شارب نے امتحان کو پس پشت ڈالا ہوا تھا۔وہ اپنی محبت کا
غم کھا رہا تھا۔دوسری طرف سبین نے اس کا فون لینا بھی چھوڑ دیا تھا ۔ وہ
فون کرتے ہی بار بار اپنی وہی باتیں دہراتا ،وہ نہیں کہہ کہہ کر تنگ آ چکی
تھی ۔ آج شارب نے دوبارہ فون کیا تو سبین نے فون اُٹھایا مگر ایک ایسی خبر
سنائی کہ شارب کو اپنا دل بند ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ سبین نے شارب کو بتایا
کہ وہ اپنے کزن کریم الحق سے دو دن بعد نکاح کرنے والی ہے شارب کو خبر دینے
کے بعد اس نے غصے سے فون رکھ دیا۔ شارب کریم کو جانتا تھا۔ سبین کی سالگرہ
کی تصاویر میں اس نے کریم کو دیکھا تھا۔ حسد اور رقابت سے مرغوب شارب کو
سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ سبین کا قتل کر دے یا پھر کریم کا ۔ یا پھر اسے
خودکشی کر لینی چاہیے،جس کی خاطر وہ جی رہا تھا وہ توکسی اور کی ہونے جا
رہی ہے۔
شارب اپنے کمرے کی چھت کو گھور رہا تھا۔ اس کے دل و دماغ میں ایک ہی بات چل
رہی تھی۔ ایسی زندگی کا کیا فائدہ جس میں وہ نہیں ۔ وہ ایسا کیسے کر سکتی
ہے۔ اس کا جی چاہ رہا تھا، کہ پنکھے سے لٹک کر جان دے دے ۔ موت کا اس طرح
سے تصور اسے بھیانک لگ رہا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو مردہ کی صورت میں پنکھے
کے ساتھ لٹکتا ہوا محسوس کیا تو اسے خود کشی کا یہ طریقہ پسند نہ آیا۔
اس نے سبین کے لیے ایس ایم ایس لکھنا شروع کیا۔
سبین جب تم یہ پڑھ رہی ہو گی تو میں اس دنیا میں نہیں ہوں گا۔ تم سوچ بھی
نہیں سکتی ۔ میں تم سے کس قدر محبت کرتا ہوں،کاش تم سمجھ سکتی ۔ تمہیں کسی
اور کے ساتھ دیکھوں اس سے اچھا ہےکہ میں مر جاوں ۔ تمہارا اورصرف تمہارا۔
شارب
ایس ایم ایس بھیجنے کے بعد جیسا شارب نے سوچا تھا۔ بارہ ڈسپرین کی گولیا ں
اس نے پانی کے ساتھ نگل لیں ۔گولیاں لینے کے بعد اسے اپنی ماں کی یاد آئی
۔ موت کے خوف سے اسے اپنا حلق خشک ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ بولنا چاہتا تھا
لیکن اس کی آواز حلق ہی میں سسکیوں کی وجہ سے دب گئی ،محبت کا جو جنون اس
کے سر پر سوار تھا ،جاتا رہا ۔ اسے اپنے بدن میں کپکپی محسوس ہو رہی تھی۔
عارف اپنے کمرے میں بیٹھا فیس بک پر اپنے ایک دوست کی پوسٹ دیکھ رہا تھا۔
جو ایک تصوریرتھی جس پر شاعری کی گئی تھی۔جس میں ایک لڑکا گھٹنوں پر بیٹھ
کر ایک لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔ جبکہ لڑکی کا ہاتھ لڑکے کے ہاتھ میں تھا۔عارف
نے کمیٹ پاس کیا ۔ واہ کیا شاعری ہے۔ گریٹ
وہ پوسٹ کو اونچی آواز میں پڑھنے لگا۔
میں جو دن کو بھی کہوں رات وہ اقرار کرئے
مجھ کو حسرت ہے کوئی یوں بھی مجھے پیار کرئے
میری خاطر وہ سہے دنیا کے طعنے دھکے
ننگے پیروں وہ صحراوں کے کانٹے چکھے
مجھ کو پانے کے لیے جون کے روزے رکھے
میں ہوں دیوانہ وہ دیوانوں کا ساا ظہار کرئے۔۔۔۔ابھی وہ پڑھ ہی رہا تھا کہ
فون پر بیل بجی ۔ اسے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ شارب اسے کال کر رہا تھا۔ اس نے
فون اُٹھایا تو دوسری طرف سے کوئی آواز نہیں آ رہی تھی ۔ اس نے اپنے آپ
کو کہا ۔عجیب سوں سوں ہے۔کیا ہوا بھائی؟
شارب اپنی ماں کو پکارنا چاہ رہا تھا۔ عجیب تلخی اس کے بدن پر غالب آ چکی
تھی۔آنسووں نے اس کےچہرے کو بھگو ڈالا وہ بستر پر ہی اپنے آپ کو جھکڑا
ہوا محسوس کر رہا تھا۔ اس نے اپنے دائیں ہاتھ سے بڑی مشکل سے عارب کی نمبر
ڈائل کیا تھا ۔ جس کا کافی دیر ہونے کے بعد بھی اسے کوئی رسپانس نہیں آیا
تھا۔اس کی ہمت جواب دے چکی تھی ۔وہ موت کو اپنے وجود پر قابو پاتا ہوا
