انجمن ترقی اردو وہ ادارہ ہے جس نے اردو کو حیاتِ نو
بخشی۔
پس منظر:
سرسید احمد خاں کو جب’ محمڈن کالج‘ کے قیام ۲۴ مئی ۱۸۷۵ء کی جانب سے
اطمینان ہوا تو انھوں نے سوچا کہ صرف ایک کالج سے قومی تعلیم کا مسئلہ حل
نہیں ہوگا اس لیے کہ دوردراز علاقوں میں رہنے والے مسلمان ایک دوسرے کے
حالات سے بے خبر ہیں اور کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ صوبوں اور اضلاع کے لوگ
ایک جگہ جمع ہوں اور قوم کی تعلیم و ترقی کے سلسلہ میں اپنے خیالات کا
اظہار کرسکیں کہ قومی یگانگت اور ہمدردی پیدا ہو اور تعلیم و ترقی کی سمت
نمائی ہو سکے۔ اسی خیال کے تحت ۱۸۸۶ء میں انھوں نے ’محمڈن ایجوکیشنل
کانفرنس‘ کی بنیاد رکھی۔ ۱۸۹۰ء میں اسے آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس
کے نام سے موسوم کیاگیا۔ ابتدا میں کانفرنس کے مقاصد حسبِ ذیل تھے (دیکھیے
پنجاہ سالہ تاریخ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس، ۱۹۳۷ء)
۱۔ مسلمانوں میں یوروپین لٹریچر کے پھیلانے اور اس کو وسعت دینے اور انھیں
اعلیٰ درجے کی تعلیم دینے کی کوشش کرنا۔
۲۔ مسلمانوں نے جو قدیم علوم میں ترقی کی اس کی تحقیقات کراکے شائع کرنا۔
۳۔ نامی گرامی علما اور مشہور مصنفینِاسلام کی سوانح عمریوں کو اردود یا
انگریزی میں لکھوانا۔
۴۔ مسلمان مصنفین کی وہ تصنیفات جو نایاب ہیں ان کا پتا لگانا کہ وہ کس جگہ
موجود ہیں اور پھر انھیں ازسرِنو شائع کرنا۔
۵۔ تاریخی واقعات اور قدیم تحقیقات پر لوگوں کو تقریر پر آمادہ کرنا۔
۶۔ دنیاوی علوم کے کسی مسئلہ یا تحقیقات پر کسی رسالہ کہ تحریر ہونے پر
تقاریر کا بندوبست کرنا۔
۷۔ فرامینِ شاہی کو بہم پہنچا کر ان سے کتابِ انشا کا مرتب کرانا اور ان کے
نمونے فوٹوگراف کے ذریعہ سے قائم کرنا۔
۸۔ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے جو انگریزی مدرسے مسلمانوں کی طرف سے قائم ہیں
ان میں مذہبی تعلیم کے حالات دریافت کرنا اور بقدرِ امکان عمدگی سے اس
تعلیم کو طلبا میں پھیلانا۔ (پنجاہ سالہ تاریخ ، ص ۴۔۵)
آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا پہلا اجلاس ۲۷ دسمبر ۱۸۸۶ء کو علی گڑھ
میں ہوا۔ کئی اجلاس منعقد ہوتے رہے ایک سالانہ اجلاس ہزہائی نس سرآغا خاں
کی صدارت میں دہلی میں ۲۷ دسمبر ۱۹۰۲ء سے ۴ جنوری ۱۹۰۳ء تک ہوا۔ اجلاس کے
ممبروں کی تعداد ۱۰۳۶۱ اور وزیروں کی تعداد ۳۱۰ تھی جنھوں نے اس اجلاس میں
شرکت کی۔ (پنجاہ سالہ تاریخ، ص ۸۸۔۸۹) اس وقت تک کانفرنس کے تین شعبے تعلیم
نسواں، تعلیمی مردم شماری اور مدارس تھے۔ دہلی اجلاس میں تین مزید شعبے
سوشل ریفارم، ادبی شعبہ، امور متفرقات شامل ہوئے۔
انجمن ترقی اردو کا قیام:
انجمن ترقی اردو کے قیام کی تجویز ۴ جنوری ۱۹۰۳ء کو منظور ہوئی لیکن اس پر
