ہر بار ہی پوزیشن لیتا
تھا۔ میں اکثر فیل بھی ہوجا تا تھا۔ سب گھر والے مجھے میری نا لائقی کا
طعنہ دیتے تھے۔سلیم کو ہمیشہ بہت سے تحفے تحائف ملتے اور میں بس منہ دیکھتا
رہتا۔ سب اسے پسند کرتے اور اس کی تعریف کرتے رہتے۔ جب بھی اسے کوئی تحفہ
ملتا یا کوئی اس کی تعریف کرتا تو مجھے ہمیشہ حسرت ہوتی۔ میں چھوٹا سا
تھا۔۔۔ کہیں گھر میں چھپ کر روتا رہتا، اپنے آپ کو کوستا رہتا۔ خود کو برا
بھلا کہتا رہتا کہ آخر مجھ سے کیوں نہیں پڑھاجاتا۔۔۔! میں سلیم کی طرح
پڑھنے میں تیز کیوں نہیں ہو۔۔۔ !مگر میرے رونے دھونے کا کوئی یائدہ نہ
ہوتا۔ میں دیر تک کاپیاں ہاتھ میں لئے اسے تکتا رہتا مگر کچھ یاد نہ ہوتا۔
میں صرف دو ہی مضامین میں تیز تھا۔ ایک اردو میں اور ایک اسلامیات۔۔۔ ‘‘
وسیم کی یہ کہانی مجھے بڑی بورنگ سی لگ رہی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا
کہ ان باتوں کا اس کے ’’روشن‘‘ میں داخلے سے کیا تعلق ہے۔
اس نے پھر کہنا شروع کیا۔’’اردو مجھے بڑی آسانی سے یاد ہو جاتی تھی۔ اردو
کی ہر نئی کتاب کو میں دو تین دن میں ہی ختم کر لیتا تھا۔ پھر کسی سے کوئی
رسالہ لے کے پڑھنے لگتا۔ دوستوں سے کہانیاں ادھار لے آتا ۔ کبھی کسی ٹھیلے
والے کے پاس دیر تک کھڑا ہو کر کوئی نہ کوئی پرچہ اٹھا کر اسے چاٹتا رہتا۔
مجھے اسی کا شوق تھا اور اسی کی لت لگی ہوئی تھی۔ مگر گھر میں امی ابو کو
میرا یہ شوق بہت بیکار اور ناگوار گزرتا تھا۔ انہوں نے گھر میں پابندی لگا
دی تھی کہ مجھے کوئی کہانی یا رسالہ پڑھتے دیکھیں تو ابو کو اطلاع دیں۔ اور
پھر ابو مجھے مارتے تھے۔ کہتے تھے کہ ہر وقت کہانیاں پڑھتے رہتے ہو۔ دوسری
کورس کی کتابین پڑھو۔‘‘
’’بہر حال۔۔۔ وقت اسی طرح گزرتا گیا اور میں احساس کمتری کا شکار ہوتا گیا۔
میں نے گھر والوں سے بھی کٹے کٹے اور خاموش رہنا شروع کر دیا۔ کوئی مجھ سے
گھر کے کسی معاملے میں کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ نہ ہی میری رائے کی کوئی
حیثیت تھی۔ سب کچھ سلیم ہی تھا۔ ان کی ساری امیدوں کا مرکز۔۔۔ مجھے تو
بیکار سمجھا جاتا تھا۔ اکثر یہ احسان جتایا جاتا تھا کہ مجھ پر لگائے گئے
تمام پیسے ضائع جا رہے ہیں ۔ وہ تو چاہتے تھے کہ میں سائنس پر توجہ دوں اور
انجینیئر یا ڈاکٹر بنوں مگر مجھے تو ادب سے دلچسپی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ
