بہار بے شمار……اور…… کاروبار

جب کبھی دنیا سرحدات میں قید نہ تھی اوریہ دنیا ایک گاؤں اور ایک علاقہ کی مانند شرق سے غرب تک انسانوں کو ہر مقام پر خوش آمدید کہتی تھی جب مسلمان اپنی ثقافت ،دیانت ،امانت،تجربہ کاری،تعلیم و تربیت اور خوش اخلاقی کے سبب اقوام عالم میں ممتاز ترین قوم ہوا کرتی تھی ۔ مسلمان قوم کی اپنی روایات ہیں اور یہ روایات دین اسلام کے تابع اور قرآن وسنت سے ماخوذ ہیں ۔مسلمان قوم کے یہاں سال کے گیارہ مہینوں اور رمضان المبار ک کیلئے الگ ،الگ ماحول اور ترتیب ہے ۔ویسے ہم نے تو آج تک یہ دیکھا ہے کہ رمضان المبارک کے شروع ہونے میں ابھی پانچ چھے ماہ باقی ہوتے ہیں کہ بزرگ شخصیات،اہل اﷲ اور نیکی کے حریص لوگوں کی زبانوں پر رمضان کا ذکر خاص اور اس ماہ کو پانے کیلئے دعائیں ہونا شروع ہوجاتی ہیں ۔چونکہ رمضان المبارک میں عوام و خاص کیلئے سحرو افطار کے اہتمام کی بات ہو یا خدمت خلق کا مرحلہ ،صوم و صلاۃ کی پابندی کا عمل ہو یا تراویح میں قرآن مجید سننے اور سنانے کا عمل ’’ بس ہر ایک سے یہی سننے کو ملتا ہے کہ رمضان آرہا ہے،رمضان آرہا ہے ‘‘ ایک جوش، ایک جذبہ، ایک ولولہ ،فرحت و انبساط اور خصوصا ً بڑی عمر کے افراد کے احساسات تو دیدنی ہوتے ہیں ۔جب محافل اور گھروں میں اس طرح کے ذکر ہوتے ہیں تو نوجوانوں اور بچوں کے ذہنوں میں اس جذبے کے پیچھے کار فرما حکمت کے بارے میں سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔جن کے جوابات کہیں مختصر اًاور کہیں تفصیلات کے ساتھ بیان کرکے بچوں کے ذوق اور شوق میں اضافہ کیا جاتا ہے اور پھر بچے بھی رمضان آرہا ہے رمضان آرہا ہے کا ذکر خیر کرتے ہیں اور روزوں کی ترتیب اور ارادوں سے اپنے والدین کو اگاہ کرکے ان مباحث اور محافل میں حصہ لیتے ہیں ۔درحقیقت رمضان کی بہاریں اور برکتیں اتنی اور بے شمار ہیں کہ اہل اسلام کو اس نعمت عظمی کے حاصل ہونے پر اﷲ کے حضور سجدہ ریز ہونا چاہیے چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس ماہ مبارک کی برکت سے گرم مزاج نرم خو نظر آتے ہیں ،غرباء فقراء ،مساکین اور محتاج بھی صبح و شام پیٹ بھر کر کھاتے ہیں ۔اہل خیر ضرورت مندوں تک پہنچتے ہیں اور اُن کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عمومی حالات میں اپنے اﷲ سے ملاقات کے خواہشمند ان مبارک ایام کو پانے کیلئے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی دعاکا بکثرت ورد کرتے ہیں کہ یااﷲ رمضان کا مبارک مہینہ نصیب فرما لیکن آخر اس ماہ مبارک میں ایسی کیا خوبی ہے جس کو پانے کیلئے دعاؤں اور صدقات کا اہتما ہوتا ہے ۔آئیے دربار رسالت ﷺ کی طرف رجو ع کرتے ہیں اور جانتے ہیں احادیث کی کتاب میں موجود یہ واقعہ اور حدیث مبارکہ ہماری راہنمائی کچھ اس طرح کرتی ہے ۔ملاحظہ فرمائیں