عمل درآمد میں کچھ وقت صرف ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ اس ضمن میں مولانا شبلی
کا بیان ہے کہ اس کے ارکانِ انتظامی کے پاس بھیجنے اور ردوبدل اور اصلاحات
و ترمیمات میں تین ماہ صرف ہوئے اس لیے کارروائی کا آغاز اپریل ۱۹۰۳ء سے
ہوا۔ (باقیاتِ شبلی ص ۶۵) مولوی میرحسن نے بھی اتفاق کیا اور لکھا کہ
’’انجمن کا دستور العمل ۸؍اپریل، ۱۹۰۳ء کو شائع ہوا۔ اس لیے انجمن کے قیام
کی تاریخ اس زمانہ سے شمار کی جاتی ہے۔ (مغربی تصانیف کے اردو تراجم ص ۹۰)
انجمن کے اغراض و مقاصد:
انجمن کے قواعد و ضوابط انجمن ترقی اردو کے صدر نواب عماد الملک سید حسین
بلگرامی اور معتمد اعزازی مولوی عبدالحق کے دستخطوں سے شائع ہوئے۔ ان میں
ترامیم اور اضافے ہوتے رہے۔ طے پایا کہ اس انجمن کا نام ’انجمن ترقی اردو‘
ہوگا اور اس کے مقاصد حسبِ ذیل ہوں گے۔
۱۔ اصلاحِ زبان یعنی اردو زبان میں جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں انھیں رفع
کرنا۔ غیر مانوس اجنبی الفاظ و محاوراتِ غیر زبان جو بلاضرورت داخل ہو رہے
ہیں ان سے بچنا اور صحیح و فصیح زبان کو رواج دینے کی کوشش کرنا۔
۲۔ ہندوستان کے جن اضلاع میں اردو کا رواج نہیں یا کم ہے ان میں اردو زبان
کے رواج دینے کی کوشش کرنا۔
۳۔ قدیم نظم و نثر کو ضائع ہونے سے بچانا اور جدید کو ترقی دینا۔
۴۔ علمی کتب کی اشاعت اور اصطلاحات کی لغات مرتب و شائع کرنا۔
۵۔ اردو زبان کی قدیم و جدید تالیفات و تصنیفات پر مبنی کتب خانہ قائم
کرنا۔
۶۔ ہر صوبہ کی اردو درسی کتب کی جانچ پڑتال کرنا اور نقائص کی درستگی کے
لیے گورنمنٹ سے خواہش کرنا۔
۷۔ اگر انتظام ممکن ہو اور انجمن کا سرمایہ مساعدت کرے تو اردو زبان و ادب
کے متعلق ایک ماہانہ رسالہ جاری کرنا۔
تدابیر:
مذکورہ بالا مقاصد کے حصول کے لیے حسبِ ذیل تدابیر اختیار کی جائیں گی۔
۱۔ السنہ مشرقی و مغربی سے ایسی کتابوں کا ترجمہ کرانا جو ملک کے لیے مفید
ثابت ہوں اور تصنیفات و تالیفات کی ڈائریکٹری تیار کرنا۔
۲۔ ایسی جدید تالیفات و تصنیفات کرانا جن کی اردو زبان کو ضرورت ہے۔
۳۔ قدیم اساتذہ کی قابلِ قدر قلمی کتابوں کا شائع کرنا۔
۴۔ انجمن ان تمام تالیفات و تصنیفات اور تراجم کے لیے جو انجمن کی تحریک سے
ہوں گے یا جن کا حق تالیف وہ خریدنا چاہے گی معقول معاوضہ دے گی۔ معاوضہ کی
دو صورتیں ہوں گی۔
(الف) یا تو انجمن نقد معاوضہ دے گی اس صورت میں حقِ تصنیف انجمن کو حاصل
ہوگا۔
(ب) انجمن کوئی نقد معاوضہ نہیں دے گی لیکن کتاب اپنے صرفہ سے طبع کرائے
گی۔
عہدہ داران و اراکین:
۴ جنوری، ۱۹۰۳ء کو انجمن ترقی اردو کے قیام کے وقت مندرجہ ذیل عہدہ داران
کا انتخاب عمل میں آیا۔
۱۔ اعلیٰ حضرت میرعثمان علی خاں سرپرستِ اعلیٰ منتخب ہوئے۔
۲۔ سرپرستوں میں نواب سلطان جہاں بیگم، صاحبزادہ حاجی محمد حمید اﷲ خان
