اٹھ گئے ہو،، آملیٹ پلییٹ میں نکالتے ہوئے اس نے پیچھےمڑ
کر دیکھا،،شفیق فیکٹری جانے کےلیے تیار کھڑا تھا
ہاں،،رات صحیح سے نیند نہیں آئی،،اس لیے اٹھنے میں دیر ہوگئی،،،ناشتہ
ٹرےمیں رکھ کے وہ لاؤنج میں آگیا،،
اچھا،،شفیق نے پرسوچ لہجے میں کہا،،،پھر آفس تو تم جاؤ گے نہیں،، ذرا
مارکیٹ تک چکرلگا آنا،،کچھ چیزیں ختم ہیں انہیں لے آنا،، اس نے عجلت میں
کہا،،اور ساتھ ہی ایک لسٹ ٹیبل پر رکھ دی
اس سے پہلے کہ باسط جواب میں کچھ کہتا،،وہ جا چکا تھا‘‘،،
اس نے ٹی وی اون کیا،،، نیوز چینل پر کوئی حادثہ دکھایا جارہا تھا،،، بار
بار حادثے کے شکار افراد کو دیکھایا جارہا تھا‘‘
غریب اور بے بس لوگ‘‘،،، ان کے آنسوؤں سے کسی کو کوئی سروکار نہیں تھا،،نہ
کوئی ان کے آنسو سمیٹنے ،،دکھ بانٹنے کو آگے بڑھا‘‘،،، ہر چینل اپنی ریٹنگ
بڑھانے کے لیے حادثے کے واقعات کوبڑھا چڑھا کرپیش کررہا تھا،،، اس نے ٹی ون
آف کیا اور مارکیٹ کے لیے تیار ہونے لگا،،،
کتنی بے حسی ہے نہ معاشرے میں،،،کسی کو کسی کی اذیت سے کوئی غرض
نہیں،،،باسط ،،،کیسے ہو؟،، وہ سوچ کے گرداب سے باہر نکل آیا،، فری انٹی اس
کے پاس پہنچ چکی تھی،،کہاں جارہے ہو؟،،، ایک کے بعد دوسرا سوال کیاگیا،،،
میں مارکیٹ تک جا رہا ہوں،،،اچھامیں بھی وہاں ہی جا رہی تھی،،،چلو اب ساتھ
چلتے ہیں،،،اسی بہانے تم سے بات کرنے کا موقع تو ملا،،،باسط بے ساختہ ہنس
پڑا،،، وہ ایسی ہی تھی،،،انہیں کوئی مل جائے باتیں کرنے کے لیے،،،تو جیسے
گوہر نایاب مل گیا ہو،،شاید تنہائی سے خوف زدہ تھیں،،،
آپ کی طبییت ٹھیک ہے اب؟،،،ہاں ،، مجھے ہوا ہی کب کچھ،، بس ذیادہ سی شوگر
ہی ہائی ہوئی تھی،،، ان کے ذرا سی کہنے پر باسط زور سے ہنس پڑا،،،
مارکیٹ پہنچ کر باسط لسٹ پر درج چیزیں دیکھنے لگا،،،فری انٹی بھی کچن کا
سامان ہی لینے لگی،،،باسط جلدی فارغ ہو گیا،،، فری انٹی کا بس چلتا تو پورا
کارنر خر ید لیتی،،
سوری بیٹا،،تمہیں انتظار کرنا پڑا،،مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی،،کیا لوں ،،اس
لیے ٹائم لگا،،، جلدی جلدی وضاحت دیتے ہوئے ان کا سانس پھولنے لگا،،،آپ
یہاں بیٹھیں،،اس نے بینچ کی طرف اشارہ کیا،، نہیں میں ٹھیک ہوں،،،پہلے ہی
بعد ٹائم لگ گیا ہے مارکیٹ میں،،اور گھر میں بہت کام ہے،،
آج کوئی خاص دن ھے کیا،،،بہت سوچنے کے بعد کہ آج کوئی خاص دن تو نہیں،،،جب
کوئی سرا ہاتھ نہیں آیا تو بلآخر فری آنٹی سے پوچھا،،،وہ دھیرے سے مسکرا
دی،،،ہاں میرے لیے تو ہے خاص،،،بہت خاص،،،آج میری بیٹی آرہی ہے‘‘یہ کہتے
ہوئے ان کے چہرے پر بے تحاشہ رنگ نمودار ہوئے،،، انکی ساری خوشی،،ساری گرم
جوشی چہرے پر سمٹ گئی،،،آپ کی بیٹی؟،،،اس نے حیرت سے پوچھا‘‘،،،
ہاں،،آج سے وہ میری بیٹی،،،وہ بہت خوش تھی،،(جاری)
|