چالیس سالہ عمیرہ احمد پاکستان کی مشہور و معروف ناول
نگار ہیں،بہت کم عمر میں انہوں نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا ہے،موجودہ
دور کے ناول نگاروں میں وہ سرِ فہرست ہیں ،ان کی تحریراور طرزِتحریر سب سے
جدا ہیں ،ان کی تحریر میں پختگی، تخیل کی بلند پروازی، بیان کی شگفتگی،
زبان کی سلاست، سادگی اور پاکیزگی کے عناصرنمایاں رہتے ہیں۔عمیرہ احمد کی
تحریروں کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بہت منجھی ہوئی ناول نگار
ہیں ،ساتھ ہی انہوں نے اسلامیات کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے،ان کے
ناولوں میں عام طورپر اسلامیت کی گہری چھاپ ہوتی ہے۔پیرِ کامل ان کا ایک
مشہورِ روزگارناول ہے،پہلے یہ ناول قسط وارخواتین ڈائجسٹ ،کراچی میں
چھپتارہا،پھر2004ء میں اسے کتابی شکل میں شائع کیاگیا ،جسے قارئین میں بے
پناہ شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی اور اب تک اس کے کئی ایڈیشن منظرِعام پر آچکے
ہیں۔پیرِکامل سے مراد حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کی ذاتِ مبارکہ ہے،ناول
کا موضوع ختم نبوت صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم ہے جو اسلام کا بنیادی عقیدہ
ہے،پیرِ کامل اک آواز ہے آگہی کی طرف،اک روشنی ہے، جو گمراہی سے ہدایت کی
راہ تک لے جاتی ہے،یہ کہانی ہے سچی اور روحانی محبت کی،ایسی محبت جو وجدان
تک سرایت کر جائے اور روح کی گہرائیوں میں اترجائے۔
کہانی کے مرکزی کرداروں میں امامہ ہاشم ہے، جو ایک قادیانی گھرانے سے تعلق
رکھتی ہے،اُسے جب دھیرے دھیرے اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ وہ غلط راہ پر
ہے، تو وہ اپنے گھراور خاندانی رشتوں کو ترک کر کے،بے پناہ دشواریوں کا
سامنا کرتے ہوئے عشقِ رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کے زیرِاثر حق کی تلاش
میں نکل پڑتی ہے،دوسرا مرکزی کردار سالار سکندر ہے، جو150+آئی کیو لیول اور
فوٹو گرافک یادداشت اور ذہانت سے لیس ہوتاہے،یہ لڑکا پیدائشی مسلمان ہونے
کے باوجود گمراہی کی راہ پر مائل ہے،آوارہ واوباش اور عیش پرست ہے،کہیں
کہیں وہ ذہنی مریض بھی لگتا ہے ،جو صرف درد کی انتہا اور موت کی تکلیف
جاننے کے لیے خودکشی کی کوششیں کرتا رہتاہے،باوجود اس کے وہ امامہ کی گھر
سے نکلنے میں مدد کرتا ہے،راستے میں امامہ ہاشم اور سالار سکندر کے مابین
ہونے والی گفتگوکہانی کے پلاٹ کو مضبوطی سے باندھتی ہے اور قاری کی دلچسپی
ہرآنے والے صفحے کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے،دونوں کے مابین ہونے والے ابتدائی
مکالمے کا یہ حصہ خاصا دلچسپ ہے،سوالات سالارسکندرکے ہیں اور جوابات امامہ
ہاشم کے:
"What is next to ecstasy?
Pain
What is next to pain?
Nothingness
And what is next to nothingness?
Hell
And what is next to Hell?
