اقتصادی ترقی کا پہلا ستون پاکستان اسٹیل

دُنیا بھر میں اسٹیل انڈسٹری کا وجود ترقی کا ضامن سمجھا جاتاہے۔ اسٹیل انڈسٹری کے بغیر اقتصادی ترقی کی گفتگو نا گفتنی کے مترادف ہے،

سننے میں آرہا ہے کہ عالمی ترقی یافتہ ممالک نے پاکستان کی اقتصادی ترقی کا اعتراف کر لیا ہے ۔ وزیر مملکت محترمہ مریم اورنگزیب صاحبہ فرماتی ہیں کہ" پاکستان کی ترقی کو دیکھ کر پوری دُنیا حیران ہے۔"شگوفہ دوہزار ستراسُن کر نگوڑی عوام بھی حیران ہیں، کہ یہ کیسی ترقی ہے کہ ملک اور قوم ہی ترقی کے ثمرات سے محروم ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ خودساختہ ترقی کی بات صرف حکومتی حلقوں کی جانب سے ہی کیوں کی جا رہی ہے ،عوام ،اپوزیشن،میڈیا ترقی کا راگ الاپنے میں حکومتی حلقوں کے ساتھ شامل کیو ں نہیں ہیں؟

ہاں! اگر وزیر اعظم صاحب یہ خوش آئند اور حیران کن خبر وں کو 2018میں ہونے والے انتخابات کے لئے بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتے ہیں تو ،چلے گا ،کیونکہ پاکستان میں سیاست سفید جھوٹ کا دوسرا نام ہے۔
لیکن اگر ان بیانات کو حقائق کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھا جائے تو ان میں کھوٹ کی آمیزش پائے جانے کا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ اس کھوٹ کی تلاش کے لئے ہمیں کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہوگی ،سادہ سی بات ہے ، محلے کے ایک بلند وبالا اور خوبصوت مکان کو دیکھ کر ہم مکین کی ترقی اوراس کی خوشحالی کا اندازہ لگاسکتے ہیں اور کہہ بھی سکتے ہیں کہ "ماشااللہ مکین ترقی کی جانب گامزن ہیں"،لیکن کیسی مضحکہ خیزی ہوگی کہ جھونپڑ پٹی کے رہائشیوں کو کہا جائے کہ یہ بہت خوشحال ہیں اور ترقی کر رہے ہیں؟
پاکستان اسٹیل،پی آئی اے، مشین ٹول فیکٹری و دیگر اہم ادارے جنھیں اقتصادی ترقی کے لئے ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا تھا ،وہ تو داستانِ خرابہ سُنا رہے ہیں، اُن کی زبوں حالی کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں ہے، توپھرہم کیوں کر مان لیں کہ عالمی ترقی یافتہ ممالک نے پاکستان کی ترقی کا اعتراف کر لیا ہوگا ؟جب اقتصادی ترقی کی ریڑھ کی ہڈیاں ہی بھُربھُرا گئی ہوں تواُس کا جسم کس طرح اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکتاہے۔
دُنیا بھر میں اسٹیل انڈسٹری کا وجود ترقی کا ضامن سمجھا جاتاہے۔ اسٹیل انڈسٹری کے بغیر اقتصادی ترقی کی گفتگو نا گفتنی کے مترادف ہے، تو چلیں، ہم اقتصادی ترقی کا جائزہ ترقی کے ستونوں میں سے ایک اہم ترین ستون پاکستان اسٹیل سے شروع کرتے ہیں ۔

"پاکستان اسٹیل سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے اس کی مٹی میں بھی سونا ہے"یہ بات پاکستان اسٹیل کے سابق چیئر مین ریٹائرڈ لیفٹنٹ جنرل عبدالقیوم نے ایک تقریب میں اپنے خطاب کے دوران کہی تھی۔پاکستان اسٹیل 19600ایکڑ قیمتی زمین پر محیط ہے ،جو کئی عظیم الشان اور حیرت کدہ پروجیکٹس پر مشتمل ہے۔ کہنے کو تو یہ مل ہے، لیکن در حقیقت یہ ریاست کے اندر ایک چھوٹی ریاست ہے جس میں ہر مذہب، ہر نسل،ہر زبان،ہر علاقے اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والا فرد ملازم ہے اس کو" منی پاکستان" کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا ۔ اسٹیل مل کے کئی شعبے ہیں جو ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور ہر ایک شعبہ کماؤ پوت ہے ،اگر ہم ہر شعبے کی افادیت اور اس کی منعفت بخشی کا ذکر کرنا شروع کریں تو ہمیں اپنے مضمون کو کتاب کی شکل دینی ہو گی ،تو چلیں مختصر ہی سہی ۔