میری بھی کہانیاں ڈائجسٹوں میں چھپیں۔۔۔ میری بھی غزلیں اخباروں کے میگزین
میں شائع ہوں۔۔۔ میں بھی کوئی افسانہ لکھوں۔مگر ان سب چیزوں کی میرے گھر
والوں کی نظر میں کوئی وقعت نہیں تھی۔‘‘
’’جب میں میٹرک میں پہنچا۔ تو میں نے شعر و شاعری کرنی شروع کر دی۔ بہت
اچھی شاعری کرتا تھا میں۔ ایک بار میں نے اپنی ایک غزل ایک ڈائجسٹ میں
بھیجی تو فوراََ چھپ گئی۔ میں بہت خوش ہوا میری حوصلہ فزاائی ہوئی۔ وہ ایک
خواتین کا ڈائجسٹ تھا جس میں عموماََ عشق و معاشوقی کے قصے ہوتے ہیں۔ میں
خوشی خوشی ڈائجسٹ لے کر ابو کے پاس گیا کہ انہیں اپنی غزل چھپی ہوئی دکھاؤں
۔ جیسے ہی میں نے ابو کے ہاتھ میں ڈائجسٹ پکڑا یا اور کہا کہ اس میں میری
غزل چھپی ہے انہوں نے ڈائجسٹ بند کر کے دیکھا اس پر کسی ماڈل کی بڑی سی
تصویر بنی تھی۔ انہوں غصے میں میرے سر پر وہ ڈائجسٹ دے مارا اور میرے سامنے
ہی میری غزل کا ورق پھاڑ دیا۔‘‘
’’ اس دن میں بہت رویا۔بہت رویا۔ بہت تکلیف ہوئی تھی مجھے۔ بہت دکھ ہوا
تھا۔‘‘ یہ کہہ کر وسیم کی آنکھیں بھرآئیں۔ اس کا ایک آنسو نکل کر اس کے
گالوں پر بہہ گیا۔’’۔۔۔ اور میں نے سوچ لیا ۔۔۔ میں نے سوچ لیاکہ میں اور
تو کچھ نہیں کر سکتا مگر میں خود کو تو برباد کر سکتا ہوں نا۔۔۔ اور سلیم
کو بھی۔۔۔‘‘
’’اس دن سے میرے اندر کوئی شیطان سما گیا۔‘‘
’’ میرا احساس کمتری حسد میں بدلنے لگا۔ میں نے قسم کھا لی کہ میرے ساتھ جو
ہو سو ہو۔ میں سلیم کو بھی برباد کر دوں گا۔ چاہے مجھے اس کے لئے کسی بھی
حد تک کیوں نہ جانا پڑے۔ وہ سب کی امیدوں کا مرکز تھا نا۔۔۔ میں نے فیصلہ
کر لیا کہ میں سلیم کو برباد کر کے سب کی امیدوں کو آگ لگا دوں گا۔ تا کہ
سب کو پتا چل جائے کہ انہوں نے سلیم کے ساتھ جو لاڈ پیار کئے وہ بھی
رائیگاں گیا۔ اس پر بھی جو پیسہ لگایا گیا وہ بھی ضائع ہوا۔ میں اپنی طرح
سلیم کو بھی ناکام دیکھنا چاہتا تھا۔‘‘
’’میں اور سلیم کالج میں آ گئے۔ سلیم کو ایک بہترین کالج میں داخلہ مل گیا
ار مجھے زبردستی ایک کامرس کالج میں داخل کر دیا گیا۔ میں نے اپنی کمزوریوں
پر رونا دھونا کب کا چھوڑ دیا تھا۔ اپنے آپ کو سدھارنے کی ہر کوشش ترک کر
دی تھی۔ میں نے خود کو سمجھا دیا تھا کہ میری ہر ناکامی کی وجہ میرے گھر
والے اور ان کی مجھ سے بد سلوکیاں ہیں۔ جب مجھے ادب سے دلچسپی تھی تو انہیں
میری اس ہی شعبے میں حوصلہ افزائی کرنی چائیے تھی۔ ایک مچھلی کو خشکی میں
