احترامِ رمضان

رمضان صرف ایک مہینہ ہی نہیں بلکہ اس رحمت کا نام ہے جو خدا کی طرف سے اس کے بندوں کی جانب بھیجی جاتی ہے ۔ لیکن کیا اب رمضان کا احترام پہلے جیسا رہا ہے، کیا اب بھی مسلمان رمضان کا احترام اسی عقیدت اور جذبے سے کرتے ہیں جیسے پہلے کیا کرتے تھے۔

میرے ہم عصر اس بات کی تائید کریں گے کہ ہمارے بچپن میں رمضان کا ایک تقدس و احترام ہوتا تھا جو آج مفقود ہو چکا ہے۔ یہاں تقدس و احترام سے متعلق سرکاری پابندیاں نہیں ہیں بلکہ وہ حدود و قیود ہیں جو ہم خود ساختہ طور پر خود پر مسلط کر لیتے تھے مگر آج ان کا کوئی تصور وجود نہیں رکھتا۔ اولاً تو اس دور میں میڈیا کا اتنا رواج نہ تھا مگر پھر بھی اکثر گھروں میں سحری و افطاری کے اوقات میں ٹی وی دیکھا جاتا تھا مگر اس وقت یوں ٹی وی پر تحائف نہیں لٹائے جا رہے ہوتے تھے بلکہ ٹی وی لگانے پر دروس و حمد و نعت کی میٹھی آوازیں سماعتوں سے ٹکراتی تھیں۔ اشتہارات میں ناچ گانا نہیں تھا بلکہ اشتہار بھی رمضان کے تقدس کو پیش نظر رکھتے ہوئے تیار کیے جاتے تھے، بلکہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کچھ پروڈکٹس کے رمضان اشتہار تو ہم بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ افطاری سے پہلے کچھ کوکنگ کے پروگرام ضرور ٹی وی پر لگتے تھے مگر عمومی طور پر رمضان ٹرانسمیشن تعلیماتِ دینیات سے عبارت ہوتی تھی۔ میں نے بقائمی ہوش و حواس وہ دور بھی مشاہدہ کیا ہے جب پی ٹی وی کے آٹھ بجے والے ڈرامے کی اقساط بھی رمضان میں ساقط ہو جایا کرتی تھیں اور اگر ڈرامہ لگایا بھی جاتا تھاتو پچھلی قسطوں کو ہی دہرایا جاتا تھا، نئی قسط عید کے بعد جا کر نشر کی جاتی تھی۔ مغرب کی نماز کے بعد رمضان کی مناسبت سے خصوصی اصلاحی ڈرامے نشر کیے جاتے تھے جن میں ایک ڈرامہ سیریز مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ اْس کی ہر قسط کسی ایک آیت یا حدیث کی بنیاد پر بنائی گئی تھی۔

پھر درود شریف، اسماء الحسنیٰ، قصیدہ بردہ شریف، حمد و نعت اور اینی میشن کے ساتھ سورہ مبارکہ کی تلاوت کسی ٹائمنگ یا شیڈول کی پروا کیے بغیر وقتاً فوقتاً نشر کی جاتی تھیں۔ 80ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے بیشتر افراد کو اسماء الحسنیٰ پی ٹی وی کی بدولت دیکھ دیکھ کر ہی یاد ہوئے۔

پھر وقت نے کروٹ لی اور2002-2003 میں جیو نے ‘‘عالم آن لائن’’ متعارف کروایا۔ یہ وہ دور تھا جب بیشتر علمائے کرام ٹی وی کو حرام قرار دیتے تھے اور اسی باعث ثقہ علماء نے ٹی وی پر آنے سے انکار کر دیا، پھر ہر داڑھی والا شخص عالم بنا کر میڈیا پر پیش کیا جانے لگا۔ بلکہ ایسا بھی ہوتا رہا کہ جس ‘‘عالم’’ کو ٹی وی پر بٹھایا جاتا تھا اس کی فکر، فقہ حتیٰ کہ عقیدے سے خود پروگرام پروڈیوسر تک واقف نہیں ہوتا تھا مگر جو بھی ٹی وی پر آنے کی رضا مندی ظاہر کرتا، اسے میک اپ کر کے اسکرین پر بٹھا دیا جاتا۔ ہمارے آج کے دور کے اکثر ‘‘علماء ’’ اسی دور کی پیداوار ہیں جنہیں اسکرین کا اب اس قدر چسکا ہے کہ چھوٹے نہیں چھوٹتا۔

