“ ہو وووو “ حسنہ جب کتاب دیکھ رہی تھی ، تب اسے کسی نے
پیچھے سے آکر ڈرا دیا۔ وہ ڈر کر اچھل ہی تو پڑٰی اور کتاب اسکے ہاتھ سے
چھوٹ کر دور جا گری۔ وہ جب اپنے حواسوں میں لوٹی تو اسے کسی کے زور سے
ہنسنے کی آواز آئی، سامنے سلمان کھڑا ہنس رہا تھا ۔ اسکا دل کیا کوئی چیز
اٹھا کر اسکے منہ پر دے مارے پر وہ بس اسے گھورتی ہی رہی ۔ اسے اس طرح
گھورتا دیکھ سلمان کی ہنسی کو بریک لگ گئی ۔
“ سوری آپکو ایسے سب سے بیگانہ ہو کر کتاب پڑھتے دیکھا تو،،،،، سوری۔ “ اس
نے کچھ شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔ اسے ایسا دیکھ کر حسنہ کی ہنسی چھوٹ گئی اور
دونوں ہنسنے لگے ۔
ایک دم سے حسنہ خاموش ہوگئی اسے لگا کہ انہیں کوئی دیکھ رہا ہے۔ وہ جلدی سے
دروازے کی طرف بڑھی تب اسے وہاں ایک سایہ سا نظر آیا جو بس اسکی ایک جھلک
ہی دیکھ پائی۔ اسے اس طرح دیکھ کر سلمان بھی وہی آگیا۔
“کیا ہوا ؟ “ سلمان نے اسے ایسے اچانک جاتا دیکھ کر پوچھا۔
“ نہیں کچھ نہیں،،،،، مجھے ایسے لگا جیسے کوئی ہمیں دیکھ رہا تھا ۔ “ اس نے
کوریڈور میں دیکھتے ہوئے کہا۔
“ کوئی نہیں ہے یہاں ہمارے یہاں جن بھوت نہیں ہوا کرتے۔ “ اسنے شرارت سے
کہا۔
“ ہم م م ،،، آپ شادی پر کیوں نہیں آئے تھے ؟ “ اس نے بات بدلنے کے لئے
پوچھ لیا۔
وہ ابھی کچھ کہنے ہی والا تھا کہ شازمہ حسنہ کو آوازیں دیتی لائبریری میں
آگئی۔
“ چلو بیٹا والی آتا ہی ہوگا،،،، ارے سلمان بھی یہی ہے۔ سلمان بیٹا آپ کب
آئے میں نے تو دیکھا نہیں؟
“ آنٹی میں اپنے آفس کے کچھ کاغذات لینے آیا تھا یہاں حسنہ جی کو دیکھا تو
سمجھ گیا آپ بھی آئی ہوگی۔ تو میں آنے ہی والا تھا کہ آپ آگئی۔
“ سلمان نے مسکراتے ہوئے کہا پھر شازمہ بھی مسکرانے لگی پھر کچھ ادھر ادھر
کی باتیں کر کے واپس آگئی۔
گھر میں داخل ہوتے ہی شازمہ حسنہ کو منع کر دیتی ہے کہ وہ والی سے نائلہ کے
گھر جانے کا ذکر نہ کرے ۔ حسنہ پوچھنا چاہتی تھی کہ کیوں نہ بتائے مگر
شازمہ اتنا کہہ کر جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ اور اسے کچھ بھی کہنے
کا موقع نا ملا وہ چپ چاپ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
اسنے کمرے میں آکر لائٹ آن کی تو سامنے والی کو دیکھ کر ایک دم سے گھبرا
گئی۔ اسکے ایک ہاتھ میں سگریٹ تھا تو دوسرے ہاتھ میں موبائل فون پکڑے وہ
اسی کو گھور رہا تھا۔ اسکے آنکھیں لال ہوئی تھی جیسے ان میں انگارے دہک رہے
ہو وہ اسے نظر انداز کرتی ڈریسنگ کے سامنے آکر اپنی انگوٹھی اتارنے لگی۔ وہ
مسلسل اسکے نظروں کے حصار میں تھی۔
“ کہاں تھی تم ؟ “ والی نے آہستہ سے پوچھا
“ وہ وہ میں سہیل کو ائیر پورٹ چھوڑنے گئی تھی“ اسنے بمشکل سے کہا
“ جھوٹ بولتی ہو تم “ اسنے پاس آکر بازو سے پکڑ کر اسے جھنجھوڑ کر کہا۔
حسنہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی ۔
“ یہ دیکھو ،،، یہاں تھی تم اپنے عاشق کے ساتھ ، اور مجھے کہتی ہو ائیرپورٹ
سے آئی ہو۔ شرم سے ڈوب مرو اپنے شوہر سے کیسے جھوٹ بول سکتی ہو تم “ والی
نے موبائل کی سکرین کو آن کر کے اسکی آنکھوں کے سامنے کرکے کہا۔ سکرین میں
وہ اور سلمان کسی بات پر مسکرا رہے تھے اور ایک دوسرے کے قریب کھڑے تھے ۔
اسے یہ دیکھنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگا کہ یہ تصویر لائبریری میں لی گئی
ہیں۔ یہ دیکھ کر اسکی آنکھیں حیرت سے باہر آگئی۔
وہ ابھی دیکھ ہی رہی تھی کہ والی نے اسے زور سے دھکا دے کر بیڈ پر گرا دیا
۔ اس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے ۔
“ تم جیسی عورتیں عزت کے قابل نہیں ہوتی تم جیسی کی جگہ میرے جوتوں میں ہے
سمجھی تم ، ایک بار میں جائیداد کا حقدار بن جاؤ تب آزاد کردوں گا تمہیں
پھر جہاں مرضی منہ مارتی پھرنا۔“ اسنے نہایت حقارت سے کہا
اسے لگا وہ ذلت کی گہرایئوں میں جا گری ہے۔ اس پر اتنا گھناؤنا الزام لگ
رہا تھا ۔ وہ اپنے دفاع میں کیا کہتی کچھ بھی تو نہیں تھا کہنے کو وہ اپنی
ذات کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتا دیکھ کر بھی کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ اسے شازمہ آنٹی
نے کیوں چپ رہنے کا کہا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی ۔ وہ اپنے اندر ہمت کر کے
سنبھل کر تھوڑا اٹھ کر بیٹھ گئی۔
“ میری بات سنیں جیسا آپ سمجھ رہے ویسا کچھ بھی نہیں ہے۔ “ اسنے آہستہ سے
اتنا کہا۔
“ مجھے تمہاری کوئی بھی بکواس نہیں سننی نہ کوئی صفائی چاہئے مجھے ۔ میں تم
سے نفر ت کرتا ہوں تمہارا وجود مجھے ازیت دیتا ہے۔ “ وہ اتنا کہہ کر تیزی
سے کمرے سے باہر چلا گیا۔ (جاری ہے)
|