پھینک کر یہ تصور کرنا کہ وہ دوڑنے لگی گی ۔۔۔ ظلم ہے۔ ‘‘
’’بہرحال۔۔۔ میں نے بھی اپنے آپ کو کوئی مظلوم سمجھنے کے بجائے ولن کا بھیس
بدل لیا۔ اب میں بڑا بھی ہو گیا تھا۔ کالج کا لڑکا تھا ۔اب ابو کے لئے بھی
مجھ پر ہاتھ اٹھانا اتنا آسان نہیں تھا۔ میں گھر میں سلیم کا کٹر مخالف بن
گیا۔ ہر معاملے میں اس سے اختلاف کرتا اور جان بوجھ کر کوشش کرتا کہ بات
بڑھے اور سلیم بھی آپے سے باہر ہو جائے اور مجھ سے ہاتا پائی کرے۔ کئی
مرتبہ ہم دونوں نے ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھایا اور اس معاملے میں وہ پڑھاکو
مجھ سے کہاں جیت سکتا تھا۔ میں ایسے موقعوں پر اسے خوب مارتا اور اپنے دل
کی بھڑاس نکالتا۔ اسی میں مجھے سکون ملتا تھا۔ یہ سارے معاملات دیکھ کر
پورا گھر میرے مخالف ہو گیا ۔ سلیم تو ہمیشہ سے ہی سب کا چہیتا تھا۔ سب اسی
کی سائیڈ پر ہوتے۔ رفتہ رفتہ گھر والوں نے مجھ سے بات چیت ترک کر دی۔ شاز و
نادر ہی کوئی مجھے منہ لگاتا اور میں بھی کسی کو گھاس نہ ڈالتا۔ میں گھر کے
اوپری حصے میں بنے ایک کمرے میں رہنے لگا۔ وہیں کھاتا، وہیں پیتا ،وہیں
سوتا، وہیں رہتا۔۔۔ یوں لگتا جیسے میں کوئی اجنبی ہوں۔ جو کسی سرا ئے میں
رہائش پذ یر ہے۔‘‘
’’پھر ہم دونوں پونیورسٹی میں آ گئے۔ سلیم کو پاکستان کی بہترین یونیورسٹی
میں داخلہ ملا اور میں نے ایک گورنمنٹ کالج میں آرٹس لے لیا۔ ہمیشہ کی طرح
گھر والے مجھے ایک فالتو اور بیکار چیز کی طرح سمجھتے رہے۔ کسی کو میری
پڑھائی سے ۔۔۔ میرے مستقبل میں کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ اب اس کی ایک بہت
بڑی وجہ میرا ان کے ساتھ سلوک بھی تھا۔ جو کالج کے زمانے سے ہی بے انتہا
برا اور تحقیر آمیز ہو گیا تھا۔ ‘‘
’’یونیورسٹی کے سیکنڈ ائیر میں ایک واقعہ پیش آیا۔ مجھے پتا چلا کہ سلیم
جرمنی جا رہا ہے۔ جرمنی کا نام سنتے ہی میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ سلیم کی
یونیورسٹی کے ایک گروپ کو ایک انجنیئرنگ پروجکٹ کی نمائش کے لئے جرمنی
بھیجا جا رہا تھا۔ اس گروپ میں سلیم کا نام بھی شامل تھا۔ سلیم اورابو اور
سب گھر والے بہت خوش تھے۔ سب سلیم کی کامیابی پر فخر کر رہے تھے۔ اگر کوئی
شخص اس خوشی سے بیزار تھا تو وہ تھا میں۔۔۔ میرے تو سینے پر سانپ لوٹنے
