ہماری قوم اس وقت مغرب کے شکنجے
میں کافی زیادہ حد تک پھنس چکی ہے کہ اب اس میں سے نکلنے کے لئے ہمیں بہت
جدوجہد کرنا ہوگی۔ وگرنہ ہم قومی تشخص کھو دیں گے اور پھر کوئی بھی دوسری
قوم ہم پر چڑھائی کردے گی۔ ہمیں رنگ و نسل، ذات پات جیسی عصیبتوں سے
چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔
ہمیں اپنی قوم کو سنوارنے سے پہلے اپنی اپنی ذات کو سنوارنا ہے کیونکہ جب
تک ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوجاتا کہ ہماری ملت کو اس وقت ہماری اشد
ضرورت ہے تب تک ہماری قوم کا مستقبل تاریک ہی نظر آتا ہے۔ قومیں تب ہیں
قومیں بنتی ہیں جب ان میں اتحاد و اتفاق ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد
کو پیدا کرنا ہے تاکہ ہماری قوم مضبوط ہوسکے اور اگر ہم متحد ہوگئے تو کسی
کی یہ مجال نہ ہوگی کہ وہ ہماری ارض پاک پر میلی نظر رکھے۔
تو آئیے آج ہم اس بات پر غور کریں کہ جب تک ہماری قوم کا ہر فرد اپنی ذمہ
داری کو سمجھ کر بھرپور طریقے سے اسے ادا نہیں کرلیتا تب تک ہم اس قوم کا
فرد ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتے۔ تو آئیے ہم یک جان ہوکر آگے بڑھیں اور
اپنی قوم کے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش میں جت جائیں۔
ایک اور بات یاد رکھنے کی ہے کہ محض دعوے کرنے سے انسان افضل نہیں ہوجاتا
بلکہ ہر چیز عمل مانگتی ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہم دعوے کرنے کی بجائے
عمل کرنے کو ترجیح دیں تاکہ ہم اپنی قوم کے مستقبل کو بہتر سے بہتریں
بناسکیں۔
یہ اس آرٹیکل کا دوسرا اور آخری حصہ ہے۔ |