مجھے آج بھی یاد کہ 2003ء میں رمضان المبارک میں میں نے عالم آن لائن کے توسط سے دو عجیب فتاویٰ سنے۔ اول تو یہ کہ انڈہ کھا کر روزہ رکھنے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے ، اس رْو سے ہم نے تو تمام عمر مکروہ روزہ ہی رکھا ہے اور دوم یہ کہ اگر کپڑے پر شیشے لگے ہوں تو نماز نہیں ہوتی کہ اس میں اپنا ہی عکس نظر آتا ہے۔ اگرچہ میں نے یہ فتوے خود براہ راست نہیں سنے کیونکہ اس زمانے میں کیبل ہر گھر میں نہیں ہوتی تھی مگر ان کی بازگشت دور دور تک سنائی دی تھی۔ اتفاقاً اسی سال میں نے عیدالفطر پر جو سوٹ پہنا تھا، اس میں گلے کے پاس کڑھائی تھی جس میں شیشے لگے ہوئے تھے، مجھے عید ملنے والے ہر دوسرے شخص نے کہا کہ تمھاری تو نماز ہی نہیں ہوئی کہ کپڑے پر شیشے کا کام ہوا ہواہے۔ خیرعالم آن لائن ہٹ ہو گیا اور ٹی وی میڈیا کے ساتھ ساتھ رمضان ٹرانسمیشن کا ایک باقاعدہ حصہ بن گیا۔

پھر عامر لیاقت نے کچھ نیا کرنے کی سوچی اور یہ زیادہ پرانی نہیں محض تین یا چار سال پرانی بات ہے جب رمضان میں گیم شوز پر مبنی ٹرانسمیشن کا آغاز کیا گیا۔ اے آر وائی نے جیو کی نقالی کی، ایکسپریس نے بھی دونوں کے لال منہ دیکھ کر اپنے منہ پر طمانچے مارنے شروع کر دئیے۔ سماء ، ہم اور باقی چینلز کس لیے پیچھے رہتے؟ وہ بھی کمر کس کر میدان میں اتر آئے اور ایک ہاہاکار مچ گئی۔ البتہ یہاں پر ایک کریڈٹ ’’ہیرو ٹی وی‘‘ کو بھی جاتا ہے (جو میں نے آج تک نہیں دیکھا) کہ جس کا سلوگن ہی یہ تھا کہ ‘‘دکھا دے سب کچھ’’ اس نے (محض ریٹنگ کے حصول کے لیے) عین اْس سال جب وینا ملک نے بھارت میں متنازع فوٹو شوٹ کروایا تھا، رمضان ٹرانسمیشن میں وینا ملک کو بطور اینکر لا بٹھایا جنہوں نے ٹی وی پر بیٹھ کر اپنے اور عوام کے گناہوں پر استغفار کرنا شروع کیا اور اس کے بعد یہ ریت ایسی چل نکلی کہ آج ایکٹریسز اور سنگرز ٹی وی پر شو کرتی ہیں اور عوام گھر بیٹھے استغفار کرتے ہیں۔

ایک بار خوبرو چہروں سے رمضان ٹرانسمیشن کروانے کا سلسلہ چلا تو ایسا چلا کہ پھر تھما نہیں اور اب یہ اْس بامِ عروج پر ہے کہ ‘‘کراچی سے لاہور’’ میں آئٹم سانگ پکچرائز کروانے والی عائشہ عمر بھی ماہ مبارک میں درس و تدریس کی نشست سنبھالے ہوئے ہیں۔ بشریٰ انصاری کہ جن کی تمام عمر ایکٹنگ، سنگنگ کرتے گزری وہ بھی رمضان ٹرانسمیشن کا حصہ ہیں، فہد مصطفیٰ البتہ رمضان میں گیم شو تک ہی محدود ہیں اور اب وسیم اکرم اور شعیب اختر نے بھی گیم شوز شروع کر دئیے ہیں۔ عامر لیاقت اب موبائل بانٹنے سے ایک قدم مزید آگے بڑھ گئے ہیں اور لوگوں میں جہاز تقسیم کرتے پھر رہے ہیں۔

پچھلے پانچ، چھ سال کے دوران رمضان ٹرانسمیشن میں جو تغیرات ان آنکھوں نے مشاہدہ کیے ہیں ان کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ اگر یہ صدی کتابوں سے عشق کی واقعتاً آخری صدی ہو تو بھی کتابوں سے ابھی ہمارا تعلق مزید سات آٹھ دہائیوں تک قائم رہے گا مگر احترامِ رمضان کے یہ محض آخری چند سال ہی ہیں کہ اس کے بعد رمضان کا مطلب گیم شو اور ایکٹریسز کو سر پر دوپٹہ دے کر بٹھا دینے کا نام رہ جائے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ بربادی یکدم نہیں آتی جب احتجاج کی روح معدوم سے معدوم اور آخرکار ختم ہوتی چلی جائے گی تو یہی ہو گا۔
 

Hamza Jaffry
About the Author: Hamza Jaffry Read More Articles by Hamza Jaffry: 13 Articles with 13109 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.