محسوس کر رہا تھا۔ جو اس نے خود چنی تھی اور اب وہ اسی سے نالاں تھا۔ اب
کیا ہو سکتا تھا۔ وہ روتے ہوئے اللہ سے معافی مانگنے کی کوشش کر رہاتھا۔ اس
کی زبان اس کا ساتھ چھوڑ چکی تھی۔
عارف باہر کمرے سے آیا۔ اس نے اپنی امی سے پوچھا۔ماما شارب بھائی کہاں
ہیں، مجھے کچھ دیر پہلے کال کی اور بات بھی نہیں کی۔غزالہ نے عارف کو بتایا
۔شارب تو کمرے میں ہی ہے ۔ پوچھ لو شاہد بھائی کو کوئی کام ہو تم سے۔کچھ
دنوں میں اس کے امتحان ہیں نا تو اس لیے کمرے میں ہی رہتا ہے۔ عارف شارب کے
کمرے میں آیا تو ذور سے چیخا ۔ ماماجلدی اندر آئیں ۔
غزالہ حسن بے چینی کے عالم میں فوراً شارب کے کمرے میں بھاگتی ہوئی آئیں
۔شارب بیٹا کیا ہوا؟ ایسا کیا ہو گیا۔ بتاو نا۔ وہ ان کے استفسار سے بے خبر
تھا۔ غزالہ نےروتے ہوئے اس سے لپٹ گئی ۔ میرا بچہ ۔اس کے منہ سے جھاگ نکل
رہی تھی۔ غزالہ حسن افسردگی سے چلائی او میرے اللہ ، یہ تم نے کیا کیا؟
شارب ۔ میرا بیٹا شارب وہ دھاڑیں مارا کر رورہی تھیں ۔ اس کے منہ کو اپنے
دوپٹہ سے صاف کر رہی ۔ عارف نے ایمبولیس کے لیے فون کیا اورپاپا کو اطلاع
کی۔
غزالہ اور عارف ہوسپٹل پہنچ چکے تھے۔ شارب کو سٹریچر پر ڈال کر فوراً سے
آئی سی یو میں لے جایا گیا۔ ڈاکٹر نے غزالہ حسن کو تسلی دی اور حسن کے لیے
دعا کرنے کا مشورہ دیا ۔ عارف حیران تھا ،شارب نے یہ کیا اور کیوں کیا۔
نازیہ کالج سے آ چکی تھی ۔ عارف نے اسے شارب کے ہوسپٹل میں ہونے سے متعلق
بتا دیا تھا۔ اُسےسبین اور شارب کے متعلق غزالہ کے ذریعے سب پتہ تھا۔ وہ
ہوسپٹل پہنچ چکی تھی۔ اس کی ماں اسے دیکھتے ہی اس سے لپٹ گئی۔ نازی ،شارب
کو دیکھ اس نے کیا کیا؟حسن ہوسپٹل پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے غزالہ کی طرف قہر
آلود نانہوں سے دیکھا۔ یہ سب کیا ہے۔ غزالہ وہ شارب نے خود کشی کی کو شش
کی ۔ حسن نے حیرت سے غزالہ کی طرف دیکھا۔ کیوں ۔ عارف نے شارب کا موبائل
حسن کو دیکھاتے ہوئے کہا۔ پا پا یہ آخری ایس ایم ایس شارب بھائی نے سبین
نام کی کسی لڑکی کو کیا ہے ۔ حسن نے ایک نظر ایس ایم ایس کو دیکھا۔ اس نے
تلخ لہجے میں غزالہ سے کہا۔ تم کہاں تھی۔ کیا تم جانتی تھی سبین کے بارے
میں ۔ غزالہ نے مذید رونا شروع کر دیا۔ حسن غصے اور پریشانی سے آئی سی یو
کے دروازے کے پاس جا کر کھڑکی سے شارب کو دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
سنی۔ نے اپنی ماں سے گلے لگتے ہوئے سوچا۔مجھ میں اور میرے بھائی میں کوئی
فرق نیںے ماما ۔ میں نے اپنے جسم کا ستاصہل کیا اور میرے بھائی نے اپنی روح
کا۔ ہم دونوں کو ہی متتے کے نام پر بے وقوف بنایا گیاہے۔ اسے اپنی انکھوں
میں شدید جلن محسوس ہو رہی تھی۔ وہ پہلے ہی بہت رو چکی تھی لیکن آنسو تھے
کہ تھمنے کا نام ہی نںیی لیتے تھے۔ اس کے فون پر بیل بجی ،
اگر تم مل جاو زمانہ چھوڑ دیں گئے ہم
یہ اس کا پسندیدہ گانا تھا جو اسے اعصاب کو توڑتا ہوا محسوس ہو رہا
تھا۔سبین کا جی چاہ کہ وہ موبائل کے ٹڑبے ٹکڑے کر دے۔ اس نے فقط فوزیہ کا
فون کاٹا اور فون کو پاورڈ آف کر دیا۔ اس نے اپنی انکھوں کو صاف کرتے ہوئے
، اللہ سے شارب کےحق میں دُعا مانگی جو زندگی اور موت سے لڑ رہا تھا۔ سنیی
سوچ رہی تھی کہ کیھت کبھی ہم فہصلی کرنے میں بہت جلدی کرتے ہیں ۔ شارب نے
خود کشی کرتے ہوئے ماما اور پاپا کے بارے میں کیوں نںیس سوچا۔ اور میں نے ۔
اس کی انوھدں سے جو نمکین آنسو گِر رہے تھے اس کی کڑواہٹ وہ اپنے پورے
وجود میں محسوس کر رہی تھی۔
ڈاکٹر کو آتے دیکھ کر سب اس کی طرف متوجہ ہوئے ۔
|