ذوالفقار علی بھٹو نے روس کے اشتراک سے اس مل کو سمندر کنارے تعمیر کروایا تھا،اُس وقت اُن کے ذہن میں پاکستان میں بے روزگاری کا خاتمہ تھا ،بغیر منافع بغیر نقصان کے یہ مل بے روزگاری کے خاتمے کے لئے وجود میں آئی تھی ۔ لیکن افسوس ،کہ بھٹو صاحب کے پیروکار اں کے عہد میں ہی اسٹیل انڈسٹری کے واحد کارخانے کو بیوگی کا دُکھ اُٹھانا پڑا۔

یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی کے فلور پر اسٹیل مل میں کرپشن کا اعتراف کرتے ہوئے پاکستان اسٹیل کے سی او "معین آفتاب شیخ "کو اُسی وقت برطرف کر کے گرفتار کرنے کاحکم بھی جاری کیا تھا۔ بدانتظامی،کرپشن،بڑھتے ہوئے اخراجات ،کے الیکٹرک،سوئی سدرن گیس، واٹر بورڈ اور ماضی وحال کے حکومتی گماشتوں کے غیر ذمہ دار انہ پالیسیوں نے پاکستان اسٹیل کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایاہے ۔ قومی خزانے کو 105ارب روپے ٹیکس کی مد میں دینے والی اورخوش حالی کی ضامن دیو ہیکل اسٹیل مل میں پیداواری عمل جاری و ساری تھاکہ موجودہ حکومت میں ایک سازش کے تحت اس کو نیچرل گیس کی فراہمی روک کر بند کر دیا گیا ہے ۔ IMFکے ایجنڈے پر کام کرنے والی حکومتوں کو اسٹیل مل کی تباہی کا نہ توکوئی دکھ ہے اور نہ ہی کوئی ملال ،اسٹیل مل کو اس نہج تک پہنچانے والوں کونہ توسابقہ اور نہ ہی موجودہ حکومتوں نے کیفرکردار تک پہنچانے کی سعی کی ،یہ ہی وجہ ہے کہ آج کرپشن اپنے عروج پر ہے۔

پاکستان اسٹیل ملکی معیشت کی ریڑ ھ کی ہڈی تھی، ریڑھ کی ہڈی کو کاری ضرب سے توڑ دیا گیا۔ سندھ اور وفاق کا جھگڑا بنا کر ملازمین کو راندہ در گاہ کردیا گیاہے۔ کبھی نجکاری کی بات کی جاتی ہے تو کبھی پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی ،کبھی زمینوں کی منسوخی کی بات کی جاتی ہے ، تو کبھی لیز پر دینے کی ،لیکن اُن ہُنر مندوں کی بات نہیں کی جاتی جنھوں نے اپنا خون،پسینہ،اپنی جوانی ،اپنی ذہانت،سب کچھ پاکستان اسٹیل اور پاکستان کی خدمت کے لئے وقف کر د یا ، درازدستی سے ستمگروں نے اسٹیل مل کو اپنے پیروں پر کھڑا کر نے والے ملازمین کی زندگی بھر کی جمع پونجی تک کو ہڑپ کر لیا جو کہ ماروائے قانون عمل ہے ، بڑھاپے میں اُن ہُنر مندوں سے لاٹھی کا سہارا بھی چھین لیا گیا ، تازہ دم تعلیم یافتہ نوجوان ملازمین کا مستقبل بھی داؤ پر لگا دیا گیا ہے ، 2013سے ریٹائرڈملازمین کو واجبات کی ادائیگی تا وقتیکہ نہیں ہو سکی لاچار و بے بس سفید پوش ملازمین بھیک بھی نہیں مانگ سکتے ہیں ، لارے لپوں کے بجائے ریاست کو چاہئے کہ خود کشی کی اجازت دے دے، اور علماء حضرات اگر کلمہ حق ادا نہیں کر سکتے ہیں تووہ بھی خود کشی کو جائز قرار دے دیں۔