بہادر، نواب سالار جنگ ، سر فاضل بھائی، کریم بھائی، راجہ پرتاب، مرزا محمد
علی، مہاراجہ سرکشن پرشاد، شامل تھے۔
۳۔ معاونین میں نواب صدر یار جنگ، نواب سرامین بہادر، بہادر احمد علاؤ
الدین، حاجی عبدالمجید مالک، سید جواد علی شاہ، حافظ محمد صدیق، حاجی شبیر
احمد، سیٹھ موتی لال، شرف الدین، دلدار حسن خاں منتخب ہوئے۔
۴۔ پہلے صدر پروفیسر سرٹامس واکر آرنلڈ، ۱۹۰۳ء۔۱۹۰۴ء ، نائب صدور ڈاکٹر
نذیر احمد۔ ۱۹۰۳ء۔۱۹۱۲ء، مولوی ذکاء اﷲ ، ۱۹۰۳ء۔۱۹۱۲ء مولانا الطاف حسین
حالی۔ ۱۹۰۳ء۔۱۹۱۴ء منتخب ہوئے۔
۵۔ معتمد کی حیثیت سے شبلی نعمانی ۱۹۰۳ء۔۱۹۰۵ء کا انتخاب عمل میں آیا۔
۶۔ نائب معتمد حامد علی صدیقی سہارنپوری ۱۹۰۳ء کے لیے مقرر ہوئے۔
(انجمن کی مختلف سالانہ رودادوں میں مابعد تبدیلیاں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں)
ارکانِ شوریٰ:
انجمن نے ۱۹۱۷ء میں ہر مضمون کے لیے ارکانِ شوریٰ کا انتخاب کیا تاکہ
کتابوں کے انتخاب، ترجمہ و تالیف میں ان کی رائے اور مدد لی جا سکے۔ (۱۹۲۰ء
کی سالانہ رپورٹ انجمن ترقی اردو کے مطابق ارکانِ شوریٰ کے اسمائے گرامی یہ
ہیں۔
۱۔فلسفہ۔ کے لیے ڈاکٹر محمد اقبال، مولانا حمید الدین، ڈاکٹر ولی محمد،
مرزا محمد ہادی، عبداﷲ سمادی، مرزا حبیب حسن اور عبدالرحمن بجنوری۔
۲۔ سائنس۔ کے لیے مرزا مہدی خاں کوکب، برکت علی، فیروز الدین، غلام حسنین
مولوی عبدالرزاق، لالہ سری رام، نظام الدین حسن وکیل، برجموہن دتاتریہ
کیفی، پیارے لال شاکر، لالہ سورج نرائن، دیا نرائن نگم، محمد فاروق، مولوی
نورالحسن، رفیع الدین، خواجہ غلام الثقلین، فدا علی خاں، اے حیدری، منوہر
لال، سید احمد دہلوی، ناظرالدین حسن۔
۳۔ اقتصادیات کے لیے۔ محمد الیاس ، عبدالرحمن صدیقی، غلام یزدانی، سید
محفوظ علی بدایونی، عبدالقادر نظام۔
۴۔ سیاسیات کے لیے۔ ڈاکٹر محمد اقبال، پنڈت ہردے ناتھ کنزرو، محمد علی،
قاضی تلمذ حسین، مولوی محمد شاہ دین، ڈاکٹر سیف الدین۔
۵۔ علم و ادب۔ کے لیے کئی نام ہیں جو ۱۹۴۶ء تک یہ خدمات انجام دیتے رہے۔ ان
میں نواب عمادالملک، علی حیدر طبا طبائی، عبدالحلیم شرر، مولوی محمد
اسماعیل، شاد عظیم آبادی، حبیب الرحمن خاں شیروانی، ابوالکلام آزاد، معشوق
حسین خاں، سجاد حیدر، سجاد مرزا بیگ دہلوی، مرزا سلطان احمد، مولوی بشیر
الدین، وحید الدین سلیم، اسحاق علوی شامل ہیں۔
۶۔ تاریخ کے لیے۔ مولانا عبدالحلیم شرر، قاضی تلمذ حسین اور سید ہاشمی فرید
آبادی کو چُنا گیا۔
مجلس نظماء:
مجلسِ نظما انجمن ترقی اردو ۱۹۲۴ء میں قائم کی گئی، انجمن ترقی اردو کے
آئین کی تجدید ہوئی۔ ۱۹۲۶ء میں انجمن کے صدر نواب عماد الملک سید حسین
بلگرامی کے انتقال کے بعد سرسیدراس مسعود انجمن کے صدر ہوئے۔ نئی مجلسِ
نظماء تشکیل پائی۔