تمہیں خوف نہیں آتا؟
کس بات سے؟
معتوب اور مغضوب ہونے کے بعد بچتا ہی کیا ہے ،جسے جاننے کا تمہیں تجسس ہے
‘‘۔(ص:188-89)
ڈاکٹرسبط علی کی شکل میں مذہبی عالم کے کردارکے ذریعے عمیرہ احمدنے اپنی
مذہبی آگاہی کابھی اچھاثبوت فراہم کیاہے۔یہ بات بالکل درست ہے کہ جب کوئی
لکھنے والا لکھ رہاہوتاہے،توکہانی خود اسے لکھ رہی ہوتی ہے،مطلب کہانی نگار
یا ناول نویس جو موضوع اپنی کہانی یاناول کے لیے اختیار کرتاہے،وہ دراصل
خوداس کی شخصیت کے درون و بیرون کاآئینہ دار ہوتاہے۔
کہانی کے پلاٹ کا فنی کمال یہ ہے کہ اگر کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی اس میں سے
نکال دیاجائے ،توپوری کہانی ایک خلیج اور خلا کاشکارہوجاتی ہے ،ایک ناول کے
ہر جزوی واقعے کا اپنی جگہ اور حسبِ ضرورت پایاجاناناول کو مضبوطی
عطاکرتاہے،اسی سے ناول کی جزئیات میں باہمی ربط و ضبط اور ہم آہنگی
پیداہوتی ہے ،اپنی فن کاری سے قاری کواس طرح اپنی گرفت میں لے لیناکہ وہ اس
تحریرمیں جذب ہوجائے اور اس کے اثرات پڑھنے والے کے احساسات پر چھاجائیں،یہ
کسی ناول کافنی کمال کہاجانا چاہئے اوریہ کمال ’’پیرِکامل‘‘کے
اندرموجودہے۔ناول کے کردارمضبوط اور پختہ ہیں،مکالمہ نگاری کے دوران ناول
نگار نے ناول کے کرداروں کی ذہنی کیفیات کا بخوبی خیال رکھاہے،موقع بموقع
اس ناول میں حسِ مزاح (Sense of humour)کی مثالیں بھی دیکھنے کوملتی
ہیں،سعیدہ اماں کے کردارمیں مزاح کا رنگ بخوبی نظرآتاہے۔ بقیہ کرداروں میں
ایک جلال انصر ہے،جو عاشقِ رسول ہونے کا دعوٰی کرتا ہے؛لیکن وقت آنے پر ایک
دوسری عاشقۂ رسول کی مدد نہیں کرتا ،جو اس کے آسرے پر اپنا سب کچھ چھوڑ آئی
۔
عمیرہ احمد نے انسانی زندگی کی جس پانچویں اور چھٹی سمت کا ذکر کیا ہے، وہ
قابلِ ستائش ہے اور یقیناًانسان کی حقیقی زندگی کاحصہ بھی ہے، دیکھیے:
’’زندگی میں بعض دفعہ ہمیں پتا نہیں چلتا کہ ہم تاریکی سے باہر آئے ہیں یا
تاریکی میں داخل ہوئے ہیں،اندھیرے میں سمت کا پتہ نہیں چلتا ،مگر آسمان اور
زمین کا ضرور پتہ چل جاتا ہے؛بلکہ ہر حال میں پتہ چلتا ہے،سر اٹھانے پہ
آسمان ہی ہوتا ہے اور سر جھکانے پر زمین ہی ہوتی ہے،دکھائی دے یانہ دے، مگر
زندگی کے سفر کے لیے چار سمتوں کی ہی ضرورت پڑتی ہے،دائیں ،بائیں، آگے،
پیچھے۔پانچویں سمت پیر کے نیچے ہوتی ہے،وہاں زمین نہ ہو تو پاتال آ جاتا
ہے،پاتال میں پہنچنے کے بعد کسی سمت کی ضرورت نہیں ہوتی،چھٹی سمت سر کے
اوپر ہوتی ہے،وہاں جایا ہی نہیں جا سکتا،وہاں اﷲ ہوتا ہے،آنکھوں سے نظر نہ
آنے والا، مگر دل کی ہر دھڑکن، خون کی گردش، ہر آنے جانے والے سانس، حلق سے
اترنے والے ہر نوالے کے ساتھ محسوس ہونے والا‘‘۔
واقعی کتنی گہری حقیقت کی ترجمانی کی گئی ہے۔عمیرہ احمدکی تحریروں کاایک
بنیادی خاصہ یہ ہے کہ وہ بہت ہی آسان لفظوں میں زندگی کو احسن طریقے سے