حضرت طلحہ بن عبید اﷲ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دونوں نے بیک وقت اسلام قبول کیا ، اس کے بعد ان میں سے ایک آدمی زیادہ عبادت کرتا تھا اور وہ اﷲ کی راہ میں شہید ہوگیا ،جبکہ دوسرا آدمی ،جو پہلے آدمی کی نسبت کم عبادت گذار تھا اُس کی شہادت کے ایک سال بعد فوت ہوا۔حضرت طلحہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ یہ دوسرا آدمی شہادت پانے والے آدمی سے پہلے جنت میں داخل ہوا ہے ۔اور جب صبح ہوئی تو میں نے یہ خواب لوگوں کو سنایا جس پر انھوں نے تعجب کا اظہار کیا ۔چنانچہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’ کیا یہ (دوسرا آدمی) پہلے آدمی کے بعد ایک سال تک زندہ نہیں رہا ؟جس میں اس نے رمضان کا مہینہ پایا ،اس کے روزے رکھے اور سال بھر اتنی نمازیں پڑھیں ؟ تو ان دونوں کے درمیان (جنت میں) اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان ہے ۔‘‘(ابن ماجہ3925)

اس حدیث میں ذرا غور فرمائیں کے دو آدمی اکٹھے مسلمان ہوئے ، ان میں سے ایک دوسرے کی نسبت زیادہ عبادت گذار تھا اور اسے شہادت کی موت نصیب ہوئی ۔جبکہ دوسرا آدمی پہلے آدمی کی نسبت کم عبادت کرتا تھا اور اس کی موت عام موت تھی لیکن کیا وجہ ہے کہ یہ جنت میں پہلے داخل ہوا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ پہلے آدمی کی شہادت کے بعد ایک سال تک زندہ رہا اور اس دوران رمضان المبارک کا مہینہ نصیب ہوا جس میں اس نے روزے رکھے اور سال بھر نمازیں بھی پڑھتا رہا اور اسی طرح دیگر عبادت بھی ۔تو روزوں اور نمازوں کی بدولت وہ شہادت پانے والے آدمی سے پہلے جنت میں چلاگیا …… یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رمضان المبارک کا پانا اور اس کے روزے رکھنا اﷲ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے ۔

اور آپ ذرا غور کریں کہ ہمارے کتنے رشتہ دار اور کتنے دوست احباب پچھلے سال رمضان المبارک میں ہمارے ساتھ تھے لیکن اس رمضان المبارک کے آنے سے پہلے ہی وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے اور انہیں یہ مبارک مہینہ نصیب نہ ہوا۔جبکہ ہمیں اﷲ تعالیٰ نے زندگی او رتندرستی دی اور یہ مبارک مہینہ نصیب فرماکر ہمیں ایک بار پھر موقعہ دیا کہ ہم تمام گناہوں سے سچی توبہ کرلیں اور اپنے خالق و مالک اﷲ تعالیٰ کو راضی کرلیں ……تو کیا یہ اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت نہیں ؟

اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ رمضان المبارک ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو اور آئندہ رمضان کے آنے سے پہلے ہی ہم بھی اس جہان فانی سے رخصت ہوجائیں ! توہمیں یہ موقعہ غنیمت تصور کرکے اس کی برکات کو سمیٹنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے ۔

اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں روزہ کے عمل کی بدولت مقبول شفاعت کی بات کی گئی ہے کہ قیامت کے دن روزہ ،روزہ دار کے حق میں شفاعت کرے گا اور اس کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔جیساکہ رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : روزہ اور قرآن دونوں بندے کے حق میں روز قیامت شفاعت کریں گے ۔روزہ کہے گا : اے میرے رب! میں نے اسے کھانے سے اور شہوت سے روکے رکھا ، اس لئے تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول کرلے ۔ اور قرآن مجید کہے گا : میں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا ، لہذا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول کرلے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : چنانچہ ان دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی ۔‘‘(رواہ احمد و الحاکم 984)

واقعی مقبول شفاعت کا وعدہ دنیا میں ہی کتنے بڑے اعزاز اور سعادت کی بات ہے ۔پھر اتنے قیمتی اوقات کو پانے کی طلب اور پھر اس قدر اہل ایمان کی طرف سے اہتمام بھی ان احادیث کی اہمیت اور فضیلت کے آگے کہیں کم ہے ۔اور یہ تو صرف دو احادیث مبارکہ کا ذکر ہے جو ہماری الجھن کی دوری کا باعث ہے جبکہ ذخیرہ احادیث میں رمضان المبارک میں کیے گئے نیک اعمال کے بدلے بے حساب اور بے شمار اجرو ثواب اور دنیا و اخرت کی نعمتیں ،کامیابیاں اور کامرانیاں لکھی گئی ہیں ہمیں تو اس موقع سے فائدہ اُٹھا نا چاہیے ۔