۱۹۳۷ء میں ان کے انتقال کے بعد سرتیج بہادر سپرو صدر ہوئے۔ ارکان میں
تبدیلی آئی۔
رفقائے انجمن ترقی اردو:
۱۹۴۵ء میں انجمن کے اغراض و مقاصد کی تشہیر و تکمیل میں سہولت کی غرص سے
نئی مجلس نظما کا قیام عمل میں آیا (اس کی تفصیل باقیاتِ شبلی میں ملاحظہ
فرمائیں)۔
مولوی عبدالحق جب انجمن کے سیکریٹری منتخب ہوئے ان کا مستقر اورنگ آباد تھا
انجمن کا دفتر بھی وہاں منتقل ہو گیا (ملاحظہ فرمایئے پنجاہ سالہ تاریخ
انجمن ترقی اردو ، مرتبہ: سید ہاشمی فرید آبادی ص ۲۱)
مولوی عبدالحق جب کہیں دورے پر جاتے تو انجمن کے رکن بناتے، چندے وصول کرتے
مولوی عبدالحق کے اثر و رسوخ سے اخبارات و رسائل میں انجمن کی حمایت میں
مضامین شائع ہونے لگے۔ انجمن کی حمایت یوں بھی ہوئی کہ حضرت بیگم صاحبہ
بھوپال نے انجمن کو کتب عنایت کی۔ مولوی صاحب انجمن کی مدد کے لیے مستقل خط
و کتابت کرتے تھے اس سلسلہ میں انھوں نے جابجا ان حضرات و خواتین کا تذکرہ
کیا ہے جنھوں نے انجمن کی مالی و علمی مدد کی۔
انجمن کے دفتر کی تباہی:
۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو جب ہندوستان آزاد ہوا تو دشمنوں نے انجمن کو بھی نہیں
بخشا، جی بھر کر لوٹا اور تباہ و برباد کیا یہاں تک کے بوڑھے کاتب اور اس
کے اہلِ عیال کو قتل کر دیا۔اس بارے میں پروفیسر آلِ احمد سرور اور مولوی
عبدالحق نے تفصیلی بیانات لکھے۔
۲۴؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو مولوی عبدالحق بھوپال تشریف لائے، ۹ نومبر ۱۹۴۷ء کو
دہلی آئے اور مولانا آزاد کے گھر ٹھہرے۔ انھوں نے لکھا کہ الماریاں کھلی
تھیں۔ کتابیں، مخطوطات و دستاویزات ردی کے ڈھیر میں سے جوڑ جوڑ کر الگ کیے۔
مولوی صاحب کراچی چلے آئے اور کراچی میں انجمن کا دفتر قائم کر لیا۔ ۱۳
جنوری، ۱۹۴۸ء کو وہ پھر دہلی گئے اور ۲۵ جنوری کو علی گڑھ میں انجمن کے
معاملات کے بارے میں ایک میٹنگ کی اس میں ۲۵ حضرات شریک تھے۔ کوئی واضح
صورتِ حال طے نہیں ہوئی ۵ مارچ ۱۹۴۸ء کو دہلی سے لاہور اور ۱۹ مارچ کو
کراچی آئے۔ ۵؍ اکتوبر، ۱۹۴۸ء کو مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین
اور سرتیج بہادر سپرو سے انجمن کے سلسلہ میں مشورے کیے۔ طے یہ پایا کہ
انجمن ترقی اردو کا دفتر یہاں (ہندوستان میں) بھی قائم رکھا جائے اور
موجودہ کارکن پاکستان میں دوسری انجمن قائم کرلیں۔ انتظامی و شخصی تعلقات
قائم رہیں۔ چنانچہ کراچی میں انجمن کا دفتر قائم ہو گیا۔
موجودہ صورتِ حال:
۱۹۰۳ء میں قائم ہونے والی اس انجمن کے پیشِ نظر جو مقاصد تھے عزائم اور
ارادے تھے وہ اﷲ کے فضل سے پورے ہوتے رہے مولوی عبدالحق نے انجمن کو اردو
زبان و ادب کا ایک موقر و قابلِ مثال ادارہ بنا دیا۔ اردو زبان و ادب کی
ایسی خدمت کی کہ تحقیق و تدقیق سے اردو کے قدیم خزانوں کو دریافت کرکے اور