گزارنے اور اپنے قاری کو نیکی اور اچھائی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی
ہیں۔’’مومن عیاش نہیں ہوتا، نہ تب، جب وہ رعایا ہوتاہے اور نہ تب، جب وہ
حکمران ہوتا ہے،اس کی زندگی کسی جانور جیسی زندگی نہیں ہوتی،کھانا،پینا،نسل
آگے بڑھانا اور فنا ہو جانا،یہ کسی جانور کی زندگی کا انداز تو ہو سکتا
ہے،مگر کسی مسلمان کا نہیں․․․‘‘۔(ص:392)
بعض مقامات پرعمیرہ احمد نے اتنے خوب صورت اور متاثرکن انداز میں زندگی کی
تلخ حقیقتوں کی نشان دہی کی ہے کہ وہ الفاظ قاری کواپنی روح میں اترتے ہوئے
محسوس ہوتے ہیں:
’’زندگی میں ہم کبھی کبھی اس مقام پر آجاتے ہیں،جہاں سارے رشتے ختم ہوجاتے
ہیں،جہاں صرف ہم ہوتے ہیں اور اﷲ ہوتاہے،کوئی ماں باپ،کوئی بہن بھائی،کوئی
دوست نہیں ہوتا،پھر ہمیں پتاچلتاہے کہ ہمارے پیروں کے نیچے زمین ہے نہ
ہمارے سروں کے اوپر کوئی آسمان،بس صرف ایک اﷲ ہے،جوہمیں اس خلا میں بھی
تھامے ہوئے ہے۔پھر پتاچلتاہے کہ ہم زمین پر مٹی کے ڈھیرمیں ایک ذرے یادرخت
پر لگے ہوئے ایک پتے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے،پھر ہمارے ہونے یا نہ ہونے
سے صرف ہمیں فرق پڑتاہے،صرف ہمارا کردار ختم ہوجاتاہے،کائنات میں کوئی
تبدیلی نہیں آتی،کسی چیز پر کوئی اثر نہیں پڑتا‘‘۔(ص:267)
ایک بڑا ناول اپنے پیغام کی عظمت ،گہرائی و گیرائی سے بڑا ہوتاہے
اور’’پیرِکامل‘‘کا پیغام ہے صراطِ مستقیم کی جانب راہنمائی ،صراطِ مستقیم
اﷲ اور ان کے رسول نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کی دکھائی ہوئی
راہ ہے،ہمیں دنیا میں کسی آئیڈیلزم کا شکار نہیں ہونا چاہیے،پیرِ کامل تو
بس حضور صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کی ذات مبارکہ ہے،جن کے نقشِ قدم پر چلتے
ہوئے اپنی آخرت سنوار سکتے ہیں،دل و دماغ میں لگے ہوئے دیمک سے صرف سنت کی
پیروی کرتے ہوئے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں،جو صراطِ مستقیم پہ چلتے ہیں اﷲ
ان کی حفاظت کرتا ہے،اﷲ انہیں کبھی زمانے میں رسوا نہیں کرتا؛بلکہ ہمیشہ
سرخرو کرتا ہے،دین میں بھی اور دنیا میں بھی،مذہب کا محبت سے تعلق ہے،تو
محبت کو بھی مذہب سے جوڑنا صحیح ہے،اجلی، صاف شفاف اور بے غرض محبت،یہی
روحانی تسکین کا واحد راستہ ہے؛ کیونکہ کوئی بھی انسان جب اﷲ اور اس کے
رسول سے محبت نہیں کر سکتا ،توصرف گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان سے کیسے
محبت کر سکتا ہے۔موجودہ ماحول میں اس قسم کے ناول اور کہانیوں کوپڑھنا کافی
مفید ثابت ہوسکتاہے،اس لیے بھی کہ ان میں نوجوان نسل کی تفریحِ طبع کابھی
سامان ہے اور اس لیے بھی کہ ان کے ذریعے سے اخلاقیات اور عمل و کردار کے ان
اُجلے راستوں کی نشان دہی کی گئی ہے،جن پر چل کرانسان اپنی دنیاکے ساتھ
ساتھ عاقبت کو بھی سنوار سکتاہے۔ |