اف اس قدر شور شرابہ،،،کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی
تھی،،،ہر طرف مسکراہٹیں،،قہقہے ،،مصروفیات،،کوئی بال ٹھیک کر رہا
کوئی کپڑے بار بار دیکھتا،،بچے بڑے سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے،،،کوئی
پارلر سے آرہا ہے،،کوئی جلدی میں کلپ بھول آیا،،،کسی کے شوز صحیح آرام دہ
نہیں،،،کوئی برانڈ کی تفصیل بتارہا ہے‘‘
کائنات میں شاید سجھنے سنورنے کے سوا کوئی کام نہ تھا،،،بار بار ڈریس کو
صحیح کرنا،،بہت سے لوگ حکم دے رہے تھے،،حکم بجا لانے والے کم پڑ رہے
تھے،،ہر طرف عجیب سی بےچینی تھی،،سلمان کا وجود بوجھل سا ہو رہا تھا،،،
اسے ان چیزوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی،،کیونکہ جس کلاس سے وہ تھا،،وہاں ایسا
کچھ نہ تھا،، مگر اسے ہر کام جلدی سے کرنا تھا،،،اس پربھی ،،،آپ لوگ بہت
سست ہو،،، کئی بار سننا پڑا،،،سلمان صرف اک بے معنی سی مسکراہٹ اس بوجھل دل
کے حوالے کرتا رہا،،،یہ جب تک یہاں سے ہوٹل نہیں پہنچ جاتے،،،ہم لوگ سانس
بھی نہیں لے سکتے،،،
ہر طرف افراتفری تھی،،،روزی کو پارلر جانے کی ضرورت نہ تھی،،،وہ اپنے سادہ
کپڑوں میں بھی سادہ نہیں لگ رہی تھی،،
ہجوم میں بھی اسے ڈھونڈنا آسان تھا،،،اس کی شناخت اتنے شورشرابے اورلوگوں
کے ہجوم میں بھی قائم تھی،،
بہت سے بناوٹی چہروں میں اس کا اصل روپ قیامت تھا،،،
تیری روزی میڈم تو کمال لگ رہی،،،سلمان نے حیرت سے اسلم بھائی کو
دیکھا،،،مصنوئی خوف زدہ لہجے میں کہا،میری
اسلم بھائی میں بہت کمزور ساانسان ہوں،،،آج تک خود کا سہارا نہ بن سکا،،آپ
تو مجھ پر آسمان گرائے جاتے ہو،،،
رحم کرو،،مجھ غریب پر،،،اسلم بھائی زور سے ہنس دیئے،،،یار آج تو
کام،،کام،،کام نے مت مار دی ہے،، تجھ پرتھوڑا سا
مان ہے،،،تیری وجہ سے ہم بھی ہنس لیتے ہیں،،،اچھا چل،،،کوئی شعر ہو جائے
روزی میڈم پر،،،میں اپنا پہلا الزام واپس لیتا ہوں،،،ارے اسلم بھائی آپ کو
سات(٧) خون معاف،،،اتنے شور شرابے میں آپ کو شعر کی کیاسوجھی،،
پھر خودکلامی،،،ہر طرف اتنے چاند ہیں،،مگر پورا چاند ایک ہی ہے،،چہرے ہیں
بہت،،،مگر صورت ایک ہی ہے،،،
ہر آنکھ ہے بے تاب ،،،مگر ماہتاب ایک ہی ہے،،،
سلمان اپنے ہاتھوں کی ہتھیلی پر نظریں گاڑے ہوئے بولتا چلا گیا،،،اسلم نے
سلمان کے ہاتھ چوم لیے،،یار ان ہاتھوں میں لکھا ہوا ہے کیا سب،،یار یہ روزی
میڈم کو ضرور سناؤں گا،،،سلمان نے التجائی نظروں سے اسلم کو دیکھا،،
کمال کرتے ہو بھائی،،یار بہت شرم آتی ہے،،یار میں بندہ بھی چھوٹا سا
ہوں،،اس لیے کام بھی چھوٹے ہی کرنے ہیں،،
سلمان نے دکھی لہجے میں کہا،،،مام کہہ رہی ہیں آپ لوگ پہلے پہنچ جاؤ
ہوٹل،،،روزی نے قریب آکے بم پھوڑا،،
سب نے بےبسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا،،،جی،،،اسلم نے جوابھی آرام کے خواب
دیکھ رہاتھا،،مردہ سے لہجے میں کہا(جاری)
|