میں اپنے اردگرد رمضان کے ماحول کا بغور جائزہ لیتا ہوں تو مجھے حیران کن حدتک خوشی ہوتی ہے اور ان اوقات کو قیمتی بنانے والوں کی ذات پر رشک آتا ہے ۔ایک تو مساجد کی آبادی اور نمازیوں کا شوق وذوق کی بات ہے یہ عام ماحول سے تو واقعی ہٹ کر ہوتا ہے کہ رمضان میں عمومی نمازوں میں اتنا رش ہوتا ہے کہ جتنا عام دنوں میں جمعہ کے اجتماعات میں ہوتا ہے ۔لیکن مسجد تو مسجد ہے اور وہاں یہ اہتمام عام بات ہے مگر رمضان میں تو مساجدجیسا ماحول بہت سے لوگ اپنے گھروں میں بھی قائم کرتے ہیں اور ایسی جگہوں پر بھی جہاں محلہ کے نمازی نہیں ہوتے لیکن وہ مصلے اور مساجد بھی آباد ہوتی ہیں ۔میں گزشتہ چند سالوں سے جہاں تراویح اداکرتاہوں ۔یہاں نماز تراویح کی امامت کروانے والے حافظ صاحب ایک کامیاب اور شہر کے بڑے بزنس مین ہیں ۔وہ رہائشی علاقے سے دور فیکٹری ایریا کی ایک مسجد کو آباد کرتے ہیں ۔یہ نہ صرف خود مستقل مزاجی کے ساتھ گزشتہ تقریباًچالیس سالوں سے یہ عمل مسلسل کررہے ہیں بلکہ ان کے والد گرامی ،بھائی ،بچے ،دفتر کے احباب اور دوست و عزیز بھی اس کار خیر کا حصہ ہیں ۔انتہائی محبت سے قرآن مجید کی تلاوت ،ذکر و اذکار اور دعاؤں کا خوبصورت اہتمام ہوتا ہے ۔میں تو اکثر انہیں دیکھ کر کہا کرتا ہوں کہ قرآن مجید کی محبت اور حق تو آپ لوگ ادا کرتے ہیں اور آپ لوگوں کو دیکھ کر ہمیں نیکی کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔اب تو الحمد ﷲ حافظ صاحب کا ایک ننھا اور معصوم پیارا سابچہ علی سبحان بھی حفظ کررہا ہے اور کافی سیپارے حفظ کرچکا ہے ۔گزشتہ اسی ایک عرصہ میں حافظ صاحب کی بڑی صاحبزادی سخت علیل تھیں ۔لیکن حافظ صاحب کے معمول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اُنہوں نے دن بھر مریضہ کی خدمت اور راتوں کو قرآن مجید سنانا ۔پھر یہ صاحبزادی اﷲ کو پیاری ہوگئی رات میں وہ فوت ہوتی ہیں اور صبح کی نماز میں جنازہ ہوتا ہے کہ میت کو جتنا جلدی ممکن ہو دفنا دیا جائے اور یہاں اس بات کا بخوبی اہتمام ہو۔ا پھر اتنے بڑے صدمے پر اس فیملی کا صبر بھی قابل تعریف رہا ۔اس کے بعد کی زندگی میں حافظ صاحب اور اُن کی پوری فیملی میں دین سے تعلق میں اور پختگی دیکھی گئی اور آج بھی خاموشی اور مستقل مزاجی سے وہ اور ان کی فیملی ان نیک اعمال پر قائم و دائم ہیں ۔تقبل اﷲ

اسی طرح ہمارے دو حفاظ عزیزقاری خوش الحان حافظ حمزہ سعید الازہری،اور مولانا قاری صلاح الدین ہزاروی گزشتہ کئی سالوں سے عدلیہ سے وابستہ اہم ترین عہدوں پر فائز بڑی شخصیات کے گھر قرآن مجید سناتے اور سنتے ہیں ان حافظ صاحبان کے بقول ان شخصیات کے معمولات دیکھ اور سن کر حیرانگی ہوتی ہے کہ فتنوں کے اس زمانے میں بھی نیکو کار لوگوں کی کمی نہیں ہے ۔