اسے شائع کرکے اردو زبان و ادب کی عمر میں اضافہ کیا۔ مولوی عبدالحق نے
اردو کالج قائم کرکے اردو کو ذریعہ تعلیم بنا دیا۔ اس مشن کو جمیل الدین
عالی نے جاری رکھا اور ان کے تدبر سے اردو یونی ورسٹی کا قیام عمل میں آیا
اور اس طرح بابائے اردو مولوی عبدالحق کا خواب پورا ہوا۔
انجمن نے مختلف علوم و فنون و علم و ادب پر کتابوں کی اشاعت کے ذریعہ اردو
زبان و ادب کو باثروت بنایا اس میں امہات الکتب کے ساتھ ساتھ اردو اور
انگریزی کی لغات بھی شامل ہیں۔ جمیل الدین عالی کی زیرسرپرستی انجمن کے
ذریعہ اردو کے فروغ و ترقی کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ علم و ادب کو فروغ دینے
کے لیے ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘ اور سہ ماہی ’’اردو‘‘ جاری ہے۔
انجمن اپنے ماہانہ پروگراموں کے ذریعہ ادیبوں کی تصانیف کی تقاریب اجرائی
منعقد کرتی ہے اور زندہ و وفات پاجانے والے ادیبوں کی حیات و خدمات کو
خراجِ تحسین پیش کرکے ان کے کارناموں سے لوگوں کو واقف کراتی ہے۔
انجمن نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے جس کے ذریعہ مختلف جامعات کے طلباء و
طالبات کی تحریری، تنقیدی اور تقریری صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لیے ان کے
لیے ایک دن مخصوص کرکے انجمن کا پلیٹ فارم ان کے حوالہ کردیا جاتا ہے۔ اس
روز طلباء و طالبات خود ہی صدارت، نظامت اور تبصرہ کے فرائض انجام دیتے
ہیں۔ اس مخصوص نشست میں طلبا اپنے مضامین برائے تبصرہ و تنقید پیش کرتے
ہیں۔ یوں نئی نسل کی تربیت ہو رہی ہے۔
انجمن ترقی اردو کا کتب خانہ شروع ہی سے محققین ، اساتذہ اور استادوں کے
لیے وا ہے اور اپنے وسائل سے طلبِ علم کی ضروریات کو مقدور بھر پورا کر رہا
ہے۔
اس طرح انجمن اردو کے خادم کی حیثیت سے اردو کی تشہیر اور حفاظت نیز تحقیق
و تعلیم کا فریضہ بخوبی انجام دے رہی ہے۔ اس مضمون کی تیاری میں جن مآخذ سے
مدد لی گئی ان کی فہرست درجِ ذیل ہے۔
مآخذ
۱۔ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو، مرتبہ ہاشمی فرید آبادی، ۱۹۸۷ء، ص
۱۷۵، ۵، ۴، ۸۹، ۸۸، ۹۰، ۹۱۔
۲۔ باقیاتِ شبلی۔ مرتبہ مشتاق حسین ، ۱۹۶۵ء ،ص ۷۱۔۷۲، ۷۷۔۷۸، ۱۰۲، ۹۶۔۹۸۔
۳۔ قومی زبان ۔ بابائے اردو نمبر۔ ۱۶؍اگست ۱۹۶۴ء۔ ص ۴۳۔۴۴۔
۴۔ الناظر۔ فروری ، ۱۹۱۳ء ۔ ص ۷۱،
فروری، ۱۹۱۴ء ، ص ۶۷۔۶۸، ۷۴۔۷۸۔
۵۔ سہ ماہی اردو۔ اکتوبر، ۱۹۲۵ء۔ ص ۵۳۱۔
۶۔ ہماری زبان۔ ۱۶ مئی ۱۹۳۹ء۔ ص ۲
۷۔سہ ماہی اردو۔ جنوری ۱۹۴۴ء۔ ص ۹۴۔۱۰۲۔
اپریل، ۱۹۳۶ء ۔ ص ۲۲۷۔۲۲۹۔
اکتوبر، ۱۹۳۶ء ۔ ص ۶۸۸۔
اکتوبر،۱۹۴۴ء ۔ ص ۴۶۷۔۴۶۸۔
۸۔ سیر المصنّفین ۔ مولوی محمد یحییٰ تنہا۔ ص ۲۰۴۔ ۲۶۴۔
۹۔ پنجاہ سالہ تاریخ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس، ص ۴۔۵، ۸۸۔۸۹،
۹۰۔۹۱۔
|