لگے۔ چند ہی دنوں بعد سلیم کی جرمنی کی پرواز تھی۔ اس کا ویزا پاسپورٹ ٹکٹ
وغیرہ سب ریڈی ہو چکا تھا ۔ میری ہر رات سلگتے انگاروں پر گزرنے لگی۔ سارا
گھر میری بے چارگی کا تماشہ کرتا تھا۔ میرے غلیظ جذبات کسی سے چھپائے نہیں
چھپتے تھے۔ میں ہر ہر لمحہ اسی سوچ میں غرق رہتا کہ کس طرح سلیم کے جرمنی
کا سفر کینسل ہو۔۔۔ طرح طرح کے سازشیں۔۔۔ اوچھے ہتھکنڈے۔۔۔ مکر و فریب
وچالاکیاں میری دماغ میں آتی رہتیں۔ مگر کوئی بھی چال ایسی نہ سوجھتی جو
قابلِ عمل ہوتی۔ ‘‘
’’سلیم کے جرمنی جانے میں کوئی دو تین دن رہ گئے تھے۔ ہمارے علاقے کی لائٹ
گئی ہوئی تھی۔ رات کے ایک بج رہے ہوں گے۔ میں اوپر چھت پر اپنے اکلوتے کمرے
میں گھسا اپنا سر پیٹ رہا تھا۔ باقی تمام گھر والے بھی چھت پر ہی سو رہے
تھے تا کہ گرمی سے بچا جاسکے۔ صرف میں ہی اپنے کمرے میں دبکا بیٹھا تھا۔
اچانک مجھے پیاس لگی اور میں اٹھ کر سیڑھیاں اترتا ہہوا نیچے گھر میں داخل
ہوا۔ سامنے ہی ایک موم بتی جل رہی تھی۔ میں نے فرج سے پانی کی بوتل نکالی
اور ایک گلاس میں پانی انڈیل کر وہیں موم بتی کے آگے رکھے ایک کرسی پر بیٹھ
کر پانی پینے لگا ۔ میں موم بتی کے سعلے کو دیکھتا اس میں اپنی انگلیاں آر
پار کرتا جانے کیا کیا سوچ رہا تھا۔ پھر یوں ہی میں نے اسی میز کے نیچے بنی
دراز کے ہینڈل پر ہا تھ رکھا اور بے اختیار اس دراز کو کھول دیا۔ دراز میں
ایک پاسپورٹ اور دوسرے کئی پیپرز رکھے تھے۔ میں نے اچک کر پاسپورٹ اٹھایا
اور کھول کر اس میں بنی سلیم کی تصویر دیکھنے لگا۔ میری آنکھوں میں حسد کے
شعلے پھڑک اٹھے۔ دل چاہا کہ یک دم پاسپورٹ کو موم بتی کی آگ میں بھسم کر
دوں۔ مگر اتنی ہمت بھی مجھ میں نہ تھی۔ پھر جانے کیسے میری ذہن میں ایک
منصوبہ بن گیا۔ گھر ویران تھا۔ سب اوپر ہی سو رہے تھے۔ میں دبے پاؤں کچن
میں گیا اور وہاں سے چھری اور کھانے پکانے کا تیل اٹھا لایا۔ میں نے کانپتے
ہاتھوں سے موم بتی کو کاٹا تا کہ وہ جلدی سے ختم ہو جائے اور ایک پیپر پر
کھانے پکانے کا تیل انڈیا کر موم بتی کے نیچے رکھ دیا۔
میں نے تھوڑی سی دراز کھرل کر اس میں سے کچھ پیپروں کی نوک نکال کر اس تیل
والے صفحے سے لگا دی۔ بس اب میں فوراََ واپس اوپر بھاگ گیا۔ چھری میں نے
کچن میں ہی واپس رکھ دی تھی۔‘‘
’’مجھے بہت سکون ملنے لگا۔ خیالوں ہی خیالوں میں میں اس پوری میز کو سلیم
کے پاسپورٹ کے ساتھ آگ میں لت پت دیکھ رہا تھا۔ ‘‘
|