اسی طرح اسلام آباد کی ایک بزرگ اور اﷲ والی شخصیت حاجی محمود صاحب رحمۃ اﷲ علیہ جہاں علماء ،طلباء کے حلقوں میں انتہائی مقبول رہے ، حوصلہ افزائی کرنے اور شفقت فرمانے والی شخصیت تھے وہاں اُن کے گھر کا معمول بھی قابل رشک رہا ۔کار خیر کے دیگر کاموں میں حد سے زیادہ حصہ لینے کے علاوہ حاجی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے بچوں اور بچیوں کی اولاد میں آج ماشاء اﷲ کئی حفاظ ہیں ۔اور یہاں حفاظ کی قدروقیمت کے ساتھ ان بچوں کے حفظ پر شاندار تقریبات کا اہتمام قرآن مجید سے خصوصی تعلق اور محبت کابین ثبوت ہے ۔اسی طرح دیگر تعلیمی مصروفیات کے باوجود اہتمام کے ساتھ حاجی صاحب ؒ کی اولاد کے گھروں میں نماز تراویح میں گھر کے بچے قرآن مجیدسننے اور سنانے کا بہترین اہتمام اور چھوٹے بڑوں کی شرکت یقینی ہوتی ہے ۔

اسی طرح حفظ کی کلاس میں مدرسہ تعلیم الاسلام جی سیون ٹو اسلام آباد میں ہمارے ہم سبق موبائل ٹیکنالوجی کی فیلڈ سے وابستہ دوست حافظ عمران صاحب دوبھائی ہیں اور دونوں بہت پکے حافظ ہیں ۔دوروز قبل جب ملاقات ہوئی تو پوچھا حافظ ادریس (بزنس مین اور جنرل کونسلر )صاحب کی سنائیں تراویح کا معمول کیسا چل رہا ہے ۔کہتے ہیں کہ میں انتظار میں ہی ہوں کہ کب غلطی آئے گی ۔ماشاء اﷲ حافظ صاحب اتنا خوبصورت پڑھتے ہیں اور اتنا پکا یاد ہے کہ غلطی کی گنجائش تک نہیں چھوڑتے ۔یہاں جاکر قرآن مجید کا اعجاز سمجھ آتا ہے ۔اب تو حافظ عمران صاحب کا ایک بیٹا بھی حافظ ہوگیا ہے ۔جب کہ حافظ صاحب کے دوست اور پارٹنر حافظ صابر حسین والدہ کے ہمراہ آج کل عمرہ کے مبارک سفر پر ہیں اُ ن کا بھی بیٹا حفظ کے اختتامی مراحل میں ہے اور ان سب حضرات کے معمولات اور رمضان المبارک کے حوالے سے اہتمام قابل رشک اور قابل تقلید ہے ۔یہ تو میں نے سرسری طور پرمختصراًاپنے حلقہ میں سے آٹے میں نمک کے برابر کچھ ذکر کیا ہے ۔درحقیقت علماء اور طلباء ،مساجد اور مدارس ،خانقاہ اور درسگاہ سے ہٹ کر بھی دینی، تعلیمی، ترغیبی، تربیتی ماحول معاشرے میں مستقل مزاجی اور خاموشی سے موجود ہے اور یہ اس معاشرے کا خاصہ ہے اور رمضان المبارک میں ان اعمال میں نکھار آجاتا ہے ۔ سچ یہ ہے کہ دنیا کی اس محفل میں یہ گھرانے اور ایسے لوگ انمول ہیں جو عمومی ماحول اور سوسائیٹی میں قائدانہ کردار اداکرنے کے ساتھ ساتھ عمومی ماحول میں بھی اور خصوصاًرمضان کی بہاروں اور برکتوں کولوٹ رہے ہوتے ہیں ۔ اﷲ کریم ہمیں بھی رمضان کی برکتیں سمیٹنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ایسے کام کی توفیق عطاء فرمائے کہ جس سے ہمارا رب راضی ہوجائے ۔آمین

Hafeez Usmani
About the Author: Hafeez Usmani Read More Articles by Hafeez Usmani: 57 Articles with 40407 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.