دوسری جانب تیس ارب سے زائد خطیر رقم سے میٹرو بس سروس کو صرف 27کلو میٹر کا راستہ طے کرنے کے لئے وجود میں لا یا گیا جس کا یومیہ خسارہ پانچ کروڑ روپے ہے۔یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ ایک کم فاصلے کی سروسز پروجیکٹ کو فعال کیا گیا جس سے کسی بھی طرح منافع بخش ہونے کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی ،اس کے بر عکس تمام پیداواری اداروں کو غیر فعال کر دیا گیا جس سے منافع حاصل کیا جاسکتا تھا اور پاکستان کو اقتصادی ترقی کی جانب گامزن کیا جاسکتا تھا اس طرح اقتصادی ترقی کی تمام راہوں کو مسدود کر دیا گیا ۔ اس کے باوجود آپ فرماتے ہیں کہ عالمی ترقی یافتہ ممالک نے پاکستان کی اقتصادی ترقی کا اعتراف کر لیا ہے۔ جناب ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ وہ کون سے بھولے بھالے ترقی یافتہ ممالک تھے جنھوں نے پاکستان کے اہم ستونوں کو نظر انداز کر کے پاکستان کی ترقی کا گُن گا نا شروع کر دیاہے ،ابھی تو ہم نے اقتصادی ترقی کے مزید پیداواری ستونوں کا ذکر ہی نہیں کیا ہے ۔

کہا جا رہاہے کہ سی پیک گیم چینجر ہے۔کہا جا رہا ہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری خطے کے لئے خوشحالی کا ذریعہ ہے ۔چلیں مان لیتے ہیں ۔تو پھر یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر کیوں ہے کہ پاکستان اسٹیل کو اس راہداری کا سنگ میل کیوں نہیں سمجھا گیا، پاکستان اسٹیل کو سی پیک کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا،کیا بغیر اسٹیل کے راہ داریوں کی تکمیل ہو سکتی ہے ؟

اس کا مطلب یہ ہواکہ راہ داری کے لئے ا سٹیل کی کھپت کو درآمد کر کے پورا کیا جائے گا۔اگر ایسا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اسٹیل کو نظر انداز کرنے کی اصل وجہ اسٹیل کمیشن مافیا کا دباؤ ہے۔ فنی طریق سے نا بلد ہونے کے سبب آپ اس کا جواب کچھ اس طرح دئینگے کہ" پاور جنریشن کی کمی کے باعث اسٹیل مل کا اسٹیل ہمیں مہنگا پڑتا ہے۔"

جناب والا عرض یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل کے تھرمل پاور پلانٹ کی مرمت ا نتہائی کم لاگت میں ہو سکتی ہے ، اُسے کارآمد بنایا جا سکتا ہے ، اُس سے اب بھی 120 میگا واٹس سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جبکہ پاکستان اسٹیل کو چلانے اور اس کی کالونی کے لئے بجلی کی ضرورت صرف 28میگا واٹس ہے ۔نندی پور پروجیکٹ پر خطیر رقم خرچ کرنے کے بجائے پاکستان اسٹیل کے تھرمل پاور پلانٹ پر قلیل رقم خرچ کی جاتی تو نتائج اُس سے بہتر ہوتے ۔

اسٹیل پر ٹیکس کی چھوٹ دے کر پاکستان اسٹیل سے سستی اسٹیل کی پیداوار کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ملک کی ترقی کی نیت درست سمت ہو تو ترقی کے اہم ستونوں کو کھڑ ا کر کے اقتصادی ترقی کی جانب گامزن ہوا جاسکتا ہے ۔تعجب خیزی اور حیرانگی اس بات پرہے کہ اس عظیم الشان ادارے کو سی پیک میں شامل کرکے وطن عزیز کی صنعتی ترقی کے لئے پہلا قدم کیوں نہیں اُٹھایاجارہا ہے؟جب تک پاکستان کے پیداوری یونٹس فعال نہیں ہوں گے اسوقت تک اقتصادی ترقی کے خواب شرمندہ تعبیر ہی ثابت ہوں گے،وزیر اعظم اور وزیر مملکت کے اقتصادی ترقی کے حیران کن بیانات 2018کے الیکشن کے لئے ٹامک ٹوئیاں مارنے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔

Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 97416 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More